donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Dahshat Gardi, Jehad Aur Islam Ka Paigham Aman


دہشت گردی، جہاد اور اسلام کا پیغام امن 


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا قرآن کریم کی ’’آیات جہاد‘‘سے تشدد کی تعلیم ملتی ہے؟ کیا اسلام کافروں کو قتل کرنے کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا سیرت نبوی بتاتی ہے کہ دنیا سے اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا خاتمہ کردو؟ کیا اسلام مسلمانوں کو یہودیوں، عیسائیوں ، ہندووں اور دوسرے غیرمسلموں سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے؟ اس قسم کے سوال آئے دن ہمیں سننے کو ملتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی کے پھیلائو کے لئے ذمہ دارقرار دیا جاتا ہے۔ اسلام مخالفوں کا ایک بڑا گروہ ان دنوں انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر سرگرم ہے جو اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہے۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ   سلامتی، امن اور صلح کا مذہب ہے اسلام۔ اسلام نے دنیا کو دہشت نہیں محبت کی تعلیم دی ہے۔ اس نے نفاق نہیں اتفاق سکھایا ہے۔ اس نے انسانوں کو قتل کرنا نہیں بلکہ جانوں کے احترام کے تعلیم د ی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے پھیلائو کے لئے اسلامی تعلیمات کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ آج دہشت گردی کے ساتھ اسلام کو ایسا جوڑ دیا گیا ہے کہ اس کاتصور ہی داڑھی توپی اور کرتے کے ساتھ آتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان سوالوں کا مختصر جائزہ لینگے جو اسلام اور دہشت گردی کے تعلق سے اکثر اچھالے جاتے ہیں۔

قرآن کریم اور حکم ’’جہاد‘‘

قرآن کریم میں حکم جہاد موجود ہے مگر اس کا مقصد دنیا میں بدامنی پھیلانا نہیں بلکہ امن وامان کا قیام ہے۔اصل میں جہاد کا مقصد ہی دہشت گردی کا خاتمہ کر کے امن وامان قائم کرنا ہے۔ اس کا مقصد تشدد نہیں بلکہ تشدد کا خاتمہ ہے۔اس لئے قرآن کی آیات جہاد کو خاص پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان آیات کے تعلق سے عموماً غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور جہاں ایک طرف مخالفین اسلام ان آیات کو بہانہ بناکر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف دہشت گرد جماعتیں بھی انھیں پیش کرکے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کر تی ہیں۔اکثر وبیشتر ایسے مطالبات بھی اٹھتے ہیں کہ قرآن کریم سے ان ۲۴آیات کو خارج کردیا جائے جن میں حکم جہاد ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتیں دانستہ طور پر غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے کی جاتی ہیں یا پھر قرآنی آیات کو نہ سمجھنے والے ایسے مطالبات کرتے ہیں۔ اس قسم کے مطالبات اتنے عام ہیں کہ جہاں ایک طرف مغرب کی اسلام دشمن جماعتوں کی طرف سے ایسی باتیں اٹھتی ہیں تو دوسری طرف بھارت کی فرقہ پرست قوتیں بھی ایسی باتیں کہتی ہیں۔جن آیات میں حکم جہاد ہے ان میں سے کچھ کے ترجمے درج ذیل ہیں:

’’اور جس طرح مشرک تم سے لڑتے ہیں،ویسے ہی تم بھی ان سے جہاد کرو اور جان رکھو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘

(سورہ التوبہ،آیت ۳۶)

’’اور اللہ کے راستے میں ان سے جہاد کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور ان لڑنے والوں کو جہاں پائو مارواور انھیں نکال دو ان جگہوں سے جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا تھا۔‘‘

(سورہ البقرہ، آیت۱۸۹۔۱۹۰)

’’مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر کچھ شک نہ کیا، اور اپنی جان ومال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ وہی سچے ہیں۔‘‘  

(سورہ الحجرات، آیت۱۵)

   ’’اجازت دی گئی انھیں جن سے کافر لڑتے ہیں۔ یہ( اجازت ) اس لئے ہے کہ وہ (اہل ایمان) مظلوم ہیں، اور بیشک اللہ ان کی مدد پر ضرور قادر ہے۔ وہ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے، صرف اس بات پر کہ انھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں سے ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں وہ خانقاہیں ، گرجا گھر ،کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ اور بیشک اللہ قوت والا اور غلبہ واقتدار والا ہے۔‘‘

(سورہ الحج، آیت۳۹۔۴۰)

