donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Khalid Saifullah Rahmani
Title :
   Aap Ke Saharyi Masael

آپ کے شرعی مسائل؟


فقیہ العصرحضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی


ایجاب و قبول میں والد کانام غلط ذکر کردے ؟


سوال :-  ہندہ بنت محمد طفیل کا نکاح ہونا تھا ، لیکن نکاح پڑھانے والے نے غلطی سے طفیل کے بجائے ’’محمد سہیل‘‘ کانام لے لیا ، تو نکاح منعقد ہوگیا یا نہیں ؟

( امرین سلطانہ۔ قاضی پیٹ)

جواب :-  اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں :

 الف ) لڑکی خود مجلس نکاح میں موجود تھی ، تو نکاح درست ہوجائے گا ؛ کیوںکہ اشارہ کا درجہ نام لینے سے بڑھ کر ہے اور مجلس عقد میں لڑکی کاموجود ہونا ، گویا اس کی طرف بحیثیت منکوحہ اشارہ کرنا ہے ۔

ب)  اگر نام لینے میں غلطی ہوگئی ، لیکن عاقد کو بھی وہ لڑکی معلوم ہے اور گواہان بھی پہلے سے اس لڑکی سے واقف ہیں اور معلوم ہے کہ اس کا نکاح ہورہاہے ، تب بھی اس لڑکی کا نکاح ہوجائے گا ، چنانچہ علامہ شامیؒ ایک مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ إنہا لو جرت مقدمات الخطبۃ علی معینۃ وتمیزت عند الشہود أیضا یصح العقد وہی واقعۃ الفتویٰ ، لأن المقصود نفی الجہالۃ و ذالک حاصل بتعینہا عند العاقد و الشہود‘‘

(رد المحتار : ۲/۷۶۳ و کتاب النکاح )

’’ اگر خطبہ کے مقدمات کسی معین عورت سے متعلق ہوں اور گواہوں کے نزدیک جانی پہچانی ہو ، تو عقد صحیح ہوجائے گا ، یہی اس فتوی کا واقعہ ہے ، اس لئے کہ مقصود نا آگہی کی نفی کرنا ہے ، اور جب عاقدین اور گواہوں کے نزدیک منکوحہ متعین ہے تو یہ مقصد حاصل ہوگیا ‘‘۔

 ج )  اگر مجلس نکاح میں لڑکی بھی موجود نہ ہو اور گواہان بھی اس لڑکی سے واقف نہیں ہوں، ایسی صورت میں اگر والد کانام غلط لے لیا گیا ، تو نکاح درست نہیں ہوگا اور دوبارہ نکاح کرلینا چاہئے ؛ چنانچہ علامہ حصکفی ؒ فرماتے ہیں :

 ’’ غلط و کیلہا بالنکاح فی إسم أبیہا بغیر حضورہا لم یصح للجہالۃ ‘‘

(در مختار علی ہامش الرد : ۲/۸۱۳ )

مال کے عوض طلاق کا حکم

سوال :-  میرے بہنوئی میری بہن کو بہت تکلیف پہنچا تے تھے ، آخر بہن نے عاجز آکر کہا : اس سے بہتر ہے کہ مجھے طلاق ہی دے دو ، بہنوئی نے کہا کہ میں اس شرط پر طلاق دوں گا کہ تم مہر معاف کر دو اور تمہارا جوزیور ہم نے فروخت کر دیا ہے ، اس کے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرو، بہن نے مجبور ہو کر قبول کر لیا اور انہوں نے طلاق دے دی ، اب پھر یہ دونوں حضرات دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں اور وعدہ کر رہے ہیں کہ آئندہ کوئی تکلیف نہیں دیں گے ؛لیکن میری بہن مطمئن نہیں ہے ، اس سلسلہ میں بتا یا جائے کہ کیا دو بارہ ان کے نکاح کرنے کی گنجائش ہے اور اگر نکاح کے بعد پھر اس شخص نے ظلم وزیادتی شروع کر دی تو اس سے بچنے کی کیا تدبیر ہے ؟

(عابدہ ارشد، پونہ)


