donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rahat Mazhari Qasmi
Title :
   Masjidon Ke Samaji Masael


دعوت فکر

مسجدوں کے سماجی مسائل

 

ڈاکٹرراحت مظاہری, قاسمی

9891562005

 

  مَنْاذیٰ المسلمین فی طرقھم وجبت علیہ لعنتھم(طبرانی 
فی الکبیروصححہ الالبانی: 372/5

اس زمینی حقیقت سے آج کوئی دانابینا،اہل علم وبصیرت ہی نہیں بلکہ ایک معمولی سا عقل وشعور رکھنے والابھی منکرنہیںہوسکتاکہ اب دنیاکی قیادت اورباگ ڈور اس یہودی قوم کے ہاتھوں میںپہنچ چکی ہے جس کوکل تک ہم مسلمان فطری طورپرمکروفریب کا پلندہ، جھوٹا اورمدینہ شریف کے راستوںمیںغلاظت وگندگی کاانبارلگانے والے ٹولہ کے نام سے یادکیاکرتے تھے،مگراس کو کس ستم ظریفی وبدقسمتی سے تعبیرکیاجائے کہ کل تک جن کوہم فطری طورپرکتمان حق کاذمہ داراور لوگوںکوتکلیف پہنچانے کے لئے مستحق لعنت قراردیتے تھے آج وہ ہمارے اسلامی اصولوںکواپناکر دنیاکی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم، لوگوںکے منظورنظردنیاکے سیاہ وسفید کے مالک اور اپنے گھروںمحلّوںاورشہروںمیںصفائی ستھرائی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پرفائزہیںلیکن ہم ہی جھوٹے ، وعدہ شکن،بے حد گندے،پست اخلاقی اورمعاملات میں کھوٹے پن کے لئے مشہورزمانہ قوم ہیں۔

نیز اپنے گھر، دہلیزصحن اور گلی محلوںہی کو اپنے کوڑے کچرے سے گنداکرنے کے مجرم نہیںبلکہ اپنی عبادت گاہوںکے اطراف، چارجانب ، اورراستوںہی میںگندگی پھیلانے اوراپنے گھروںکا کواڑاکچرامسجد کے دروازے پرڈالنے سجانے نیز مسجداورسجدہ گاہ تک اپنے گندے جوتے،چپل لیجانے لگے ہیں۔ یہ کتنی بڑی بے حسی اور مِلّی بے غیرتی کی علامت ہے؟

یادرہے کہ عوام کے اندر موجود وہ غیر شعوری فطری رجحانات جوکہ ان کے منفی رویوںکی تصویر پیش کرتے ہیں اگران کی طرف معاشرہ کے اہل بصیرت، اور اہل علم طبقہ کی نظر نہ جائے یانظرمیںآجانے کے بعد بھی ان سے چشم پوشی اختیارکی جائے تو وہ یقینا مذہب اور جس سماج کے وہ مسائل ہیںدونوںہی کے لئے لازمی طورپر باعث شرمندگی اورخجالت ورسوائی کی علامت ہیں، جیساکہ اہل عقل کاخیال یہ ہے کہ سماج میںغلط پنپنے والے معاشرتی مسائل قوم ومذہب کی وہ حالت زارہیں جس کے ہوتے سماج اورمعاشرہ کی اعلیٰ اقدار روبہ زوال ہوتی رہتیں اوروہ سماج خودبخود اعلیٰ قدار کے زوال کاآئینہ دار ہوجاتاہے،۔

