donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Mahmood Kisana
Title :
   Bidat Ya Sunnate Ilahi


بدعت یا سنت الہی


عارف محمود کسانہ

 

اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں فرقہ بندی سے سخت منع کیا ہے اسی لیے اختلافی اور فرقہ وارانہ امور میں الجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی لیکن جب بات اُن کی ہو جو وجہ تخلیق کائنات ہوں اور جن کی نسبت سے ہی سب کچھ ہو تو پھر خاموشی ممکن نہیں۔ حضورﷺ کے ولادت کے حوالے سے میرے گذشتہ کالم کے بعد بہت سے احباب نے عید میلادالنبی ؐ کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا قرآن حکیم ، احادیث مبارکہ اور صحابہ اکرام کے طرز عمل سے حضورپاک ؐ کی ولادت کا تذکرہ اور تفصیلات ملتی ہیں ؟ کچھ احباب عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا کہ نہ ہی رسول اکرم نے اور نہ ہی صحابہ اکرام نے میلاد منایا اس لئے ہمیں بھی نہیں منانا چاہیے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہر سال جب بھی رسول پاکؐ کی ولادت کا دن آتا ہے تو اس طرح کی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال ایک عام مسلمان فرقہ وارانہ بحث اور جذباتی انداز سے ہٹ کر علمی انداز میں دین کی تعلیمات کی روشنی اور دلائل و برہان کے ساتھ اصل صورت حال جاننا چاہتا ہے۔ موضوع نہایت اہم ہے اور ایک کالم میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اس لیے پہلی قسط میں قرآن حکیم ، احادیث مبارکہ اور صحابہ اکرام کے طرز عمل سے حضورپاک ؐ کی ولادت کا تذکرہ دلائل کے ساتھ دیا جارہاہے جس سے یہ واضع ہوجائے گا کہ میلاد مصطفےٰ ؐ کوئی نئی ایجاد نہیں۔ دوسری قسط میں بدعت کے بارے میں تفصیلات پیش کروں کا کہ بدعت کسے کہتے ہیں مزید یہ کہ بدعت اور جدت میں کیا فرق ہے۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے دنیا کے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں نے اپنے پیغمبر یا بانی مذہب کی ذات کو متنازعہ بحث کا موضوع نہیں بنایا جس طرح مسلمانوں نے اپنی نبیؐ کو بنا رکھا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سخت تنبیہ کی حضورؐ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لو یہ نہ ہو سب اعمال ضائع ہوجائیں اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔ دراصل کچھ احباب کو عید میلاد النبی کی اصطلاح سمجھ نہیں آتی اور وہ اس پر معترض ہوتے ہیں۔ عید عربی کا لفظ ہے جس کامعنی خوشی کا تہوار جو بار بار آئے، یہ کوئی مذہبی لفظ نہیں جیسے ہم یوم آزادی کو عید آزادی بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں عید الفطر اور عید الاضحی کا بھی کوئی ذکر نہیں ۔میلاد بھی عربی کا لفظ ہے اور یوم میلاد کا معنی ہے پیدائش کا دن۔ میلاد النبی ؐ سے مراد یہی ہے کہ آپ ؐ کی ولادت کا تذکرہ کیا جائے اور دنیا میں آپ کی تشریف آوری پر مسرت کاا ظہار کیا جائے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن و احادیث اور صحابہ اکرامؓ کے عمل سے میلاد النبیؐ منانا ثابت ہے۔ دین اسلام میں سپریم اتھارٹی قرآن حکیم ہے۔ یہ وحی خدا ہے جس پر خود رسول پاک ؐ بھی عمل کرتے تھے۔ اگر قرآن میں کوئی حکم موجود ہے تو پھر مزید کسی دلیل ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کسی اور نے یہ کیا یا نہیں کیونکہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے اور اس کی ایک آیت کا بھی انکار ایک مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں۔علامہ اقبال نے حضورؐکی نعت لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
یعنی حضورؐ کو مجسم قرآن کہہ رہے ہیں یہ اُس حدیث کی روشنی میں میں جس میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضورؐ کا خلق قرآن تھا اور چلتے پھرتے قرآن تھے۔ کیا حضورؐ اور قرآن الگ الگ ہیں؟ یقیناًنہیں ۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضورؐ مجسم قرآن نہ تھے؟ اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آپ ؐ مجسم قرآن تھے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ اب سورہ یونس کی آیت 58 پر غور کریں ،ارشاد ربانی ہے۔


