donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ilmo Funoon Ke Irteqa Ka Daur Khelafate Banu Abbas


علوم وفنون کے ارتقا کا دور


خلافتِ بنو عباس


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    تاریخ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اس کے لئے کئی دفتر کی ضرورت ہے مگر علامہ اقبالؔ نے دنیا کی ہر قوم کے عروج و زوال کو صرف دو مصرعوں میں پیش کردیا ہے:

آ تجھ کو بتائوں میں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیروسناں اول،طائوس ورباب آخر

    خلافت بنو امیہ اور بنو عباسیہ کی تاریخ بھی یہی ہے۔ بنو امیہ نے اپنی حکومت کے قیام کے لئے جن جن حربوں کو استعمال کیا تھا انھیں کا استعمال کر کے بنو عباس نے ان کا خاتمہ بھی کردیا۔ جن جن غلطیوں کا ارتکاب بنو امیہ نے کیا تھا ٹھیک وہی غلطیاں بنو عباس نے بھی دہرائیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دنیا کا ہر حکمراں طبقہ ایک جیسی ہی غلطیاں کرتا ہے۔بنو امیہ نے اپنے اقتدار کی بنیاد آل نبی کی لاشوں پر رکھا تھا اور اہل بیت کے خون سے اپنی حکومت کی جڑوں کو سینچا تھا۔ خود ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور بنو عباس نے اپنے اقتدار کے ستون بنو امیہ کی لاشوں سے تعمیر کئے۔ دونوں بادشاہتوں میں جو بات مشترک تھی وہ یہ کہ اولاد فاطمہ وعلی پر مظالم دونوں حکومتوں کے دوران ہوئے۔ اسلام نے قبیلہ اور خاندان کے تعصب کو ختم کردیا تھا مگر بنو امیہ نے اسے دوبارہ زندہ کیا اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر بنو عباس نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ میدان کربلا میں حضرت امام حسین اور ان کے حامیوں کی شہادت کے بعد بہ ظاہر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف کوئی بڑا خطرہ نہیں باقی بچا تھا مگر حامیانِ اولاد علی و فاطمہ اندر اندر حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ بنو امیہ کے خلاف کئی گروہ خفیہ طور پر سرگرم تھے جن میں ایک اولاد علی کا گروہ تھا جو محمد بن الحنفیہ کی آل کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ دوسرا گروہ حضرت حسین کی اولاد کو خلافت کا حقدار مانتا تھا اور تیسرا گروہ بنو عباس کا تھا،جس کا ماننا تھا کہ بنو ہاشم میں سے کسی کو خلیفہ ہونا چاہئے ۔یہ تینوں گروہ الگ الگ کام کرتے تھے اور عوام میں خفیہ طور پر اپنا پیغام پہنچاتے تھے مگر ایک دوسرے سے ہمدردی رکھتے تھے۔ انھیں خارجیوں سے بھی ہمدردی تھی جو بنو امیہ کو کافر مانتے تھے۔ اتفاق یہ تھا کہ بنو امیہ کو جب بھی اطلاع ملتی کہ ان کے خلاف خفیہ سازشیں ہورہی ہیں تو وہ علویوں اور فاطمیوں کے خلاف کارروائی کیا کرتے تھے مگر عباسیوں کی سازشوں کا انھیں کوئی علم نہیں ہوپاتا تھا جو ایک غیر معروف گائوں حمیمہ کو مرکز بنا کر کام کیا کرتے تھے۔ آخر کار ان کی سازش کامیاب ہوئی اور خلافت بنو امیہ کی جگہ خلافت بنو عباس قائم ہوگئی۔ نئی حکومت میں بنو امیہ کے زندہ اور مردہ دونوں مظالم کا شکار ہوئے۔ صلائے عام تھی کہ بنو امیہ کا کوئی بھی چھوٹا ،بڑا نہیں بچنا چاہئے۔جو جہاں ملتا اس کا قتل کردیا جاتا اور اس کی دولت لوٹ لی جاتی تھی۔ لاشوں کو کتوں اور جنگلی جانوروں کی خوراک بننے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔یہاں تک کہ بنوا میہ کے سلاطین کی لاشیں قبروں سے نکال کر جلائی گئیں، سولی پر لٹکائی گئیں اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔

