donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Jahan Yeh Shukr Guzari Ki Khu Se Khali Hai


جہاں یہ شکرگزاری کی خو سے خالی ہے


  عزیزبلگامی…00919845291581


عصر نو میں ’’شکریہ ‘‘ یا ’’Thanks‘‘کہنا ایک فیشن بن گیاہے۔Thanks Givingکی تقریبات بڑے زور و شور سے منائی جاتی ہیں۔’’شکریہ ناموں‘‘یاThanks Giving Letters کا تبادلہ بڑے اہتمام سے ہوتارہتا ہے۔ایر پورٹس ہوں، ریلوے اسٹیشن ہوں، بس اڈے ہوں،


اعلانات کے اپنے اپنے نظاموں کے ذریعہ جو اعلانات مسلسل ہوتے رہتے ہیں،اِن میں ہر جملے کا اِختتام لازماً Thank Youپر ہی ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ دراصل شکریہ کس کا ادا کیا جارہا ہے۔دفاتر میں  Recieptionist  کے کام پر مامور ملازمین …خاتون ہوں یا مرد… ہر طرف’’شکریہ‘‘ کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ شکریہ کی خوگر اِنسانیت اُس ہستی کو کیسے بھول بیٹھی ہے ، جو فی الواقع شکریہ کا مستحق ہے اورجسے’’ شکریہ‘‘ کہنا تو بس اُسی کا حق ہے ، یعنی ہماری مراد ہے مالک کائنات کی ذات کا شکریہ۔ کیوں بس وہی حمد کا سزاوار ہے،اور جن اسبا ب کی بنا ہے پر اُس کوہم سلسلہ وار بیان کر رہے ہیں۔ کیا عجب کہ اِ ن کے ذریعہ اِنسانوں کے شکرگزار اِنسان،اپنے مالک و خالقِ حقیقی کے بھی شکر گزار بن جائیں اور اِنہیں اپنے دلوں میںاپنے پروردگارکے لیے شکر گزاری کے حقیقی جذبات کو تازہ کرنے میں کامیابی نصیب ہو۔حدیث شریف میں یہ ضرور آیا ہے کہ  من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ :’’جو اِنسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا ، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔‘‘ لیکن اِنسانوں کا شکریہ ادا کرتے کرتے یہ غفلت شعار اِنسان اگر اپنے خالق کے شکر ہی کو بھول بیٹھے،تویہ حدیث کے اصل منشاء کے مطابق ہر گز نہیں ہوگا۔کاش کہ ہم شکر گزاری کا ڈھونگ رچانے والے اِن اِنسانوں تک یہ بات پہنچا سکیں کہ جس قدر Thanks وہ انسانوں کو دیتے ہیں، اُس سے کہیں زیادہThaks کا حقدار اللہ ربُّ العالمین ہے۔’’  واسبغ علیکم نعمہ ‘‘:’’جو اپنی مخلوق پر مسلسل اپنی نعمتوں کو نچھاورکر تا رہتاہے۔‘‘


