donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Chishtiya Silsila Khwaja Gharib Nawaz Se Pahle


چشتیہ سلسلہ خواجہ غریب نواز سے پہلے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    تمام سلاسل طریقت کا منبع ایک ہے، رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ با برکات۔ طریقت کے سبھی سلسلے مختلف صوفیہ اور اہل عرفان کے واسطوں سے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ طریقت جو سلسلہ چشتیہ کے نام سے مشہور ہے، اسی مقام پر آکر مکمل ہوتا ہے۔ درمیان میں پندرہ بزرگوں  کے واسطے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ

    صوفیہ کی روایات کے مطابق رسول پاک ﷺ سے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کو یہ سلسلہ حاصل ہوا،جو کہ رسول اللہ کے پروردہ، چچا زاد، اور داماد بھی تھے۔ حضرات ِ حسن و حسین انھیں کے صاحبزادے تھے۔ آپ خلیفۃ المسلمین ہوئے اور ایک بڑا خطہ آپ کے زیر نگیں تھا باوجود اس کے فقروفاقہ کی زندگی گذاری اور مسکینی کی حالت میں رہنا پسند فرمایا۔ صوفیہ نے بھی اسی شعار کو اپنایا۔صوفیہ کے حلقے میں ’’الفقرفخری‘‘ یعنی فقر ہمارے لئے باعث فخر ہے کا جملہ زبان زد عام رہا۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ

    حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔۲۱ ہجری میں مدینہ طیبہ میں ولادت ہوئی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت تھا۔ آپ نے بچے کے حُسن کو دیکھ کر اس کانام حَسن رکھا اور وہ واقعی اپنے کردار و اطوار سے حسن ثابت ہوئے۔ امّ المومنین ام سلمہ نے اپنا دودھ پلایا۔ حسن بصری کی والدہ ان کی آزاد کردہ کنیز تھیں۔ آپ نے ۱۳۰ صحابہ کو دیکھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرات حسن وحسین اور کمیل بن زیاد سے فیض صحبت پائی اور خلافت حاصل کی۔ آپ ہی کے عہد میں تصوف کو باقاعدہ ایک روحانی شعبے کی شکل ملی۔ آپ نے خوب ریاضت و مجاہدے کئے۔حسن بصری کے کئی مشہور خلفاء ہوئے جن میںحضرت عبدالواحد بن زید بھی تھے۔

عبدالواحد بن زیدرحمۃ اللہ علیہ

    آپ کثرت سے مجاہدے کیا کرتے تھے۔ چالیس روز سخت مجاہدہ کرنے کے بعد آپ نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ نے حکم قرآنی کے مطابق ایک عرصے تک سیر و سیاحت کی اور اس دوران عبادت وریاضت بھی کرتے رہے۔نواسۂ رسول حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے فیض صحبت پایا مگر خرقۂ خلافت حسن بصری سے ہی حاصل کیا۔۷۷ھ میں بصرہ میں رحلت فرمائی۔

فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ

    حضرت عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں فضیل بن عیاض کو بطور صوفی خوب شہرت ملی۔ آپ کی پیدائش سمرقند میں ہوئی مگر خراسان میں ظاہری علوم حاصل کرنے کی غرض سے اپنا بیشتر وقت گذارا۔تفسیر اور حدیث کے علوم میں امام کے مقام تک پہنچے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی آپ کی علمی ملاقاتیں رہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض کے مزاج میں صبر وشکر بہت زیادہ تھا اور مرضی مولیٰ میں راضی رہتے تھے۔ قلب میں سوز وگداز کی کیفیت کا غلبہ رہتا تھا۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھا۔ تلاوت قرآن کی آواز سنتے تو وجد کی حالت میں آجاتے اور بے خودی طاری ہوجاتی اور اسی حالت میں ۱۹۷ھ میں انتقال ہوا۔ مکہ معظمہ میں ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ

    حضرت ابراہیم بن ادہم کا تعلق بلخ کے شاہی خاندان سے تھا، مگر انھوں نے تمام عیش و عشرت کو چھوڑ کر مسکینی اور خدا طلبی کی راہ اپنا لی تھی۔ حضرت سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور امام ابویوسف رحمہم اللہ سے آپ کی ملاقاتیں رہیں اور بیعت و خلافت آپ نے فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے پائی۔ اسی کے ساتھ امام باقر سے بھی خرقہ خلافت پایا تھا۔ ۲۶۱ھ میں انتقال ہوا اور بغداد میں دفن ہوئے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی قبر بھی یہیں ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ کی قبر شام میں ہے۔

حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ

    حضرت حذیفہ مر عشی رحمۃ اللہ علیہ دمشق کے مرعش علاقہ کے رہنے والے تھے۔ انتہائی ذہین تھے۔ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا اور اٹھارہ سال کی عمر میں تمام ظاہری علوم حاصل کرچکے تھے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔ کثرت ریاضت و مجاہدہ کے سبب چھ مہینے میں ہی باطنی کمالات حاصل کرلئے۔ مرشد نے خلافت اور دعائوں سے نوازا۔ خوف و خشیت کا غلبہ رہتا تھا۔ اکثر گریہ و زاری کرتے رہتے تھے اور معمولی لباس پہنتے تھے۔ ۲۵۲ھ میں بصرہ میں انتقال ہوا۔

حضرت ہبیرہ بصری رحمۃ اللہ علیہ

    آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔ درویشوں کی صحبت سے خاص لگائو تھا۔ تیس سال تک کثرت سے عبادت و ریاضت میں مصروف رہے، پھر حضرت حذیفہ مرعشی کے مرید ہوگئے۔ اپنے پیر کے حکم سے مزید تیس سال تک عبادت وریاضت کی اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ ایک سو تیس سال تک زندہ رہے۔ ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔ بلا ضرورت گفتگو نہیں کرتے تھے اور اللہ کے ذکرمیں مشغول رہتے تھے۔ ۲۷۵ھ میں انتقال ہوا۔ آپ کی قبر بصرہ میں ہے۔

خواجہ علو ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ

    آپ ایران کے دینور علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہاں سے عراق کے بغداد علم حاصل کرنے کی غرض سے گئے جو اُن دنوں علوم و فنون کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ساری دنیا سے طلباء یہاں آیا کرتے تھے۔ آپ دنیاوی دولت رکھتے تھے اور سخی بھی تھے لہٰذا ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے۔ جب مزاج پر روحانیت کا غلبہ ہوا تو تمام دولت غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کردی۔ باطنی اشارہ پاکر حضرت ہبیرہ بصری سے بیعت کی اور عبادت و ریاضت کے بعد باطنی کمال کی تکمیل ہوئی۔ مرشد نے اپنا کمبل عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔ ۲۱۹ھ میں انتقال ہوا۔ مزار مبارک دینور میں ہے۔

خواجہ ابو اسحٰق شامی چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    خواجہ ابو اسحٰق شامی چشتی رحمۃ اللہ علیہ ملک شام میں پیدا ہوئے، اسی لحاظ سے شامی کہے گئے۔ قصبہ چشت میں تعلیم وتربیت ہوئی۔ بہت کم کھانا کھاتے تھے اور زیادہ روزے رکھتے وعبادت کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بھوک میں جو لذت پاتا ہوں وہ کسی کھانے میں نہیں پاتا۔ بغداد پہنچ کر خواجہ ممشاد دینوری نے بیعت کی۔ مرشد نے جب نام پوچھا تو ابو اسحٰق شامی بتایا۔ مرشد نے کہا آج سے لوگ تمہیں ابواسحٰق چشتی کہیں گے اور جو بھی تمہارے سلسلے میں داخل ہوگا، چشتی کہلائے گا۔ اسی نسبت سے آپ کا سلسلہ بعد میں چشتیہ کہلایا۔ ۳۴۰ھ میں انتقال ہوا اور ملک شام میں دفن ہوئے۔

خواجہ ابو احمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    آپ خواجہ ابو اسحٰق چشتی کے ممتاز خلفاء میں تھے۔ چشت کے شرفاء کے طبقے سے تھے۔ امراء کے طریقے پر تعلیم و تربیت ہوئی تھی ۔ایک بار جنگل گئے جہاں اتفاق سے حضرت خواجہ ابواسحٰق چشتی پر نظر پڑی تو دل کی دنیا بدل گئی۔انھیں کی زیر نگرانی مجاہدے کئے اور بلند مقام تک پہنچے۔ صاحب کشف و کرامات تھے۔ اسلام کی تبلیغ میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ اپنے مرشد کی طرح سماع کا شوق تھا۔ ۳۵۵ھ میں انتقال فرمایا اور قصبہ چشت میں دفن ہوئے۔   