عروج وزوال

    عباسی خاندان کا پہلا خلیفہ ابوالعباس عبداللہ سفاح تھاجو اپنے مزاج سے انتہائی سفاک ، سخی،تیز فہم اور حاضر جواب تھا ۔اس کی حکومت کے دوسرے عمال اور کارکنان بھی خونریزی میں ماہر تھے۔یہ رسول اکرمﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد سے تھا۔ عباسی خلافت کا قیام 750ء میں ہوا اور یہ 1258ء تک قائم رہی۔ ابو جعفر منصور،ہارون رشید، مانون الرشید، معتصم بااللہ، متوکل علی اللہ،معتمد علی اللہ وغیرہ معروف خلفاء ہوئے۔ ابتدائی سو سال تک خلافت عباسیہ پوری شان و شوکت کے ساتھ چلی اور اس کے بعد حکومت میں ذرا سستی آگئی۔ تین سو سال تک یہ اپنے وجود کو قائم رکھنے میں پوری طرح کامیاب رہی مگر بعد کے دنوں میں یہ صرف ایک علامتی حکومت بن کر رہ گئی اور خلیفہ کی حیثیت کسی خانقاہ کے گدی نشین سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے بیشتر علاقوں پر دوسرے لوگوں نے قبضہ کرکے اپنی الگ حکومتیں قائم کرلی تھیں البتہ خلیفہ سے سند حکومت ضرور لیتے تھے اور اس کا نام خطبۂ جمعہ میں لیا جاتا تھا۔ عباسیوں کا پایۂ تخت بغداد تھا جو ساری دنیا میں مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ آخری عباسی خلیفہ تھا مستعصم بااللہ ،جس کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔

عباسی دور کے حالات

    جس حکومت کی تاریخ کئی صدیوں پر مشتمل ہو اس کے واقعات لکھنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔ بنو عباس کے عہد میں بہت سے اچھے برے واقعات کاصدور ہوا جو اسلامی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ کئی خاندانوں کا عروج و زوال دنیا نے دیکھا اور کئی مذہبی فرقے بھی سامنے آئے۔ خارجی فرقہ جو مذہبی معاملے میں انتہائی سخت گیر تھا،حضرت علی کے عہد میں ظاہر ہوچکا تھا اور بنو امیہ کے زمانے میں بھی رہ رہ کر سر اٹھاتا رہتا تھا۔ فرقہ راوندیہ کا ظہور ہوا جسے عام مسلمان ایک گمراہ فرقہ مانتے تھے۔ایک نیا فرقہ معتزلہ کے نام سے سامنے آیا جو قرآن کو مخلوق مانتا تھا اور اس کے اثرات اس قدر بڑھے کہ خود خلیفہ مامون رشید بھی اس میں شامل ہوگیا اور جو بھی اس فرقہ کے نظریات کی مخالفت کرتا اس کے درپے آزار ہوجاتا۔ اسی عہد میں قرامطہ کا ظہور ہوا جونہ تو سنی تھے اور نہ ہی پوری طرح سے شیعہ تھے، بلکہ بعض عقائد شیعوں جیسے رکھتے تھے اور اکثر عام مسلمانوں پر ظلم وتعدی کرتے تھے۔ یہ خانہ کعبہ سے ہجر اسود کواٹھا لے گئے تھے اور برسوں یہ اپنے مقام سے دور رہا۔ انھوں نے گرز مار کر اسے توڑ دیا تھا اور آج تک یہ پتھر اسی حالت میں خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ خلیفہ مہدی بن منصور کے دور میں حکیم مقنع نے طاقت پائی جو خدائی کا دعویدار تھا۔جن لوگوںنے خلافت کے خلاف بغاوت کی ان میں علویوں کے علاوہ بھی کئی بااثر افراد شامل تھے مگر ان کی بغاوت کبھی بھی کلی طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔  