 ہم اللہ کی عظمت و بزرگی کو کیوں نہ تسلیم کریں،اپنے پاک رب کی ہم ثناء و سبحان کیوں نہ بیان کریں، جب کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے، ہر کمزوری سے مبرا ہے، جس کا ہر اک وعدہ سچا ہے،ایسا سچا کہ جسے اپنے وقت پرضرورپورا ہوناہے۔وہی ہے جو اپنی ذات میںیکتااور واحد ہے جسے اپنے بندوں سے کئے ہوئے وعدوں کاپاس ہے،جنہیں وہ بہر صورت پورا کر دیتا ہے۔ وہی بندوں کا خالق ہے، اِس لیے وہ اپنے بندوں کی مددکرتا ہے، وہی اِن کی بگڑی بناتا ہے، اِن کو طرح طرح کی مصیبتوں اورپریشانیوںسے نجات دلاتا ہے، اِس لیے کہ وہ  دستگیرہے، وہ بے کسوں کا فریاد رس ہے،بے قرار دلوں کو قرار دیتا ہے، امیرہوں کہ فقیرسب کی جھولیاں بھرتا ہے، غریبوں کو نوازتا ہے، اور اِن کی مشکل کشائی کرتا ہے۔مگر بندوں کو اِس پر یقین نہیں ۔  یحسرۃ علی العباد:’’افسوس ہے ایسے بندوں پر۔‘‘کیوںکہ یہ اُسی کی پیدا کردہ مخلوق میںاِن صفات کی جستجو کرتے ہیں، بہ الفاظِ دیگر وہ ایک زبردست مالک کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اِنہیں ذرہ برابر بھی جھجک یا حیا محسوس نہیں ہوتی ۔ اِنہیں یہ کیسا روگ لاحق ہو گیا ہے۔؟ خالقِ کائنات نے تواپنی آخری کتاب کو محفوظ شکل میں اِن کے پاس رکھ دیا تھا۔ اِس کے ہوتے ہوئے پھر یہ کیوں کر اُسی کی مخلوق کو، اِ س قدر عظیم رب کا شریک ٹہرا لیتے ہیں؟کہیں یہ اپنے ازلی دشمن کا ساتھ تو نہیں دے رہے ہیں؟یہ کیسی توہینِ رب ہے جس کے یہ سب مرتکب ہو رہے ہیں؟ یقینا  ان الانسان لکفور مبین :’’ بلاشبہ، انسان کھلے عام اپنے رب کی ناشکری کرتاہے!‘‘۔ایک عام مثال ہے، کہ اِن کے لیے سواری مہیا کرتا ہے توبس اللہ کرتا ہے ،مگر اپنی سواری پر یہ ناخلف بندے،خدا کے کچھ نیک بندوں کا نام لکھ دیتے ہیں، جیسے وہ اِن ہی کی عطا ہو۔ دولت وعزت دیتا ہے تو بس اللہ ، لیکن اِس کا سارا کریڈیٹ یہ عاقبت نا اندیش، اپنی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں اور قابلیتوںکو دیتے ہیں۔لیکن واہ رے اُس کی عظمت، ناشکرگزار بندوں کو اُس کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ،وہ اِن کی ناشکری کو فراموش کرکے اِن پر اپنے فیض عام کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ ایسے میں کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں اور اپنے رب کے احسانات کا اعتراف کریں ،بشکلِ ہدیۂ تشکر؟ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اللہ کا نام لے کر وہی بات کہیں جو حق ہو،ورنہ خاموشی بہترہے۔بصورتِ دیگر آخرت میں رُسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، آخرت کی رسوائی سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آدمی دنیا میں خاکساری کا پیکر بنا رہے ! لوگوں کے درمیان چھوٹے بنے رہناکہیں زیادہ بہتر ہے، اِس سے کہ ہم اللہ کے ہاں مجرمCriminals قرار دیے جائیں۔!جہاں ہوں، جس حالت میں ہوں، ہم پر لازم ہے کہ اپنے مالک کے’’العلیم ‘‘ہونے کی گواہی دیتے رہیں۔ اُس مالک کی سلطنت اور اُس کادبدبہ ہماری نظروں سے کبھی اوجھل نہ رہے ۔


 ہم اِس حقیقت کو خوب جانتے ہیںکہ اِس کائنات میں پائی جانے والی ہر مخلوق اپنے خالق کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ صنع اللہ الذی اتقن کل شئی :جس نے ہرشئے کی تخلیق کو، جو اُس کی اپنی تخلیق ہے، اعلیٰ درجے کی کاملیت عطا فرمائی۔ وہی تو ہے جس نے ہر چیز کاآغاز کیا ، تب کہیں جاکر ہم اِن اشیاء کے جوڑنے…صرف جوڑنے والے… بنے۔ اگر اللہ اسباب پیدا نہ کرتا توکیا کبھی ہم کچھ کر پاتے؟اصل بات یہ ہے کہ ہم کسی شئے کے خالق ہیں ہی نہیں۔


