donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Maslake Ahad Ka Hathon Se Na Daman Chhute

 

مسلکِ عہد کا ہاتھوں سے نہ دامن چھوٹے 


عزیز بلگامی

…09845291581


    مسلکِ عہد و پیماں کی اُستواری و کارفرمائی ایک زندہ سماج و معاشرے کی علامت  ہے۔زندگی کا یہ قافلہ اسی لیے رواں دواں ہے کہ ہر دو افراد آپس میں، یا دو گروہِ افراد ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی معاہدے میں اخلاقی یا قانونی طور پر بندھے ہونے پر مجبور ہیں۔قطع نظر اس سے کہ عہدکی پابندی ہو رہی ہے یا نہیں! قطع نظر اس سے کہ معاہدے محترم سمجھے جارہے ہیں یاتوڑ دیے جارہے ہیں !  زندگی کی گہما گہمی و انسانی معاشروں کی رنگا رنگی عہد وپیماں ہی کے دم سے ہے۔اگر انسانوں کے درمیان عہد و پیماںکی رسم نہ چلے تو زندگی گویا تھم جائے گی یا برف کی مانند جم جائے گی۔ قرآن حکیم کی سورۂ مؤممنون (۲۳)میں درج ہے: ’’ (وہی ایماندار لوگ حتمی فلاح حاصل کرسکیں گے) جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیماں کی رعایت کرتے ہیں، اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ ‘‘(۸)…And they who are to their trusts and their promises attentive.


    ایک اجتماعی و معاشرتی زندگی میں تقریباً ہر فرد کا یہ تجربہ ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل میں معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ ہم کسی نہ کسی نوعیت کے معاہدے میں بندھے ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کاروباری معاملے میں، کسی ذاتی لین دین کے سلسلے میں، کسی امانت کی سپردگی یا ادائیگی کے معاملے میں دو افراد کے درمیان عہد و پیماں کا معاملہ ہو ہی جاتا ہے۔یہ وعدے یامعاہدے علانیہ بھی ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسے بھی کہ جنہیں غیر معلن کہا جائے ،یعنی جن میں کوئی اعلان نہیں ہو، بلکہ انسانی فطرت ہی میں یہ داخل ہوتا ہے۔ مثلاً شوہر اور بیوی کے درمیان کا معاہدہ، والدین اور اولاد کے درمیان کا معاہدہ، ریاست اور عوام کے درمیان کا معاہدہ۔یعنی ایسے خاموش معاہدے، جن میں کسی تحریری قول و قرارکا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔البتہ فریقین

ایک دوسرے سے توقع کرتے ہیں کہ ان کی پابجائی کا اخلاقی دبائو ضرور محسوس کریں۔
ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری زندگی مختلف مرحلوں اورادوار پر مشتمل ہوتی ہے اورہردور یا ہر مرحلے میں ہمارے رول کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ مثلاً تذکیر و تانیث کی رعایت کے ساتھ کبھی ہم بیٹے یا بیٹی ہوتے ہیں، کبھی باپ یا ماں، کبھی شوہر یا بیوی ، کبھی بھائی یا بہن۔یہ رول ادا ہوتے ہیں بہ یک وقت بھی اور یکے بعد دیگرے بھی۔ ایک ہی وقت میں ہمیں اپنے والدین کے لیے بیٹے کا رول بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور اپنی اولاد کے لیے والد کا رول بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ ضعیف والدین کی ہم جب خدمت کرتے ہیں تواِس صورت میں ہم ایک وفا شعار فرزند کا رول ادا کر رہے ہوتے ہیں۔اِسی طرح ہم اپنے معصوم بچوں کے حقوق ادا کررہے ہوتے ہیں توایسی صورت میں ہمارا رول ایک ذمہ دار والد کا ہوتا ہے۔ظاہر ہے ان رشتوں کی برقراری کے لیے ہم کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرتے ، بلکہ یہ سب کچھ رضا کارانہ طور پر انجام پذیر ہوتارہتا ہے۔از خودہم اپنی ذات پر یہ پابندیاں عائد کر لیتے ہیں۔ اگرآیت کواِس کے وسیع ترمفہوم میں لیا جائے تو یہ اپنے اندرمعانی کی ایک وسیع دنیا رکھتی ہے اور یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ جو لوگ اپنے وعدوں کا احترام کرتے ہیں، اپنے معاہدات کو پورا کرتے ہیں، کامیابی بس اُن ہی کا حصہ ہوتا ہے۔