عباسی دور کی علمی وفنی ترقیاں

    عباسیوں میں مختلف قسم کے خلفاء ہوئے۔ بعض رحم دل اور رعایا پرور تھے تو بعض ظالم و سفاک بھی تھے مگر اس پورے عہد میں زبردست علمی ترقی ہوئی ۔سائنس، تیکنالوجی، طب، فلسفہ، منطق، مصوری، خطاطی اور عمارت سازی کے فن کو ترقی ملی۔ عربی گرامر علم نحو کی ایجاد ہوئی۔ علم کلام، عروض،ریاضی، جغرافیہ،علم حیوانات، نباتات،کیمسٹری، جراحی اورفلکیات پر نئی نئی تحقیقات سامنے آئیں۔ اس کے لئے رصد گاہیں بھی قائم کی گئیں۔گھڑی اور دور بین اسی دور کی ایجاد ہے ۔ خلفاء نے کئی شہر آباد کئے جن میں سے بغداد سب سے اہم شہر تھا جو اس خاندان کی راجدھانی قرار دیا گیا تھا۔ اسے خلیفہ منصور نے تعمیر کرایا تھا ۔ علاوہ ازیں ہاشمیہ، عباسیہ،جعفریہ، مستنصریہ وغیرہ کی تعمیر بھی عباسی دور میں ہی ہوئی۔اسی دور میںقرآن کریم کی تفسیریں لکھی گئیں، علوم حدیث کی تدوین ہوئی، تصوف اور توحید کی بحثیں شروع ہوئیں اور اسے ایک الگ علمی پہچان ملی۔فقہ کی کتابیں اسی دور میں للھی گئیں اور مسلمانوں کے اندر باقاعدہ فقہی مسلک اسی دور میں بننے شروع ہوئے۔ ساری دنیا سے اہل علم کو بغداد لایا گیا اور مختلف زبانوں سے علمی کتابوں کے عربی میں تراجم ہوئے۔ یونانی فلسفہ کی کتابیں پہلی بار یونان سے بغداد لائی گئیں اور ترجمہ کر کے ان کی تعلیم شروع کی گئی۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ خالص دینی اور اسلامی علوم میں بھی فلسفہ و منطق کی بحثیں شامل ہوگئیں۔ ہندوستان سے سنسکرت کے ماہرین بغداد لائے گئے اور علم نجوم وآیوروید سمیت مختلف علوم وفنون کی کتابوں کے تراجم عربی زبان میں کرائے گئے۔عبرانی، سریانی کے ماہرین نے ان زبانوں سے ترجمے کئے۔ یوروپ،افریقہ اور ایشیا میں سب سے بڑے علمی مرکز کے طور پر بغدادکو جاناجانے لگا۔ بڑی بڑی یونیورسیٹیاں اور میڈیکل ریسرچ سنٹر و اسپتال اس دور میں بغداد میں موجود تھے جو دنیا کے کسی اور علاقے میں نہ تھے۔ ایسے ایسے حکمائ، ڈاکٹر، ماہرین فن، یہاں جمع ہوگئے تھے جو دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ایک مقام پر نہیں مل سکتے تھے۔ بڑے بڑے کتب خانے یہاں موجود تھے اور ایک ایک کتب خانے میں لاکھوں کتابیں تھیں۔ ایرانی، فنون لطیفہ میں ماہر مانے جاتے تھے جو اس دور میں بہت تیزی سے اسلام کے دائرے میں آرہے تھے اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں ایر انی اثرات نے عرب اثرات پر غلبہ پایا تھا۔ خطاطی، مصوری، نقاشی ،عمارت سازی اور دیگر قسم کے فنون لطیفہ نیز صنعت و حرفت میں ایرانی بہت آگے بڑھے ہوئے تھے اور یہی وہ زمانہ تھا جب ان کی فنکاری میں اسلامی رنگ کی آمیزش ہوئی۔ بنی امیہ کے عہد میں عام طور پر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر عربوں کا قبضہ تھا مگر عباسی عہد میں عجمیوں کو بھی اعلیٰ مناصب حاصل ہوئے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایرانیوں اور وسط ایشیا کے باصلاحیت لوگوں کو ہوا۔بنو عباس کے خلفاء با صلاحیت افراد کی قدر کرتے تھے اور انھیں دولت کے ساتھ ساتھ عزت بھی دیتے تھے۔ اسی لئے ساری دنیا سے باصلاحیت اور ذی علم لوگ یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔

عالم اسلام کا سانحہ عظیم

    بغداد علمی مرکز بنا تو عوام کو بھی علمی مشاغل سے دلچسپی ہوئی۔ عام لوگ بھی علمی موضوعات پر بحث ومباحثہ کیا کرتے تھے۔ شہر کے چوراہوں اور بازاروں میں مناظرے اور مباحثے عام تھے۔ اس دوران شیعہ ۔سنی اختلافات کو بھی بڑھاوا ملا اور دونوں کے بیچ کا فرق واضح ہوا۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اس قسم کے اختلافات کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے اور مسلکی بنیاد پر ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ آخری خلیفہ مستعصم بااللہ خود سنی تھا مگر اس کا وزیر علقمی متصب شیعہ تھا اور یہی اختلاف خلافت کے خاتمے کا سبب بن گیا۔ وہ اندر اندر ہلاکوخان سے مل گیااور مغل فوجوں کو بغداد بلالایاجس نے خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہی نہیں کیا بلکہ پورے شہر کو تخت وتاراج کرڈالا۔ لاکھوں شہریوں کو قتل کرایااور ان کی لاشیں دجلہ ندی میں بہائیں کہ کئی دن تک ندی کا پانی سرخ رہا۔ صرف وہی لوگ زندہ بچے جو کسی خفیہ جگہ پر چھپ گئے تھے ۔ لاکھوں علمی کتابوں کو غرق دریا کردیا جس سے ایک پل سا بن گیا اور ان کی سیاہی سے پانی کا رنگ بھی کالا ہوگیا۔یہ عالم اسلام کے لئے ایک سانحہ عظیم تھا اور لگ بھگ ساڑھے تین سال تک کوئی بھی عالم اسلام کا خلیفہ نہ رہا۔ بعد میں مصر کے سلطان نے ایک عباسی کو ڈھونڈ نکالا اور قاہرہ میں اسے خلیفہ مقرر کیا۔ یہ سلسلہ کچھ دن تک تو چلا مگر تب خلیفہ کی کوئی اہم سیاسی حیثیت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ صرف ایک علامتی حیثیت کا حامل تھا مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ دن نہیں چل پایا۔


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 843