donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hazrat Mohammad SAW Ki Weladat Ba Saadat




حضرت محمد مصطفیﷺ کی


ولادت باسعادت


تاریخ وسیرت کی روشنی میں


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


 

 دنیام میں جب کوئی بڑا قدرتی واقعہ رونما ہونے والا ہوتا ہے‘ تواس سے قبل کچھ غیر معمولی واقعات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ رسول گرامی وقارمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اس دنیا کے لئے واقعہ عظیم کی حیثیت رکھتی ہے‘ لہٰذا ٓپ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل اس دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے انبیاء کرام تشریف لائے۔ ان سبھی انبیاء کے آنے کا مقصد اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاناتھا‘ مگر ان انبیاء کرام نے آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے نبی کی بشارت بھی دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر توریت وانجیل اوردیگرآسمانی صحائف میں موجود تھا۔ قرآن کریم میں فرمایاگیا کہ اہل کتاب آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں‘ جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم مذہبی گرنتھوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ صلی وسلم کا تذکرہ موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی تشریف آوری دنیا کے لئے اہم ترین واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ربیع الاول کی بارہویں تاریخ صبح صادق کے وقت ہوئی۔ مورخین اور سیرت نگاروں کا اس تاریخ میں اختلاف ہے‘ مگر بیشتر نے اسے درست مانا ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی پہلی کتاب سیرت النبی (مرتبہ ابن ہشام) میں یہی تاریخ درج ہے‘ مگر بہت سے سیرت نگاروں نے 9ربیع الاول لکھا ہے۔ یہ پیر کادن تھا۔آپ کی ولادت سے قبل عرب کے نجومیوں میں کسی بڑی شخصیت کی ولادت کا ذکر جاری تھا اور اہل کتاب بھی اپنی کتاب میں جس آخری نبی کی آمد کے متعلق پڑھتے آئے تھے‘ انہیں احساس ہوگیاتھاکہ اس نبی کی آمد کا وقت قریب آچکا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو عرب کے نامور شاعر تھے اور مدحت رسول ﷺمیں آج تک شہرت رکھتے ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ سات سال کے تھے اور مدینہ منورہ (اس وقت یثرب نام تھا) میں رہتے تھے کہ ایک یہودی کو بلند مقام پر چیختے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا،’’ اے یہودیو!‘‘ جب اس کی آواز سن کر لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے اور پوچھا کہ اے کم بخت‘ تجھے کیاہوگیا ہے کہ چیخ رہا ہے؟ اس نے کہا آج رات احمد کا ستارہ طلوع ہوچکا ہے‘ جس میںوہ پیدا ہوگا۔ واقعہ کے راوی محمدبن اسحاق نے حضرت حسان بن ثابت کے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن حسان سے دریافت فرمایا کہ ہجرت نبوی کے وقت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عمر کیا تھی؟  توانہوں نے بتایا ساٹھ سال۔ گویارسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ان کی عمر سات آٹھ سال رہی ہوگی‘ کیونکہ ہجرت کے وقت خود اللہ کے رسولﷺ کی عمر مبارک ترپن برس تھی۔ سیرۃ النبی میں درج یہ واقعہ ایک مثال ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات تاریخ وسیرت کی کتابوں میںملتے ہیں‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولایت نبوی سے قبل ہی لوگوں کو احساس ہوچکا تھا کہ آپ کی تشریف آوری کا وقت ہوچکاہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب آپ کی ولادت ہوئی‘ تو ایران کے شاہی محل میں زلزلہ آیا اور محل کے کنگورے ٹوٹ کر زمین پر گرپڑے۔ کعبہ میں رکھے ہوئے بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ یہ گویا اس جانب اشارہ تھا کہ اب دنیاوی جاہ وحشمت کے جھوٹے محل زمیں بوس ہونے والے ہیں اور خود ساختہ خدائوں کی عظمت ملیامیٹ ہونے والی ہے ۔ اب وہ وقت آگیا ہے‘ جب حق کاپرچم بلند ہوگا ‘صداقت کا ستارہ طلوع ہوگا۔ باطل کی ظلمت دور ہوگی اورحق کی سحر دنیا پر چھاجائے گی۔

جہاں تاریک تھا ،ظلمت کدہ تھا‘  سخت کالاتھا
 کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میںاجالاتھا

 رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدمحترم حضرت عبداللہ آپ کی ولادت سے قبل ہی انتقال کرچکے تھے۔آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب پوتے کی ولادت کی خبر سنی‘ توکعبہ میںجاکر سجدہ ریز ہوگئے اور اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ بیوہ ماں نے جب اپنے شوہر کی نشانی کودیکھا‘ توآنکھیں بھر آئیں۔ چچا ابولہب نے جب بھتیجے کی پیدائش کی خبر سنی‘ تو دل باغ باغ ہوگیا اور خبر سنانے والی باندی ثویبہ کو آزاد کرتے ہوئے کہاکہ جاتو میرے بھتیجے کودودھ پلا۔