ان سے کہہ دیں کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ سورہ یونس کی اس آیت کی روشنی میں قرآن کے ملنے پر جشن مسرت منانے کا حکم ہے۔قرآن حکیم چونکہ رمضان میں نازل ہوا اس لیے اس حکم کی تعمیل میں ہم نزول قرآن کے مہینہ کے اختتام پر عید الفطر کی صورت میں جشن مسرت مانتے ہیں اور دوسرا جشن مسرت ربیع الاول میں حضورؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری پرمناتیہیں۔ مجھے اس کوئی غرض نہیں کہ کس نے کیا کِیا میرے سامنے قرآن کا حکم ہے جس پر عمل پیرا ہوں۔ اگر کوئی حضورؐ کو مجسم قرآن تسلیم نہیں کرتا تو وہ یہ جشن مسرت نہ منائے۔کیا قرآن کے اس حکم کے باوجود شکوک و شبہات رہ جاتے ہیں؟ مجھے حیرت ہے ہم اپنے بلکہ دوست احباب کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو خوشی مناتے اور مبارک باد دیتے ہیں لیکنرسول پاکؐ کی پیدائش کا موقع آتا ہے تو تاویلیں شروع کردیتے ہیں۔ کیا اسی کو محبت رسول ؐ کہتے ہیں۔ دنیا میں کسی مذہب کے ماننے والے ایسا رویہ نہیں رکھتے۔ تاریخ میں ہمیں حضورؐ کے یوم ولادت منانے کا کوئی ثبوت ملے یا نہ ملے، میرے یہ حکم کافی ہے کیونکہ میرا ایمان قرآن پر ہے تاریخ پر نہیں۔میلاد کا مطلب ہے پیدائش کا ذکر کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء اکرام کی ولادت یعنی میلاد کا تذکرہ کیا ہے۔ ان انبیاء میں میں حضرت آدمؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کے یوم میلاد پر سلام بھیجا ہے (سورہ مریم آیت 15 اور 33) اس اعتبار سے انبیاء کے یوم ولادت کا ذکر کرنا اور درود و سلام بھیجنا سنت الہی ہے اور ہمیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

اس کے باوجود اگر کوئیتاریخی حوالے چاہتا ہے او ر یہ کہ رسول پاک ؐ او ر صحابہ اکرام کے ہاں ولادت باسعات کا ذکر کیا ملتا ہے تو عرض یہ ہے کہ منانے کا اندز مختلف ہوسکتا ہے اور جیسے دور حاضر میں منایا جاتا ہے ممکن ہے وہ اس نادز میں نہ مناتے ہوں لیکن اصل بات ہے کہ یوم ولادت کو اہمیت دینا۔ میں اس امر کی وضاحت ضرور کانا چاہوں گا کہ یوم ولادت مناتے ہوئے غیر شرعی کاموں کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی ایک مخصوص انداز یا طریقہ کار کو اپنانے اور اسی پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ اصل مقصد حضورؐ کی ولادت کے ذکر سے اپنے دلوں میں محبت رسولؐ کا جزبہ موجزن کرتے ہوئے اپنے کردار و عمل کو اس کی روشنی میں ڈھالنا ہے۔ حضورﷺاپنے پیدائش کے دن پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے اس طرح ہر ہفتے آپؐ اپنا یوم ولادت منایا کرتے تھے۔صحابہ اکرام تو حضورؐکی ولادت کا تذکرہ اکثر کرتے رہتے تھے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضورؐ کی موجودگی میں میلاد منایا اور نعت پڑھی جس کا ترجمہ ہے کہ

:’’اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جو انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ پیدا ہوا۔ آپ ایسا نور تھے جو ساری مخلوق پر چھا گیا اور جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔ رات کی تاریکی میں حضور کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔‘‘ دیوان حضرت حسان بن ثابت 153

حضرت حسان کی ایک بہت مشہور نعت ہے جس میں وہ حضورؐ کے میلاد کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ آپ سے حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا ۔آپ سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا۔ہر عیب سے آپ کو بری پیدا کیا گیا۔گویا جیسے آپ نے چاہا آخر وہی ہوا۔ حسان بن ثابتؓ کے علاوہ ، اسود بن سریعؓ ، عبد اللہ بن رواحہؓ، عامر بن اکوع ؓ ، عباس بن عبد المطلبؓ، کعب بن زہیرؓ ، نابغہ جعدیؓ ، کعب بن مالکؓ اور بہت سے صحابہ حضورؐ کی شان بیان کرنے اور ودلادت کو ذکر کرنے میں شامل تھے۔ یہ میلاد منانا نہیں تو اور کیا ہے؟

