donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ali Zaheer Naqvi
Title :
   Karbalae Moalla Me Arbain Hussaini

کربلائے معلی (عراق ) میں اربعین حسینی


علی ظہیر نقوی امروہوی

 

۲۰؍صفر سید الشہداء امام حسین ؑ اور ان کے اقرباء واصحاب باوفا کے چہلم کی تاریخ ہے۔ واقعہ کربلا انسانی تاریخ کاایسا انقلاب آفریں واقعہ ہے جس نے نہ صرف یہ کہ ڈوبتے ہوئے سفینۂ اسلام کو حیاتِ نو بخشی بلکہ دنیا کے جابر وظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کو زندگی کا حوصلہ بخشا۔کربلا دنیاکے آمرانہ وجابرانہ نظاموں کے خلاف مرکز ہدایت ہے۔ بقول جوشؔملیح آبادی     ؎

کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے

یوں تو خلقت آدم سے ہی قربان گاہ راہ عشق میں انسانیت کی راہ میں انبیائے کرام اور صالحین خداامتحان کی صبر آزما منزلوں سے گزر کر اپنی قربانیوں کی عملی شہادتیں پیش کرتے رہے ہیں لیکن    ۶۱؁ ہجری میں حسین ؑ ابن علی ؑ نے کربلا میں جو عظیم قربانی دی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ مؤرخ زمانہ حسین مظلوم جیسا کردارپیش نہ کرسکا۔  ۶۸۰؁ء میں فرزندرسول نے اپنے۷۲ ساتھیوں کے ہمراہ انسانی اقدار کے تحفظ اوربقائے اسلام کی راہ میں دمشق کے ملوکی نظام کے خلاف جوقربانی دی تھی وہ کتنی عظیم تھی کہ صدیاں گذ رجانے کے بعد بھی اس شہادت عظمیٰ کی یاد اس طرح قائم ہے جیسے کل کی بات ہو۔ زمانہ محو حیرت ہے کہ اتنی صدیاں گذرجانے کے بعد بھی ذکر حسینؑ کو ایسی آفاقیت کیونکر حاصل ہے! اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ جس نے حق کا احیاء کیاقدرت نے اس کے ذکر کو زندہ رکھا ہے یہ قانون فطرت ہے کہ جوحق کی راہ میںجتنی عظیم قربانی پیش کرتاہے اور پرچم حق کو بلند کرنے میں جو جتناعظیم امتحان دیتا ہے قدرت اس کے ذکر کواتنی ہی بلندی ومعراج عطاکرتی ہے۔ شہیدان کربلانے اسلامی اصولوں کی بقا ء اورانسانیت کی راہ میں جو عظیم قربانی دی ہے قدرت نے اسی سبب ان کے ذکر کو ابدیت وآفاقیت بخشی ہے۔

کربلا میں دینِ محمدی کی بقا اور انسانی اقدار کے تحفظ کی راہ میں خاندان رسالت کا جو خون ناحق بہایاگیا یہ اسی خون ناحق کی تاثیر ہے کہ آج عالمی سطح پر کروڑوں حق پسند انسان اسلام وانسانیت کے عظیم ا ٓئیڈیل سید الشہداء امام حسین ؑ کی بارگاہ میں انہیںخراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
فرزندرسول اما م حسین ؑ کی شہادت کی عظمت اس منزل پر ہے جہاں عناصر فطرت ان کی یاد قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ آپ پرروزِ عاشورہ جو مصائب گذرے ہیں اگر انسانی برادری اس پرصف ماتم بچھانا بند بھی کردے تو فرشتوں کی جماعت تاقیامت آپ کے غم میں گریہ کرتی رہے گی۔شیخ عبدالقادرجیلانی نے غیبۃ الطالبین کے ص ۶۰۴ پر تحریر کیاہے:

’’حضرت حسین ؑ کے مشہد پر روزِ عاشورہ ستّرہزارفرشتے نازل ہوئے جوقیامت تک حضرت پر رویاکریںگے۔‘‘

سیدالشہداء امام حسین ؑ اور شہیدان کربلاکی یاد میںمنعقدکی جانے والی یہ مجالس عزا اور جلوس ہای عزا جودنیاکے مختلف گوش وکنار میںاہل عزا منعقد کرتے ہیں وہ یقینا ان کی ظالم سے بیزاری اورمظلوم سے محبت و عقیدت کے والہانہ اظہار کی مختلف شکلیں ہیں۔ایام عزا (محرم وصفر) کے موقع پر عاشقان شہیدان کربلا دنیابھر میں سوگواری کے پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔یورپی ممالک  کے علاوہ ہندوستان، پاکستان، ایران، افغانستان، لبنان  او ر عراق میں اس طرح کے اجتماعات کا وسیع پیمانہ پر اہتمام ہوتاہے۔

سرزمین کربلا (عراق) جہاں واقعہ کربلا رونما ہواتھا۔ ۲۰صفر اربعین حسینی یعنی چہلم شہیدان کربلا کے موقع پردنیاکا سب سے بڑا اجتماع ہوتاہے جس میں کروڑوں کی تعدادمیں دنیا کے مختلف ممالک سے زائرین کربلا پہونچتے ہیں اورمرجع خلائق امام حسین ؑ کے روضے کی زیارت کرتے ہیں ۔یہ زائرین عراق کے مختلف شہروں اور سرحدی قرب ونواحی علاقوں بالخصوص نجف سے کربلا تک جس کی مسافت ۸۰کلومیٹر ہے، پاپیادہ چلکر آتے ہیں اورروضہ امام حسین ؑ اور روضۂ حضرت عباس ؑ پر حاضری دیتے ہیں۔ سابق ڈکٹیٹر صدام کے دورِ حکومت میں ۳۰سال کے طویل عرصے تک عزاداری کے یہ پروگرام بندشوں کے سبب تقریباً تعطل کا شکاررہے جس کی وجہ سے عزائی اجتماعات کی نوعیت نہ کے برابر رہ گئی تھی۔

