donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ali Zaheer Naqvi
Title :
   Fateh Koofa wa Sham Janab Zainab Ka Darbar Yazeed Me Aik Inqalabi Khutba

فا تح کوفہ وشام جناب زینب کا دربار یزید میں ایک انقلابی خطبہ


علی ظہیر نقوی

 

تاریخ اسلام میں مقدس وبلند مرتبہ خواتین کے مثالی کردار فراوانی کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن جہاد کربلا کی شیر دل خاتون بنت علی جناب زینب نے صبر وتحمل ، ایثار و قربانی ،پائے استقامت اور شجاعت حیدری کے جولاثانی نقوش چھوڑ ے ہیں تاریخ ایسامثالی کردار پیش کرنے سے قاصر ہے۔

تاریخ انسانی کا وہ عظیم انقلاب کربلاجس نے ڈوبتے ہوئے سفینۂ اسلام کو حیات نوبخشی وہ اپنے قصد کی کامیابی کو پہونچ ہی نہیں سکتا تھا اگر ثانی زہرا حضرت زینب نے بعد عاشورا کوفہ وشام کی منزلیں سرنہ کی ہوتیں ۔مقصد قربانی حسینؑ کا زمانہ کو علم تک نہیں ہوتا اگر نقیب کربلا زینب نے بازار کوفہ وشام اور دربار یزید وابن زیاد میں لہجہ علی ؑ میں دمشق کے ظالم حکمراں یزید کے ظلم کا برملا اعلان نہ کیا ہوتا ۔ زینب بنت علی ؑ نے اپنے بلیغ خطبوں سے حکومت دمشق کے ایوانوں میں انقلاب برپا کرکے اموی حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور آپ نے مقصد قربانی امام مظلوم کی تشہیراس طرح کی کہ مردہ ضمیر انسانیت کانپ اٹھی۔

حقیقتاً واقعہ کربلا اور مقصد شہادت سید الشہداء ارض کربلا پرہی دم توڑ گیاہوتا اگر ثانی زہرا زینب نے اظہار حق اورآزادی ضمیر کا لاثانی کردار زمانے کے سامنے پیش نہ کیا ہوتا۔

پروفیسر فضل امام نے اپنی کتاب شریکۃ الحسین میں لکھا ہے:

’’حضرت خدیجہ نے دین اسلام کے قیام کے لیے اپنا سب مال ومتاع قربان کردیا اور حضرت زینب نے بھی بقائے دین کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ حضرت خدیجہ سرور کائنات کی مونس وغمخوار تھیں حضرت زینب نے بھی اپنے بھائی کی غمخواری انتہائی روح فرسا اور حوصلہ شکن حالات میں فرمائی‘‘۔

علامہ رازق الخیری اپنی کتاب سیدہ کی بیٹی میں خطبات زینب کا جاہ وجلال اور دربار یزید میں اس کے اثرات کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں:

’’یزید کا دربار شامیوں سے کھچا کھچ بھرا ہواتھامگر ایسا معلوم ہوتاتھا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہو، ہر شخص بے حس وحرکت اپنی جگہ کھڑا یا بیٹھا تھا جس طرح پتھر کی مورتیاں جن کے ہونٹ چپکے ہوئے تھے۔ ان کے دل دریائے حیرت میں غوطے کھارہے تھے۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب شیر خدا کی بیٹی لاکھوں کے مجمع میں شیر کی طرح دہاڑ رہی تھی اور رعیت کے سامنے ان کے بادشاہ کو للکار رہی تھیں۔خود یزید دانت پیس پیس لیتا اور ہونٹ چباتا اور تائو پیچ کھا رہا تھا مگرزبان سے ایک لفظ نہ نکلتا تھا۔ لہجہ بوتراب میں خطبۂ زینب کی یہ تاثیر تھی کہ مجمع دم بخود ہوجاتا۔ وہ بازار شام وکوفہ اور درباریزید و ابن زیاد جہاں بھی جاتیں زمانہ کو حقیقت سے آشنا کرتیں کیونکہ ایک عام انسان کو اس بات کا علم ہی نہ تھا کہ یزید نے خاندان رسالت کو کس طرح تاراج کیا ہے اور یہ آل رسول ہیں جن کو سربرہنہ اوربے کجاوا اونٹوں پرلے جایا جارہا ہے‘‘۔

دربارِ یزید میں یزید کو مخاطب کرکے حضرت زینب نے جوتاریخی وبلیغ خطبہ دیا ہے وہ ایک طویل خطبہ ہے اس کا ابتدائی اقتباس ملاحظہ کیجئے:

آپ بعد حمد وثنائے خدا اور درودو سلام محمد وآل محمد فرماتی ہیں:

کتنی سچائی ہے خداوندعالم کے اس ارشاد میں کہ جس میں کہا گیاہے:

آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بھی برا ہوا اس لیے کہ انہوںنے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے‘‘

(سورۂ روم آیت۱۰)

کیوں یزید! زمین وآسمان کے تمام راستہ ہم پر بندکرکے اورخاندان نبوت کو عام قیدیوں کی طری در در پھرا کر تو نے یہ سمجھا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں ہمارا جو مقام تھا اس میں کوئی کمی آگئی اور تو خود بڑا عزت دار بن گیا؟ پھر تو اس خام خیالی کا شکار ہے کہ وہ المیہ جس میں ہمیں تیرے ہاتھوں دوچار ہونا پڑا اس سے تیری شان میں کوئی اضافہ ہوگیا اورشاید اسی غلط فہمی کے باعث تیری ناک اورچڑھ گئی اور غرور کے مارے تو اپنے کندھے اُچکانے لگا اور اس پر خوش ہے کہ تونے دنیا کو اپنے لیے ہموار پایا اور اپنے کام درست کرلئے اور ہماری مملکت تجھ کوبے خار وخلش مل گئی، جلد ی نہ کر ذرا دم لے، کیا تونے یہ بات فراموش کردی ہے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے ’’کفار یہ گمان نہ کر یںہم نے انہیںجو مہلت دی ہے اور جو کچھ ہم نے ان کوڈھیل دے رکھی ہے یہ خیر ہے بلکہ ہم اس جماعت کو زمانہ دراز تک چھوڑ رکھتے ہیں تاکہ ان کے گناہ اور بڑھ جائیں، ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب موجود ہے‘‘۔

(آل عمران، آیت ۱۷۸)

اے یزید !ہمارے آزاد کیے ہوئے کے جائے ،کیایہی تیرا عدل ہے؟ اسی کو انصاف کہتے ہیں کہ تیری عورتیں پردے میں ہوں اور نبی زادیوں کی چادریں چھین کر انہیں بے پردہ سربرہنہ ایک شہر سے دوسرے شہر کشا کشاں لے جایا جائے…!

ہزارو ں درود وسلام اس زینب کبریٰ کے نام جس نے انقلاب کربلا کی تشہیر دلوں کو دہلادینے والے اپنے خطبات کے ذریعے اس طرح کی کہ ظالم کے بھرے دربار میںاس کے ظلم کو رسوا کردیا۔ آپ کی شجاعانہ شان یہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی خوف وخطر کے یزید کے اراکین حکومت اور اس کے دست بہ شمشیرلشکری کمانڈروں کے حلقہ میںیزید کو اس کی اوقات بتاتے ہوئے اسے طلقہ ابن طلقہ (آزاد کردہ غلام اورآزاد کردہ غلاموں کی اوالاد) کے نام سے خطاب کیا جو آپ کی شجاعت کے نمونوں میں سے ایک ہے، دربار یزید میں فاتح کوفہ وشام جناب زینب کا دمشق کے دربار میں یہ خطبہ بنی امیہ کی تاریخ کو اور ان کے چہرے پر پڑی ہوئی اسلام کی نقاب کو نوچ کر پھینکنے کے لئے کافی تھا۔

یہ خطبات زینب ہی کی تاثیر تھی کہ یزید کو اپنی شکست فاش کا احساس ہوگیا، یہاں تک کہ اس کے دربار میں خود اس کے حلیف اس سے بدظن ہوگئے۔ اگردربار یزید میں بنت علی زینب انقلابی خطبہ نہ دیتیں تو راس الجالوت نامی یہودی دربار یزید میں ہر گز یہ اعلا ن نہ کرتا ۔’’اے یزید! میں تیرے دربار میں کلمہ پڑھتے ہوئے اسلام قبول کرتا ہوں تاکہ میں اونچی آواز میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے تجھ پر لعنت وملامت کرسکوں اورجام شہادت نوش کروں‘‘۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اگر کربلا میںزینب نہ ہوتیںتو انقلاب حسینؑ زمانہ کی تحریفات اور سازشوں کا شکار ہوکر رہ جانا۔ یہ جناب زینب کے بلیغ اور پُر جوش خطبوں کا ہی اثر تھا کہ انقلاب کے سوتے پھوٹے ،عوام بیدا رہوئے اور لوگوں میں ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ تاریخ حضرت زینب کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جس نے دنیا کی مظلوم خواتین کو ظالم کے روبرو ظالم کوظالم کہنے کا حوصلہ بخشا، ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے لکھا ہے کہ جنھوںنے مقصد حسینی کے حصول کی راہ میںجان دی انھوںنے حسینی کام انجام دیا اور جو پیغام حسینی کی رسالت کا کام انجام دے رہے ہیں انہوںنے زینبی کام انجام دیا۔

(یو این این)

*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 563