donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Moajzate Quran Kareem Jisne Duniya Ko Hairat Zadah Kar Diya


معجزاتِ قرآن کریم جنھوں نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی
 


    قرآن کریم ایک کتابِ ہدایت ہے جس میں انسانوں کی رہنمائی کا پیغام ہے۔ یہ کوئی سائنسی کتاب نہیں مگر ضمنی طور پر سائنسی بیانات بھی اس میں ہیں اور کچھ ایسے سائنسی عجائبات اس میںبیان کئے گئے ہیں جنھیں جان کر آج کے سائنس داں بھی محو حیرت ہیں۔آج تحقیق کے جدید طریقوں نے جن باتوں کو ثابت کیا ہے اور سائنسدانوں کی ایک طویل جدجہد نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے، ان کا بیان قرآن کریم نے تقریباً چودہ سو سال قبل کردیا تھا۔ تب ریسرچ کے جدید ذرائع نہیں تھے ،اور سائنس نے آج کی طرح ترقی بھی نہیں کی تھی کہ انسانی ذہن ان باتوں کو سمجھ پاتا۔ عرب کا وہ خطہ جو علم و آگہی کی روشنی سے قطعی نابلد تھااس میں کسی ایسے شخص کی زبان سے ان باتوں کا ادا ہونا اور بھی حیرت میں ڈال دینے والی بات تھی، جس نے کبھی کسی اسکول کالج کا دروازہ نہیں دیکھا، کبھی کسی مدرسے میں نہیں گیا اور کسی استاد سے تعلیم نہیں پائی۔ یہ باتیں قرآن کریم کے خدائی کتاب ہونے کی دلیل ہیں اور اس کی سچائی کا ناقابل تردید ثبوت بھی۔

سمندر میںآبی دیوار

    موجودہ دور میں ہر موضوع پر ریسرچ کا کام ہورہا ہے اور محققین نے کسی بھی میدان کو اس سے الگ نہیں رکھا ہے۔پہاڑوں کی بلندوبالا چوٹیاں ہوں یا سمندری کی گہری تہیں ہر جگہ آج انسان کے قدم پہنچ چکے ہیں اور حقائق کی کھوج بین جاری ہے۔ ان معاملات کو اب کیمرے کی آنکھ سے ایک عام آدمی بھی اپنے گھر میں بیٹھے دیکھ سکتا ہے۔ ڈسکوری، نیشنل جیوگرافک ، انیمل پلانیٹ اورہسٹری جیسے ٹی وی چینل آج ہر مقام کی تصویریں آپ کے بیڈ روم تک پہنچا رہے ہیں۔ ان میں سمندر کی تہوں میں آباد دنیاکی تصویریں بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم طرح طرح کے جاندار دیکھ سکتے ہیں اور ان کی زندگی کے معمولات سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔ حالانکہ آج جن مقامات کو ہم ٹی وی چینلوں پر دیکھتے ہیں اور ان کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں ،ان کا بیان قرآن کریم نے صدیوں قبل کردیا تھا۔ مثال کے طور پر اسپین میں جبل الطارق(جبرالٹر) کے دوسمتوں میں واقع سمندر کی تہوں میں ایک انوکھی کائنات آباد ہے۔ یہاں خوبصورت پھول اور پتیاں ہیں، آبی جنگل اور درخت ہیں،انوکھے جاندار ہیں۔ اس سمندری دنیا کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں جس مقام پر دو سمندر ملتے ہیں وہاں پانی ایک دوسرے سے نہیں ملتا، بلکہ دور دور تک اس کی لہریں ایک دوسرے سے الگ رہتی ہیں۔پانی کا مزاج تو یہی ہوتا ہے کہ وہ مختلف قسم کا ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں مل جاتا ہے مگر یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ یہاںدو سمندر ملتے ہیں اور ان کا پانی ایک دوسرے سے الگ رہتا ہے۔ دونوں کے پانی کی خصوصیات بھی الگ الگ ہیں اور سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے نباتات، جمادات اور حیوانات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس راز کا انکشاف سب سے پہلے جس سائنسدان نے کیا ،اس کا نام جیک وی کوسٹو تھا،جو فرانس کا رہنے والا تھا۔اس نے ثابت کیا کہ بحیرۂ روم (Mediterraean Sea)اور بحیرۂ اوقیانوس (Atlantic Sea)کیمیاوی اور حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حالانکہ دونوں سمندر ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے ہیں۔ یہ راز دنیا کے لئے حیرت انگیز تھا مگر دنیا کو حیرت میں ڈال دینے والے کوسٹو کو تب حیرت ہوئی جب اس کے سامنے قرآن کریم کے سورہ رحمٰن کی کچھ آیات پیش کی گئیں۔ یہ تھیں:

