donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Wada Khelafi : Hamare Samaj Mein

 

وعدہ خلافی: ہمارے سماج میں 


    اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے آخرت کا نظام یہ رکھا ہے کہ چیزوں کامہیا ہونا انسان کی خواہشات کے تابع ہوگا، انسان جو چیز  چاہے گا فوراً اسکے لئے وہ چیز فراہم ہوجائے گی: ’’ولکم فیھا ماتشنھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون‘‘ (حم السجدہ : 31) لیکن دنیا کا معاملہ اس سے مختلف ہے، یہاںانسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے: لیکن و ہ  بروقت پورا نہیں ہو پاتا ، وہ ایک چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے: لیکن وہ چیز اسے بروقت مہیا نہیں ہوتی : اس لئے انسان ایک دوسرے سے لین د ین کا محتاج ہوتا ہے ، اس لین دین میں اکثر عہد و پیمان کی نوبت آتی ہے، اسلئے شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو زندگی کے مختلف مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدہ پر بھروسہ کرنے کی نوبت نہ آتی ہو، وعدہ کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے ، اس لئے وعدے کی بڑی اہمیت ہے۔ 

      اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: عہد کو پوراکر و : کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا: ’’واوفوابالعہد انالعھدکان مسنولا‘‘ (بنی اسرائیل : 34) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے، جووعدہ کو پورا کیا کرتے ہوں، (البقرۃ:22 ) ایک اورموقع پر بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے وعدہ کا پاس ولحاظ رکھتے ہوں۔ ’’ والذین ہم لا منتھم و عھدھم راعون‘‘(المومنون : 8) خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے، کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے : ’’ولن یخلف اللہ وعدہ‘‘ (الحج:6)اللہ کے نبی حضرت اسماعیل ؑ کی تعریف کرتے ہوئے خاص طورپر اس کا ذکر فرمایا گیا کہ وہ وعدے کے سچے تھے ، ’انہٗ کان صادق الواعد‘‘ (مریم :54) 

    رسول اللہؐ نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے: چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوںوہ منافق ہے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کر ے، (بخاری ، حدیث نمبر: 33)نفاق کفرکی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپؐ نے نفاق قراردیا ، اس سے اندازہ کیاجاسکتا کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم بات ہے ، آپؐ نے اپنے عمل کے ذریعہ ایفا ئے عہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ اسکی نظیر ملنی دشوار ہے ، عبداللہ بن ابی الحمساء سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کی بعث سے پہلے آپ ؐسے خرید و فروخت کی، آپ کی کچھ چیز باقی رہ گئی ،میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لیکر آتا ہوں، میں بھول گیا یہاں تک کہ آج اور آئندہ کل کا دن گزر گیا ، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ اسی جگہ پر تھے، آپ ؐنے صرف اس قدر فرمایا : تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دنوں سے تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ (ابو دائود ، حدیث نمبر : 4996)

    وعدہ کی پابندی اور ایفاء عہد کا یہی سبق آپ ؐ سے آپ کے رفقاء نے پڑھا ، اور اپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا : چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؑ کی وفات کا وقت ا ٓیا، توفرمایا کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدہ سے ملتی جلتی ہے، تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ا یک علامت کے ساتھ اللہ سے ملنا نہیں چاہتا ، اس لئے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا (احیاء العلوم : 132-3) ان واقعات سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ رسول اللہ ؐاورآپ کے صحابہ ؑ کی نگاہ میں وعدہ کو پورا کرنے کی کس قدر اہمیت تھی، دوست ہو یا دشمن ، اپنا ہو یا بیگانہ ، اورمسلمان ہو یاغیرمسلم ، ہر ایک کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری  ہے، ر سول اللہ ؐ صلحِ حدیبیہ سے جوں ہی فارغ ہوئے حضرت ابو چندل ؑ خون میں لہولہان اور پائوں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لے آئے ،اور مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ انھیں مدینہ لے جایا جائے، آپ ؐنے اہل مکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، کہ اس دفعہ سے جو مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ جانے والوں کو و اپس کرنے کے سلسلہ میں ہے، حضرت ابو جندل ؑ کو مستثنیٰ رکھا جائے : لیکن ا ہل مکہ نے نہیں مانا : چنانچہ بالآخر آپ نے انہیں واپس فرمادیا ،اسی طرح جن غیر مسلم قبائل سے آپ کے معاہدات ہوئے، آپ نے ان معاہدات کا پورا خیال رکھا: بلکہ بعض دفعہ مخالفین کی عہد شکنی کو برداشت کرتے ہوئے بھی آپ اپنے عہد پر قائم رہے۔ 