    ہم جانتے ہیں کہ کامیابی کی تمنا ہر اِنسان کے دل میں ہوتی ہے۔زندگی کے ہر میدان میں وہ کامیابی کا متمنی رہتا ہے۔ اگرچہ اسکے اہداف عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ اپنے امتحان میںکامیاب ہونا چاہتا ہے۔ پھرایک دور ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی کامیابی کی تمنا اپنے دل میں پالنے لگتا ہے۔تمنائوں کے درمیان یہ حقیقت بھی اُس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی کہ ان تمنا ئوںکے باوجودضروری نہیں کہ اُسے اُس کی پسندیدہ شے مل ہی جائے۔اُسے وہ سب کچھ نہیں مل سکتا جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔ رب تعالیٰ سورۂ نجم(۵۳) میں ہم سے پوچھتا ہیں:  ’’ کیا انسان کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے، جس کی وہ تمنا کرے؟(۲۴)…Is there for man whatever he wishes?…( نہیں ایسا نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ) دُنیا بھی اللہ کے لیے ہے اور آخرت بھی(اُسی کی مرضی کے تابع ہوگی)۔ ‘‘(۲۵)۔Rather,to Allah belongs the Hereafter and the first (Life).


    انسان خود گواہ ہے کہ اُسے دنیا میںوہ سب کچھ نہیں مل جاتاجس کی اسے تمنا ہوتی ہے۔حالانکہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کڑی مشقت کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے۔پھر بھی اُسے کہیں نہ کہیں مصالحت کرنی ہی پڑتی ہے اور اُسے قناعت و صبر کا دامن تھامنا ہی پڑتا ہے۔ہمیں اعتراف ہو کہ نہ ہو، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ موجودہ زندگی ادھوری ہے اور اس کے ادھورے پن کا حال یہ ہے کہ یہ دور ہوتا نظربھی نہیں آتا۔ یہ تجربہ ہے کہ ہم کسی درجے میں کامیابی کا احساس کرہی رہے ہوتے ہیںکہ زندگی کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔موت ہمیں آ دبوچتی ہے اوراکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ ہم کامیابی کا منہ دیکھے بغیر اِس دنیا ئے بے ثبات سے رخصت ہو جاتے ہیں۔اکثر یہ حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے کہ ہماری زندگی کے اس پہلے دور(دنیوی) کے مقابلے میں دوسرا (اُخروی) اور فائنل دور ہی پائندگی لیے ہوئے ہے۔ لیکن اُس زندگی کی ابدی کامیابی کے حصول کے لئے کچھ شرطیں مقرر کر دی گئی ہیں ، جن سے ہم پہلو تہی کر جاتے ہیں۔ لیکن ایک برد بار اور باشعور اِنسان کو اس ابدی زندگی کی فکر ہونی چاہئے۔


    ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنے وعدے کے پکّے، امانت کے سلسلے میںذمہ دار اور اپنے عہد کے تئیں وفادار ہوتے ہیں، معاشرے میں ان کاوقار ہوتا ہے۔ انکی وفا شعاری کے چرچے ہوتے ہیں۔سوسائٹی میں اُن کی پہچان ان کے اخلاق اور برتائو ہی کے حوالے سے ہونے لگتی ہے۔کاروبار، روز مرہ کے معاملات، غرض کہ مختلف قسم کے لین دین کے سلسلے میں لوگ ان کا اعتماد کرتے ہیں۔یہ تو ہوئی دنیا میں حاصل ہونے والی کامیابی۔ مگر کتاب اللہ اس سے بھی عظیم تر کامیابی اور قطعی فلاح کی بات کرتی ہے۔سورۂ رعد(۱۳)میں اللہ کا ارشاد ہے:’’ جو لوگ اللہ سے کئے ہوئے اپنے عہد کو، اپنے معاہدوں کو پورا کرتے ہیں، اور کبھی نقص معاہدہ نہیں کرتے،نہ میثاق توڑا کرتے ہیں(۲۰)…Those who fulfill the covenant of Allah and do not break the cotract,… اور وہ لوگ جو جوڑے اور جاری رکھتے ہیں، جسے اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے،اوراپنے رب کی جانب سے بری طرح حساب لئے جانے کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں (۲۱)And those who join that which Allah has ordered to be joined and fear that Lort and afraid of the evil of (their) account,…اوروہ لوگ جو اپنے رب کی خاطر صبر کرتے رہتے ہیں، اورعبادات قائم کرتے ہیں اور اُس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے،پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی، عطیہ کرتے رہتے ہیں، اوربرائی کو اچھائی سے،منفی کو مثبت سے دفع کرتے رہتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں، جن کا انجام حسین ہوگا، جو حتمی فلاح حاصل کریں گے۔ ‘‘(۲۲)…And those who are patient, seeking the countenance of their Lord, and establish prayer and spend from what We have provided for them secretly and publicly and prevent evil with good - those will have good consequence of (this) home.  


    ایک سنجیدہ اور بُردبارشخصیت کے کردار میں یہ مضبوطی اسی وجہ سے آتی ہے کہ وہ عہد کا پابند رہتا ہے اور یہی شے اسکے وقار کو بلند کرتی ہے۔ عہد کی پابندی کا یہ جذبہ اُس کے اندر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اُسے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کا شدید احساس رہتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس اپنی شخصیت سازی اورکردارکے نکھار کی ایک زبردست تدبیر ہوتی ہے جسے ہم ’صبر‘ کہتے ہیں اور ’صبر ‘ سے بڑھ کر اِس راہ کی کوئی تدبیر نہیں ہوتی۔ایسے ہی صابر لوگ دوسروں کے دکھ درد بانٹتے ہیں۔انہیں پتہ ہوتا ہے کہ انہیں ان کے رب نے جو کچھ بھی عطا کیا ہے ، اس میں سے انہیں عطیہ کرنا ہے، ضرورت مندوں کے لیے اور حاجت مندوں کے درمیان۔اُن کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ ان کے عطیہ کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہواوریہ راز ان کے اور ان کے رب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہو۔تاہم ظاہر ہونے کا خدشہ انہیں برابر لگا رہتا ہے۔لیکن اس طرح کا کوئی خدشہ ان کے ہاتھوں کودینے سے روکتا نہیں ۔ دوسروں کے درد میں شریک ہونا زیور کی طرح انکی شخصیت کا جز بن جاتا ہے۔ پھر اُن کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہوتاکہ دکھی کو وہ ذاتی طور پر جانتے بھی ہوں۔ ہر انسان کو وہ حضرت آدم  ؑوالے رشتے سے پہچانتے ہیں۔ اپنے رب کے کارِ’’ احسنِ تقویم ‘‘ کی اُن کے دلوں میں قدر ہوتی ہے اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ رب کی تخلیق کردہ اِس خوبصورت ومنفرد تخلیق کی قدر کی جائے،جسے حالات کے تھپیڑے کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ ان کی سنجیدگی، ان کی منکسرالمزاجی اوران کی باغ و بہار شخصیت کی گھنی چھائوں میں آکر لوگ سکون محسوس کرتے ہیںاور راحت کی سانس لیتے ہیں۔ وہ مایوس انسانوں کی مایوسی کا مداوہ بن جاتے ہیں۔ وہ لامتناہی دکھوں کے بحرِ بے کنارمیں بھی نہ صرف ایک ساحل اُبھارتے ہیں بلکہ اس پر مینارۂ نور بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ ہر لمحہ اپنی روشنی بکھیرتے رہیں جس کی کرنوں میں گم کردہ راہ اِنسانوں کو ان کی اپنی منزل نظرآ جائے۔وہ جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے اور یہ کہ نعمتوں کی ناقدری اللہ کو پسند نہیںہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے شکرگذار بندے بنے رہتے ہیں۔ انہیں صلے کی تمنا انسانوں سے نہیں بلکہ صرف قادر مطلق سے ہوتی ہے، جس کی عطا اور بخشش بے کنار ہے۔