بدعت یا جدت

بدعت عمومی طور پرہراُس کام کوکہا جاتا ہے جو رسول پاکؐکے زمانہ میں نہ تھا اور بعد میں اختیار کیا گیا ہو۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ بدعت کسے کہتے ہیں اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک دین ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ۔ اگر ہر نئی چیز بدعت اور گمراہی ہے تو پھر حضور پاک کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بعد جو بھی کوئی نئی چیز ہے، وہ سب غلط ہے تو پھر رمضان میں پورا ماہ باجماعت بیس اور آٹھ رکعت تراویح بھی بدعت ہے کیونکہ رسول اکرم نے اس طرح سے تو نہیں پڑھائی تھی۔ احادیث کی کتابیں جو دور صحابہ کے بہت بعد میں لکھی گئیں تو کیا وہ بدعت ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیریں، مترجم قرآن مجید، مساجد کے مینار،تسبیح،، فقہ کی تدوین، درس نظامی، دورہ حدیث، اور فتویٰ نویسی بھی دور صحابہ کے بعد کی ایجاد ہیں اور پھر یہ بھی بدعات ہیں۔ بدعات تو مذہبی اور دینی سیاسی جماعتیں، اسلامی نظریاتی کونسل اور پارلیمنٹ بھی ہے جس میں تمام فرقوں کے علماء براجمان ہیں۔ ان بدعات کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔کیا ہمارے رہن سہن، کھانے پینے ، طرز زندگی او ر مذہبی سرگرمیوں بہت سے ایسی سرگرمیاں نہیں جو دور نبوی اور صحابہ میں سرے سے موجود نہ تھیں لیکن دور حاضر میں سب نے انہیں اپنایا ہوا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو حضورپاکؐ کے یوم ولادت کو منایا بدعت سمجھتے ہیں۔ در اصل غلط فہمی کی وجہ بدعت کا درست مفہوم نہ سمجھنے اور اس روایت کی وجہ سے ہے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ کہ علماء اور محدثین کے مطابق جب بھی کوئی روایت پیش کی جاتی ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ہ روایت کس معیار کی ہے۔ کیا یہ قوی حدیث ہے یا ضعیف،، احسن ہے یا وضعی۔روایت کی سند کس درجہ کہ ہے، کیا یہ شاذ، معلل، منکر، مضطرب، مقلوب، مصحف اور موضوع ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ روایت قرآن کے مطابق ہے یا نہیں۔

اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اسلام مذہب نہیں دین ہے۔ مذہب صرف رسمی عبادات اور اعتقادات کا مجموعہ ہوتا ہے جبکہ دین عبادات اور اعتقادات کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں معاشیات، سیاسیات، حکومت، سماجی اور دیگر امور بھی آجاتے ہیں۔ اس حوالے سے جب ہم اسلام کا دین کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام ایک نظام حیات اور طرز زندگی ہے۔ ہمارے علماء اسلام کا تعارف پیش کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں اور ایک مسلمان کی زندگی کا کوئی شعبہ بھی دین سے باہر نہیں۔کاروبار، سیاست، کھیل ، تفریح ، گھر داری، سماجی امور الغرض زندگی کا کوئی گوشہ بھی اسلام کی ہدایت کے باہر نہیں۔ دین حضورﷺ مکمل کرکے اس دنیاسے تشریف لے گئے جس کی وضاحت آخری وحی سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں کردی گئی۔لیکن کیا کبھی غور کیا آپ نے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں بہت سے نئے کام ہر روز کرتے ہیں جو حضور ؐ اور صحابہؓ نہیں کرتے تھے۔ کیا وہ بدعت نہیں؟ کیا ہر نئی چیز بدعت اور قابل مذمت ہے ؟اس لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ بدعت کہتے کسے ہیں اور دین نے جس بدعت کو گمراہی کہا وہ کیا ہے۔