    ’’دوسمندرو ں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے کہ مل جائیں ،پھر بھی ان کے درمیان پردہ حائل ہے ،جس سے وہ آگے نہیں بڑھتے ‘‘

    (آیت ۲۰۔۱۹)

    آیاتِ قرآنیہ کو دیکھ کر اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ اس نے قرآن کی عظمت کے اعتراف میں اپنا سر ہی نہیں دل بھی جھکا دیا اورکلمہ پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔

    آپ قرآن کریم کی مذکورہ آیات کو ایک بار پھر پڑھیں اور دونوں سمندروں کی اب تک کی تحقیقات کا جائزہ لیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ قرآن کریم نے کس حقیقت کا بیان کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ یقینا یہ قرآن کے معجزات میں سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے۔

’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ

     کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی ؟اس سلسلے میں ابھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔۱۹۸۰ء میں پہلی بار کچھ سائنسدانون نے ’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ پیش کیا ۔ اس کی بنیاد آئن اسٹائن کا وہ نظریہ تھا جس کے تحت اس نے کہا تھا کہ کائنات کو لازمی طور پربڑھنا اور وسعت اختیار کرنا ہے۔اس نظریے کی کچھ سائنس دانوں کی طرف سے مخالفت بھی ہوئی مگر پھر دنیا نے اسی لائن پر تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا۔ آج جو ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ پر ریسرچ ہورہا ہے وہ بھی اسی نظریے کی دین ہے۔ اس نظریے کی بھی بنیاد کتاب اللہ میں موجود ہے۔ ذرا ان آیات کا مطالعہ کیجئے:

    ’’کہو ،میں پناہ مانگتا ہوں فلق کے رب کی۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔‘‘

(سورہ فلق، آیات۲۔۱)

    ’’فلق‘‘ کا مطلب ہے پھٹنا۔ پھٹنا کئی طرح کا ہوتا ہے۔ جیسے صبح پوپھٹتی ہے اور سورج نمودار ہوتا ہے۔جیسے بیج پھٹتا ہے اور پودا نمودار ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کا مطلب ایک شدید دھماکے کے ساتھ دنیا کا وجود میں آنا نہیں ہوسکتا؟ اگر یہ مفہوم مراد لیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک دھماکے کے ساتھ دنیا کا وجود میں آنے کا نظریہ ثابت ہوتا ہے جس کی تصدیق آج کی سائنس بھی کرتی ہے۔ یہ توضیح زیادہ سائنٹفک توضیح ہوگی۔ یہی ’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ ہے۔ یہ بات بھی اب ثابت ہوگئی ہے کہ دنیا وسعت پذیر ہے اور اس میں لگاتار پھیلائو ہورہا ہے۔یہ کسی غبارے کی طرح پھیل رہی ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق شدت کے ساتھ ہونے والا دھماکہ ہی کائنات کی بنیاد تھا اور اسی سے زمین و کہکشاں وجود میں آئے۔ اس کا پہلا مرحلہ ایک سکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کے اندر ہی پورا ہوچکا تھا۔ اسے قرآن کی زبان میں سمجھیں تو ’’کُن فیکون‘‘ کہا گیا ہے یعنی اللہ نے کہا کہ’’ہوجا ،تو ہوگیا‘‘ ۔ اصل میں ان دو آیات کے اندر اللہ کی صفت تخلیق اور ربوبیت دونوں کی حکمت بیان کردی گئی ہے۔ اس کی مزید تشریح ایک دوسری آیت میں ہوتی جو کچھ اس طرح ہے:

    ’’کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبی کی بات کا )انکار کیا، غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیااور پانی کے ذریعے ہر زندہ چیز پیدا کی،پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے؟

(الانبیائ، آیت۳۱۔۳۰)

    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی وہ حکمت بیان کی ہے جسے حل کرنے کے لئے ساری دنیا کے سائنسداں مصروف عمل ہیں۔ اب تک کی تحقیق یہ ثابت کرچکی ہے کہ کائنات کا وجود ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ اسی سبب یہ زمین اور باقی ستارے و سیارے ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ اسی لئے اوپر کی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے،پھر ہم نے انھیں جدا کیا۔

