donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Sajid Khakwani
Title :
   Hadde Haraba

بسم اﷲ الرحمن الرحیم


حد حرابہ


(شریعت اسلامیہ میں ڈاکہ زنی وخونریزی کی سزا)


ڈاکٹرساجد خاکوانی

drsajidkhakwani@gmail.com


    اسلام کے فوجداری قانون میں سزائیں تین قسم کی رکھی گئی ہیں،حدود،قصاص اور تعزیرات۔اس کے برعکس پوری دنیاکے قوانین میں سزاؤں کوصرف’’تعزیرات‘‘کہا جاتا ہے۔اس بنیادی فرق کی وجہ اس بنیادی تصورمیں اختلاف ہے جو وحی کے قوانین اورانسانی کاوش کے درمیان تفاوت پر بنیاد کرتا ہے ۔انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں صرف انسانوں کی حق تلفی کی جاتی ہے جب کہ اﷲ تعالی نے جو قوانین نازل کیے ہیں ان کی خلاف ورزی میں خالق کی نافرمانی بھی شامل ہے جس کی سزااس دنیامیں اور آخرت میں بھی ہے۔اس فرق کی بنیاد پراسلامی شریعت کی نافذ کردہ سزاؤں میں’’حدود‘‘ایسی سزائیں ہیں جو خصوصی طورپر بطور حق اﷲ تعالی نافذ کی جاتی ہیںاور ان میں کمی وبیشی یامعافی کا اختیار کسی حاکم کو حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کا مدعی خود اﷲ تعالی ہے اور اس نے اپنا یہ اختیار کسی کو تفویض نہیں کیا۔’’قصاص‘‘وہ سزائیں ہیںجو بطور حقوق العبادکے نافذ کی جاتی ہیں اور مدعی ان سزاؤں کو معاف بھی کر سکتاہے،ان میں کمی بھی کرسکتاہے اور ان کی جگہ دیت بھی وصول کر سکتاہے۔جبکہ ’’تعزیرات‘‘وہ سزائیں ہیں جو حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو عبرت کا نشان بنادے۔

    حد حرابہ قرآن مجید میںسورۃ المائدہ کی آیت 33,34سے ماخوذ ہے ’’جولوگ اﷲ تعالی اوراس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپاکریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یاسولی پر چڑھائے جائیںیاان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ ڈالے جائیں یاوہ جلاوطن کر دئے جائیں۔یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیامیں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے ۔مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ،تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالی معاف کرنے والااور رحم کرنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید نے لفظ ’’حرابہ‘‘استعمال کیاہے جو’’حرب‘‘سے ماخوذ ہے اور اس کا اصل مطلب چھین لینااور سلب کرلینا کے ہیںاور یہ لفظ ’’سلم‘‘یعنی امن و سلامتی کے متضاد کے طورپر استعمال ہوتاہے۔قرآن مجید کی اس آیت میں نازل کیے گئے حکم کا اطلاق کسی فرد پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے مخاطب وہ گروہ اورجماعتیں ہیں جو اجتماعی شکل میں رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہو ںاور اسلامی ریاست کا امن سکون برباد کرنے کے درپے ہو جائیں۔بغاوت اور مسلح کشاکش بھی اسی قانون کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور حکمران خلافت راشدہ کی طرز پرشورائیت کے نظام کے تحت نظام مصطفی رائج کیے ہوئے ہوں۔اسلامی قوانین کے ماہرین جنہیں اصطلاح میں ’’فقہائے کرام‘‘کہاجاتا ہے ان کا اس بات پر اجماع ہے کسی ایک فرد کے جرم ڈکیتی یا چوری یا جیب کتری وغیرہ پر اس حد کا اطلاق نہ ہوگا۔دوسری حدود اور حد حرابہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس حد کااطلاق اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں پر بھی ہوتا ہے جنہیں اصطلاح میں ’’ذمی‘‘کہاجاتاہے۔

    جب کبھی بھی اسلامی ریاست میںانسانوں کاکوئی گروہ یاجماعت درج ذیل جرائم کا مرتکب ہو گاتو اس پر حد حرابہ جاری کی جائے گی:

        ۱۔مال لوٹنایاڈکیتی کرنا۔
        ۔راستہ روک کر مسافروں کالوٹنا۔
        ۲۔عزت وآبرو پر حملہ کرنا۔
        ۳۔قتل و غارت گری و خونریزی۔
        ۴۔حکومت وریاست کے خلاف بغاوت۔
        ۔کسی بھی اور ذریعے سے بدامنی پھیلانا۔
    قرآن مجید نے حد حرابہ کی ذیل میں چار سزائیں بتلائی ہیں
        ۱۔ان کو قتل کیاجائے        یا
        ۲۔سولی چڑھایاجائے        یا
        ۳۔ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں        یا
        ۴۔ان کو جلاوطن کردیاجائے۔

ایک بار پھر یہ بات واضع رہے یہ سزائیں پوری جماعت کے لیے یااس پورے گروہ کے لیے تجویز کی گئی ہیں جو درج بالا جرائم کا مرتکب پایا جائے گا۔تاہم ان میں سے کوئی ایک سزا ہی جاری کی جاسکے گی کیونکہ قرآن مجید نے ’’یا‘‘کے لفظ کے ساتھ حاکم کو اختیاردے دیاہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک سزادے کر باقی سزائیں ساقط کرسکتاہے۔حاکم چاہے تو پورے گروہ کوکوئی ایک سزادے دے اور یہ اختیار بھی حاکم کے پاس موجود ہے کہ پورے گروہ میں سے فرداََ فرداََمختلف سزائیں دے ۔آپ ﷺ نے ایک واقعہ میں اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے منقول ہے آپ ﷺ بے ابوبردہ اسلمی سے صلح کا معاہدہ فرمایالیکن اس نے عہد شکنی کی اور کچھ لوگ جو مسلمان ہوکر مدینہ آرہے تھے ان پر ڈاکہ زنی کی،اس پر جبریل یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ

        ۱۔جنہوںنے قتل کیااور مال بھی لوٹا            ان کو سولی چڑھایاجائے۔
        ۲۔جنہوںنے صرف قتل کیااور مال نہیں لوٹا            ان کو قتل کیاجائے۔
        ۳۔جنہوں نے صرف مال لوٹا اور قتل نہیں کیا        ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹے جائیں۔

        ۴۔جنہوں نے صرف لوگوں کو ڈرایااور امن عامہ میں مخل ہوا    ان کوجلاوطن کیاجائے

(یاوہ قیدخانے میں ڈال دئے جائیں)

دور نبوت میں کچھ لوگ مدینہ آئے اور بوجوہ انہیں طویل قیام کرناپڑالیکن جب جانے لگے تو لوٹ ماراور خون خرابہ کرکے چلتے بنے،آپ ﷺ نے انہیں گرفتارکرایااور ان پر حد حرابہ جاری فرمائی۔

    مذکورہ قرآنی آیت کا آخری حصہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ قابو پانے سے پہلے اگر یہ گروہ توبہ کرلے تو اس پر حد حرابہ ساقط ہوجائے گی یعنی تب ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔قبیلہ مراد کاایک فرد حضرت ابوموسی اشعری کے پاس آیاجب وہ کوفہ کے گورنر تھے اورمسجد میں تشریف رکھتے تھے،اس نے کہااے امیر میں فلاں ابن فلاں ہوں،میں نے اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف لڑائی لڑی اورزمین میں فساد کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے آپ مجھے گرفتارکرتے میں تائب ہوکر آ چکاہوں ۔حضرت ابوموسی اشعری نے کھڑے ہوکراس کی معافی اعلان کردیا۔اسی طرح  علی اسدی نامی ایک شخص جس نے خوب لوٹ ماراور قتل و غارت گری کی اور گرفتارنہ ہوا پھر توفیق ایزدی سے قرآنی آیات سن کر توبہ کرتاہوا ایک رات مدینہ میں مسجد نبوی میں آن بیٹھا،اجالاہواتو لوگوںنے پہچان لیااور اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوئے ۔دور نبوت و دور خلافدت راشدہ بیت چکاتھاچنانچہ وہاں موجود اصحاب رسول ﷺ نے اس شخص کی توبہ کو قابل معافی گردانااور اسے چھوڑ دیاگیابعد میں اس شخص نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیااور شہادت کا اعلی مقام بھی حاصل کیا۔تاہم اس حکم میں یہ بات پیش نظر رہے کہ توبہ کے بعد صرف حقوق اﷲ ہی اس پر سے ساقط ہوں گے اور جن جرائم کا مدعی اﷲ تعالی تھا ان کے بارے میں اس سے باز پرس یا سزا نہیں دی جائے گی جبکہ اگراس نے کسی بندے کا حق مارا ہوگا تو اس کی معافی اسے نہیں مل سکے گی یہاں تک کہ مدعی اسے معاف کرنے پر رضامند ہو جائے۔

    مغربی تہذیب نے اسلام کی لائی ہوئی سزاؤں کو غیرانسانی قرار دیااور نام نہادانسان دوست قوانین جاری کیے لیکن اب ان ممالک میں امن عامہ کا معاملہ اس حد تک خراب ہوچکاہے کہ وہاں کی حکومتیں مجبور ہیں کہ پریس،میڈیا،عوام اوردوسری دنیاؤں سے چھپ کر ایسے فسادی گروہوں کو ماورائے عدالت ہی ان کے وجود سے زمین کو پاک کردیاجاتاہے اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی۔یہودیوں کے ساتھ ہولو کاسٹ کا برتاؤ اسی رویے کی ایک عمدہ مثال ہے کہ یورپی حکومتوں نے اس نسل کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن ایک وقت کے بعد وہ حقائق منظر عام پر آ گئے اور دنیاکو اس سے آگاہی ہو گئی،اورپھر بوسینیا ہرزگوینیاکے اندر مسلمانوں سے کیا جانے والا سلوک آخر کس انسان دوست قانون کے تحت تھا؟؟جبکہ کتنے ہی جرائم پیشہ گروہ ہیں جو خفیہ ایجنسیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کیونکہ عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد ملکی قوانین جو’’انسانیت دوست‘‘قوانین ہیں ان کے جرائم کی کما حقہ سزادینے کے قابل نہیں ہوتے اور کم تر سزا پاچکنے کے بعد ان گروہوں کے عزائم اور ارادے مزید بلند ہوجاتے ہیں اور امن و امان قائم کرنے والی مشینری ان کے ہاتھوں مفلوج اور بے بس ہو جاتی ہے۔پس اسلام نے جو سزائیں مقررکی ہیں وہ نہ صرف یہ کہ انسانیت سے قریب تر ین ہیں بلکہ ان سزاؤں کے نفاذ کے بعد امن عامہ کی ضمانت بھی یقینی ہے اور جب تک عالم انسانیت رحمۃ اللعالمین ﷺ کے لائے ہوئے قوانین کی طرف پلٹ کر نہیں آئے گی اس کرہ ارض پر امن و پیارومحب و آشتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

(یواین این)


*********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 713