 اللہ تعالیٰ نے اگر زمین میں، منرلس Mineralsپیدا نہ فرمائے ہوتے، توکیا ہمManufacturingکی دُنیا میں قدم بھی رکھ پاتے؟اور ترقی کے یہ دن دیکھ پاتے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔؟ اگر اللہ بارش نہ برساتا، توکیا ہم اپنے ڈیموں میں پانی کا ایک قطرہ بھی جمع کر پاتے؟ اگر اللہ زمین کو زرخیزنہ بناتا، توکیا ہم اناج کا ایک دانہ بھی اُگا پاتے؟یہ تو ہمارے مالک کی قدرت کا کمال ہے کہ اُس نے سورج کو چمک عطا کی اور چاند کو نور۔


تاروں کو دیپ بنایا تو آسمان کو ایک منور سائبان۔ وہی تو ہے جس نے بے جان بیجوں کو زندگی بخشی،جومٹی میں دبا دِیے جانے کے بعد کونپل کی شکل میں جی اُٹھتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایک درخت بن کر اِنسانوں کے لیے سایہ دیتے ہیں، جن پر رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں اور اِن ہی پھولوں سے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ وہی ہے جس نے ہر پھول کو ایک رنگ اور ایک خوشبو عطا کی ، جو دوسرے پھول کی رنگت و خوشبو سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ درختوں پر کھلنے والے پھولوں کی پتیوںکے دامن کو اوس اور شبنم کے قطروں کو اِتنی تعداد میںبھردیا کہ جن کا شمار تک ہم نہیںکر سکتے۔یہاں تک کہ درختوں کے پتوں کی جو تعداداُگ آتی ہے اُس کو ہم گننے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ لیکن اللہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، وہ نہ صرف اِن کی تعداد کو جانتا ہے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پتو ں کی صرف تعداد ہی نہیں بلکہ اِن پتوں اور بارش کی ایک ایک بوند کے اجزائے ترکیبی کاریکارڈ بھی اُس کے پاس محفوظ ہے۔  وما تسقط من ورقۃ الا یعلمھا:’’کسی درخت کا کوئی پتہ بھی اُس کے علم کی حددود سے باہر نہیں ہے۔‘‘وہی اِس حقیقت سے باخبر ہے کہ اِن پتوں کی نشونما کیسے ہونی ہے اور اور کتنے دنوں تک اُنہیں جینا ہے۔ اُسی کا یہ کمالِ قدرت ہے کہ اُس نے درخت کی پتیوں میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کوجذب کریں اور اِنسانیت کی بقا کی ضامن آکسیجن خارج کریں۔وہی مقتدرِ اعلیٰ ہے، جو ہواؤںکے جھونکے بھیجتا ہے۔ وہ کبھی گرم ہوائیں چلاتا ہے، تو کبھی خوشگوار اورصحت افزاء ہواکے جھونکے بھیجتا ہے۔وہی ایک زبردست رب ہے جو سمندروں میں مدّوجزر پیدا کرتا ہے۔ جس پانی پرمخلوق کی زندگی کا دارومدار ہے، آسمان پرموجودبھاری بادلوں کو اِسی پانی سے بھر دیتا ہے اور پانی سے لبریز اِن بادلوں کو ہماری جانب ہانک کر لے آتا ہے، پھر یہ برستے ہیں تو ہر طرف جل تھل ہو جاتا ہے،ندیوں کو وہی لبالب بھر دیتا ہے جو ڈھلوان کی سمت بہہ نکلتی ہیں اور انسانی آبادیوں کو سیراب کرتی چلی جاتی ہیں ۔پہاڑوں کوبرف کی سفیدچادرسے ڈھک دیتا ہے اور زمین کوسبزہ زاروں کی چُنری پہنادیتا ہے۔وہی رب ہے جو کھیت کھلیانوں کے ذریعے ہمارے رزق کا انتظام کرتا ہے۔ ذرا ہم اپنے دسترخوان پر ہماری ضیافت کو موجود ایک روٹی پر ہی تدبر کی ایک نگاہ ڈال کرکے دیکھ لیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ کتنے مراحل سے گذرنے کے بعد روٹی ہمارے دسترخوان تک پہنچی ہے۔ اگر اللہ اِن مراحل کی ایک کڑی ہی نکال د ے، توہم اپنی تمام تر قوت لگا کر بھی گمشدہ کڑی کی اِس کمی کو کبھی پورا نہیں کرپائیں گے۔سورۂ…(۸۰) میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:’’اِنسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی چیزوں پر غورکرے۔ ہاں، بیشک ہم بارش برساتے ہیں ایک مقدار میں، زمین کو ایک الگ انداز میں پھاڑنے کے بعد، پھر ہم اُگاتے ہیں زمین میں دالیں اور دانے ، انگور ، سبزیاں، زیتون ، کھجور اور گھنے باغات پھلوںسے  لدے ، Fruits & Dry Fruits کے،اور چارہ بھی۔ فائدہ اورProvision تمہارے لئے بھی اور تمہارےLive Stock کے لئے بھی۔ ‘‘(۲۴ تا۳۲)۔
ہم ذرا غور تو کریں کہ ایک روٹی ہمارے دستر خوان کی منزل تک پہنچنے کے لیے کہاں کہاں کا سفر طے کرتی ہے۔!ایک کسان مردہ اور بنجر زمین میںہل چلا تا ہے، زمین میںبے جان بیج بوتا ہے،پھر اللہ بے جان زمین اور اِس میں دبے ہوئے بے روح بیج پر بارش کی بوندیں برساتا ہے اورپھر اِن دونوں کو جلا اُٹھاتا ہے…  اخرج شطأہ … اُس بیج سے ایک چھوٹی سی کونپل کو نکالتا ہے…  فازرہ واستغلظ … پھر دھیرے دھیرے وہ موٹی ہوتی چلی جاتی ہے… فاستوی علی سوقہ… پھر ایک وقت وہ فصل کے روپ میں تیار ہوکردلوں کو سکون بخشتی ہے۔ پھر کسان اُس کی کٹائی کرتا ہے۔ کٹائی کے بعد فصل کومِل میں بھیجتا ہے، اناج… ، بھوسے سے آزاد ہو جاتا ہے، مِل سے یہ اناج بازارمیں آتا ہے،پھر ہم اِسے بازارسے خریدتے ہیں، گھر لاکر اُسے فلور مشین میں پسواتے ہیں، اِس کے بعد ہمارے گھروںمیںاِس آٹے کو گوندھا جاتا ہے،روٹی کی خام شکل بنتی ہے ،جسے چولہے پر پکایا جاتا ہے،پھر جو شئے ہمارے دستر خوان پر ہماری توجہ کا مرکز بنتی ہے یہی روٹی کہلاتی ہے، جسے ہم تناول فرماتے ہیں ۔ اِس طرح ایک روٹی اتنے سارے مراحل سے گذر کر ہمارے دسترخوان کی زینت بنتی ہے۔ اگر ہم ایک روٹی ہی کے لیے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیں تو ہم اِس کا حق ادا نہیں کر پائیں گے۔کیوںکہ ہمارے دسترخوان پرمحض ایک روٹی کے پہنچانے کے مراحل میں اللہ نے کتنے ہی لوگوں کو مصروف کر رکھا ہے اور اِن کی روزی روٹی کا انتظام فرمادیا ہے! ذرا ہم غور تو کریں کہ ہمارے شہر والے کتنے ٹن روٹی ،کتنے ٹن چاول، کتنے بکرے اور کتنی مرغیاں ایک دن میں استعمال کرجاتے ہوں گے۔ کبھی ہم نے غور بھی کیا ہے کہ اتنی ساری چیزیںآتی کہاں سے ہیں؟ کون اتنا عظیم ذخیرہ ہم انسانوں کے لئے پیدا کرتا رہتاہے؟اب جب ہمیں معلو م ہوگیا کہ یہ سب انتظام کرنے والا ہمارا مالک ہی ہے تو ہم پر لازم ہے کہ سورۂ قریش(۱۰۶) کے الفاظ میں:’’اُنہیں چاہئے کہ وہ عبادت اور غلامی قبول کریں اُس البیت (خانہ کعبہ)کے رب کی،جس نے اُنہیں بھوک میں کھانا دیا اورخوف ودہشت کے حالات میں امن وسکون دیا۔ ‘‘(۳ اور ۴)۔اپنے رب کی غلامی کوقبول کرتے ہوئے ہمیں اِن تمام نعمتوں کے لیے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔


جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کی بات ہے، توایک اور نعمت سے بھی ہمیں یعنی ہندوستانی مسلمانوں کو اللہ نے سرفراز فرمایا ہے اور بڑی مشکل سے ہمیںاِس نعمت کا خیال آتا ہے، کجا کہ ہم اِس کا شکریہ ادا کر سکیں، اور وہ نعمت یہ ہے کہ ہمارے مالک نے ہمیں ہندوستان جیسے ملک میں پیدا فرما کرہم پربڑا احسان فرمایاہے،جہاں چاروں موسموں سے ہم لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں رِزق کے چاروں ذرائع ہمیں نصیب ہوتے رہتے ہیں اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ مقدار میں۔پھر یہ کہ، ایک طرف جہاں ساری مسلم دُنیا میں ہم قتل وغارت گری اور بدامنی کے منظر دیکھتے رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف یہاں اپنے ملک میں عام طور پر امن وامان کا دور دورہ رہتا ہے۔ عیدین اور دیگر تقریبات سے ہم، اِکا دُکا مقامات کو چھوڑ کر، امن کے ماحول میں لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، خوشیاں منا تے ہیں۔حد تویہ ہے کہ ہم صلوٰۃ الجمعہ یا نمازِ عید کے مواقع پر بیچ رستوں میں ٹرافک کو جام کرکے نمازبھی پڑھتے ہیں اور ہم نمازیوں پر گولیاں برسانے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔!کیا اِس ملک میں ہمیں پیدا کرنے کے ہمارے مالک کے فیصلے کا ہمیں دل و جان سے ا حترام نہیں کرنا چاہیے؟ اور بطور ِ شکر خداوندی ہمیں کیا اپنے اِس ملک سے اپنی وفاداری کا اعلان و اِظہار نہیں کرنا چاہیے؟ اگر ہم اپنے گہوارۂ امن و اماں ملک کے وفادار نہیں ہیں، توپھر سمجھ لیں کہ ہم اپنے مالک کے بھی وفادار نہیں۔ اِس لئے کہ اپنے غلام ہونے کے اقرار کے بعد اپنے مالک کے نافرمان بن جانا، شانِ بندگی نہیں !بلکہ ہمیں تو اپنے مالک کی مکمل غلامی قبول کرلینی ہوگی، ٹھیک اُسی طرح جس طرح اُس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قبول فرمائی تھی۔ جن کے ہاتھوں اللہ نے اِس زمین کے سب سے پہلے مرکزِ عبادت  کعبۃ اللہ کی تعمیر نو  Renovation کروائی تھی۔ وہی ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے ایک منطقی عمل کو اختیار کرتے ہوئے اپنے رب کی ذات کو دریافت کرلیا تھا۔…  ان ابراہیم امۃ قانتا للہ :’’حقیقتاً ابراہیم   ؑ فرمانبرداری میں ایک اُمت کے برابر تھے‘‘۔  …شاکرا لانعمہ : ’’جو اپنے رب کے انتہائی شکر گذار تھے۔‘‘جنہیں یہ پتہ تھا کہ رب کی مدد کے بغیر میرا وجود کچھ بھی نہیں۔ بغیر اُس کی نصرت کے میں ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتا۔میں ایک سانس لے سکتا ہوںاور نہ ایک سانس ہی چھوڑ سکتا ہوں۔میں ایک نوالہ اپنے حلق میں اُتارہی سکتا ہوں، نہ پانی کا ایک گھونٹ ہی اپنے منہ میں لے سکتا ہوں۔ کیونکہ سورۂ الشعرائ(۲۶) میں ارشاد ہوا ہے:’’ یہ میرامالک ہی ہے جو میرے کھانے اور میرے پانی کا نظم کرتا ہے۔‘‘(۷۹)۔حضرت ابراہیم ؑکو اِس حقیقت کا علم تھا کہ میرا رب صرف میرے ہی دانے پانی کا انتظام نہیں کرتا بلکہ…  ما من دابۃ الا علی اللہ رزقھا:اللہ الرزاق ذوالقوۃ المتین نے اپنی ہر مخلوق کے لئے رزق برابر مہیا کررکھاہے،بلکہ مخلوق کی ضرورتوں سے زیادہ ہی پیدا فرمایا ہے۔لیکن یہ تو ہم جیسے بد بخت ذخیرہ اندوز اِنسان ہی ہیں جو اناج کو اپنے گو داموں میںسڑانا پسند کرتے ہیں پر ضرورت مند عوام کے لئے بازار میں لانا ہمیں گوارہ نہیں ، اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں قیمتیں نہ گر جائیں۔ ہم اِنسانوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اللہ نے کچھ محدود آزادی کے طور پر کچھ لوگوں کومال کی بلندی پر رکھا ہے تو کچھ کو پستی میں ۔وہ بھی صرف اِس لئے کہ:…لننظر کیف تعملون…’ ’کہ وہ چیک کرے کہ تمہارے عمل کیسے ہوتے ہیں۔‘‘


