donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Islam Ke Naam Par Dahshatgardi Ki Tareekh


اسلام کے نام پر دہشت گردی کی تاریخ


خارجی، قرامطہ، حشیشین اور باطنیہ فرقے جنھوں نے اسلام کی جڑیں کھودنے کا کام کیا


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی

 

    اِسلام میانہ روی اور اعتدال کا دین ہے اور اس کے ماننے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اعتدال کی حد میں رہیں اور درمیانہ راستے کو اختیار کریں۔ االلہ تعالیٰ نے ملتِ اسلامیہ کا تعارف یوں فرمایا ہے :

’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اْمت بنایا۔‘‘

(البقرۃ، 2 : 143)

    امت وسط کا مطلب ہے ایسی امت جو میانہ روی اور اعتدال والی ہے۔ یہ اعتدال فکر و نظراور اعتقاد میں ہی نہیں بلکہ عمل و کردار میں بھی ہونی چاہئے۔ یہی اسلام کا وصف ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے اندر ایسے طبقے بھی ابھرتے رہے ہیں جو میانہ روی اور اعتدال سے دور ہوگئے تھے یا اسلام کی اصل تعلیمات کو چھوڑ کر ایسے راستے پر چل پڑے تھے جسے درمیانہ راستہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔جو گروہ یا طبقہ میانہ روی سے جتنا دور ہوتا گیا وہ روحِ اسلام سے بھی اتنا دور چلا گیا۔ مختلف ادوار میں کچھ ایسے گروہ بھی مسلمانوں میں ظاہر ہوئے جو اسلام کی راہ اعتدال سے بہت دور ہوگئے۔ یہ لوگ اسلام کی بات کرتے تھے ، اسلامی عبادات انجام دیتے تھے اور اسلامی شکل و صورت اختیار کرنے کے باوجود اسلام سے خارج تصور کیے گئے۔ انہی طبقات میں سرِفہرست گروہ ’’خوارج‘‘ کا ہے۔جسے ہم پہلا دہشت گرد گروہ کہہ سکتے ہیں۔ حالانکہ دہشت گردی کی تعریف طے ہونی ابھی باقی ہے لیکن اگر کسی تشدد پسند گروہ کو دہشت گرد کہا جاسکتا تھا تو یہ لوگ اس کے مستحق تھے کہ انھیں دہشت گرد کہا جائے۔

اسلام میں دہشت گردی کا ظہور

    گروہ خوارج کی ابتدا عہد رسالت میںہی ہوگئی تھی۔ یہ لوگ نظریاتی اعتبار سے شدت پسند تھے اور راہ اعتدال سے دور تھے اور شدت پسندوں کو ہی مومن ومسلم مانتے تھے ۔ ان کی نظر میں عام مسلمان اسلام سے خارج تھے۔ اس قسم کے غیرمعتدل نظریات آج بھی مسلمانوں میں ملتے ہیں۔ ایسے طبقے آج بھی موجود ہیں جو ساری دنیا کے مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی مانتے ہیں، صرف خود کو صاحب ایمان موحد اور اسلام کا صحیح پیروکار سمجھتے ہیں۔اس کے بعد خلافت راشدہ میں دورِ عثمانی اور پھر دورِ مرتضوی میں ان کی فکر کو پروان چڑھنے اور عملی طورپر ظہور کا موقع ملا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں ان کی واضح علامات اور عقائد و نظریات بیان فرمائے ہیں۔ خوارج دراصل اسلام کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرتے تھے اور مسلمانوں کا خون بہانا اپنے انتہاء پسندانہ اور خود ساختہ نظریات کی بناء پر مباح قرار دیتے تھے۔

 خوارِج کا تعارف

    خوارج کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوٰی،میں لکھا ہے
    ’’اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میںمعروف ہے بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اْس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی حاجت تھی۔‘‘

