donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ataur Rahman Noori
Title :
   Fatah Macca : Tareekh Nabawwat Ka Nehayet Hi Azeemulshan Unwan

اے مکہ! خدا کی قسم ! تومیری نگاہ ِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے


فتح مکہ: تاریخ ِ نبوّت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان


 فتح مکہ : جس نے جزیرۃ العرب سے بت پرستی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا


از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں


    ماہ رمضان  ۸   ؁ھ بمطابق جنوری ۶۳۰  ؁ء تاریخ ِ نبوّت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت ِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب وتاب سے ہرمومن کا قلب قیامت تک مسرّتوں کا آفتاب بنارہے گا کیونکہ تاجدار دوعالم ﷺ نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارِ غارکو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیر باد کہہ دیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھرخانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ’’ اے مکہ! خدا کی قسم ! تومیری نگاہ ِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا‘‘ ۔لیکن آٹھ برس کے بعد یہی مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ نے ایک فاتح اعظم کی شان وشوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزولِ اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال وجلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ’’قصوائ‘‘ پر سوار تھے۔ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔ بخاری میں ہے کہ آپ کے سرپر ’’مغفر‘‘ تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق اور دوسری جانب اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہما تھے۔ اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھراہوا اور ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کوکبۂ نبوی تھا۔ اس شان وشوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عباس! تمہارا بھتیجہ توبادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تیرا برا ہوا اے ابوسفیان ! یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ ’’نبوّت‘‘ ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ وجلال کے باوجود شہنشاہ ِ رسالت کی شان ِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورۂ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پربیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سراونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتاتھا ۔ آپ کی یہ کیفیت تواضع خداوندقدوس کا شکر اداکرنے اور اس کی بارگاہِ عظمت میں اپنے عجز و نیاز مندی کا اظہار کرنے کے لئے تھی۔

(سیرت مصطفی ﷺ،ص؍۳۲۶)

    تاجدار دوعالم ﷺ نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں ماررہے ہیں۔ ’’جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کرے گا ا سکے لئے امان ہے، جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے ۔ اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! ابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرمادیجئے کہ اس کا سرفخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرمادیا کہ :’’جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔‘‘

    فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ نے ایک خطبہ دیا جس میں حرمِ کعبہ کے احکام وآداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کومارنا،شکارکرنا، درخت کاٹنا، اِذْخر کے سواکوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ نے حرمت والی جگہ گھڑی بھر کے لئے رسول کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی۔ پھر قیامت تک کے لئے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ نے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں خوں ریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لئے حلال کی جائے گی۔

(بخاری جلد ۲ص۶۱۷ فتح مکہ)

    فتح مکہ پر ابن قیم نے اپنا اظہارخیال یوں کیا کہ ’’یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو ، اپنے رسول کو، اپنے لشکر کواور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی ۔ اپنے شہرکو اور اپنے گھر کو جسے دنیا والوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ہے کفارومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا ۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑگئی اور اس کی عزت کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن گئیں ۔ اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگااٹھا۔ فتح مکہ ایک عظیم فتح ہے جس نے بت پرستی کو جزیرۃ العرب سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔ کیونکہ عام قبائل عرب اس بات کی منتظر تھے کہ کفرواسلام کی جنگ میں فتح کس کی ہوتی ہے؟ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم پر وہی مسلط ہوسکتا ہے جو حق پرہواور اس یقین میں پختگی نصف صدی پہلے اصحاب فیل ، ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی تھی۔ یہ بھی اپنی جگہ سچائی لیے ہوئے ہے کہ صلح حدیبیہ اس فتح کا پیش خیمہ اورتمہید تھی۔

(یو این این)


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 446