یہاں قرآن کریم کی جن آیات کے ترجمے تحریر کئے گئے ہیں ان کے علاوہ بھی کچھ آیات اس مفہوم کی موجود ہیں۔ ’’آیات جہاد’’ کے بارے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ آیات خاص اوقات میں نازل ہوئیں اور یہ احکام بھی اسی وقت کے لئے تھے۔ انھیں ان کے پس منظر یا شان نزول سے الگ کرکے دیکھنا ناانصافی ہوگی۔ جب وہ حالات نہیں رہے تو احکام بھی نہیں رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ احکام دفاع کے لئے تھے نہ کہ حملہ اور تشدد کرنے کے لئے۔ان حملوں کا مقصد اس و قت کے ان مظلوم مسلمانوں کو انصاف دلانا تھا جو اپنے گھروں سے نکالے گئے تھے، جن کی املاک کو تباہ کیا گیا تھا اور جنھیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ اپنے دین سے منہ موڑلیں۔ اصل میں ’’جہاد‘‘ ایک ایسا ہتھیار تھا جس کے ذریعے دہشت گردی سے لڑاجا سکتا تھا۔ جن دہشت گردوں نے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالا تھا،ان کی جائیداد پر قبضے کئے تھے ، ان کے مظالم کو روکنے کی جدوجہد کا نام جہاد تھا۔ اس کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ کوئی بھی جہاد کے نام پرتلوار لے کر نکل پڑے ۔ اس لئے ان آیات کا صحیح مفہوم اور درست پس منظر بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔جو لوگ ان آیات کو اسلام کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر پیش کرتے ہیں، انھیں اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھانے کی ضرورت ہے تو عام مسلمان نوجوانوں کو بھی اس کا درست مفہوم معلوم ہونا چاہئے تاکہ انھیں شدت پسند اور تشدد پسند جماعتوں کا آلہ کار بننے سے روکا جائے۔ قرآن کریم تو کسی ایک بے قصور کی جان لینے کو تمام مخلوقات کے قتل کی مثل قرار دیتا ہے اور حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایاکہ’’کتناپاکیزہ ہے تو اور کیسی خوشگوار ہے تیری فضا‘کتناعظیم ہے تو اور کتنامحترم ہے‘ تیرامقام مگراس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے‘ ایک مسلمان کی جان ومال وخون کا احترام اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘۔

 غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتائو

عام طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ دہشت گرد جماعتیں غیر مسلموں کا قتل کرتی ہیں۔ حالانکہ اگر اب تک کے رکارڈ کودیکھا جائے پتہ چلتا ہے کہ ان انتہا پسند گروہوں نے جن لوگوں کی جانیں لی ہیں،ان میں غیرمسلموں سے زیادہ مسلمان شامل رہے ہیں۔ عراق، شام، افغانستان، پاکستان اور افریقی ملکوں کے اعداد وشمار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ جن لوگوں کو ان گروہوں کے سبب اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑا ان میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ عہد نبوی میں یہودیوں کا قتل کیا گیا تھا اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام غیر مسلموں کے قتل کو جائز ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کی باتیں بھی اسلامی تعلیمات اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کے سبب کی جاتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مدینہ منور ہ میں کچھ یہودی قبیلوں کا قتل کیا گیا تھا اور کچھ کو شہر بدر کیا گیا تھا مگر یہ عام شہری نہیں تھے بلکہ جنگ جو جماعتیں تھیں جو اکثر وبیشتر مسلمانوں کے خلاف نہ صرف سازشیں رچتی تھیں بلکہ ان کے خاتمے کے لئے باقاعدہ طور پر میدان میں بھی اتر آتی تھیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے جب تک امن وامان سے رہنا قبول کیا انھیں مدینہ منورہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ اگر گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے پڑوسی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ امن وامان سے رہتے آئے ہیں۔ ایران، عراق، شام، اردن، عمان، لبنان،  مصر، تیونس اور کچھ دوسرے مسلم اکثریتی ملکوں میں یہودی اور عیسائی بڑی تعداد میں اپنے مسلمانوں پڑوسیوںکے ساتھ امن وامان کے ساتھ گزر بسر کرتے رہے ہیں اور کچھ تو آج بھی رہتے ہیں۔ مذہب اسلام نے ہرگز ہرگز ان کے ساتھ برے برتائو کا حکم نہیں دیا۔اگراسلام نے ایسا حکم دیاہوتا تو کیا مسلم اکثریتی ملکوں میں سینکڑوں سال تک عیسائی اور یہودی رہ پاتے۔ اسلام نے تو غیرمسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا جس کی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ کون نہیں جانتا کہ فتح مکہ کے وقت وہ لوگ بھی آپ کی دسترس میں تھے جنھوں نے آپ کو تکلیفیں دی تھیں۔ مکہ معظمہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ لڑائیاں کی تھیں اور آپ کے عزیزوں کو قتل کیا تھا مگر آپ نے سب کو معاف فرمادیا۔ یہاں تک کہ اس عورت کو بھی معاف کردیا جس نے آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’جس نے کسی غیرمسلم کو قتل کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس پرجنت حرام کردی‘‘۔ ایک مرتبہ دوران جنگ کچھ غیر مسلم بچے زد میں آکرر مارے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب اس بات کی اطلاع ملی تو سخت رنج ہوا۔ کسی نے کہا کہ وہ تومشرکین کے بچے تھے مارے گئے تو کیا ہوا؟ یہ بات سن کر آپ نے فرمایا۔’’خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ ہرجان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوئی ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 667