    کیسی مقناطیسی اور جاذب نظرہوگی ایسے حساس لوگوں کی شخصیت ! اورنہ جانے کس قدر سمیٹیں گے وہ اپنے رب کے پاس اپنے ان عطیات کے بدلے میں جو اُنہوں نے اپنے رب کے پاس رکھوائے ہوںگے۔اُنہوں نے تو دنیا میں کبھی صلے کی کوئی تمنا ہی نہیں کی تھی۔ اُنہوں نے توکردار کی کسی چیک کو روپیوں میں تبدیل کروایا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے نہ شہرت چاہی تھی نہ سرداری!  نہ وہ حکومت کے پیچھے دوڑے تھے ، نہ انہوں نے بادشاہی چاہی تھی!  انہیں تو بس دوڑنا تھا اپنے رب کی طرف جیسا کہ کتاب اللہ میں درج ہے: ففر وا الی اللہ …So flee to Allah۔صلہ ان کو تو بس اُن کے اپنے رب سے درکار تھا۔ ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ہمارے رب نے سورۂ دہر(۷۶) میں فرمایا ہے:’’(اس طرح کی سوچ والے جب دوسروں کو عطیہ کرتے ہیں تو اِن کا یہ قول ہوتا ہے کہ) جو کچھ بھی ہم تمہاری مدد کررہے ہیں، یہ اللہ کی توجہ اور اِس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ہم تم سے اِس کا کوئی بدلہ نہیں چا ہتے نہ تبادلہ اور نہ ہی تمہارا (اِظہارِ)شکریہ اور ممنون کرم ہونا۔ ‘‘(۹)…"We feed you only for countenance of Allah. We wish not from you reward or gratitude."


    اب قیامت کے دن انہیں ان کا رب اس قدر نوازے گا کہ اُن کا تصوربھی عطائے رب کا ادراک نہیں کر سکے گا۔رب تعالیٰ وہ نعمتیں انہیں عطا کرے گا، جو کبھی ختم نہ ہوں گی۔ وہ آرام انہیں فراہم کرے گا ،جن کے ختم ہونے کا کوئی سوال ہی نہ ہوگا۔ یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے اپنی دنیوی زندگی کی آخری سانس تک اِس امر کی پوری کوشش کی تھی کہ اپنے ہر عہدیا وعدے یا میثاق کے ساتھ کبھی بے وفائی نہ ہو۔یہ عہداپنے رب سے ہویا بندگانِ رب سے، اپنے خاندان کے ارکان سے ہو یا اپنے ماحول و مٹی سے، غرض کہ کسی عہد و پیماںکی ذمہ داری سے عہد ہ برآ ہونے میں انہوں نے اس زندگی میں کبھی تساہلی سے کام نہ لیا۔کیونکہ انہوں نے اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کرتے ہوئے،جب اپنے ر ب سے ایک عہدکیا ، گویا اُنہوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے اپنے رب کو زبان دی تو ان کے لیے پھر یہ نہ ہو سکا کہ اپنے وعدے سے پھر جائیں اور اپنی ہی زبان سے انحراف کریں۔ان کا یہ وعدہ تھا کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم ۔یعنی یہ کہ اب وہ کسی کو اپنا اِلٰہ نہیں بنائیں گے، زبردست قوتوں والے رب کے سواکسی کو اپنا رب نہیں مانیں گے ،اُس کی قوتوں کے اعتراف کے سوا کسی کی قوتوں کا اعتراف نہیں کریں گے۔ایک لا متناہی کھلے آسمان کے نیچے اپنے حقیر قد وقامت کا اندازہ کرتے ہوئے اس زبرست قوتوں والے رب کے آگے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ یہ تمتماتا ہو ا سورج، یہ زمیں پر ہر لحظہ چلنے والی ہوائیں اور ان ہوائوں کے دوش پر تیرتے ہوئے پانی سے لبریز گھنے بادل،اسے اپنی حقیقت کا احساس دلاتے رہیں گے کہ اُس کی اوقات کیا ہے۔اُسے یہ بھی احساس رہے گا کہ یہی دلفریب و فرحت بخش ہوائیںجب بپھریں گی تو زمین اور زمین پر موجود ہر چیز کو زیر و زبر کرکے رکھ دیں گی۔ ایک ہی سیکنڈ میں آج بھی شہر کے شہر تباہ ہوجاتے ہیں آناً فاناً۔ سونامی، کٹرینا اورRita   جیسے طوفانوںکے واقعات تو بالکل تازہ ہیں ہمارے ذہنوں میں۔


