donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sambhali
Title :
   Aik Martaba Me Di Gayi Teen Talaqon Par


بسم اللہ الرحمن الرحیم


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن،  وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِین۔


ایک مرتبہ میں دی گئیں تین طلاقوں پر

 

تین واقع ہونے پر اجماع امت

 

محمد نجیب قاسمی سنبھلی


شریعت اسلامیہ نے طلاق دینے کا اختیار مرد کو دیا ہے، اگرچہ عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا ہے بلکہ اسے بھی یہ حق ہے کہ وہ چند شرائط کے ساتھ قاضی کے پاس اپنا موقف پیش کرکے طلاق حاصل کرسکتی ہے جس کو خلع کہا جاتا ہے۔ غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عورت کو مرد کی طرح طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہے، چنانچہ وہ اپنا حق قاضی سے رجوع کئے بغیر استعمال نہیں کرسکتی ہے، لیکن شوہر جب چاہے اور جس وقت چاہے اپنی بیوی کو قاضی سے رجوع کئے بغیر طلاق دے سکتا ہے، اور اس کے لئے بیوی یا گواہوں کا موجود ہونا بھی ضروری نہیں ہے، باوجویکہ فرمان نبی ﷺہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ گھناؤنی اور کوئی چیز نہیں ہے۔ غرضیکہ اگر کسی شوہر نے باوجویکہ اس کی بیوی میں کوئی کمی نہیں ہے اپنی بیوی کو طلاق دیدی، تو بیوی کے سو فیصد مظلومہ ہونے کے باوجود طلاق کے واقع ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ قرآن وحدیث کے احکام سے واقفیت کے بغیر بعض دانشور حضرات غیروں کے طرز پر قرآن وحدیث کے اس مسلمہ قانون کے خلاف بھی لب کشائی شروع کرکے اپنی رائے تھوپنا چاہتے ہیں۔

 جس طرح پوری امت بیوی کے اندر کوئی کمی نہ ہونے کے باوجود شوہر کی صرف اور صرف اپنی مرضی سے تین طہر میں تین طلاق دینے پر تین طلاق واقع ہونے کو تسلیم کرتی ہے یا صرف ایک یا دو طلاق دے کر بیوی سے عدت میں رجعت نہ کرنے اور عدت گزرنے کے بعد نکاح نہ کرنے کے شوہر کے فیصلہ کو ساری امت تسلیم کرتی ہے۔ مسئلہ مذکورہ میں باوجودیکہ ہم بھی مظلومہ عورت کی خیر خواہی چاہتے ہیں، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں طلاق کے واقع ہونے پر اجماع امت ہونے کی وجہ سے بیوی کو شوہر سے جدا کرنے پر مجبور ہوں گے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے پر تین واقع ہونے پر قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماع امت ہے ۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر بے شمار مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف حتی کہ کسی ضعیف روایت سے بھی نہیں ملتا۔ اس بات کو پوری امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ نیز قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے پر ایک ہی شمار ہوگی۔ 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء کرام کا مسلک ہے کہ بیک لفظ تین طلاق دینے سے تین ہی واقع ہوں گی ، یہی صحابہ کرام وتابعین اور ائمہ مجتہدین (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کی رائے ہے، سعودی عرب کی ہیئت کبار علماء کی اکثریت نے ۱۳۹۳ھ میں اپنے اجلاس میں موضوع کے تمام گوشوں پر بحث ومباحثہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ، تین ہی ہوتی ہیں۔ اس کے لئے جمہور علماء نے قرآن وحدیث اور اجماع وقیاس سے دلائل قائم کئے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

(۱)  فرمان الٰہی ہے: ’’ اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کو ان کی عدت پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ، ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں ، مگر جو صریح بے حیائی کریں اور یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھے تو اس نے اپنابرا کیا اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ اس طلاق کے بعد نئی صورت پیدا کردے ‘‘۔