ہم جب دسترخوان پر طعام کے لئے بیٹھیں تودستر خوان پر سجی چیزوں کو کبھی برے نام سے یاد نہ کریں، ہمیں نہیں کھانا ہے، نہ کھائیں،پر اُس کی برائی   کا ہمیں حق نہیںہے۔! ذرا سا نمک کم یازیادہ ہوجائے یا تھوڑا تیکھا یا پھیکاہوجائے تو ہم آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں، یہ ناشکری کی علامت ہے۔ اللہ نے ہماری زبان میں جو ذائقہ رکھ دیا ہے،اُس پر ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔اگر اللہ ہماری زبانوں سے ذائقے کی حس ہی چھین لے تو سوچئے ، ہماری کیا درگت بنے گی اور اِس کی باز یافت کے لیے ہمارے بس میں کیا ہوگا؟ ہم بسااوقات اِس حقیقت کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ بیماری کی حالت میں، خاص طور سے بخار میں ہماری زبان کا ذائقہ بالکل خراب ہوکر رہ جاتا ہے۔صحت یابی پر یہ ذائقہ پھر لوٹ آتا ہے۔بالفرض اگر یہی ذائقہ مستقلاً ختم ہوکر رہ جائے تو ہم اپنی زبانوں کا ذائقہ اور اپنے منہ کا مزہ کہاں سے لائیں گے؟ 