جواب :- جب ان صاحب نے مہر اور ان کے ذمہ واجب الاداء پیسوں کے بدلہ میں طلاق دی ہے تو یہ طلاق بائن ہوئی ؛ کیوںکہ مال کے عوض جو طلاق دی جاتی ہے وہ طلاق بائن ہو تی ہے ، ایک طلاق بائن کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر نے کی گنجائش ہوتی ہے ؛ اس لیے آپ کی بہن اور سابق بہنوئی کا نئے مہر کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے ، اگر یہ اندیشہ ہو کہ آئندہ پھر وہ ظلم وزیادتی کریں گے تو نکاح کے وقت تفویض طلاق کرالیں ، تفویض طلاق کی صورت یہ ہے کہ مرد سے کہلایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ تحریر پر بھی بنوالی جائے کہ ’’ میری بیوی کو آئندہ یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے آپ پر ایک طلاق بائن کر لے ‘‘ ایسی صورت میں اس کے طلاق دینے کی محتاجی باقی نہیں رہے گی ؛ بلکہ اگر اس شخص نے زیادتی کی تو آپ کی بہن خود ہی اپنے آپ پر طلاق واقع کر لینے کی مجاز ہو گی ۔

 ایک اور ضروری وضاحت یہ ہے کہ شوہر کو مقدار مہر سے زیادہ طلاق دینے کے لیے طلب کرنا کراہت سے خالی نہیں ، اگر عورت کا قصور نہ ہو تب تو طلاق دینے کے ساتھ ساتھ مہر بھی ادا کرنا چاہیے اور اگر عورت کی نا فرمانی اور زیادتی ہو تو زیادہ سے زیادہ مہر معاف کر الینا چاہیے ، اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ شرعاً مناسب ہے اور نہ مرد کے شایان شان ہے۔

بچہ کی پرورش کرنے والی مطلقہ عورت کے حقوق

سوال :-  ہندہ کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے ، عدت گزرچکی ہے ، چھ ماہ کا نو مولودبھی اسی کی پرورش میں ہے ، ایسی صورت میں کیا ہندہ کو عدت گزرنے کے بعد بھی اپنے سابق شوہر سے کچھ حقوق حاصل ہو ںگے ؟

( فاطمہ فرشین، ملک پیٹ )

جواب :-  جب عدت گزرچکی تو عام اصول کے تحت سابق شوہر پر اس کا کوئی حق باقی نہیں رہا ، سوائے اس کے کہ اگر اس نے مہر اور نفقہ عدت ادا نہیں کیا ہو تو اسے ادا کرنا ہو گا ؛ البتہ عدت گزرنے کے بعد بھی اگر بچہ ماں کی پرورش میں ہوتو بچہ کی نسبت سے سابق شوہر پر تین حقوق عائد ہو تے ہیں :

اول: دودھ پلانے کی اجرت ، اگر ماں بچوں کو دودھ پلارہی ہے ۔

دوسرے:  بچہ کی پرورش کی اجرت   --- یہ اجرت اتنی ہونی چاہیے کہ اس سے عورت کی ضروریات پوری ہو جائیں ۔

تیسری : خود بچہ کا نفقہ ۔

’’ فعلی ھٰذا یجب علی الاب ثلاثۃ:اجرۃ الرضاع ، واجرۃ الحضانۃ ، ونفقۃ الولد ‘‘

(ردالمختار :۵/۰۶۲)