لفظ بدعت کا ماخذ بدع ہے۔ اس کا مطلب نئی چیز Innovation جو پہلے سے نہ ہو۔ قرآن حکیم میں بدعت کا لفظ تین مقامات پر آیا ہے۔ خدا کی صفت بدیع السمٰوات والا رض ہے (2:177)۔ حضور نے فرمایا کہمیں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا، مجھ سے قبل بھی رسول آتے رہے ہیں (46:9) ۔ رہبانیت کا مسلک ایک بدعت تھی جسے عیسائیوں نے از خود وضع کرلیا تھا (57:27)۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں بدعت کے بارے میں کوئی اور ذکر نہیں بلکہ قرآن حکیم بار بار غوروفکر اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے تو اس عمل کے نتیجہ میں لازمی نئی چیزیں سامنے آئیں گے تو کیاانہیں نہ اپنایا جائے۔ قرآن حکیم کے بعد حدیث کا جائزہ لیں تو ہمیں صیحح مسلم کی یہ روایت ملتی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ اسلام میں اچھا طریقہ قائم کرتا ہے اور اس کے بعد اس پر عمل کیا جاتا ہے تو اس کے واسطے ان سب لوگوں کے برابر اجر لکھ ا جائے گا جو اس طریقہ پر کاربند ہوں۔ اور جس شخص نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور بعد میں اس پر عمل کیا تو اس کے ذمہ ان سب لوگوں کا وبال لکھ دیا جاتا ہے جو اُس طریقہ پر عمل کرتے ہیں۔ اب صورت حال بالکل واضع ہوجاتی ہے اور اس حدیث کی روشنی میں علماء نے بدعت کی دو اقسام، بدعت حسنہ یعنی اچھا نیا کام اور بدعت سئیہ یعنی بْرا نیا کام واضع کی ہیں۔اس اعتبار سے کوئی بھی نیا کام جو اچھا ہو اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہ ہو اسے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور ہر وہ نیا کام جو قرآن و سنت سے متصادم ہو ،وہ گمراہی ہوگا اور وہ نہیں کرنا چاہیے۔ رسول پاکؐ نے احادیث مبارکہ میں بہت سی پیش گوئیاں کی ہیں جن میں امت مسلمہ کے غلط کاموں اور گمراہی میں مبتلا ہونے کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے اور بہت سے غلط کاموں سے رک جانے کا حکم دیا ہے لیکن کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں کہ جس میں رسول اللہ نے فرمایا اپنا یوم ولادت منانے سے منع کیا ہو یا یہ پیشین گوئی کی ہو کہ میری امت میلاد منانے جیسی گمراہی میں مبتلا ہوجائے گی۔

دین میں کسی نئے کام کی کس حد تک اجازت ہے اور نئے عمل کی حدود کیا ہیں۔ ساری بحث کا حاصل اور بدعت کے حوالے سے خلاصہ کلام یہ ہے کہ نوع انسان کی راہنمائی کے لیے خدا کے قوانین (Devine Laws) جو وحی کی روح سے رسول اللہ کو دئیے گئے ان میں مزید کسی نئے قانون کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ دین میں اس نوعیت کا اضافہ جائیز نہیں اور یہی گمراہی ہوگی۔البتہ دین کے غیر متبدل اصولوں ( Unchangeable Principles) کے اندر رہتے ہوئے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق، جزئی قوانین (By-Laws) اور طریقے مرتب اور اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی نیا اضافہ جو دین کے اصولوں سے متصادم نہیں، قابل قبول ہوگا ۔اس لیے حضور کے یوم ولادت پر تقریبات منعقد کرنا اور آپ کا ذکر کرنا کسی طور بھی غلط اور دین کے اصولوں سے متصادم نہیں۔ اسی اصول کے تحت دیگر کام اور سرگرمیاں بھی کی جاسکتی ہیں لیکن یہ خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کوئی بھی غیر شرعی کام نہ کیا جائے۔ ربیع الاول میں حضور پاک کی ولادت ہو یا دنیا سے تشریف لے جانے کا دن، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اصل مقصد قرآن حکیم کی روشنی میں اسوہ حسنہ کو بیان کرتے ہوئے پیروی کا جذبہ بیدار کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے محافل منعقد کرنا، درود و سلام پیش کرنا اور آپ ؐ کا ذکر کسی طرح سے دین کی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ بدعت اور جدت کا فرق سمجھنا چاہیے۔ قرآن حکیم بار بار غور و فکر کرنے، سوچنے، تدبراور تحقیق کرنے کے احکامات دیتا ہے تو اُن کے نتیجہ میں نئی چیزیں تشکیل نہیں پائیں گی۔ اگر ہر نئی چیز کو گمراہی قرار دے دیا جائے تو سائنسی تحقیق کے دروازے بند ہوجائیں گے۔