 دورِ حاضر میں تو اللہ ہمیں بے موسم کے پھل بھی کھلا رہا ہے۔ لذیذ پکوانوں سے ہمارے پیٹوں کو خوب سیراب کر رہا ہے ۔اب اپنے رب کے دئے ہوئے رزق سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ہمیں اللہ کا یہ فرمان بھی یاد رہے ، جیسا کہ سورۂ سبا(۳۴) میں ارشاد فرمایا:’’ اپنے رب کے دئے ہوئے رزق میں سے کھائو اوراپنے رب کے ہی شکر گذار بنے رہو… ‘‘(۱۵)۔اپنے رب کے دئے ہوئے رزق پر اِترانا اور فضول خرچی کرنا بڑی شرمناک بات ہے، بلکہ ہماری شکر گذاری اور احسان مندی کے جذبات میں اُس کی عنایتوں کی بدولت اِضافہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ شکر اور فخر میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے۔ اِسی طرح چیزوں کاضائع Wasteنہ کرنا بھی شکرکی ایک شکل ہی ہے۔روایتوں میں آتا ہے کہ ایک دن حضورصلی اللہ علیہ و سلم گھرتشریف لائے اور روٹی کا ٹکڑازمین پر گرا ہوا دیکھا تو آپؐ نے اِرشاد فرمایا:’’ عزّت دار چیز کی عزّت کیا کرو،اللہ جب کسی قوم کا رزق چھین لیتا ہے تو پھرواپس نہیں کرتا۔‘ ‘ (ابن ماجہ ۔ جلد ۲۔ حدیث ۱۱۴۲)۔آج ہماری فضول خرچ محفلوں اورپارٹیوں ، تقاریبِ شادی بیاہ ، فائیو اسٹار ہوٹلس میں اِتنا کھانا ضائع ہورہاہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اِس کے علاوہ ہمارے گھروں میں بھی اکثرضرورت سے زیادہ کھانا بنالیاجاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اِسے پھینک دیا جاتا ہے۔ اِس طرح اللہ کے دئے ہوئے رزق کی بے حرمتی ہم سے روز ہورہی ہے۔غور تو کیا جائے کہ کیا اِس رزق کو ہم نے پیدا کیا ہے ؟ کیا ہم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ ہم نے اپنی رقم دے کر اگر اِن اشیاء کو خرید لیاہے تو کیا اب ہم کوچھوٹ مل ہی گئی کہ ، اب بس جو چاہے کر لو ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟ ہماری تو حالت یہ ہے کہ…  ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا…:’’اللہ کی مدد کے بغیر تم تو درخت کی ایک کونپل بھی نہیں نکال سکتے ۔‘‘ بغیر اللہ کی مدد کے ہم اناج کا ایک دانہ بھی نہیں اُگا سکتے…  لایقدرون علی شئی مما کسبوا…:’’ہمیں تو لہلاتی اورتیارفصل کوکاٹنے کی بھی قدرت نہیں!‘‘


کھانے پینے کی بات چل ہی رہی ہے تو چلتے چلتے ایک عارف باللہ کا تذکرہ بھی کرتے چلیں۔ ایک مجلس میں اللہ کے ایک مقرب بندے نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ گوشت کس کا کھایا جاتا ہے؟ سب نے الگ الگ جواب دیا، کسی نے کہا، گائے کا، کسی نے کہا بکرے کا،اور کسی نے کہا مرغی کا، جب سب کے جوابات سامنے آگیے تو اُنہوں نے قرآن شریف کی سورہ ٔ  الحجرات(۴۹)کی آیات (۱۱ اور ۱۲)کے حوالے سے کہا کہ دُنیا میں سب سے زیادہ گوشت اِنسان کا کھایا جاتا ہے اور اِس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، کسی پر الزام یا تہمت لگائی جاتی ہے، کسی کو’’تنابزوابالالقاب ‘‘ سے پکارا جاتا ہے، کسی کے بارے میں غلط گمانی سے کام لیا جاتا ہے، کسی کی دل کھول کر غیبت کی جاتی ہے۔ اِسی ناشکری کے سبب کبھی کبھی ہمیں کچھ ناخوشگوار حادثات کا سامنابھی کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ سورۂ البقرہ (۲) میں اِرشادفرمایا گیاہے: 


