donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Ijtehad Ya Inheraf

 

اجتہاد یا انحراف؟
 
شاہنواز فاروقی
 
مسلم دنیا میں اس سوال پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا جسے بعض لوگ لاعملی کی وجہ سے مسلمانوں کا زوال بھی کہہ دیتے ہیں کیا سبب ہے؟ ایک زمانے میں اس سوال کا یہ جواب کافی مشہور تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب تصوف ہے جس نے مسلمانوں کو بے عمل بنا دیا ہے۔ بعض لوگوں کے ہاں اس جواب پر اصرار اتنا بڑھا کہ تصوف کی پوری روایت کو غیر اسلامی سمجھا جانے لگا اور کہا جانے لگا کہ تصوف دراصل اسلام کے خلاف عجم کا سازش ہے۔ حالانکہ تصوف کی جڑیں قرآن وسنت میں پیوست ہیں اور تصوف کا مطلب اسلام کو مرتبہ احسان میں بسر کرنے کے سوا کبھی کچھ نہ تھا۔ مسلمانوں کے مبینہ زوال کی ایک وجہ تقدیر پرستی کو بھی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ مسلمانوں میں بے عملی پیدا ہی تقدیر پرستی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ کے درمیان اس امر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام سے دور ہوگئے ہیں اور اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مسلمان ایک بار پھر اپنے خالق ومالک اور قرآن وسنت سے زندہ تعلق پیدا کرلیں۔ لیکن سیکولر، لبرل اور جدیدیت پسند افراد اسی مسئلے پر ’’غور‘‘ کرتے ہیں تو انہیں اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمد نے 20 جنوری 2013 کے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں اس بات کو ایک نئے انداز میں دہرانے کی کوشش کی ہے۔
 
انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چونکہ یورپ کی ساری ترقی کا راز سیکولرازم ہے اس لیے عالم اسلام باالخصوص پاکستان کی پسماندگی اور زوال کا علاج بھی یہ ہے کہ اہل پاکستان سیکولرازم کو گلے سے لگالیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی مشکل یہ ہے کہ وہ بھی کھل کر یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ پاکستان اسلام کو چھوڑ کر سیکولرازم کو اختیار کرلے اسی لیے انہوں نے یورپ کے حوالے سے سیکولرازم کا ترانہ گانے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اسلام اجتہاد پر زور دیتا ہے اور ہم اگر اجتہاد کا راستہ اختیار کرلیں تو پاکستان میں وہ تمام ’’تبدیلیاں‘‘ آسکتی ہیں جو یورپ میں آئیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی مذہبی اشرافیہ اجتہاد کی مخالف ہے۔ بلاشبہ اسلام میں اجتہاد کا تصور موجود ہے اور ضرورت پڑے تو مسلمانوں کو اجتہاد کے تصور سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے مگر ہمارے سیکولر اور لبرل طبقات کا مسئلہ اجتہاد ہے ہی نہیں۔ وہ دراصل اجتہاد کے ذریعے اسلام سے ’’انحراف‘‘ چاہتے ہیں۔ یعنی ان کی خواہش یہ ہے کہ اسلام سے انحراف پر اجتہاد کا لیبل لگا ہوا ہو تاکہ اسلام سے جان بھی چھوٹ جائے اور اسلام سے جان چھڑانے والے اس کے مضمرات سے بھی محفوظ رہیں۔ یہاں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ مسلم معاشرے میں تبدیلی کے اصول یا اجتہاد سے واقف ہیں تو پھر انہوں نے اپنے مضمون میں یورپ کی سیکولر تاریخ کا ذکر ہی کیوں کیا ہے؟ اس لیے کہ مسلمان تبدیلی کے لیے سیکولرازم کے نہیں اجتہاد کے پابند ہیں۔ کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیکولرازم اور اجتہاد ہم معنی الفاظ یا تصورات ہیں۔؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو ڈاکٹر صاحب کو پاکستان اور مسلم دنیا کے حوالے سے تبدیلی کے لیے صرف اجتہاد کے تصور اور اس کی ضرورت پر زور دینا چاہیے تھا اس لیے کہ مسلمان سیکولرازم سے ہزار گنا زیادہ اجتہاد سے آگاہ ہیں اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو ڈاکٹر صاحب کو بتانا چاہیے کہ سیکولر ازم اور اجتہاد کے بیک وقت ذکر کی کیا علمی مظق ہے؟ سیکولرازم کی کائنات ایک بے خدا کائنات ہے یا سیکولر فکر کی کائنات انسان مرکز ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی کائنات کل بھی خدا مرکز تھی۔ آج بھی خدا مرکز ہے اور قیامت تک خدا مرکز رہے گی اور اگر اسلام کی کائنات خدا مرکز نہ رہے تو مسلمان خواہ مریخ پر جھنڈا گاڑ دیں اور ہر مسلمان کروڑ پتی بن جائے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام میں اجتہاد کا تصور کیا ہے؟
 