اگرسماجی مسائل کے عنوان سے ہم میںسے کوئی شخص اپنی گفتگوکاآغاز کرانا چاہے تو مجھے سو فی صد یہی خدشہ ہے کہ مسجد کے سماجی مسائل جیسے حسّاس موضوع ا س وقت میرے ذہن کی جانب یار لوگوںمیںسے کسی رفیق کی توجہ بامشکل ہی جائے کیونکہ اس سے پہلے مسلم معاشرہ کے سامنے اوربہت سے پرانے اوربڑے سماجی مسائل منھ پھاڑے راستہ میںکھڑے ہیں جنھوںنے سماج میںپیداہونے والے دیگر نازک مسائل اور خرابیوںکے طوفان سے ہم کواندھاگونگا، بہرااوربے حس کررکھاہے جیساکہ شہر اورمحلہ کی بڑی مساجد میںپانچ وقتوںکی نماز وںکے وقت ٭کچھ ہشیارقسم کے لوگ اپنے جوتوںکوجان سے زیادہ عزیز گردانتے ہوئے ان کو مسجد کے محراب اورمنبر کے کونے تک ہاتھ میں لانے پر مجبور دیکھے توکچھ بھائی مسجد کے احترام کو ملحوظ رکھتے اپنے جوتوںکومسجد کے داخلہ کے دروازہ پرہی لاوارثی شکل میںچھوڑکرآگے بڑھ جاتے بھی دیکھے، جن کے عام راستہ میںپڑے دبے کچلے جوتے دیکھ کر ان پر’ قہر درویش برجا ن درویش، کامحاورہ ذہن میں گردش کرتارہتاتھا۔ لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ اللہ کے ان بندوںکونماز توکیاآتی ابھی تومسجد میںداخلہ کاطریقہ بھی معلوم نہیں،جوتے اتارنے اورپہننے کی تمیزبھی تمہیں نہیں، کونساجوتاپہلے پہننااورکونساپہلے 

 اتارناہے،کونسے ہاتھ میںجوتااٹھاناہے ابھی تمہیں یہ بھی نہیںآتا،نیز تمہارے کس عمل کاکس پرکیااثرپڑتاہے اس سے بھی بے بہرہ اوربے خبرقوم بنے ہو۔ دوستو!آپ نے لوگوںکی تکلیف کے حوالہ سے یہ حدیث رسولﷺ بارہامحراب ومنبرسے سنی ہوگی کہ ایذائے مسلم حرام ہے ،فرمایا رسولﷺ نے کہ ’مَنْ آذیٰ مسلماَ َ(طبرانی)ترجمہ: جس نے کسی مسلمان کوناحق ستایاتوگویااس نے کعبہ کوشہید کردیا۔ کیاتم کویہ خیال نہیں کہ جب تم اپناجوتاپہننے یا اتارنے کے لئے دوسرے لوگوںکے جوتوںکو فٹ بال بناکرٹھوکر مارماکر ادھرادھرکردوگے تووہ غریب جوتوںکی اس قدربھیڑمیںان کوکہاں تلاش کرتاپھرے گا،کچھ اس کابھی خیال ہے ؟یابس میراکام ہوناچاہئے ، کسی کاکام بگڑے یا بنے میری بلاسے مجھے تو میراکام چوکھامطلوب ہے، کیایہی اسلام ہے؟ ٭خطبہ کے وقت گردنیںپھلانگنا:بہت سارے بھائی اپنی مشغولیات یامجبوری کی بناپربعد میںیاخطبہ کے وقت آنے کے بعدبھی اچھی جگہ یاثواب کی خاظراسی جستجومیںرہتے ہیں کہ ان کو نمازکی جگہ اگلی صفوںیا امام صاحب کے اریب قریب مل جائے ،چاہے اس کے لئے ان کو کتنے ہی لوگوںکی گردنوںاورسروںکاپھلانگناپڑجائے حالانکہ فرمایا رسول کریمﷺ نے ’جس شخص نے جمعہ کی نماز میںلوگوںکی گردنیںپھلانگیںاس کو قیامت کے میدان میںپل بنایاجائے گاتاکہ لوگ اس کے سرپرچڑھ کر میدان حشرمیںآگے بڑھیں المعجم الصغیرللطبرانی(469)، اللہ محفوظ رکھے ایسی اگلی صف کے ثواب سے جس کے وبال میںکسی کومیدان حشرمیںلوگوںکی ٹھوکروںکی سزاملے۔نیز تم میںسے کوئی شخص کامل ایمان والانہیںہوسکتاجب تک وہ وہی چیز دوسروںکے لئے پسند کرنے والانہ بن جائے جس کواپنے واسطے پسند کرتاہے(مشکوۃ)۔