الطلاق:۱) اس آیت سے یہ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے وہ طلاق مشروع کی ہے جس کے بعد عدت شروع ہو ، تاکہ طلاق دینے والا بااختیار ہو ، چاہے تو عمدہ طریقہ سے بیوی کو رکھ لے یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑدے ۔ اور یہ اختیار اگر چہ ایک لفظ میں رجعت سے پہلے تین طلاق جمع کر دینے سے نہیں حاصل ہوسکتا ، لیکن آیت کے ضمن میں دلیل موجود ہے کہ یہ طلاق بھی واقع ہو جائے گی ، اگر واقع نہ ہوتی تو وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ کہلاتا اور نہ اس کے سامنے دروازہ بند ہوتا ، جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے :  ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً۔مخرج کی تفسیر حضرت ابن عباس ؓ نے رجعت کی ہے ۔ ایک سائل کے جواب میں جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھی ، آ پ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً ‘‘ اور تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا ، لہذا میں تمہارے لئے کوئی خلاصی کی راہ نہیں پاتا ہوں ، تم نے اللہ کی نا فرمانی کی اور تم سے تمہاری بیوی جدا ہوگئی ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دیدے ، وہ خود پر ظلم کر نے والا ہے ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ تین طلاق سے ایک ہی واقع ہوتی ہے ، تو اس کو اللہ سے ڈرنا نہیں کہا جاسکتا ، جس کا حکم ’’ ومن یتق اللہ الخ‘‘ میں دیا گیا ہے اور جس کا التزام کرنے سے خلاصی کی سبیل پیدا ہوتی اور نہ یہ ظالم کی سزا بن سکتی ہے، جو حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے تو گو یا شارع نے ایک منکر بات کہنے والے پر اس کا اثر مرتب نہیں کیا، جو اس کے لئے عقوبت بنتا ، جیسا کہ بیوی سے ظہار کر نے والے پر بطور عقوبت کفارہ لازم ہوتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں طلاق نافذ کر کے طلاق دینے والے کو سزادی ہے اور اس کے سامنے راستہ مسدود کردیا ہے ، اس لئے کہ اس نے اللہ سے خوف نہیں کیا خود پر ظلم کیا او ر اللہ کی حدود سے تجاوز کیا۔

(۲) صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں، اس نے دوسرے سے نکاح کر لیا ، دوسرے شوہر نے قبل خلوت کے طلاق دیدی ، آنحضرت ﷺسے پوچھا گیا کہ اب پہلے کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ فرمایا کہ نہیں تاوقتیکہ دوسرا شوہر پہلے کی طرح لطف اندوزِ صحبت نہ ہو ، پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی‘‘۔ بخاری ؒ نے یہ حدیث ’’ باب من اجاز الطلاق ثلاثاً ‘‘ کے تحت ذکر کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے بھی اس سے یکجا تین طلاق ہی سمجھا ہے۔جب حدیث عائشہ ؓ  کا حدیث ابن عباس ؓ کے ساتھ تقابل کیا جائے تو دو حال پیدا ہوتے ہیں ، یا تو دونوں حضرات کی حدیث میں تین طلاق مجموعی طور پر مراد ہے یا متفرق طور پر ، اگر تین طلاق یکجائی مراد ہے تو حدیث عائشہ ؓ  متفق علیہ ہونے کی وجہ سے اولی ہے ، اور اس حدیث میں تصریح ہے کہ وہ عورت تین طلاق کی وجہ سے حرام ہوگئی تھی اور اب شوہر ثانی سے وطی کے بعد شوہر اول کے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اگر متفرق طور پر مرادہے تو حدیث ابن عباس ؓ میں یکجائی تین طلاقوں کے واقع نہ ہونے پر استدلال صحیح نہیں ہے ؛ اس لئے کہ دعوی تو یہ ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاق سے ایک طلاق پڑتی ہے اور حدیث ابن عباس ؓ میں متفرق طلاقوں کا ذکر ہے اور یہ کہنا کہ حدیث عائشہؓ میں تین طلاق متفرق اور حدیث ابن عباس ؓ میں مجموعی طور پر مراد ہے ، بلا وجہ ہے۔ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔

حضرت عائشہؓ کی مذکور ہ حدیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، جو یکجائی تین طلاق کے نافذ ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے: ۱) حضر ت ابن عمرؓ کی حدیث ابن ابی شیبہ بیہقی ، دار قطنی نے ذکر کی ہے۔ ۲) حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث دارقطنی نے ذکر کی ہے۔ ۳) حضرت معاذ ابن جبل ؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے۔ ۴) حضرت حسنؓ بن علیؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے۔ ۵ )عامر شعبیؒ سے فاطمہ بنت قیسؓ کے واقعۂ طلاق کی حدیث ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ ۶) حضرت عبادہ بن صامت کی ایک حدیث دار قطنی ومصنف عبد الرزاق میں مذکور ہے ۔ان تمام احادیث سے تین طلاق کا لازم ہونا مفہوم ہوتا ہے۔