رضاعت

مکہ کے شریفوں میں یہ دستورچلاآرہا تھا کہ بچوں کی پرورش کے لئے آس پاس کے دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے وہاں کی صاف ستھری ہوا میں پرورش پاکر تندرست وتوانا ہوجائیں۔ نیز وہاں وہ خالص عربی زبان سیکھ جائیں۔ اصل میں مکہ ایک مرکزی شہر تھا‘ جہاں ہر خطے کے لوگ آتے جاتے رہتے تھے‘ جن کے اختلاط سے زبان بھی خالص نہیں رہ پاتی تھی۔ عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا‘ مگر وہ زبان پر خاص توجہ دیتے تھے۔ یہاں شاعری اور سخنوری کاچرچا رہتاتھااور گائوںوالوں کی زبان زیادہ مستند سمجھتی جاتی تھی۔ اسی غرض سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پرورش کے لئے ایک صحرائی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیاگیا‘ جن کا تعلق قبیلہ بنی سعد سے تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ان عورتوں میں شامل تھیں‘ جو مکہ معظمہ ،شرفاء کے بچے پرورش کے لئے حاصل کرنے کی غرض سے آئی تھیں۔ سیرۃ النبی کے مطابق یہ واقعہ خود حضرت حلیمہ نے یوں بیان کیاہے کہ میں اپنے قبیلہ کی کچھ عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلی۔ یہ زمانہ قحط کا تھا اورہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک بھورے رنگ کی گدھی پر سوار ہوکرنکلی اور ایک اونٹنی بھی ساتھ تھی‘ جس سے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ نکلتاتھا۔ ہمارا شیر خواربچہ بھوک کے سبب ساری ساری رات روتا تھا اورہم سونہ سکتے تھے۔ میری چھاتی میں اتنادودھ نہ تھا کہ اپنے بچے کو پلائوں اور نہ ہی ہماری اونٹنی کے پاس کچھ تھا۔ میں جس گدھی پر نکلی‘ وہ تھک گئی اور میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئی اور سب کے بعد مکہ پہنچی۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت ایسی نہ تھی‘ جس پر ننھے محمد صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو‘ مگر کسی نے بھی آپؐ کو نہ لیا۔ کیونکہ ہمیں لڑکے کے باپ سے بھلائی کی امید رہتی تھی اور اسی سے انعام کی توقع رکھتے تھے۔ جب باپ نہ ہوتو دادا اور ماں سے کیا امید؟ حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ جب کوئی بچہ نہ ملا‘ تو مجبوراً آپ کو لے لیا۔

رسول اللہﷺ کی برکتیں

 حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مجھے بار بار فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ جب میں آپ کو گود میں لے کر اپنی سواری پر بیٹھی‘ تو میری حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا کہ میرے پستان دودھ سے بھر گئے اور آپ نے خوب سیر ہوکردودھ پیا ۔ اسی کے ساتھ آپ کے رضا عی بھائی نے بھی خوب خوب دودھ پیا اور پھر دونوں سوگئے۔ میرے شوہر بوڑھی اونٹنی کی طرف گئے‘ توکیا دیکھتے ہیں کہ اس کے تھن بھی دودھ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے خوب جی بھر کر اونٹنی کا دودھ پیا اوررات بھر آرا م سے سوئے۔ صبح کے وقت میرے شوہرنے کہاکہ حلیمہ! خدا کی قسم خوب سمجھ لے کہ تونے ایک مبارک ذات کو پایا ہے۔ میں نے جواب دیا‘ خدا کی قسم مجھے یہی امید تھی۔

حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے اپنے گائوں کی طرف گدھی پر سوار ہوکر واپس جارہے تھے‘ تو اس میں اتنی طاقت آگئی کہ پورے قافلے سے آگے نکل گئی۔ ساتھی عورتیں پوچھنے لگیں کہ حلیمہ! کیا یہ تیری وہ گدھی نہیں‘ جو مکہ آتے ہوئے تھی؟ آخر اسے کیاہوگیاکہ اتنی تیز چلنے لگی؟ حضرت حلیمہ کے مطابق ان کا گائوں بہت زیادہ قحط زدہ تھا‘ مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ساتھ لائیں‘ تویہاںحالات ہی بدل گئے۔ وہ کہتی ہیں میری بکریاں چرنے جاتیں‘ تو خوب چرکر آتیں اور خوب دودھ دیتیں۔ حالانکہ دوسروں کی بکریوں کے تھنوں سے قحط کے سبب ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا۔ پڑوسی اپنے چرواہوں سے کہتے کہ جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی ہیں‘ وہیں تم بھی اپنی بکریوں کو چرائو۔ حضرت حلیمہ کے مطابق وہ دوسال تک یونہی آپ کی برکات سے مالا مال ہوتی رہیںاور آپ تندرست وتوانا ہوگئے۔ دوسرے بچے اس قدر تندرست نہ تھے۔ دو سال کے بعد آپ کو واپس مکہ لے کرآئیں‘ تو والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنی حیثیت کے مطابق انعام واکرام سے حضرت حلیمہ کو نوازا۔ حضرت حلیمہ آپ کی برکات کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لہٰذا دوبارہ اپنے ساتھ واپس لیتی آئیں۔

رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کا ذکر بیان کرتے ہوئے کہا:

’’اچھا(سنو) میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ جب میںاپنی ماں کے شکم میںآیا‘ تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا‘جس سے سرزمین شام کے محل ان پر روشن ہوگئے۔ بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں دودھ پی کر میں نے پرور ش پائی‘‘

 (سیرت النبی مرتبہ ابن ہشام)

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بے مثل و بے مثال بنایا‘ جس طرح آپ کی نبوت اور بعثت بے مثال ہے‘ اسی طرح آپ کی ولادت بھی بے مثال ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب ربیع الاول کا موسم بہار آتاہے‘ تو اہل عشق کے دل خوشیوں سے جھوم اٹھتے ہیں اور من کے گلشن میں عشق وعرفان کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔

ڈالیاں جھومتی ہیں رقص خوشی جوش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا

÷÷÷÷÷

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 797