اسلام میں رہنمائی کے چار ستون ہیں۔قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ مسلمان کو جن معاملات میں قرآن وسنت اور اجماع سے براہ راست رہنمائی فراہم ہوجاتی ہے ان معاملات میں اجتہاد کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ اگر کسی معاملے میں قرآن وسنت اور اجماع سے رہنمائی فراہم نہ ہو تو قیاس یا اجتہاد سے کام لیا جاسکتا ہے۔ اور اجتہاد کا مفہوم معنی کو نئے اسلوب میں دریافت کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ کام آسان نہیں۔ اس لیے کہ یہ کام صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کو اسلام کے معنی پر اس طرح عبور ہو کہ وہ ان کو ایک نئے اسلوب میں بیان کرسکے۔ ایسے شخص کو اسلام میں مجتہد کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے سیکولر اور لبرل افراد اجتہاد سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وحی پر انسان کی انفرادی عقل حاوی ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو انسان کی عقل پر اتنا ہی اصرار ہے تو پھر وحی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب چاہیں تو اجتہاد اور انحراف کے فرق کو شاعری کی دواصطلاحوں ’’آمد‘‘ اور ’’آورد‘‘ کے ذریعے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ’’آمد‘‘ الہام ہے آورد صرف انسانی کوشش یا ’’محنت‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آمد والی شاعری حقیقی اور بڑی شاعری ہوتی ہے اور آورد والی شاعری محض شاعری کا دھوکا ہوتی ہے اس لیے کہ اس کا تعلق الہام سے نہیں ہے بلکہ وہ صرف ’’انسانی محنت‘‘ کا حاصل ہے۔ مطلب یہ کہ اجتہاد کے لیے پی ایچ یا کسی مدرسے کی سند کی نہیں الہام کی اعلیٰ ترین صلاحیت درکار ہے۔ اس کے بغیر اجتہاد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک عام ڈاکٹر کو دماغ کا پیچیدہ آپریشن کرنے پر لگا دیا جائے۔ چونکہ مسلم معاشروں میں حقیقی اجتہادی اہلیت کا فقدان ہے اس لیے مذہبی اشرافیہ اجتہاد سے گریز کرتی ہے۔ ڈاکٹر مونس احمد چاہیں تو مسلم معاشروں کو اس بات پر مطعون کرسکتے ہیں کہ تم میں حقیقی اجتہادی اہلیت کیوں نہیں پائی جاتی مگر وہ ایسا کیوں کریں؟ وہ اجتہاد تھوڑی چاہتے ہیں وہ تو اسلام سے انحراف چاہتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنے مضمون میں یورپ کی فکری تاریخ بیان کی ہے اور مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ترقی‘‘ کرنی ہے تو جس طرح یورپ نے سیکولرازم کو اختیار کیا اور مذہب کو خیرباد کہا تم بھی سیکولرازم کو گلے لگا لو اور اسلام کو خیرباد کہہ دو۔ لیکن اگر وہ کھل کر یہ لکھ دیتے کہ اسلام کو گڈبائی کہہ دو اگلے دن چار لوگ ان سے پوچھ لیتے کہ انہوں یہ کیوں لکھا چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو اجتہاد اجتہاد کھیلنے کا مشورہ دیا ہے۔
 
ڈاکٹر مونس احمد نے اپنے مضمون میں مارٹن لوتھر کی تحریک کو سراہا ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اسلام میں اب تک اس قسم کی کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی۔ مارٹن لوتھر کی پروٹیسٹنٹ تحریک نے بائبل کے 12 ابواب کو افسانہ افسوں کہہ کر مسترد کردیا تھا کیا ڈاکٹر مونس احمد چاہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی ایسی تحریک برپا ہو جو معاذ اللہ قرآن مجید کے 12 سپاروں کو افسانہ وافسوں کہہ کر مسترد کردے۔ بلاشبہ مارٹن لوتھر کی تحریک مذہب کی اصلاح کے لیے تھی مگر یہ تحریک عیسائیت کے انکار پر منتبح ہوئی۔ تو کیا ڈاکٹر صاحب کی تنما ہے کہ اسلام میں بھی اصلاح کی ایسی تحریک برپا ہو جو بالآخر اسلام ہی کا انکار کردے۔
 
ڈاکٹر مونس احمد نے یورپ کی ساری ترقی اور کمالات کو سیکولرازم سے منسوب کیا ہے مگر مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ساری ترقی اور کمالات اسلام کا حاصل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلمانوں نے سیکولرازم کے بغیر آدھی سے زیادہ دنیا فتح کی۔ دنیا میں مذہبی متن یا Text کی تفسیر کی سب سے بڑی روایت پیدا کی۔ انہوں نے سیکولرازم سے استفادے کے بغیر علم حدیث پیدا کیا۔ فقہ کا تاج محل تعمیر کیا۔ مسلمانوں نے دنیا میں شاعری کی سب سے بڑی روایت پیدا کی ہے اور اس میں سیکولرازم کا کوئی دخل نہیں۔ مسلمانوں نے سیکڑوں عظیم مورخ، ماہر عمرانیات، ماہر کیمیا اور ماہر فلکیات وغیرہ بھی سیکولر فکر کے بغیر ہی پیدا کیے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی امت کو سیکولرازم کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی مذہبی اشرافیہ کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے اشرافیہ صرف مذہب میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ہم چاہتے ہیں کہ سابق سوویت یونین ہی کیا ہر کمیونسٹ ملک میں ایک کمیونسٹ اشرافیہ موجود تھی۔ دنیا کے ہر سیکولر اور لبرل معاشرے میں بھی ایک سیکولر اور لبرل اشرافیہ پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ادب، صحافت اور درس وتدریس کے شعبوں میں بھی اشرافیہ پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں خود اسی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 970