٭آپ کا رات دن کاتجربہ ہوگاکہ غیرقوموںکے ان عبادت خانوںمیںجنکو ہم کوعقیدے کی گندگی اورنجس سے تعبیرکرتے ہیں  وہاںصفائی کااتنازیادہ انتظام کہ اندر گربھ گرہ سے لیکرباہرکے گیٹ کے ساتھ دائیںبائیںکی گلیوں اورراستوںمیں روزانہ دونوںوقت صبح وشام جھاڑوپونچھے کے ساتھ پانی چھڑکنے کاباقاعدہ اہتمام ،مگرہماری مسجدکے دروازے پرصفائی کے بجائے مسجدکے پڑوسیوںکے  کوڑے کی ڈھیریاں،مسجدکی باہری دیواروںاورکھڑکیوںپربچوںکے پیشاب کی سوکھتی نہالیوںاوربچھونوںکی قطار،جبکہ یہ بیچارے مسجدسے اتنی محبت رکھتے ہیںکہ اپنے گھروںکے بیت الخلا، ٹائیلٹ ،غسل خانوں اورفریج کا استعال کم اورمسجد سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے عادی ہیں۔محاسبہ کیجئے اپنے اپنے ایمانوںکااوریاد کیجئے خداکے اس حکم کو جواس نے خانہ کعبہ کے دونوںمعماروںحضرت ابرہیم اوراسماعیل ؑ کو دیا تھاکہ’اَنْ طَھِّرابیتی(بقرہ:144)تم دونوںپاک رکھومیرے گھرکو، یعنی انبیاکوتومسجدپاک رکھنے کاحکم ہو اورہماشماکو چھوٹ ۔کیایہ کوئی معقول بات ہے؟ نیزاللہ کا فرمان ہے کہ مسجدوںکی آبادی اہل ایمان ہی کا شیوہ ہے(اِنَّمایعمرمسٰجداللہ(توبہ:18)تویہ کیسی آبادی اورنمازہے جہاںنہ مسجدکی پاکی ،ادب وعظمت کاخیال ہے اورنہ ہی مؤمنوںکی عزت وعظمت کاتصور۔

٭ادھرصفائی کے تعلق سے یہ حدیث بھی مشہورہے کہ’الطھورُ شطرُ الاِیمان(مشکوۃ)صفائی آدھاایمان ہے،مگرہم دیکھتے ہیںکہ صفائی کے خلاف گندگی ہماراشیوہ بناہواہے، آج صورت حال اتنی زیادہ خراب ہے کہ دوسری قوموںکے لوگ دیگر خرافات کے ساتھ مسلم محلوںکی پہچان گندگی اورکوڑے کے ڈھیروںکوبھی لازم وملزوم گرداننے لگے ہیںجبکہ دیگراقوام کاحال یہ ہے کہ ان کی خواتین اپنے گھر، چوکھٹ اوردروازے پر علیٰ الصبح فجرکی نماز کے وقت جھاڑوکے بعدپانی کاچھڑکاؤکرتیںاورسڑک تک کو روزانہ جھاڑوسے دھونے کی عادی ہیں، ہم اپنی مجلسوں اورگفتگومیںبالمیکی(ہری جنوں)سب سے زیادہ گندابیان کرتے اورگندگی پر اپنے بچوںاوردیگرلوگوںکوطعنے دیتے ہیںمگرآپ خودجاکرمشاہدہ کرلیجئے کہ شمالی دہلی گھونڈہ چوک پرمدرڈیری کے پورب میں پارک کے ساتھ ہری جن بستی ہے ، اس سے زیادہ صفائی مجھ کوکہیںدکھائی نہیںدیتی نیزگلی میںایک بڑاسا رَڑکا(جھاڑو)کسی دیوارسے لگاکھڑارہتاہے جب بھی کوئی گندگی معلوم ہوتی ہے توبناکسی امتیازوشرم وحیاکوئی بھی بڑاچھوٹا، نوجوان بوڑھافوراََاس کو اٹھاکر صفائی کرنے کے لئے کھڑاہوجاتاہے۔کیاہمارے یہاںبھی آپ نے زندگی میںکسی ایک دن یاکہیںایسانظام دیکھاہے؟٭نیزہم جوراستوںکوگنداکرنے کے عادی ہوگئے ہیںاس نے ہم کویہ بھی بھلادیاہے کہ جہاںایمان کاسب سے اعلیٰ درجہ کلمہ طیبہ ہے وہیںراستوںسے تکلیف دہ چیزوںکا ہٹانابچانابھی ایمان اورداخلہ جنت کاسبب ہے جیساکہ ایک روایت ہے کہ ایک شخص راستہ سے گذراتواس نے دیکھاکہ راستہ میںایک جھاڑی لوگوںکاراستہ روکتی ہے ، اس نے کہاکہ میںاس کوصاف کروںگاچنانچہ اس کی صفائی پرہی اس آدمی کی مغفرت کردی گئی(مسلم)٭آ پ مساجد کے نظام سے واقف ہیںکہ ہماری مسجدوںمیں غیرمسلم نہیںبلکہ خود مسلمان جوتاچوری کے مجرم ہیںاس لئے لوگ قیمتی جوتے آگے لیجاتے یاباقاعدہ ہمار ی مساجدمیں جوتوںکی حفاظت اور نگہداشت کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ساری خرابیاں رونماہوتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ہماری مساجدمیںجہاںبجلی پانی پنکھا، جرنیٹر، انویٹر اور اییر کنڈیشن کے اخراجات پر لاکھوںروپئے سالانہ کاخرچہ ہوتاہے توپھراس طرف سے بے توجہی کیوں؟جس کے لئے ہم شمالی ہند والے بھی کرناٹک،بنگلور ،کیرالا، تامل ناڈو، چیننئی کی بہت ساری مساجد کی طرح جوتوںکی حفاظت کے لئے مؤذن کی طرح باقاعدہ ایک ملازم رکھنے کابندوبست بھی کرسکتے یا دہلی کی مشہورتفریح گاہ لوٹس ٹیمپل کے منتظمین سے بھی عقل لے سکتے ہیںجن کے یہاںہرایک وزیٹر کے جوتوںکی حفاظت کا معقول انتظام ہے۔من اذیٰ المسلمین فی طرقھم وجبت علیہ لعنتھم(طبرانی فی الکبیروصححہ الالبانی: 372/5)ترجمہ:جس آدمی نے مسلمانوںکے راستوںمیںتکلیف دہ چیزیںڈالیںاس پرخداکی لعنت واجب ہوگئی۔غورکیجئے کہ خداورسول کسی انسان کو تکلیف دینے پرکتنے ناراض ہوتے ہیںاس حوالہ سے عہدرسولﷺکاایک واقعہ پیش ہے کہ’’حضرت سمرہ انصاری ؓکاایک کھجورکا پیڑ ایک دوسرے صحابی کے ایسے باغ کے اندر واقع تھا جہاںان صحابی کا زنان خانہ بھی تھا، جب سمرہ ؓ  اپنے درخت کی دیکھ بھال اور اس کی سینچائی کے لئے جاتے توگھروالے صحابی ؓکے اہل خانہ کی بے پردگی ہوتی انھوںنے سمرہ سے اپنی تکلیف کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’تم باغ میںذرااحتیاط سے