(۳) بعض فقہاء مثلاً علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ نکاح ایک ملک ہے ، جسے متفرق طورپر زائل کیا جاسکتا ہے ، تو مجموعی طور پر بھی زائل کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ تمام ملکیتوں کا یہی حکم ہے۔ قرطبی نے کہا ہے کہ جمہور کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو تین طلا ق دی ، تو بیوی اس کے لئے اس وقت حلال ہوسکتی ہے ، جب کسی دوسرے شوہر سے ہم صحبت ہولے۔ اس میں لغۃً اور شرعاًشوہر اول کے تین طلاق مجموعی یا متفرق طور پر دینے میں کوئی فرق نہیں ہے ، فرق محض صورۃً ہے جس کو شارع نے لغو قرار دیا ہے ؛ اس لئے کہ شارع نے عتق ، اقرار اور نکاح کو جمع اور تفریق کی صورت میں یکساں رکھا ہے ۔ مولیٰ اگر بیک لفظ کہے کہ میں نے ان تینوں عورتوں کا نکاح تم سے کردیا ، تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے جیسے الگ الگ یوں کہے کہ اس کا اور اس کا  نکاح تم سے کردیا تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے ۔اسی طرح اگر کہے کہ میں نے ان تینوں غلاموں کو آزاد کردیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجائے گی ، جیسے الگ الگ یوں کہے کہ میں نے اس کو اور اس کو اور اس کو آزاد کیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجاتی ہے ۔ یہی حال اقرار کا بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمع وتفریق میں کوئی فرق نہیں ، زیادہ سے زیادہ یکحائی تین طلاق دینے والے کو اپنا اختیار ضائع کرنے میں انتہا پسندی پر ملازمت کا مستحق ٹھرایا جاسکتا ہے ۔

(۴)  بعض مخالفین کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ہازل کی طلاق حضرت ابوہریرہؓ وغیر ہ کی اس حدیث کی وجہ سے واقع ہوجاتی ہے جسے تمام امت نے قبول کیا ہے۔ ’’ تین چیزیں ہیں جن کا واقعی بھی حقیقت ہے اور مذاق بھی حقیقت ہے ۔ طلاق ، نکاح اور رجعت‘‘۔ مذاق میں طلاق دینے والے کا دل بھی قصد وارادہ کے ساتھ طلاق کا ذکر کرتا ہے ، لہذا جو طلاق ایک سے زائد ہوگی ، وہ مسمّٰی طلاق سے خارج نہیں ہوگی ، بلکہ وہ بھی صریح طلاق ہوگی اور تین طلاق کو ایک سمجھنا گویا بعض عدد کو زیر عمل لاکر باقی کو چھوڑ دینا ہے ، لہذا یہ جائز نہ ہوگا ۔