ایرانی پریس ،ٹی وی، اوربی بی سی لندن کی ادارتی ویب سائٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں کربلا میںحاضر ہونے والے عقیدت مندزائرین کی تعداد جس میں ۱۸ ملین یعنی ایک کروڑ ۸۰لاکھ تھی جبکہ سال گذشتہ ۲۰۱۵ء میںیہ تعداد بڑھ کر ۵ئ۲ ملین یعنی ڈھائی کروڑ ہوگئی جودنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔یہ بات اپنے آپ میں کتنی عجیب ہے کہ   ۶۱  ؁ ہجری میں جو حسین ؑ میدان کربلا میںیک وتنہار ہ گئے تھے اوران کی آواز استغاثہ ’’ہل من ناصرٍ ینصرنا‘‘ پر کوئی لبیک کہنے والا بظاہر موجود نہ تھا،آج چودہ سوسال بعد ان کی آواز پر کروڑوں لوگوںکی زبان پر’’لبیک یاحسینؑ، لبیک یا حسین ؑ‘‘  کی صدا گونج رہی ہے جومظلومیت حسین کی حقانیت کا زندہ ثبوت ہونے کے ساتھ حسین شہید کی عظیم قربانی کا اعجاز ہے۔

روایات میں ملتاہے کہ اسی روز ((۲۰؍صفر) اسیران کربلا یزیدی گرفت سے رہائی پاکر کربلا پہنچے تھے، جہاں انھوںنے اپنے شہیدوں کا چہلم منایا تھا۔ سید ابن طائوس اور طبری کی روایت کے مطابق اسی دن برگزیدہ صحابی رسولؐ جناب جابرعبداللہ انصاری جو انتہائی ضعیف ہوچکے تھے عطیہ بن سعید کی مصاحبت میںخبر شہادت امام حسین ؑ کے بعد مدینہ سے کربلا پہنچے ہیں۔اس طرح صحابی رسول جناب جابر عبداللہ انصاری قبر امام حسین ؑ کے پہلے زائربھی ہیں ۔یہ سنّت عزأ اپنی تمام تر عقیدتوں کے ساتھ پوری دنیا بالخصو ص کربلامیں آج بھی زندہ ہے۔

مقام عبرت یہ ہے کہ چہلم امام کے موقع پرکربلا میں زائرین امام حسین ؑ کی خدمت کے جس جذبہ کامیںنے ذرائع ابلاغ اورٹی وی چینل کے ذریعہ مشاہدہ کیااور عینی شاہدین سے بھی سنا کہ نجف سے کربلا تک کی شا ہ راہوں پرمختلف سن وسال کے بچے نوجوان خواتین اوربزرگ افراد زائرین کربلاکی خدمت کو اپنا افتخارسمجھتے ہیں اور کوئی ان میں  پانی کی بوتلیں توکوئی خورمہ تو کوئی دودھ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرتاہے توکوئی ٹیشو پیپر اورخلال لئے کھڑا ہوتاہے تاکہ زائرامام حسین ؑ کو کسی معمولی سی چیز کی بھی تکلیف نہ ہو، جبکہ بڑے بڑے ریسٹوران مفت کھانا زائرین کو فراہم کرتے ہیں۔ اس موقع پر اہل عراق زائرین کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑدیتے ہیں اور اپنے گھروں میں آرام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ زائر حسین کے پیروں کی مالش کرنے میں بھی افتخار محسوس کرتے ہیں۔ وہ زائرین کربلا کی خاک آلود نعلین کی گرد کو صاف کرتے ہیں تو کہیں ان پرپالش کرتے نظرآتے ہیںا اوراگر زائر نے ازراہ تکلف منع کردیا تو وہ غمگین ہوجاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمیں اس سعادت سے کیوں محروم کررہے ہو۔تم زائر حسین ؑ ہو تمہاری خدمت ہمارا شرف ہے۔یہ حقیقت ہے جو جذبہ اس دن یہاں اہل عراق کے درمیان دیکھنے کو ملتا ہے وہ آپ کودنیا ک کسی خطّہ میںنظرنہیں آئے گا۔

یہاں کوئی نہیں پوچھتا تمہارا مسلک کیا ہے تم کس ملک سے آئے ہو یہاںہر زائرحسین کو خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو اس کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو، اسے پلکوں پربچھایا جاتا ہے۔ رسولؐ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اتحاد ویکجہتی کے مظاہر جویہاں دیکھنے کو ملتے ہیںوہ بے مثال ہیں۔ جتنی عزت وتوقیر یہاں کہ مقامی باشندو کے ذریعے زائرحسینی کو ملتی ہے اتنی تو کسی بادشاہ کے دربار میں بھی کسی کونہیں ملتی۔

کاش خادمین حرم شریف کے ہاں بھی یہی جذبہ بیدار ہوتا اوروہ رضاکارانہ طورپر زائرین کعبۃ اللہ کی خدمت کرتے۔ خادمین حرم کو اہل عراق کے حسینی معرفت رکھنے والے خدمت گذاروں کے سلیقہ خدمت سے درس حاصل کرنا چاہئے تاکہ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ حج کے موقع پرکسی طرح کاامتیاز نہ ہو۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583