    افسوس کہ اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ  خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہوگئی ہیں اورلوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی۔ عام طورپر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ عام  طور پرلوگ سمجھتے ہیں کہ قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدہ کا تعلق ہے ، حالاں کہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد و پیماں گزرتے ہیں، معاملات جتنے بھی ہیں نکاح ، خرید و فروخت ، شرکت اور پاٹنر شپ ، دو طرفہ وعدہ ہی سے عبارت ہے ، اسی لئے معاملات کو عقد کہا جاتاہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ اور معاہدہ ، اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عقود کی طرف  توجہ فرمایا ہے: ’’واو فو ابالعقود‘‘(ایمائدۃ :1)نکاح کے ذریعہ مرد عورت کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے اخراجات کی ادائیگی کا عہد کرتا ہے اور عورت جائز باتوں میں شوہرکی فرماں برداری کا وعدہ کرتی ہے : لہذا اگر شوہر بیوی کی  حق تلفی کرے یا بیوی شوہر کے ساتھ حکم عدولی کرے تو  صرف حق تلفی اور عدول حکمی کا گناہ  ہوگا: بلکہ وہ وعدہ خلافی کے بھی گناہ گارہوں گے، بیچنے والا گاہک سے مال کے صحیح ہونے اور قیمت کے مناسب ہونے کا وعدہ کرتا ہے، اگر وہ گاہک سے عیب چھپا کر سامان بیچے یا قیمت میںمعمول سے زیادہ نفع وصول کرلے اور گاہک کو جتائے کہ اس نے مع نفع پر سامان فروخت کیا ہے ، تو یہ عقد تجارت کے ذریعہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو عہدکرتے ہیں، اس کی خلاف ورزی ہے۔ 


    جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یاغیر سرکاری ادارہ میں جو ا وقات کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں، اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں۔دیر سے دفتر پہنچیں ، پہلے دفتر سے نکل جائیں۔ یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں،یا دفتر کے اوقات میں مفروضہ کام انجام دینے کے بجائے اپنا ذاتی کام کرنے لگیں، تو یہ بھی وعدہ کی خلاف ورزی میں شامل ہے، بعض شعبوں میں ملازمین کوخصوصی الائونس دیا جاتاہے، کہ وہ پرائیویٹ طورپر کوئی اورکام نہ کریں، خاص کر میڈیکل شعبہ میں گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر کی پوری توجہ سرکاری دواخانے میںآنے والے مریضوں پرخرچ ہو: کیوں کہ انسان کی  قوت کا ر محدود ہے، اور جو شخص اسپتال میں آنے سے پہلے اپنی قوت ڈھیر سارے مریضوں کو دیکھنے پر صرف کرچکا ہو، یقینا اب جومریض اسکے سامنے آئیں گے۔ وہ کماحقہ ، اس کی تشخیص گورنمنٹ سے الائونس بھی حاصل کرے اور  نجی کلینک اور نرسنگ ہو م بھی چلائے تو یہ وعدہ خلافی ہی کے زمرے میں آئے گا اور یہ بات تو ستم بالائے ستم ہوگی کہ جب کوئی مریض سرکاری دواخانہ میں آئے ، تومعالج اس سے بے اعتنائی برتے ، کہ وہ اس کے پرائیویٹ دواخانہ سے رجوع ہونے پر مجبور ہوجائے یہ وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ عوام پر کھلا ہوا ظلم بھی ہے۔ 

    آج کل بعض سواریوں کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے میٹر لگے ہوئے ہیں، اس میٹر میں فریقین کی رعایت ملحوظ ہے: لیکن ہوتا یہ ہے کہ پسنجر کی مجبوری اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے میٹر سے زیادہ پیسے طلب کئے جاتے ہیں، یہ بھی وعدہ خلافی کے زمرہ میں داخل ہے:کیوں کہ گورنمنٹ کافیکس لائسنس ٹیکس کے قواعد ضوابط کے ساتھ مربوط ہے، گویا لائسنس لینے والا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق ہی پیسے وصول کرے گا ، لوگوں کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے زائد پیسوں کا طلب گارہونا اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔ 