(۱۵۵)،کئی بار ہم پر ایسے بھی حالات گزرتے ہیں کہ ہم خوف سے دوچار ہوجاتے ہیں، آنکھوں سے نیند اُڑجاتی ہے۔کسے خبر کب،کہاں، کون سا بم پھٹ جائے، کیا پتہ کب کس کی بندوق کی گولی ہمارے سروںکے اندر سے ہو کر گزرجائے اور ہماری موت کا سامان بنے،کیا معلوم کب کوئی بادل پھٹ جائے یا، کوئی زلزلہ ہی آجائے، کبھی بھوک کی شدت ہمیں پریشان کرتی ہے، اور کبھی کبھی ایک روٹی کے بھی لالے پڑسکتے ہیں۔ کبھی سامنے دستر خوان پر چیزیں سجی ہوتی ہیں، مگرایک نوالہ بھی ہمارے حلق کے نیچے نہیں اُترتا۔کیونکہ گھر میں کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی موت وزندگی کی جنگ لڑرہا ہوتا ہے ، ہمارا کوئی اپنا کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔کبھی ہمارے مال ، ہماری وابستگان کا زیاں ، ہمارے اپنوں کے جانی ومالی نقصان سے ، اور کبھی پھلوں اورفصلوںکے نقصان سے ہماری آزمائش ہوتی رہتی ہے۔ اُس وقت ہمارا کیا ردّعمل ہوتا ہے یا ہونا چاہیے،اُس وقت ہماری سوچ کیا بنتی ہے !! کیا ہم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں؟ جس طرح امن کے حالات میں عملِ صالح کرتے ہیں،ویسے ہی مصیبت کے حالات میں بھی کیا ہمارے عمل، عمل صالح کی حیثیت سے باقی رہتے ہیں یا نہیں! کیا ایسے حالات میں بھی ہم اپنے مالک کو ہی اپنا مشکل کشا، دستگیر،بگڑی بنانے والا سمجھتے ہیں،کیا اُسی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں ! کیا واقعی ہمارا ایمان ویسا ہی ہوتاہے جیساکہ سورۂ توبہ(۹) میں موجودہے:’’ اقرار کرو کہ ہم پر کوئی مصیبت آہی نہیں سکتی مگر وہی جو ہمارے رب کی طرف سے (بہ شکل حکم) صادرہوئی ہو۔وہی ہمارا مولا، ہمارا پالنہار اورمحافظ ہے۔بے شک ایمان والوںکا بھروسہ تو اللہ ہی پر ہونا چاہئے۔‘‘(۵۱)، یہ اور اِس طرح کے سارے سوال ہمارے ایمان کا امتحان لینے کے لیے ، منہ پھاڑے ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔


ایک ایسے زمانے میں جب کہ آخرت فراموش لوگ ظاہری چمک دمک پر مر مٹنے لگے ہیں، یہاں جو دکھائی دیتا ہے ، وہ ہوتا نہیں 
ہے، اور جو ہوتا ہے ، وہ دِکھائی نہیں دیتا،حد تویہ ہے کہ دین میں بھی دکھاواعام ہوگیا ہے اوردین داروں میںنام ونمود کی گویا ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے،ریاکاری نظامِ زندگی کا درجہ حاصل کر گئی ہے،توایسے زمانے میں خدا کی طرف جذباتِ تشکر کے ساتھ پلٹنے کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اصل حقدار کو Thank youکہنے کا وقت آگیا ہے ۔ اِس لئے ہم وقت کی قدر کریں ،جیسا کہ اِس کا حق ہے اوراللہ کی اُن نعمتوں کی قدر کریں، جن کی تفصیل اوپر پیش کر دی گئی ہے،کیونکہ شکرگزاری کا وقت ہر لمحہ ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ہماری زندگی برف کی اُس سِل کی مانند ہے ، جو دھیرے دھیرے پگھلتی جا رہی ہے ۔ عقلمند وہی ہوگا، جو باقی بچی برف کواونچے داموں میں،جس قدر جلد ممکن ہو سکے ،بیچ دے۔ظاہر ہے اِس کا خریدار ہمارے رب کے سوا اور کون ہو سکتا ہے:


اُسی کے واسطے عقبیٰ…، اُسی کے واسطے دُنیا
                                             عوض جنت کے جس نے اپنے رب کو زندگی بیچی…(ع ب)
مروّت سے عاری اِنسانو ں کے یہ کھوکلے شکر گزار اِنسان، کبھی اپنے رب کے شکرگزار بھی بننے کی طرف توجہ دے پائیں گے؟؟


Azeez Belgaumi
No. 43/373 First Floor 
Bhuvaneshwari Nagar Main Road 
Gopalappa layour, M K Ahmed Road, 
Kempapura Hebbal Post 
BANGALORE - 560024

***********************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 721