    خارجی یوں تو عہد نبوی میں ہی پیدا ہوگئے تھے مگر عہد عثمانی میں ان کے نظریات کو فروغ ملا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں انھوں نے مسلح بغاوتیں کیں۔ یہ وہ طبقہ تھا جو امیرالمومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور آپ کے صاحبزادے حضرت حسن کو بھی مسلمان نہیں مانتا تھا اور حضرت علی پر حملہ کر کے جس شخص نے شہید کیا وہ خارجی ہی تھا۔ خارجیوں نے امیرمعاویہ کے قتل کی بھی سازش رچی تھی جو اتفاق سے ناکام ہوگئی ۔ اس گروہ نے دیگر صحابہ اور صالحین کے قتل کئے اور عام مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھتا تھا۔یہ لوگ جنگلوں میں بسیرا کرتے تھے اور نماز روزہ میں کثرت کرتے تھے مگر اسلام کی راہ اعتدال سے دور ہوگئے تھے۔دیکھا جائے تو آج کی دہشت گرد تنظیموں میں بھی شدت پسندی نظر آتی ہے اور ان کے ارکان جہاں ایک طرف نماز روزے کے پابند دکھائی دیتے ہیں نیز ظاہری وضع قطع سے اسلام کے داعی نظر آتے ہیں وہیں عام لوگوں کا قتل، اسلام کے نام پر خواتین کے اوپر غیرضروری پابندیاں، بچیوں کے اسکول جانے پر پابندی، شہریوں کو اسلام کی پابندی کے نام پر پریشان کرنا، ان کی پہچان بن گئی ہے۔ عراق اور شام میں داعش جس قسم کی سختیاں کر رہا ہے وہ راہ اعتدال سے بھٹکے ہونے کی علامت ہے۔ شہر نمرود پر صحابہ نے قبضہ کیا تو اس کی نشانیاں نہیں مٹائیں مگر یہ خود کو ان سے بڑا مسلمان ثابت کرنے کے چکر میں اسے برباد کرنے سے نہیں چوکے۔

حسن بن صباح کا گروہ

     حسن بن صباح اسلامی تاریخ کا ایک عجیب وغریب کردار ہے۔اس نے ایران کے ایک قلعہ حضرموت پر قبضہ کرکے ایک جنت بنائی تھی اور حشیش کے بل بوتے پرقاتلوں کا ایک ایساگروہ تشکیل دیا جو کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔اس کے ذریعے حسن نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے علمائ، مشائخ اور سرکاری افسران وامراء کا قتل کرایا۔یہ اپنے ماننے والوں کو حشیش کے نشے میں مبتلا کرکے اپنی خود ساختہ جنت میں داخل کرتا تھا اور اپنے مخالفین کو قتل کرادیتا تھا۔ اس کے پاس کرایے کے قاتل بھی ہوتے تھے اور کوئی بھی شخص اسے پیسے دے کر اپنے مخالف کو مرواسکتا تھا۔اس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے عقائد اسماعیلی شیعوں سے قریب تھے۔مورخین کے مطابق اس نے زنا اور شراب کو حلال قرار دے رکھا تھا اور نماز میں کچھ تخفیف کردیا تھا۔اس کے گروہ نے اپنے دور میں خوب اثرات حاصل کرلئے تھے اور یہ دہشت گردوں کا منظم گروہ تھا جو عہد بنو عباس میں ظاہر ہوا تھا۔اس کا اس قدر بول بالا تھا کہ حکومت بھی خوف زدہ رہتی تھی۔حسن بن صباح تھا تو اسماعیلی پر 1094ء میں اس نے اسماعیلیوں سے قطع تعلق کرکے اپنی ایک آزاد ریاست بنا لی تھی اور اپنے آپ کو "شیخ الجبال" نامزد کیا تھا۔ اس کے گروہ کا خاتمہ ہلاکو خان کے حملے سے ہوا۔