    تاریخ گواہ ہے کہ انسان کی شخصیت کا نکھار، اس کی سوچ کی صحت مندی، اس کے اخلاق کی پاکیزگی، اس کے کردارکا اجلاپن، اس کے شب و روز کا نظم و ضبط اس کے وقار میں اضافہ کا باعث اس لیے بنتا رہا ہے کہ وہ اپنے رب کو ایک اکیلا وحدہ لاشریک ، قادر مطلق تسلیم کرتا رہا ہے اور وہ اپنے سارے معاملات کو بس اُسی کے سپرد کر تا رہا ہے۔ اسے اپنے رب پر کامل بھروسہ اور اٹل توکل ہوتا ہے۔ وہ حالات کی سنگینی سے کبھی گھبرا تا نہیں۔ وہ مصیبتوں میں ہمّت نہیں ہارتا۔ وہ توہمات کی دُنیا میں نہیں جیتابستا۔اُس کی خُو حقائق کو تسلیم کرنے کی خُو ہوتی ہے۔ اُس کی شخصیت کی جاذب نظری لوگوں کے لیے کشش کا باعث بن جاتی ہے اور وہ پل پل قلوب کی تسخیرکرتا چلا جاتا ہے،کیوں کہ وہ کردار کا دھنی ہوتا ہے: 
ایک آن میں قلوب کی تسخیر کر سکے
            کردار کا دھنی ہو تو ایسا فسوں ملے… (ع ب)


اس کے کردار کی یہ مضبوطی اسے بھولنے نہیں دیتی کہ کچھ معاہدے اس کے اپنے ر ب کے ساتھ بھی ہیں اور اُس خاندان کے ساتھ بھی، جس میں وہ پیدا ہوا۔خاندان کا لفظ اُس وسیع معنیٰ میں ہے جوانسانی سماج کا خاصہ ہے ، جو زمین پر انسان کے سوا کسی دوسری مخلوق کاہمیں نظر نہیں آتا۔ ہم اس سے مراد لے سکتے ہیں وہ چار خاندان جس سے اس کا براہِ راست تعلق ہوتا ہے: اولاًاس کے والد کی طرف کا خاندان،ثانیاً،اُس کی والدہ کی طرف کا خاندان،ثالثاً، اس کے جوڑے کے طرف کا خاندان اور رابعاًاسکی اولاد کے سسرال کی طرف کا خاندان۔ ایک معاشرتی Set Upمیںاخلاقی طور پر وہ اس وسیع خاندان کے ایک ایک فرد کا مقروض ہوتاہے۔ اس لیے کہ اسے خود اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں، چاہے نہ چاہے ، مختلف زاویوں سے با لواسطہ یا بلا واسطہ اخلاقی تعاون برابر ملتا رہا ہوتاہے۔


    ان حقائق کی روشنی میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے قول و قرار کو پورا کریں، اپنے معاہدوں کا احترام کریں اور ہر قیمت پر انہیںپورا کرتے رہیں۔نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری شخصیت ایک خوشگوار و پروقار تبدیلی سے روشناس ہو سکے گی، ہماری مغفرت کا ذریعہ بن سکے گی اور ہمارے رب کی رضا ہمارا مقدر بن جائے گی، جو کسی انسان کے لیے کامیابی کی آخری منزل ہے۔ جو محض عہد کی پابندی کی وجہ سے سر کی جاسکے گی۔

کوئی ہے جو قول و قرار کے حوالے سے اس عظیم المرتبت منزل مقصو د کو حاصل کرنے والا !

Azeez Belgaumi
No. 43/373 First Floor 
Bhuvaneshwari Nagar Main Road 
Gopalappa layour, M K Ahmed Road, 
Kempapura Hebbal Post 
BANGALORE - 560024

 ٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 689