  داخل ہواکرومگرسمرہ ان کے منشاکے مطابق محتاط نہ رہ سکے، جس پرانھوںنے اگلاقدم اٹھاتے ہوئے سمرہ سے اس اکیلے درخت کی خریداری کے ارادہ کااظہارکیا، مگرسمرہ اس پربھی تیارنہ ہوئے توانھوںنے رسول کریم ﷺس ے عرض کیاآپ نے سمرہ سے کہاکہ تم اپنے بھائی کویہ درخت اس سے زائد درختوںکے بدلہ دیدو،سمرہؓاس پر بھی راضی نہ ہوئے توآپﷺ نے فرمایاکہ میں جنت میںتمہارے لئے اس سے بھی اچھے اورعمدہ درخت کا ذمہ دارہوںمگرجب وہ اس پر بھی راضی نہ دیکھے توآپﷺ نے غصہ کی حالت میں فرمایا’اِنَّکَ لَرَجُلُٖٗ مُّضَارُّٗ(مستدرک الوسائل جلد۱۳،حدیث:۲)تم توہی بہت ہی موذی قسم کے آدمی ہو۔ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان میں23,98,650مساجدہیںمذکورہ دردبھرامعاملہ کسی ایک مسجدکانہیںبلکہ میںسمجھتاہوںکہ اکثرہندوستان کایہی حال ہے ،

لہٰذاآپ غورکریںکہ اپنے مذکورہ طرز عمل اور رسول کریم کے اس غیظ وغصہ کے انداز پر کہ آپ کو کیاپسند ہے؟یعنی مسجدوںکی بے ادبی اورمسلم بھائیوںکے دل دکھانا؟اس کا فیصلہ خودآپ کے اپنے ہاتھوںمیں ہے،تاکہ مساجدمیںپھیلی بہت ساری سماجی خرابیوںمیںکچھ سدھارآسکے۔ 

ورنہ توبقول شاعر   دل ہمہ داغ داغ شد،  پنبہ کجاکجانہم۔

************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 825