donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Bada Naseeb Wala Woh Hai Jise Malike Haqiqi Ka Thar Aur Auliyae Allah Ki Mayyat Mil Jaye

بسمہٖ تعالیٰ


 بڑا نصیبہ والا ہے وہ جسے مالک حقیقی کا در اور اولیاء اللّٰہ کی معیّت مل جائے 


محمد ضمیر رشیدی

(وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر

                                 کسی بادشاہ نے ایک باز پالا تھا۔ باز بہت خوبصورت تھا۔اسکے پر گھنے تھے، پیر کے ناخن لانبے اور چونچ خمدار۔ بادشاہ کو اپنے باز سے بڑی محبت تھی۔شاہی خرچ سے باز کی پرورش ہوتی تھی۔ایک دن کی بات ہے کہ باز بادشاہ کے محل سے جا اڑا۔ اور دور گائوں میں ایک بڑھیا کی جھونپڑی میں گر پڑا۔ بڑھیا کو باز پر بہت ترس آیا۔بڑھیا نادان اورکم فہم تھی۔اس نے ازراہ ہمدردی باز کے پر اس لئے نوچ ڈالے کہ ان پروں کے بوجھ سے باز کو اڑنے میں پریشانی ہوتی ہوگی، چونچ کو گھس کر سیدھا کردیا کہ ٹیڑھی چونچ سے کھانے پینے میں تکلیف ہوتی ہوگی اور پیروں کے ناخن تراش دیے کہ بڑے ناخن سے اس کو چلنے میں تکلیف ہوتی ہوگی۔ادھر باز کی گمشدگی سے بادشاہ کا برا حال تھا۔بادشاہ غمگین اور اداس ہو گئے۔چند دنوں کے بعد بادشاہ کو بتایا گیا کہ فلاں گائوں کی ایک بڑھیا کے پاس باز موجود ہے۔بادشاہ کے حکم پر سپاہی باز کو بڑھیا کے پاس سے لے آئے اور بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا۔بادشاہ سلامت نے باز کی جب یہ حالت دیکھی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔مصاحبوں نے کہا کہ ہم مزید باز جنگل سے لے آئیں گے۔بادشاہ دانا و حکیم تھے۔انھوں نے نہایت گہرائی و گیرائی کی دو باتیں کہیں کہ اس باز کو شہر میں گھمایا جائے اور یہ منادی لگا ئی جائے کہ جو کوئی مالک کا در چھوڑتا ہے نیز جو کوئی نا اہل کے ہاتھ لگتا ہے اس کا حشر و انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

        اس حکایت میں اہل ایمان کے لئے ایک زبردست سامان عبرت موجود ہے۔ وہ یہ کہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اولیاء اللّٰہ وبزرگان دین کی صحبت اٹھائیں اور نا اہلوں کی صحبت سے سخت اجتناب برتیں ۔آپ ؐنے معراج میں جنت و دوزخ کے احوال کو دیکھا ہے۔ اس لئے سید الکونین پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ بینا ہیں اور ہم امتی نابینا ۔ نیز نابینا کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ بینا و جانکار کی اتباع کرے ۔ چونکہ کفا ر و مشرکین اور ملحد ین خدا کے انکاری ہیں ،ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے یعنی بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، جنہوں نے ھدایت کے بدلے گمراہی کا سودا کیا ہے،جو مغضوب ہیں اور کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ،جنہوں نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنایا ہے ،اس لئے یہ لوگ نا اہل ہیںاوران کی اتباع کرنا دارین میں ہلاکت و بربادی کو اپنے لئے یقینی و لازم بنانا ہے۔ 

        صحبت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسے یوں بھی سمجھایا اور بتایا جاتا ہے کہ جیسوں کے ساتھ میں رہو گے ویسے بن جائو گے۔ آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے۔جو کوئی مردہ انڈا مرغی کی صحبت اختیار کر لیتا ہے اس میں جان پڑ جاتی ہے اور اس میں مرغی کے خواص پیدا ہو جاتے ہیں۔کسی چھوٹے بچہ کے پاس پہنچ کر بڑی عمر کے لوگ بھی اس سے توتلی زبان میں بات کرتے ہیںاور اس کے جیسی حرکات و سکنات کرنا شروع کر دیتے ہیں ، خواہ وہ سائنسداں ہو یا پروفیسر۔گلاب کے پودے کے نیچے کی مٹی خود گلاب کی خوشبو سے مہکنے لگتی ہے۔ الحاصل یہ کہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔اس لئے ہر انسان کو اچھے ہمنشین کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ 