قرامطہ جو قتل وغارت میں نام کرگئے

    بنو عباس کے دور میں قرامطہ نامی ایک فرقہ ظاہر ہوا اور بعض خطوں میں اس نے اپنی حکومت بھی قائم کرلی تھی۔ یہ لوگ بھی خون خرابہ کرتے اور خاص طور پر حاجیوں کو نشانہ بناتے تھے۔ یہ لوگ خانہ کعبہ سے حجر اسود اٹھا لے گئے تھے اور تقریباً بیس سال تک یہ بیت اللہ سے د ور رہا۔ انھوں نے حجراسود کو توڑ ڈالا تھا جو آج بھی ٹکڑوں میں منقسم ہے۔انہوں نے 899 عیسوی میں ایک مثالی سلطنت قائم کرنے کی کوشش میں مشرقی عرب میں مرکوز گروپ بنایا تھا۔ یہ عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے مشہور تھے - اس فرقے کے ایک رہنما ابو طاہر سلیمان نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور اس عظیم اور پاک شہر کی بیحرمتی کی۔اس نے وہاں بیشمار حاجیوں اور زائروں کا قتل عام کیا۔ وہ خانہ کعبہ سے حجر اسود اٹھا کر لے جاتے ہوئے کہہ گیا کہ آئندہ سے حج اس کے یہاں ہوا کرے گا۔قرامطہ نے حرم مقدس میں اس قدر قتل وغارت کی کہ زمزم میں لوگوں کی لاشیں بھر گئیں۔ یہ سب 930 عیسوی کے حج کے دوران ہوا۔اس سے پہلے قرامطیوں نے 900 عیسوی میں بغداد، شام اور بصرہ میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں مہدی کا ظہور ہوا ہے۔یہ لوگ عام سنی اورشیعہ عقائد کے خلاف تھے مگر ولایت علی کے قائل تھے اور امامت کا عقیدہ رکھتے تھے۔

باطنی فرقوں کی خفیہ سازشیں

    مسلمانوں کے بعض فرقے جو عباسی خلافت کے زمانے میں نمودار ہوئے۔ ان کی نوعیت دراصل سیاسی تھی لیکن تب سماج پر مذہب کا غلبہ تھا اور عوام کو کوئی بات سمجھانے کے لئے مذہب کا حوالہ ضروری تھا لہٰذا ان کا طریق استدلال مذہبی ہوتا تھا۔ان میں سے کچھ فرقوں کو باطنیہ کہاجاتا تھا جس کے کئی اسباب تھے۔ اول یہ کہ باطنیہ فرقے والے قرآن اور دیگر امور کے داخلی رخ کو ظواہر پر ترجیح دیتے تھے۔یہ عام طور پر کسی بھی حکم کے دو مفہوم لیتے تھے جس میں ایک ظاہری ہوتا تھا اور دوسرا باطنی مگر باطنی رخ پر عمل کرنا ان کے لئے زیادہ ضروری تھا۔ دوسری بات یہ کہ سرکارکی جانب سے تشدد کا خوف بنا رہتا تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنی تمام سرگرمیاں خفیہ طور پر چلاتے تھے۔ان کے ہاں سیاسی معاملات میں مذہب کا اشتراک ہوتا تھا اور بعض اوقات یہ تشدد کا بھی سہارا لیتے تھے۔ حکومت کو ایسے فرقوں سے ہمیشہ ڈربنا رہتا تھا کہ اگر ان کی سازشیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو حکومت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ان کے بارے میں علم ہوتے ہی حکومت ان کے استیصال کی کوشش کرتی تھی اور عام طور پر بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری تشدد کا شکار ہونا پڑتا تھا۔عام علمائے اسلام بالخصوص دربار خلافت سے وابستہ علما ء اپنے مخالفین کو بطور تحقیر باطنیہ کہتے تھے۔ باطنیہ اصل میںاسماعیلی عقائدکے بہت قریب تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 889