    وعدہ کا تعلق ہماری تقریبات ،جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے، مثلاً دعوت نامہ میںلکھا گیاکہ نکاح عصر کے بعد ہوگا: لیکن جب تقریب میں پہنچے تومعلوم ہواکہ نوشہ صاحب اپنی شان خاص کے ساتھ عشاء کے بعد تشریف لائے ، دعوت نامہ میں لکھا گیا کہ طعام ولیمہ 8بجے شب میں ہے: لیکن حقیقت معنوں میں دعوت کی ابتداء دس بجے شب سے ہوئی۔ کیا یہ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ غور کیجئے کہ لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاس  داری میں کرتے ہیں ، کسی کے یہاں بیماری ہے، کوئی خود بیمار ہے، کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آئندہ پروگرام بنارکھا ہے، ایسے مواقع پر یہ تاخیر اس کے لئے کس قدر گراں گزرتی ہے آکر واپس ہونے میں میزبان کی ناگواری کااندیشہ اور انتظارکرنے میں دوسرے پروگرام متاثر ! 

    افسوس کہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں بھی ہم اسکی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے ،اعلان ہوا کہ نماز عشاء کے فوراً بعد جلسہ شروع ہوگا: لیکن عملاً مزید دوگھنٹہ تاخیر سے جلسہ کا آغاز ہوا، دعوت نامے میں صبح 9بجے سے جلسہ کا اعلان کیا گیا:لیکن جلسہ کا آغاز ہی 11بجے کے بعد ہوا، یہ وعدہ خلافی بھی ہے اور وقت کی ناقدری بھی کچھ یہی حال بعض مقررین کا ہوتا ہے،مقرر صاحب کو وقت 20 منٹ کا دیا گیا :لیکن جب مائک ان کے ہاتھ میں آیا تو انہیں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ اس پروگرام میں ان کے سواکسی اورکو تقریر کا حق نہیں ، اور اس طرح دوسرے مقررین کیلئے یا تو و قت نہیں بچا ، یاسامعین کے صبر کا امتحان ہوتا رہا : حالانکہ اسلام نے وعدے کو تمام عبادتوں کے ساتھ مربوط رکھا ہے، نماز کے لئے ا وقات مقررہیں، وقت گزرجائے تو نماز قضاء ہوجائے گی، وقت سے پہلے پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی ، روزہ بھی وقت سے متعلق ہے دومنٹ پہلے افطار کرلے تو روزہ درست نہیں ہوگا۔ دومنٹ بعد سحری کھائیں تب بھی روزہ فاسد ہوجائے گا، حج بھی پانچ مقررہ ایام میں کیا جاتا ہے اور حج کے تمام افعال کے لئے ایام واوقات مقررہیں ، زکوٰۃ کا تعلق بھی مال پر سال گزرنے سے ہے۔ عجیب بات ہے کہ جس دین میں وقت کا اتنا پاس ولحاظ ہو، اسی دین کے ماننے والوں میں وقت کی اس درجہ ناقدری اور ناحق شناسی یہ سب باتیں وعدہ خلافی میں داخل ہیں! 

    ہم جب کسی ملک کی شہریت اختیار کریں تو یہ اس ملک کے قوانین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہے: لہٰذا جب تک وہ قوانین اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں یا صریحاً ظلم پر مبنی نہ ہو ں ان قوانین کا پابند رہنا ہم پر واجب ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا ملک کے ساتھ کئے ہوئے عہدکی خلاف ورزی ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے۔ غرض ، سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ ایک عہد کے پابند ہیں۔ بعض عہد ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں، بعض عہد ملک کے شہری ہونے کے لحاظ سے از خود ہم سے متعلق ہوجاتا ہے، بعض عہدکسی معاملہ کی وجہ سے شرعاً ہمارے ذمہ ہوتا ہے اور بعض سماج کے عُرف ورواج کی بنیاد پر بھی ہمارے لئے واجب العمل ہوتا ہے ، ہم پران سبکی پاسداری ضروری ہے، مگرزندگی کے کتنے ہی مراحل میں ہم اپنے عہد و پیمان توڑتے ہیں اور وعدے وفا نہیں کرتے ، اس پردقتِ نظر کے ساتھ غور کرنے اوروعدہ خلافی وبدعہدی کے گناہ سے بچنے کی ضرورت ہے۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 796