           ٹھیک اسی طرح دین میں رسوخ و کمال حاصل کرنے کے لئے خاصان خدا و مردان خدا کی صحبت اختیار کرنے کی اہمیت و ضرورت سے انکار محال ہے۔کتابوں سے علم حاصل ہو سکتا ہے مگر دین نہیں۔ دین صحبت پر منحصر ہے۔سرجن، موسیقار اور خوش نویس بننے کے لئے اس فن کے ماہر کی صحبت اختیار کرنے سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔تو اصلاح نفس و  تزکیہ قلب و تجلیہ روح کے لئے بھی کسی ماہر کی ضرورت کیوں نہ ہو ؟ آپؐ کی بعثت کی اغراض چہار گانہ یہ ہیں :کلام اللّٰہ شریف کی آیات پڑھکر سنانا۔تزکیہ کرنا۔کتاب سکھانا ۔ حکمت سکھانا۔اس سے معلوم ہو ا کہ محض ’’الکتاب‘‘ سے کوئی شخص دین کی حقیقت سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو حق تعالیٰ شانہ آسمان سے ’’الکتاب‘‘  نازل فرماتے اور اسے پڑھکر انسان ھدایت کا راستہ اپنا لیتے۔لہٰذا کتاب اور صاحب کتاب دونوں ضروری ہیں ۔صحبت کی اہمیّت اتنی زیادہ ہے کہ حضورؐ کی صحبت کا فیض اٹھانے سے ہی صحابہ کو ’’رضی اللّٰہ عنہم و رضو عنہ ‘‘ کا  مژدہ سنایا گیا۔ صحابہ ثقہ ہیں۔عادل ہیں ، جھوٹ سے بری ہیں۔اور اسی بناء پر ان کی عدالت تسلیم کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ جس کسی نے آپؐ کی جتنی زیادہ صحبت اٹھائی وہ دنیا و آخرت میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ ہوا۔
ََِ     اس لئے اہل ایمان خاصان خداو بزرگان دین کی صحبت کو اختیار کریں اور ان سے روحانی فیض حاصل کریں کہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ۔اسی طرح علماء سے محبت کرنے کی تاکید ایک حدیث میں اس طرح آئی ہے ۔ ’’  تم یا تو عالم بنو، یا علم توجہ سے سننے والے بنو، یا علم اور علم والوں سے محبت کرنے والے بنو، ان چاروں کے علاوہ پانچویں قسم کے مت بنو ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔ پانچویں قسم یہ ہے کہ تم علم اور علم والوں سے بغض رکھو۔‘‘

    حضرت لقمان حکیمؑ نے اپنے بیٹے کو علماء و حکماء کی صحبت اختیار کرنے اور جاہلوں سے بچنے کی نصیحت کی ہے۔ آپ علیہ السلام  فرماتے ہیں:بیٹا نیک لوگوں کے پاس اپنی نشست کثرت سے رکھا کرو کہ ان کے پاس بیٹھنے سے نیکی حاصل کر سکو گے اور اگر ان پر کسی وقت اللّٰہ کی رحمت خاصہ نازل ہوئی تواس میں سے تم کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا کہ جب بارش اترتی ہے تو اس مکان کے سب حصوں میں پہنچتی ہے اور اپنے آپ کو برے لوگوں کی صحبت سے دور رکھو کہ ان کے پاس بیٹھنے سے کسی خیر کی امید نہیں اور ان پر کسی وقت عذاب ہوا تو اس کا اثرتم تک پہنچ جائے گا۔جاہل سے دوستی نہ کر و ایسا نہ ہو کہ اس کی جہالت کی باتیں اچھی معلوم ہونے لگیں اور حکیم سے دشمنی مول نہ لو ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے اعراض کرنے لگے اور پھر ان کی حکمتوں سے تم محروم ہو جائو۔نیز اپنے کاموں میں علماء سے مشورہ لیا کرو۔‘‘  
         اہل اللّٰہ و رجال اللّٰہ کون ہیں؟ سچے عاشقین و صادقین کون ہیں؟ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کو دیکھنے سے اللّٰہ یاد آتا ہے، آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے،یہ پاک نفوس قرآن و حدیث سناتے ہیںاورکتاب و حکمت سکھاتے ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ان کی صحبت اٹھانے سے علم یقین میں مبدّل ہوتا ہے اور نیک کاموں کا شوق بڑھتا ہے ۔وہ اپنے علم سے دنیا نہیں کماتے۔ان کے قول و فعل میں تعارض نہیں ہوتا۔ وہ سادگی اختیار کرتے ہیں اور اعتدال کی راہ اپناتے ہیں ۔سلاطین و حکام سے دور رہتے ہیں ۔یقین کوسیکھتے سکھاتے ہیں کہ یہی اصل راس المال ہے۔ اللّٰہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ دینی علوم میں بصیرت رکھتے ہیں، وغیرہ۔

        قرآن مجید میں اللّٰہ جل شانہ کا ارشاد ہے۔’’اور اپنے آپ کوان لوگوں کے ساتھ جمائے رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، وہ ا س کی رضا کے طالب ہیںاور تمھاری آنکھیں حیات دنیا کی رونق کی خاطران سے ہٹنے نہ پائیں۔ ‘‘(سورہ : الکہف ۔ آیت نمبر:۲۸ )۔اسی طرح اہل ایمان کو سچوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔’’اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ـ‘‘  (سورہ :توبہ ۔ آیت نمبر:۱۱۹ )

    اب جب کہ ا للّٰہ کے فضل و کرم سے رمضان المبارک کے مقدس ایام میں ہم اہل ایمان کومالک حقیقی کا در اور اہل حضرات کی صحبت نصیب ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس تعلق کو اپنی باقی زندگی میں جاری رکھیں ۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ واقعی ہم نے رمضان المبارک سے پورا پورا فائدہ اٹھا لیا۔

:::::::::    ختم شد   :::::::::::::   

Comments


Login

You are Visitor Number : 733