زندگی اور موت کی سائنس

     زندگی اور موت دونوں حقیقت ہیں۔ اس کائنات کا نظام ہی اسی پر منحصر ہے۔ جن چیزوں کو زندگی ملتی ہے ، انھیں موت بھی آئیگی۔اس دنیا میں سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کرلی ہیں مگر آج تک زندگی دینا اس کے بس میں نہیں ہے اور موت بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ زندگی اور موت کی سائنس پر بھی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے مگر قرآن کریم نے اسے خاص اللہ کی قدرت کاملہ کا حصہ قرار دیا ہے اور اس کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح اس نے عدم سے ہمیں وجود بخشا ہے اسی طرح وہ وجود کو ختم کرنے کے بعد بھی دوبارہ وجود میں لائے گا۔ ذرا قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کریں:

    ’’وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے ،اورمردے کو زندہ میں سے نکال لاتا ہے، اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے ) نکال لئے جائو گے۔‘‘

(سورہ روم،آیت ۱۹

    اس آیت کی تشریح سائنس اور علم حیاتیات کے رو سے بہت طویل ہوسکتی ہے ۔ اس دنیا میں ایسے جانداروں کی کمی نہیں جو بچہ جننے یا انڈہ دینے کی حالت میں ہی مرجاتے ہیں۔ مچھلیوں کی کئی اقسام ایسی ہوتی ہیں کہ وہ انڈہ دینے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر کا سفر کرتی ہیں اور اپنے مقام پر پہنچ کر مرجاتی ہیں مگر ان کی موت کے ساتھ ہی ہزاروں زندگیوں کی شروعات ہوتی ہے۔ مکڑیوں اور تتلیوں میں بھی بعض ایسی ہوتی ہیں جو انڈہ دینے سے قبل ہی مرجاتی ہیں اور ان کی موت کے بعد ان کے پیٹ سے انڈہ باہر آتا ہے اور پھر اس میں سے بچہ نکلتا ہے۔ یونہی کچھ کیڑے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہمبستری کے دوران ہی مادہ اپنے نر کو مار ڈالتی ہے اور پھر اس کے مادہ منویہ سے استفادہ کرتی ہے اور نئی نسل کی بنیاد ڈالتی ہے۔ آج ہم جانوروں کے ان حقائق کو ٹی وی چینلوں کے ذریعے اپنے گھر میں بیٹھے دیکھتے ہیں مگر قرآن نے اس حقیقت کا بیان صدیوں قبل کردیا تھا جب سائنس اس مقام تک نہیں پہنچی تھی جہاں وہ آج ہے۔ یونہی بنجر زمین پر پانی برسانا اور اسے سرسبز کرنا اسی کا کام ہے۔ بعض پیڑ پودے ایسے ہوتے ہیں جو شدید گرمی اور دھوپ کے سبب سوکھ جاتے ہیں اور بے جان ہوجاتے ہیں مگر جیسے ہی انھیں مناسب ماحول ملتا ہے ان کے اندر دوبارہ زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ افریقہ کے صحرا میں ایک ایسا پودا پایا جاتا ہے جو گرمی کی شدت نہیں جھیل پاتا اور سوکھ جاتا ہے مگر اپنی موت کے سو سال بعد بھی اگر اسے پانی میسر آجائے تو وہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہو اٹھتا ہے۔

    یہاں صرف چند مثالیں پیش کی گئیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں جو سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ رازہائے سربستہ کا انکشاف ہیں۔ جن علوم تک انسان آج پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا بیان پہلے سے قرآن کریم میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب آج کی جدید سائنس کے لئے بھی عجائبات ہیں۔ ان کی موجودگی میں بھی اگر کسی کا دل قرآن کی حقانیت کو تسلیم نہ کرے تو یہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کی دنیا اگر قرآن کا مطالعہ کر رہی ہے تو وہ اس سے متاثر بھی ہورہی ہے۔ آج سب سے تیزی سے اسلام مغرب میں پھیل رہا ہے اور وہ لوگ قبول کررہے ہیں جو دنیاوی و سائنسی علوم سے بہرہ ور ہیں۔ ایسا س لئے ہورہا ہے کہ وہ قرآن کے عجائبات سے متاثر ہورہے ہیں اور جو جتنا بڑا علم والا ہوگا اس کے لئے قرآن کا معانی کو سمجھنا اسی قدر آسان ہوگا۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 713