(۵)  یکجائی تین طلاق دینے سے تین واقع ہونا اکثر اہل علم کا قول ہے ، اسی کو حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ اور ابن مسعودؓ وغیرہ اصحاب ِرسول نے اختیار کیا ہے اور ائمہ اربعہ ابوحنیفہؒ، مالکؒ،شافعیؒاور احمدؒکے علاوہ دوسرے فقہاء مجتہدین ابن ابی لیلیٰ  ؒ، اوزاعیؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ابن عبد الہادیؒ نے ابن رجبؒ سے نقل کیا ہے کہ میرے علم میں کسی صحابی اور کسی تابعی اور جن ائمہ کے اقوال حلال وحرام کے فتویٰ میں معتبر ہیں ، ان میں سے کسی سے کوئی ایسی صریح بات ثابت نہیں جو بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر دلالت کر ے ، خود ابن تیمیہؒ نے تین طلاق کے حکم میں مختلف اقوال پیش کر نے کے دوران کہا: دوسرا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے اور لازم ونافذ ہے ، یہی امام ابوحنیفہؒ، امام مالک ؒ اور امام احمدؒ  کا آخری قول ہے ، ان کے اکثر تلامذہ نے اسی قو ل کو اختیار کیا ہے ، اور یہی مذہب سلفِ صحابہ وتابعین کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے ‘‘۔اور ابن قیم ؒ نے کہا: ’’ ایک لفظ کی تین طلاق کے بارے میں لوگوں کا چار مذہب ہے ۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔،یہی مذہب ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین اور بہت سے صحابۂ کرام کا ہے ۔ علامہ قرطبیؒ نے فرمایا: ’’ہمارے علماء نے فرماکہ یا تمام ائمہ فتاویٰ ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پرمتفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے ‘‘۔  ابن عربی  ؒنے اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں کہا ہے اور اسے ابن قیمؒ نے بھی تہذیب السنن میں نقل کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الطلاق مرتان (یعنی طلاق دومرتبہ ہے) آخر زمانہ میں ایک جماعت نے لغزش کھائی اور کہنے لگے : ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ نہیں ہوتی ، انھوں نے اس کو ایک بنادیا اور اس قول کو سلف اول کی طرف منسوب کردیا۔ علیؓ ، زبیرؓ، ابن عوفؓ، ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا اور حجاج بن ارطاۃ کی طرف روایت کی نسبت کردی ؛ جن کا مرتبہ ومقام کمزور اور مجروح ہے ، اس سلسلہ میں ایک روایت کی گئی جس کی کوئی اصلیت نہیں‘‘۔انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ: ’’ لوگوں نے اس سلسلہ میں جواحادیث صحابہ کی طرف منسوب کی ہیں ، وہ محض افتراء ہے ، کسی کتاب میں اس کی اصل نہیں اور نہ کسی سے اس کی روایت ثابت ہے‘‘۔ اور آگے کہا : ’’حجاج بن ارطاۃ کی حدیث نہ امت میں مقبول ہے اور نہ کسی امام کے نزدیک حجت ہے ‘‘۔

امت مسلمہ کی چھوٹی سی جماعت نے جن دلائل کی روشنی میں ایک طلاق ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں ایک اہم دلیل مسلم میں وارد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ والی حدیث ہے، جس کے جمہور علماء نے جو جوابات دئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

حدیث ابن عباس ؓ کے جوابات:  حضرت ابن عباس ؓ کی اس حدیث پر کہ ’’ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک تھی ‘‘ کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں ،جن کی بناپر اس حدیث سے استدلال کمزور پڑجاتا ہے ۔

(الف)  اس حدیث کے سند ومتن میں اضطراب ہے ، سند میں اضطراب یہ ہے کہ کبھی ’’عن طاؤس عن ابن عباس‘‘کہاگیا ، کبھی ’’ عن طاؤس عن ابی الصہباء عن ابن عباس‘‘ اور کبھی ’’عن ابی الجوزاء عن ابن عباس ‘‘ آیا ہے۔ متن میں اضطراب یہ ہے کہ ابو الصہباء نے کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرد جب ملاقات سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا تھا ، تو لوگ اسے ایک شمار کر تے تھے ‘‘۔ اور کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے: ’’ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں تین طلاق ایک تھی ‘‘۔

(ب) حضرت ابن عباسؓ سے روایت کر نے میں طاؤس منفرد ہیں اور طاؤس میں کلام ہے ، اس لئے کے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے مناکیر روایت کرتے ہیں۔ قاضی اسماعیلؒ نے اپنی کتاب احکام القرآن میںکہا ہے کہ ’’طاؤس اپنے فضل وتقوی کے باوجود منکر باتیں روایت کرتے ہیں اور انھیں میں سے یہ حدیث بھی ہے ‘‘۔ ابن ایوب سے منقول ہے کہ وہ طاؤس کی کثرت خطا پر تعجب کر تے تھے۔ ابن عبد البر مالکی نے کہا کہ ’’ طاؤس اس حدیث میں تنہا ہیں‘‘۔ ابن رجب نے کہا کہ ’’ علماء اہل مکہ طاؤس کے شاذ اقوال کا انکار کرتے تھے ‘‘۔ قرطبی نے عبد البر سے نقل کیا ہے کہ ’’ طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ، حجاز ، شام اور مغرب کے کسی فقیہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ‘‘۔

