donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Insani Wajood Ke Liye Khatra, Fazayi Aloodgi


انسانی وجود کے لئے خطرہ، فضائی آلودگی 


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    غیرفطری زندگی کے وجہ سے دنیا میں بڑے بڑے بدلائو آرہے ہیں۔ماحولیاتی کثافت میں دن بہ دن اضافہ کے سبب کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے اور فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے پہاڑوں میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں اور زمین کی منجمد سطحیں متاثر ہو رہی ہے۔ پیداوار میں اضافہ کے لئے کیمیائی کھادوں کے اندھا دھند استعمال سے مٹی کی قوت نمو میں کمی آرہی ہے اور ماحولیاتی مسائل روزافزوں ہیں۔ پلاسٹک اور دیگر قسم کی جدید مصنوعات کے استعمال اور ان کے کچرے نے گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ جہاں ایک طرف فیکٹریوںاور رہائشی اپارٹمنٹس کے سبب جنگلات میں کمی آرہی ہے وہیں دوسری طرف ڈیزل، پٹرول، بجلی اور ایٹمی توانائی کے بے جا استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور آکسیجن کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ گرین ہاؤس کیس سے قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے جس سے سمندرکی آبی سطحیں بلند ہورہی ہیں اور خشکی کم ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ساحلی شہروں،جزیروں اورممالک کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بھارت ،پاکستان اور چین جیسے ملکوں میں کئی شہر آلودگی کی وجہ سے رہائش کے قابل نہیں بچے ہیں اور یہاں رہنے والے پھیپھڑوں کے امراض کے مستقل مریض ہیں۔اس میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ خدا کی دنیا انسانوں کے اپنے کرتوت کے سبب ہی تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے اور جانداروں کا یہاں رہنامشکل ہورہاہے۔انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہی دنیا کو فساد کا سامنا ہے۔

زمین میں فساد کی ممانعت

    اس کائنات کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور یہاں فتنہ وفساد برپاکرنے سے اس نے منع فرمایا ہے۔ اس نے اعتدال کی زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے اور جب انسان نے اعتدال کو چھوڑ فساد کا راستہ اپنایا تو یہاں خرابی کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ان مسائل کا صرف اک حل ہے کہ انسان غیرفطری زندگی کو چھوڑ ایک بار پھر فطری زندگی کی طرف لوٹ آئے۔اللہ کے احکام پر عمل کرے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

    ’’اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(الانعام:َ ۱۴۱)

    ظاہر ہے کہ آج گلوبل وارمنگ سے متعلق جو بھی مسائل ہیں،وہ انسان کے حد سے تجاوز کرنے کے سبب ہی ہیں۔ غیر فطری زندگی گزارنا اللہ ورسول کی مرضی ومنشا کے خلاف ہے اور یہ’’ فساد فی الارض‘‘ کے دائرے میں آتا ہے جس کی ممانعت بار بار قرآن میں کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

    ’’اور جب وہ تمہارے پاس سے دور ہوتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(البقرہ:۵۰۲)

    لفظ ’’فساد‘‘کی وضاحت وقار احمد حسینی اس طرح کرتے ہیں: 

    ’’یہ قرآن کی ایک جامع اصطلاح ہے، جو ہر غیر اسلامی کام سے روکتی ہے۔ قرآن میں تقریباً ۵۰ مقامات پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسے ہم تمام بڑی اخلاقی برائیوں و جرائم کے ساتھ بْرے اور نقصان دہ خیالات، سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس میں انسانوں کے لیے نقصان دہ سائنسی، تکنیکی، سماجی، معاشی اور سیاسی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اس لفظ کے ذریعے قرآن کریم، انسان کو اس کے برے اعمال کے بھیانک انجام سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے غلط اور بے قید منصوبوں کے خلاف ایک مضبوط بیداری پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (ایس، وقار احمد حسینی، اسلامک تھاٹ، گڈورڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۰۲ئ، ص ۵۰۲)

اسلام میں شجرکاری کی اہمیت

    ماحولیات میں پیدا ہورہی خرابی کا ایک بڑا سبب درختوں کی کٹائی اور دنیا سے ہریالی کا خاتمہ ہے۔اگر سبز درختوں کو کٹنے سے روکا جائے اور نئے درخت لگائے جائیں تو بہت حد تک کثافت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میںاس جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ زیادہ شجرکاری کی جائے، چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

    ’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھرہم نے اس سے ہرچیز کے انکورنکالے، پھرہم نے اس سے سرسبزشاخیں ابھاریں‘‘

(الانعام: ۹۹)

    اس آیت کریمہ میں اللہ کی ان چند نعمتوںکا انتہائی خوبصورتی سے ذکر کیا گیا ہے جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں۔دوسری طرف احادیث نبویہ میں شجرکاری کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ’’جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘

(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۵۵۱)

ایک دوسری روایت میںہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ’’جو مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھالے گا، وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا۔‘‘

(بخاری شریف حدیث نمبر ۰۲۳۲، ۲۱۰۶)

    ایک اور مقام پر شجرکاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا گیا:

 ’’جو شخض پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا۔‘‘

(مسند احمد، حدیث نمبر۰۲۵۳۲)

سبزہ کے تحفظ کا حکم

    جس طرح سے درخت لگانے کا حکم حدیث پاک میں ملتا ہے اسی طرح سبز درختوں کو کاٹنے کی سختی کے ساتھ ممانعت بھی کی گئی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سبزہ کے تحفظ کا تصور سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ چنانچہ عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

    ’’جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا۔‘‘

(سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۹۳۲۵)

     اس حدیث میں اگرچہ بیری کے درخت کی بات کہی گئی ہے مگر یہ حکم عام ہے اور دوسرے درختوں کے لئے بھی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان اگر کسی علاقے پر حملہ آور ہوں اور دشمنوں سے دفاعی جنگ کی نوبت آجائے تب بھی انھیں اس بات کی اجازت نہیں کہ فریق مخالف کی کھیتیاں برباد کریں یا پھلدار درختوں کو کاٹیں۔

    ’’اللہ کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔‘‘

(سید ابوالاعلیٰ مودودی ، الجہاد فی الاسلام)

پانی کا تحفظ

    پانی زندگی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ تو انسان کی زندگی کرہ ارض پر باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جانور اور پیڑ پودے یہاں باقی رہ سکتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے پانی پر کسی ایک شخص کی اجارہ داری کوقبول نہیں کیا ہے اور اس کے بقا کی ذمہ دار بھی سب پر ڈالی ہے۔پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ موثر اور منصفانہ تعلیمات دی ہیں۔پانی کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے،ٹھہرے یا بہتے ہوئے پانی میں پیشاب اور پاخانہ کرنے کو منع کیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اس میں پھونکنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔پانی کے تحفظ کے لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

    ’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔‘‘

(سنن ابی دائود حدیث نمبر ۶۲)

    گھاٹ ،نہر ، نالہ اور ندی کے کنارے رفع حاجت کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نجاست کے اثرات پانی میں پہنچ کر اسے آلودہ کرسکتے ہیں۔غور کا پہلو یہ ہے کہ جس اسلام نے پانی کے قریب نجاست سے منع کیاہے، کیا وہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ شہر بھر کی غلاظت ندیوں میں بہادیا جائے۔ آج گنگا، جمنا سمیت بڑی بڑی ندیاں کی آلودگی کا ایک سبب ہے شہر بھر کی گندگی کا ندیوں کے اندر بہایا جانا۔اسلام کی نظر میںپانی، وہ چیز ہے جس پر سب کا حق ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی پورے انسانی معاشرے کی ہے۔ فرمان نبوی ہے:

    ’’لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، گھاس اور آگ‘‘

(مسند الحارث حدیث نمبر ۹۴۴)

صوتی آلودگی

    عہد حاضر کا ایک بڑا مسئلہ صوتی آلودگی بھی ہے۔ٹرافک ، موٹر گاڑیوںاور کل کارخانوںکے شور کے سبب بہرے پن کی شکایت بھی روزبروز عام ہوتی جارہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب غیرفطری طرز زندگی کی دین ہے اور جہاں ہم اس آلودگی سے بچ سکتے ہیں وہاں بھی بچنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ ٹرافک میں پھنسی گاڑیاں غیرضروری طور پر ہارن بجاتی ہیں اور اس سے بھی صوتی آلودگی پھیلتی ہے۔قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت نقل کرتے ہوئے ارشاد باری ہے:

    ’’اور اپنی آواز کو پست رکھ، بے شک سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘

(لقمان:۹۱)

    قابل فکر پہلو ہے کہ جب تیزاور کرخت آواز میں گفتگو کی اجازت نہیں تو صوتی کثافت پھیلانے کی اجازت اسلام کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام کے ماننے والے بھی اسلام کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور ان پہلووں پر غور نہیں کرتے۔ہماری مساجد جنھیں اسلام کی تعلیمات کا مرکز ہونا چاہئے کیونکہ یہ اسلام کا چہرہ ہیں،وہیں سے مائک کے ذریعے کرخت آواز میں اذان، خطبہ اور اعلانات بلند ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں کبھی یاد آتا ہے کہ مسجد سے بلند ہونے والی آواز کو اعتدال میں رکھیں۔حد سے زیادہ بلندآواز دل کے مریضوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔

(۱۶۰۰)


    ۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 922