گاڑی کا انشورنس اور اس سے استفادہ

سوال:-  سرکاری قانون کے تحت گاڑی کا انشورنس کرانا ضروری ہے ، اس انشورنس کاقاعدہ یہ ہے کہ اگر گاڑی کو کوئی نقصان پہنچے تو کمپنی ہر جانہ ادا کرتی ہے ، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں گاڑی کا انشورنس کرانا اور نقصان کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھا نا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب :- کیونکہ گاڑی کا انشورنس کرانا قانوناً ضروری ہے ؛ اس لئے بالاتفاق گاڑی کا انشورنس کرانا درست ہے ؛ البتہ انشورنس سے فائدہ اٹھانے کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ آپ کی گاڑی کو کسی اور نے نقصان پہنچا یا ہو، اس صورت میں اپنے نقصان کا حسب قانون پورا ہر جانہ وصول کرنا درست ہے؛ کیونکہ نقصان پہنچا نے والے پر اس نقصان کی تلافی واجب ہے اور انشورنس کمپنی اس کی طرف سے اس کو ادا کرنے کی کفیل ہے ، اور اگر آپ کی گاڑی نے دوسری گاڑی کو نقصان پہنچا یا اور آپ کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑا ، اس صورت میں اگر آپ کی زیادتی نہیں تھی تو انشورنس کمپنی کے ذریعہ اس ہر جانہ کو ادا کرنے کی گنجائش ہے ؛ کیونکہ ناروا تاوان حکومت نے عائد کیا ہے اور انشورنس کمپنی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ہی ہے ، اور اگر اس نقصان میں آپ کی زیادتی کو دخل تھا تو پھر ہر جانہ ادا کر نا شرعاً بھی آپ کے ذمہ ہے ؛ لہٰذا جتنی رقم آپ نے انشورنس کمپنی میں جمع کر رکھی تھی ، اتنی رقم تو آپ کے لئے حلال ہے ، اس سے آپ تاوان ادا کریں، اگر تاوان سے زائد رقم ہو تو خود استفادہ کریں اور تاوان سے کم رقم ہو تو اپنی جائز رقم سے اسے پورا کریں ، کمپنی نے آپ کی جمع شدہ رقم سے زائد جتنی رقم آپ کو دی ہو اسے بلا نیت ثواب صدقہ کر دیں ، واللہ اعلم ۔

شوہر اور والد کی اطاعت ؟

سوال :-  زید ایک وظیفہ یا ب ہے ، جس کی عمر تقریبا ساٹھ سال ہے ، اس کی اہلیہ اور بچے نہایت نافرمان ہیں ، باوجود افہام وتفہیم کے وہ اپنی بری عادت سے باز نہیں ،جس کی وجہ سے زید ذہنی تنائوکا شکار ہے ؛ حالانکہ وہ تمام اہل وعیال کی کماحقہ کفالت کرتا ہے ، ایسی صورت میں اس کے اور اس کی بیوی بچوں کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ۔

(محمدصلاح الدین۔ کڑپہ)

جواب :-  شوہر کی اطاعت بیوی پر اور والد کی اطاعت بچوں پر واجب ہے ، بشرطیکہ وہ کسی خلاف شرع کا م کا حکم نہیں دیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے لیے جو مقام رکھا ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر وں کو سجدہ کریں ؛ لیکن اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا روا نہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ماں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے جو اولاد کے ساتھ زیادتی روا رکھتا ہو، چہ جائیکہ ایسے ماں باپ جو اپنے بچوں کے حقوق ادا کرتے ہیں ؛ اس لیے زید کی بیوی کو چاہیے کہ وہ زیدکے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اپنی بداعمالی کے ذریعہ دنیا وآخرت کو ضائع نہ کریں ، نیز زید کو بھی چاہیے کہ نرم روی کے ساتھ بیوی بچوں کو سمجھائیں ؛ کیونکہ سختی اور تشدد فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بن جاتا ہے او رسلیقہ اور حسن اخلاق کے ساتھ نصیحت پتھر جیسے دل کو بھی پگھلا کر رکھ دیتی ہے ۔

بیچنے والے سامان کی تعیین تصویر سے

سوال :-  آج کل بہت سی چیزیں اس طرح فروخت کی جاتی ہیں کہ اصل مال گودام یا کارخانہ میں ہوتا ہے اور اس کی تصویر نیز دیگر تفصیلات گاہک کو دکھائی اور بتائی جاتی ہیں ، ایسی صورت میں اصل سامان دیکھنے کے بعد کیا خریدار خرید نے سے انکار کرسکتا ہے؟

(معین الدین۔ ممبئی)

