donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Nifs Ka Tazkia Karne Wala Kamiyab Hai Aur Idko Barbad Karne Wala Na Murad

 !نفس کا تزکیہ کرنے والا کامیاب ہے اور اس کو برباد کرنے والا نامراد 


 محمد ضمیر رشیدی

(وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر

Mob. 9403770333

                        تجارت کی منڈیاں، صنعتوں کی بہتات، معاشیات کی مضبوطی، حکومت و سیاست کی بالا دستی، دنیا وی سازو سامان کی کثرت،محلات و باغات، عالی شان کوٹھیاں، عہدے و مناصب، اولاد اور کنبہ و قبیلہ، لباس فاخرہ، انواع و اقسام کے لذیذ پکوان وغیرہ اگرچہ دنیا کی وقتی و ظاہری کامیابیوں کی مختلف شکلیں و صورتیں ہیں ، تاہم ان کا ملنا یا نہ ملنا رب تعالیٰ کی رضا و خوشنودی یا غیظ و غضب کا پیمانہ نہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ان ساری چیزوں کا تعلق انسان کے جسم میں سانس کے دخول و خروج کے ساتھ وابستہ ہے۔با الفاظِ دیگر موت کے وارد ہوتے ہی ان ساری چیزوں کا تعلق انسان سے منقطع ہو جا تا ہے۔ لہذا یہ چیزیں اصل اور حقیقی کامیابی کی چیزیں نہیں ہیں۔تب کامیابی اور نا کا می کیا ہے؟ اصل کامیابی وہ ہے جو مل کر ختم نہ ہو اور اصل نا کامی وہ ہے جو آکر ختم نہ ہو۔چنانچہ فانی و باقی کے اسی  تقابل کو بنیاد بناتے ہوئے قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’’جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا او ر جو کچھ اللّٰہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۶)

           کامیابی اندر کے حال کا نام ہے ۔دل کی مایا کا نام ہے۔یعنی ایمان و یقین ، صبر و شکر، توکل ، تسلیم و رضا ، احسان،  ،تقویٰ، تزکیہ قلب و روح، اللّٰہ کا دھیان، تعلق با للّٰہ، اللّٰہ کی یاد اوراسکی محبت وکبریائی و پاکی میں ڈوبا ہوا دل وغیرہ یعنی ایک لفظ میں ’’
 قلبِ سلیمــ‘‘۔ اگر انسان کے پاس سب کچھ ہو مگر قلب ِسلیم نہ ہو تو پھر ایسے انسان کی کوئی قیمت نہیں جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے صاف ظاہر ہے۔      

      نبی اکرم ـ ؐ  کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر تھے کہ ایک شخص سامنے سے گذرا ۔حضور ؐنے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے۔ عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ، شریف لوگوں میں ہے ۔ واللہ!  اس قابل ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیام دیدے تو قبول کیا جائے۔ کسی کی سفارش کر دے تو مانی جائے۔ حضورؐ  سن کر خامو ش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک اور صاحب سامنے سے گذرے۔ حضورؐ نے ان کے متعلق بھی سوال کیا۔ لوگوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ؐ ، ایک مسلمان فقیر ہے ۔ کہیں منگنی کرے تو بیا ہا نہ جائے۔ کہیں سفارش کرے تو قبول نہ ہو، بات کرے تو کوئی متوجہ نہ ہو۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ اس پہلے جیسوں سے اگر ساری دنیا بھر جائے تو ان سب سے یہ شخص بہتر ہے۔ 

                     نبی اکرمؐ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دنیاوی مال و متاع ، شرافت و افتخار،قابلیت و لیاقت کی کوئی قیمت نہیں اگر دل ایمان و یقین سے خالی ہو۔ دنیا و مافیھا کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب سے اللہ نے اس دنیا کو بنا یا ہے کبھی التفات کی نظر سے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ اور اگر اس دنیا کی محبت رب تعا لیٰ کے یہاں ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللّٰہ جل شانہ‘ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتے۔اس دنیا کی زندگی کو ’’متاعِ قلیل ‘‘ کہا گیا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل ایمان کا بھی منتہائے نظر اب دنیا کی کامیابی ہو کر رہ گیا ہے۔عیش و عشرت اور تعیش کے لئے دنیا کی طلب پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اہل ایمان اللّٰہ کے آخری پیغام کے اصل حاملین و دائی گروہ ہیں لہذا ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل دنیا کی ’’کامیاب دنیا‘‘  پر ہرگز ہرگز رال نہ ٹپکائیں بلکہ آخری نبیؐ کے امتی ہونے کے ناطے ان کی’’ برباد آخرت‘‘ پر آنسو بہائیںکہ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہنم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل ایمان کو شہادت علی الناس اور اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کی کوئی فکر لا حق نہیں۔اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اب ان کی بھی فکر و سوچ پر دنیا کی زندگی ایسی حاوی ہو گئی ہے کہ وہ دنیا کی لذّ ات و پر تعیش زندگی میں غیروں سے ذرا بھی پیچھے رہنا نہیںچاہتے۔حالانکہ وہ جس نبی امُیؐ کے نام لیوا ہیں اور ان کی اتباع ہر حال میں ضروری ہے، انھوں نے پہاڑوں کو سونابنانے کی رب تعالیٰ کی پیش کش پر انکار کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ سخت ترین حالات میں بھی وسعتِ دنیا کی دعا کرنے پر حضرت عمر فاروقؓ  جیسے جلیل ا لقدر صحابی کو تنبیہ فرمائی تھی،  جسے خود حضرت عمرؓ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