اگر حضورؐ کا میلاد منانا بدعت اور ناجائیز ہوتا تو علامہ اقبال اس سے گریز کرتے۔ دور حاضر میں علامہ اقبالؒ وہ واحد مسلم مفکر ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے۔ وہ حکیم الامت تھے اور قرآن پاک پر اُن کی گہری نظر تھی۔ علامہ نے کئی دفعہ عید میلاد النبیؐ کے جلسوں اور جلسوں میں شرکت کی۔ ایک بار وہ لاہور سے اس مقصد کے لیے بطور خاص1932ء میں جالندھر بھی گئے تھے ۔ جلوس کے بعد جلسے میں انہوں نے سیرت پر ایک جامع تقریر کی۔ (انقلاب ۰۲ جولائی ۲۳۹۱، ذکر اقبال از عبدالمجید سالک صفحہ ۷۷۱، علامہ اقبال: شخصیت اور فکروفن از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ص ۸۹۱)۔ رسالہ صوفی کے اکتوبر 1926کے شمارہ میں ان کی لاہور میں عید میلاد النبیؐ کے جلسہ میں کی جانے والی تقریر شائع ہوئی تھی جو ان سوالوں اک جواب دیتی ہے کہ عید میلادالنبی ؐ منانا چاہیے یا نہیں۔ یہ نادر تقریر ڈنمارک کی آن لائن ویب سائیٹ اردو ہم عصر کے مدید نصر ملک نے دوبارہ شائع کی ہے۔ علامہ اقبال لاہور میں عید میلاد النبیؐ کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے ۔ انسانوں کی طبائع ، ان کے افکار اور اُن کے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لہذا تیوہاروں کے منانے کے طریقے اور مراسم ہمیشہ متمتغیر ہوتے ہیں اور اُن سے استفادے کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے مقدس مراسم پر غور کریں اور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔ منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کئے گئے ہیں ایک میلاد النبیؐ کا مبارک دن بھی ہے۔ میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو وہ ہروقت اُن کے سامنے رہے۔ چناچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے وہ اُسوہ رسولؐ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے‘‘۔

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے یہی عرض کرنا چاہوں کہ اسلام ایک دین اور نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ ہماری زندگی کے بہت شعبوں جن میں مذہبی امور بھی شامل ہیں ہم سب کئی ایسے کام کرتے ہیں جو دور رسالت اور صحابہ اکرام کے زمانے میں نہیں تھے۔ اسلام نے ہمیں اس سے نہیں روکا اگر وہ نئے کام قرآن کے احکامات اور اسوہ حسنہ سے متصادم نہ ہوں۔ ان مستقل قوانین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا یعنی کوئی چھ یا چار فرض نمازیں، روزوں کی تعداد یا دورانیہ میں کمی بیشی یا دیگر ارکان اسلام یا عقائد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ ان مستقل قوانین کے اندر رہتے ہوئے مختلف سرگرمیاں کی سکتی ہیں اور اجتہاد بھی کیاجاسکتا ہے لیکن جس کام سے دین نے روکا ہو وہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی اصول میلاد النبی کی تقریبات پر بھی لاگو ہوتا ہے ،حضورؐ کے یوم ولادت پر تقریبات منعقد کرنا کسی طور پر غلط نہیں البتہ وہ سرگرمیاں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں ان کا کسی طور پر جوااز نہیں بنتا ۔ ان تقریبات اور سرگرمیوں میں غیر شرعی، فضولیات اور بے مقصد کام نہیں ہونے چاہئیں بلکہ میلاد کی تقریبات میں اس انداز میں منعقد کی جائیں کہ قرآن حکیم کی روشنی میں مقام رسالت بیان کرتے ہوئے محبت رسول ؐکے جذبہ کو بیدار کرکے اخلاق نبوی کو عملی زندگی کا حصہ بنانے پر زور دینا چاہیے۔ عشق رسول کا اظہار اپنے عمل، اچھے اخلاق اور مخلوق خدا سے محبت اور خدمت سے کریں ۔یہ میلاد منانے کا اصل مقصدہونا چاہیے ۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

  • Nisar Ahmed Syed
    28-01-2016 08:28:28
    ماشا اللہ اچھی تحریر ہے جناب۔۔
You are Visitor Number : 810