خواجہ ابو محمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    آپ خواجہ ابو احمد چشتی کے فرزند تھے، اس لئے روحانی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور اسی ماھول میں پرورش ہوئی۔کامل بزرگوں سے تربیت پائی اور خود بھی درجہ کمال تک پہنچے۔ جب شعور کی عمر کو پہنچے تو اپنے والد کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور انھیں سے خلافت بھی پائی تھی۔ کثرت سے مجاہدے کرتے اور کم غذا کا استعمال کیا کرتے تھے۔ چہرے پر ایسا نور تھا کہ دیکھنے والاگرویدہ ہوجایا کرتا تھا۔ آپ کے ہاتھ کثرت سے غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ ستر سال کی عمر میں ۴۱۱ھ میں انتقال ہوا۔

خواجہ ناصرالدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    آپ کا پورا نام خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب امام زین العابدین سے ملتا ہے۔ آپ کی پرورش اپنے ماموں کے زیر سایہ ہوئی جو روحانیت کی دنیا میں خواجہ محمد ابدال چشتی کے نام سے مشہور تھے۔ آپ نے انھیں کے ہاتھ پر بیعت کی اور بارہ سال کے مجاہدے کے بعد ان کے خلیفہ وجانشیں ہوئے۔ شب وروز تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے۔ وصال فرمانے سے قبل اپنے بڑے صاحبزادے حضرت قطب الدین مودود چشتی کو حصول علم کی وصیت کی اور اپنا جانشین بنایا۔ ۴۵۹ھ میں انتقال ہوا۔ مزار شریف چشت میں ہے۔

خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    خواجہ قطب الدین مودود چشتی انتہائی  ذہین و فطین انسان تھے۔ کم عمر میں ہی ظاہری علوم کی تکمیل کی۔ گھر میں روحانیت کا ماحول تھا لہٰذا وہی رنگ غالب آیا۔ والد کی نگرانی میں باطنی کمالات حاصل کئے محض ۲۶ سال کی عمر میں خرقہ پایا۔ آپ معمولی خوراک لیتے اور فقر و فاقہ کو پسند کرتے تھے۔ آپ مشائخ میں کمالات کے قائل تھے۔ آپ کو کشف قبور و ارواح کا علم تھا۔ خلفاء اور

مریدین کی کثرت تھی۔ مشہور صوفی خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ہی خلیفہ تھے۔


حاجی شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ

    آپ کا پوار نام خواجہ منیر الدین شریف زندنی تھا۔ آپ ان خوش نصیب افراد میں ہیں جنھیں آنکھ کھولتے ہی روحانی ماحول ملا۔ حاجی صاحب کی پیدائش بخارا کے موضع زندنہ میں ہوئی اسی مناسبت سے زندنی کہے گئے۔ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد باطنی کمالات میں مصروف ہوگئے۔ برسوں جنگلوں میں عبادت گذاری کی اور جنگلی خوراک پر گذارہ کیا۔ مال و دولت سے دور رہتے اور کوئی کچھ پیش کرتا تو ناپسند کیا کرتے تھے۔چہرے پر غضب و جلال کے آثار تھے۔ روایت ہے کہ ۴۷۴ھ میں انتقال ہوا اور مزار پاک شام میں ہے۔  

خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ

    خواجہ صاحب کی ولادت قصبہ ہارون ضلع نیشاپور میں ہوئی۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے۔ ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد حاجی شریف زندنی کی خدمت میں پہنچے اور تیس سال کی محنت کے بعد باطنی کمالات حاصل کیا۔ انھیں سے خلافت بھی پائی۔کئی کئی دن تک لگاتار روزے رکھا کرتے تھے اور ستّر سال تک عبادت الٰہی میں مصروف رہے۔ آپ نے آتش پرستوں کے بیچ دین کا کام کیا اور ان میں سے بے شمار صاحب ایمان ہوئے۔ عمر کے آخری حصے میں مکہ معظمہ میں رہائش اختیار کرلی اور گوشہ نشینی کی زندگی گذارنے لگے۔ ۶۱۷ھ میں انتقال ہوا اور مکہ میں ہی دفن ہوئے۔

خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

    خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ دنیا کے معروف ترین صوفی ہیں۔ آپ خواجہ عثمان ہارونی کے خلیفہ اور مرید ہیں۔ مرشد کے زیر نگرانی تربیت ہوئی ۔ تکمیل کے بعد آپ ان سے رخصت ہوکر ہندوستان تشریف لائے اور یہاں آپ ہی کے ذریعے سلسلہ چشتیہ کی بنیاد پڑی پھر خلفاء وجانشینوں نے اسے پورے برصغیر میں پھیلا دیا اور یہ اس خطے کا سب سے مقبول سلسلہ بن گیا ۔ ماضی میں جن صوفیہ نے یہاں روحانیت اور تصوف کی اشاعت کا کام کیا ان میں سب سے زیادہ اسی سلسلے سے تعلق رکھنے والے  تھے۔ چشتی سلسلۂ طریقت کے صوفیہ نے اسلام کی اشاعت میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کا عوام سے گہرا ربط تھا جس کے سبب سماج کے نچلے طبقے تک بھی اسلام کا پیغام پہنچا۔خواجہ معین الدین چشتی کی پیدائش اگرچہ ایران کے سنجر میں ہوئی مگر تصوف کی اشاعت کے سلسلے میں آپ کی جدوجہد کا میدان ہندوستان بنا۔

خواجہ صاحب کے بعد سلسلہ چشتیہ

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر روحانیت کا پیغام عام کیا۔ لاکھوں افراد نے آپ کے ذریعے ایمان کی دولت پائی اور بے شمار بے راہ روی  کے شکار افراد نے راہ راست پائی۔ آپ نے خود بہت سے بندگان خدا کو کامل بنایا اور انھیں اپنے حلقہ ارادت میں داخل کر کے خلافت سے نوازا۔ آپ کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ تھی ان میں سے ۶۹ کے اسمائے گرامی کتابوں میں ملتے ہیں۔ یہ ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے تھے اور تربیت کے بعد خواجہ صاحب انھیں مختلف علاقوں میں عوام کی رہنمائی کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ ان میں چند کے حالاتِ زندگی تو کتابوں میں مل جاتے ہیں مگر بیشتر کے صرف نام ملتے ہیں۔  
    حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض خلفاء کا تعلق بیرون ہند سے تھا اور بعض آپ سے تب مستفیض ہوئے، جب آپ کی یہاں آمد نہیں ہوئی تھی۔ خواجہ صاحب کا روحانی پیغام آپ کے مریدین اور خلفاء کے ذریعے عام ہوا اور سلسلہ چشتیہ آپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا۔ آج میڈیا کا دور ہے اور جدید آلات کے ترسیل کے ذریعے خواجہ صاحب کا پیغام دنیابھرمیں عام ہورہا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کام حکمت اور سنجیدگی سے کیا جائے۔

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے بہت سے خلفاء ہوئے ، مگر ان میں سے چند کو زیادہ شہرت ملی اور سب سے زیادہ مشہور ہوئے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ جو آپ سے بے حد قربت رکھتے تھے ۔ آپ کو خواجہ صاحب نے دہلی میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ حضرت بختیار کاکی کے بعد ان کے مرید و خلیفہ بابا فریدالدین گنج شکر مقرر ہوئے اور انھوں نے انسانوں کو محبت و یگانگت کا پیغام دیا۔ حضرت گنج شکر کے بھی بہت سے خلفاء تھے ، مگر سب سے زیادہ شہرت حضرت نظام الدین اولیاء کو ملی جو دلی کو مرکز بنا کر اللہ کے بندوں کی خدمت کر تے رہے۔آپ کے بعد آپ کے جانشیں خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی نے دلی میں قیام کر کے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ یہ سلسلہ ان کے بعد بھی جاری رہا اور مختلف بزرگوں کے ذریعے عام ہوتا رہا۔

    انسانی ہمدردی، خدمت خلق، محبت اور بھائی چارہ وہ عظیم جذبات ہیں جنھیں کبھی موت نہیں آتی۔ یہی وہ پیغام تھا جسے صوفیوں نے عام کیا اور یہی پیغام لے کر خواجہ معین الدین چشتی ہندوستان آئے تھے۔ جب تک یہ کائنات ہے اور جب تک اس دھرتی پر انسان باقی ہے یہ پیغام بھی باقی رہے گا اور انسانیت کو نئی زندگی وتازگی بخشتا رہے گا۔


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 840