        ایک مرتبہ میں دربارِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوا  تو دیکھا کہ حضور ؐ ایک بوریئے پر لیٹے ہوئے ہیں جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جسم اطہر پر بوریئے کے نشانات بھی ابھر آئے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گھر کا کل سامان یہ تھا۔ تین چمڑے بغیر دباغت دیئے ہوئے اور ایک مٹھی جوَ۔ اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہ دیکھ کر میں رو دیا۔ حضور ؐنے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو۔ پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ ؐ کیوں نہ روئوں کہ یہ بوریئے کے نشانات آپ کے بدن مبارک پر پڑے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ  دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللّٰہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ان پر یہ وسعت، یہ قیصر و کسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللّٰہ کے رسول اور اس کے خاص بندہ ہو کر یہ حالت، نبی اکرم ؐ تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔میری بات سن کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا  ’’  عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو، آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہتر ہے۔ ان کفار کو اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول  اللہ ؐ میرے لئے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔

    البتہ دین اسلام پر عمل کرنے پر بطور انعام اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے حیات طیبہ موعود ہے۔
’’ چاہے کوئی مرد ہو یا عورت نیک عمل کر کے آ وے اور صاحب ایمان ہو تو ہم ایسے لوگوں کو حیات طیبہ عطا کریں گے ۔‘‘(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۷)

    اور یہ حیات طیبہ کیا ہے۔ حیات طیبہ در اصل حیات خبیثہ کی ضد ہے۔  حیات طیبہ عین وہی چیزہے جس میں ہر طرح کا سکون ، عافیت ،آسانی وغیرہ شامل ہیں۔ حیات طیبہ میں نیک بیوی، فرماں بردار اولاد، خاتمہ بالخیر،حلال و آسان روزی، سکون و طمانیت، غنائے قلبی، خلقت میں محبت و رعب اور دبدبہ وغیرہ کے علاوہ ہر وہ چیز شامل ہے جن کے حصول کے لئے دنیا کے عام انسان سخت تگ و دو میں رہتے ہیں ۔مگر دین پر عمل کرنے پر بطور انعام مومن کوحق جل شانہ‘ حیات طیبہ سے نوازدیتے ہیں۔

        اہل ایمان اللّٰہ کے آخری محفوظ و موجود کلام کے حامل ہونے کے ناطے دنیائے انسانیت کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ و ہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی سے اس کاعملی ثبوت پیش کریں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔اصل کامیابی رب کی رضامیں پوشیدہ ہے ۔ کامیابی اس کے لئے ہے جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔اصل کامیابی وہ ہے جہاں جنت کی نعمتیں کبھی بھی ختم نہ ہوں گی بلکہ بڑھتی ہی جائیں گی۔اور جہاں رب تعالیٰ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہوگی۔جہاں اللّٰہ تعالیٰ خود بندوں کو قرآن شریف پڑھ کر سنائیں گے۔ اور رب تعا لیٰ اعلان فرما دیں گے کہ اے میرے بندو! اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوئو ںگا۔ 

           تاہم آخرت کی غیبی زندگی کی کامیابی کو حقیقی کامیابی سمجھنا اور دنیا کی مشاہدہ والی زندگی پراس کو ترجیح دینا کوئی سادہ بات نہیں۔بندہ سے مطلوب ہے کہ وہ ایمان و احتساب کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔واضح ہو کہ احتساب اس بات کو کہتے ہیں کہ بندہ کو عمل کے دوران عمل کی فضیلت و قیمت کا استحضار حاصل ہو۔ مثلا ً  اہل ایمان ایک مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ کر اتنا خوش ہوگا کہ  ہفتِ اقلیم کی سلطنت بھی اسے پھیکی لگے گی کہ ہفتِ اقلیم کی سلطنت تو ایک روز چھوٹ جائے گی مگر ایک مرتبہ سبحان اللّٰہ کا  اجرو ثواب کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔درحقیقت ایمان واحتساب کے ساتھ اگر عمل کیا جائے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے ۔اس لئے ہر اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلی اشد ضرورت جانتے ہوئے دین میں کامیابی کا شرح صدر حاصل کریں کہ یقین بغیر دین پر عمل آوری نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کو حضرت لقمانؐ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی صورت میں اس طرح سمجھایا ہے ۔ ’’  بیٹا! نیک عمل اللّٰہ تعالیٰ شانہ‘ کے ساتھ یقین بغیر نہیں ہو سکتا۔ جس کا یقین ضعیف ہوگا اس کا عمل بھی سست ہوگاــ‘‘۔خلاصئہ کلام اینکہ نفس کے تزکیہ کی منزل یقین کی راہ سے ہو کر گذرتی ہے ۔ کامیابی و ناکامی کی کسوٹی کا اعلان قرآن مجیدبیان کرتا ہے:

  ’’ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے برباد کیا وہ نامراد۔ ۔‘‘(سورہ : ا لشمس۔ آیت نمبر:۹۔۱۰)



:::::::::    ختم شد   :::::::::::::   

Comments


Login

You are Visitor Number : 829