جواب :-  شریعت میں ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو دیکھے بغیر خریدا اور بیچا گیا ہو تو دیکھنے کے بعد خریدار کو اختیار حاصل ہوتا ہے ، اگر چاہے تو اس معاملہ کو باقی رکھے ، ورنہ ختم کردے ، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ خیار رؤیت ‘‘ کہتے ہیں ؛ لیکن اگر اصل شئ کے بجائے اس کا نمونہ دکھادیا جائے اور وہ نمونہ اصل کے مطابق ہو ، تو نمونہ کا دکھادینا کافی ہے اور اصل شئ کو دیکھنے کے درجہ میں ہے ، اگر وہ شئ اسی نمونہ کے مطابق ہے ، تو اب اس شئ کو دیکھنے کے بعد معاملہ ختم کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا :

 ’’ والأصل فی ہذا أن رؤیۃ جمیع المبیع غیر مشروط لتعذرہ فیکتفی برؤیۃ ما یدل علی العلم بالمقصود ۔۔۔ وعلامتہ أن یعرض بالنموذج یکتفی برؤیۃ واحد منہا إلا إذا کان الباقی ارداً مما رأی فحینئذ یکون لہ الخیار ‘‘

( ہدایہ مع الفتح القدیر والعنایۃ: ۵/۶۳۵)

تصویر بھی سامان کے نمونہ کا درجہ رکھتی ہے ؛ بلکہ بمقابلہ نمونہ کے بعض اوقات اس شئ کا زیادہ بہتر تعارف کراتی ہے ، اس لئے یہ بھی اسی حکم میں ہے ، اگر تصویر کے مطابق ہی سامان پایا گیا ، تو خریدار کو حق نہیں کہ سامان کو رد کردے ۔

اہل بیت اور موجودہ دور

سوال:-  اہل بیت کی حد کہاں تک شمار کی جاسکتی ہے؛ کیوںکہ آج کل جو لوگ اپنے آپ کو سید کہتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو اہل بیت کہتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک سے پورے کے پورے سید لوگ ہندوستان اور پاکستان میں ہی آگئے ہیں، عرب حضرات اپنے ناموں کے آگے سید نہیں لکھتے، براہ کرم وضاحت فرمائیں۔

(سید نفیس احمد)

جواب:-  جن لوگوں کا نسب آپ ا سے ملتا ہو ، ان سب کا شمار اہل بیت میں ہے ، اور آپ ا کا نسب چلا ہے ، سیدہ حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اس کے علاوہ بنوہا شم اور نبو مطلب کی دوسری شاخیں بھی اسی حکم میں ہیں اور حرمت زکوۃ کے مسئلہ میں انہیں بھی ’اہل بیت ‘میں شمار کیا گیا ہے ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا ہے کہ سارے خاندانی سلسلہ ختم ہوجائیںگے ؛ لیکن آپ ا کا خاندانی سلسلہ قیامت تک باقی رہے گا : ’’ وإنہ منقطع یوم القیامۃ الأنساب إلا نسبی وسببی‘‘ (مجمع الزوائد : ۹؍۳۲۸) اس لئے اہل بیت تو قیامت تک باقی رہیں گے، رہ گئے ہندوستان میں سادات کی کثرت تو اس سلسلہ میں شجرۂ نسب کی موجودگی اور کسی خاندانی سلسلہ کی شہرت یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر کسی کے اہل بیت میں سے ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ، عربوں کا سید نہ لکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہاں سادات نہیں ہیں ، یہ در اصل اصطلاح کا فرق ہے ، بعض علاقے میں سادات کے لئے کوئی الگ اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی ، بعض قبائل میں سادات کا ’’حبیب ‘‘کے لفظ سے ذکر کیا جاتا ہے ، اس لئے اگر کسی شخص کے پاس شجرۂ نسب موجود ہو یا اس کی خاندانی نسبت معروف ہوتو اس پر شک نہیں کرنا چاہئے ؛ کیوںکہ ہم اس کی تحقیق کے مکلف نہیں اور کسی مسلمان سے بلا وجہ بد گمانی رکھنا درست نہیں ۔

(یو این این)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 701