(ج) بعض اہل علم نے کہا ہے کے حدیث دو وجہ سے شاذ ہے ، ایک تو اس وجہ سے کہ اس کی روایت کرنے میں طاؤس منفرد ہیں اور کوئی ان کا متابع نہیں۔ امام احمدؒ نے ابن منصور کی روایت میں کہا ہے کہ’’ ابن عباسؓ کے تمام تلامذہ نے طاؤس کے خلاف روایت کیا ہے ‘‘ جوزجانی نے کہا ہے کہ ’’ یہ حدیث شاذ ہے‘‘۔ ابن عبد الہادی نے ابن رجب سے نقل کیا ہے کہ’’ میں نے بڑی مدت تک اس حدیث کی تحقیق کا اہتمام کیا، لیکن اس کی کوئی اصل نہ پاسکا‘‘۔ شاذ ہونے کی دوسری وجہ وہ ہے جس کو بیہقی نے ذکر کیا ہے انہوںنے ابن عباسؓ سے تین طلاق لازم ہونے کی روایات ذکر کر کے ابن المنذر سے نقل کیا ہے کہ ’’ وہ ابن عباسؓ کے بارے میں یہ گمان نہیں کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے کوئی بات محفوظ کی ہو اور پھر اس کے خلاف فتویٰ دیں ‘‘۔ ابن ترکمانی نے کہا کہ ’’ طاؤس کہتے تھے کہ ابوالصہباء مولیٰ ابن عباسؓ نے ان سے تین طلاق کے بارے میں پوچھا تھا ؛ لیکن ابن عباس ؓ سے یہ روایت اس لئے صحیح نہیں مانی جاسکتی کہ ثقات خود انھیں سے اس کے خلاف روایت کر تے ہیں اور اگر صحیح بھی ہو ، تو ان کی بات ان سے زیادہ جاننے والے جلیل القدر صحابہ حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ ، ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ وغیرہم پر حجت نہیں ہوسکتی ‘‘۔

حدیث میں شذوذ ہی کی وجہ سے دو جلیل القدر محدثوں نے اس حدیث سے اعراض کیا ہے ۔امام احمد ؒنے اثرم اور ابن منصور سے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ کی حدیث قصداً ترک کر دی ؛ اس لئے کہ میری رائے میں اس حدیث سے یکجائی تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال درست نہیں ؛ کیوں کہ حفاظِ حدیث نے ابن عباسؓ سے اس کے خلاف روایت کیا ہے اور بیہقی نے امام بخاریؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حدیث کو اسی وجہ سے قصداً چھوڑدیا، جس کی وجہ سے امام احمدؒ نے ترک کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دو امام فن حدیث کو اسی وقت چھوڑسکتے ہیں جب کہ چھوڑنے کا سبب رہاہو۔

(د)  حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ایک اجتماعی حالت بیان کرتی ہے ، جس کا علم تما م معاصرین کو ہونا چاہئے تھا اور متعدد طرق سے اس کے نقل کے کافی اسباب ہونے چاہئے تھے ، جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی ، حالانکہ اس حدیث کو ابن عباسؓ سے بطریق ِآحاد ہی روایت کیا گیا ہے ، اسے طاؤس کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے ، جب کہ وہ مناکیر بھی روایت کرتے ہیں ۔ جمہور علماء اصول نے کہا ہے کہ اگر خبر آحاد کے نقل کے اسباب وافر ہوں ، تو محض کسی ایک شخص کا نقل کر نا اس کے عدم صحت کی دلیل ہے ۔صاحب جمع الجوامع نے خبر کے عدم صحت کے بیان میں اس خبر کو بھی داخل کیا ہے جو نقل کے اسباب وافر ہونے کے باوجود بطریق آحاد نقل کی گئی ہو ۔ ابن حاجبؒ نے مختصر الاصول میں کہا ہے :’’ جب تنہا کوئی شخص ایسی بات نقل کرے ، جس کے نقل کے اسباب کافی تھے ، اس کے نقل میں ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ شریک ہونی چاہئے تھی ، مثلاًوہ تنہا بیان کرے کہ شہر کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دینے کی حالت میں خطیب کو قتل کر دیا گیا ، تو وہ جھوٹا ہے ، اس کی بات بالکل نہیں مانی جائے گی‘‘۔جس بات پر عہد نبوی ، عہد صدیقی اور عہدفاروقی میں تمام مسلمان باقی رہے ہوں، تو اس کے نقل کے کافی اسباب ہوںگے ؛ حالانکہ ابن عباسؓ کے علاوہ کسی صحابی سے اس کے بارے میں ایک حرف بھی منقول نہیں (اور اس کو بھی حضرت ابن عباسؓ نے ابوالصہباء کے تلقین کرنے پر بیان کیا ہے ) صحابۂ کرام کی خاموشی دو بات پر دلالت کر تی ہے ۔ یاتو حدیث ابن عباس ؓ میں تینوں طلاقیں بیک لفظ نہ مانی جائیں ؛ بلکہ اس کی صورت یہ ہے کہ بیک لفظ تین الفاظ میں تین طلاق دی گئی اور لفظ کا تکرار تاکید پر محمول کیا جائے ، یا یہ حدیث صحیح نہیں ، اس لئے کہ نقل کے کافی وسائل ہونے کے باوجود آحاد نے اسے روایت کیا ہے۔

(ر) جب ابن عباسؓ جانتے تھے کہ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میںتین طلاق ایک سمجھی جاتی تھی ، تو ان کے صلاح وتقویٰ ، علم و استقامت ، اتباع سنت اور برملا حق گوئی کے پیش نظر یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ انھوں نے یکجائی تین طلاق سے تین نافذ کرنے میں حضرت عمرؓ کے حکم کی اتباع کی ہوگی ۔ تمتع حج ، دو دینار کے عوض ایک دینار کی خرید وفروخت ، ام ولد کی خرید وفروخت وغیرہ کے مسائل میں حضرت عمرؓ سے ان کا اختلاف پوشیدہ نہیں ، لہذا کسی ایسے مسئلہ میںوہ حضرت عمرؓ کی موافقت کیسے کرسکتے ہیں ، جس کے خلاف وہ خود روایت کرتے ہوں، تمتع حج کے بارے میں حضرت عمرؓ سے ان کا جو اختلاف ہوا ہے ، اس سلسلہ میں ان کا یہ مشہور قول ان کی بر ملا حق گوئی کی واضح دلیل ہے ، انھوں نے فرمایا کہ : ’’ قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں ، میں کہتاہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااور تم لوگ کہتے ہو ابوبکر نے کہا ، عمر نے کہا ‘‘۔
(س)  اگر ابن عباسؓ کی حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے ، تو قرون اولیٰ میں صحابۂ کرام کے صلاح وتقویٰ ، علم واستقامت اور غایت اتباع کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے تین طلاقوں کو ایک جانتے ہوئے حضرت عمرؓ  کا حکم قبول کرلیا ہوگا ، اس کے باوجود کسی سے بہ سند صحیح یہ ثابت نہیں کہ اس نے حدیث ابن عباسؓ کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔

(ص) مخالفین کا کہنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین طلاق سے تین کے نفاذ کا حکم سزا کے طور پر جاری کیا تھا ؛ اس لئے کہ ایسے کام میں جس پر بڑے غور وفکر کے بعد اقدام کرنا چاہئے تھا ، لوگوں نے عجلت سے کام لینا شروع کر دیا تھا ؛ لیکن یہ بات تسلیم کرنا موجب اشکال ہے ، اس لئے کہ حضرت عمرؓجیسا متقی عالم وفقیہ کوئی ایسی سزا کیسے جاری کرسکتا ہے ، جس کے اثرات مستحق سزا تک ہی نہیں محدود رہتے ؛ بلکہ دوسری طرف (یعنی بیوی کی طرف) بھی پہونچتے ہیں ۔ حرام فرج کو حلال کرنا اور حلال فرج کو حرام کرنا اور حقوق رجعت وغیرہ کے مسائل اس پر مرتب ہوتے ہیں ۔

غرضیکہ ۱۴۰۰ سالہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے محدثین، مفسرین ،فقہائ، علماء خاص کر چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) اور ان کے تمام شاگردوں کا اجماع ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے سے تین ہی واقع ہوں گی۔ یقینا بعض حضرات کا مسئلہ مذکورہ میں اختلاف ہے، لیکن اس نوعیت کا اختلاف اجماع امت میں حائل نہیں ہوسکتا ہے، ورنہ تو کسی بھی مسئلہ پر اجماع امت نہیں ہوسکتا ۔


محمد نجیب قاسمی سنبھلی

 (www.najeebqasmi.com)

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 829