donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sunnate Nabvi Par Amal Sehatmand Zindagi Ki Zamanat


سنت نبویﷺ پر عمل صحت مندزندگی کی ضمانت


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی
 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک گنوار اور بدو قوم کے اندر ہوئی۔ یہ قوم علوم وفنون اور تہذیب وتمدن سے کوسوں دور تھی‘ مگر آپ نے انہیں ایک تھوڑی سی مدت کے اندر علم وفن اور تہذیب وکلچر سے آشنا فرمادیا۔ آپ کا طریقہ ایسا تھا‘ جو نہ صرف سادہ اور تکلف سے بے نیاز تھا‘ بلکہ اپنے دامن میں بے شمار حکمتیں بھی لئے ہوئے تھا۔ عہد حاضر میں ہر شے کو ماڈرن سائنس کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ہم سنت نبوی کو بھی اسی ڈھنگ سے دیکھیں‘ تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اہمیت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔ آپ کا ہر عمل‘ آپ کا ہر طریقہ عین اصول فطرت کے مطابق تھا‘ کیونکہ اسے رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے نمونہ عمل بنایاگیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک ایک سنت میں بے شمار فائدے رکھے گئے ہیں۔ انہیں اگر انسان زندگی کے اصول سمجھ کراپنائے‘ تو بہت سے طبی فائدے حاصل ہوتے ہیں اورسنت کے طور پر عمل کرے‘ تو اخروی جزا کا حقدار ہوتا ہے۔

کھانے کا نبوی طریقہ

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی تاکید فرمایاکرتے تھے۔ اس تعلق سے آپ کے بہت سے اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ، جو شخص کھانے سے قبل ہاتھ دھولیتا ہے وہ فقرو فاقے سے محفوظ رہتا ہے۔ ہاتھ صاف کرکے کھانے کی عادت کے فائدے آج جدید سائنس کی روشنی میں واضح ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاتھ جہاں تہاں لگتے ہیں۔ مختلف چیزوں کو چھوتے ہیں۔ اس طرح یہ جراثیم زدہ ہوتے ہیں۔ اگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھائیں تو یہ جراثیم کھانے کے ساتھ ہمارے جسم کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اور کئی قسم کی بیماریوںمیں مبتلا کردیتے ہیں۔ ایک بے احتیاطی انسانی صحت کے لئے دس پریشانیاں کھڑی کرتی ہے‘ لہٰذاہاتھ دھوکر کھانا میڈیکل سائنس کی نظر میں بھی ایک صحت مند عادت ہے۔ آج کل ٹی وی چینلوں پر صابن اور محلول صابن کے اشتہارات میں بار بار اس بات کا پرچار کیاجاتا ہے کہ صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔ اس طرح کہ صابن ہاتھ کے ہر حصے میں پہنچ جائے۔ اس سے جراثیم دور ہوجائیں گے اور کھانے میں شامل نہیں ہوںگے۔ ظاہرہے کہ آج میڈیکل سائنس جو بات کہہ رہی ہے‘ وہ سنت نبوی میں چودہ سوسال قبل کہی جاچکی ہے۔

آدمی کتناکھائے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس نے مانا ہے کہ زیادہ کھانے سے بدہضمی ہوتی ہے ‘ جسم کے اجزاء اپنی حدوں کے اندر نہیں رہتے‘ جس کے سبب جسم موٹا ہوجاتا ہے اور چربی کی وجہ سے بدن بھدا ہوجاتا ہے۔ آج کی اس تحقیق کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے کے ذریعے بہت پہلے دنیا کے سامنے پیش کردیا تھا۔ آپ نے فرمایا’’آدمی کے پیٹ میں تین حصے ہوتے ہیں۔ ایک تہائی کھانے کے لئے، ایک پانی کے لئے اور تیسراسانس لینے کے لئے‘گویا انسان کو کھانا تین حصوںمیں سے صرف ایک حصہ میں کھانا چاہئے دوسرا حصہ پانی سے بھرناچاہئے اور تیسرا حصہ خالی رکھناچاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس قول میں بہت سی طبی حکمتیں ہیں۔ اگر اس پر عمل کیاجائے‘ تو آدمی بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بھرپیٹ کھانا بہت سے امراض کی جڑہے۔

کھاناہمیشہ ایسا ہو کہ اس کی گرمی تکلیف دہ نہ ہو۔ یعنی بہت گرم کھانا جہاں منہ اور زبان کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے ‘وہیں پیٹ کے اندر کے اعضاء کوبھی نقصان پہنچاتا ہے۔ گلے میں جلن ہوسکتی ہے اور کھانے والا اس کے ذائقے سے لطف اندوز بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ نقصانات موجودہ ترقی یافتہ میڈیکل سائنس نے ثابت کردئیے ہیں‘ مگر اس کی ممانعت بہت پہلے سنت نبوی میں کردی گئی تھی اور پابند سنت لوگوں کی عادت میں یہ طریقہ شامل ہوچکا تھا۔ حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گرم کھانا پسند نہیںکرتے تھے اورفرماتے تھے کہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔ کھاناٹھنڈا کرکے کھایاکرو۔ اللہ تعالیٰ آگ کی گرمی میں کھاناپسند نہیں کرتا۔

جراثیم مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور مختلف جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ کچھ جراثیم ہمارے جسم کے اندر بھی ہوتے ہیں‘ جو ہمارے تھوک‘خون گوشت اور دیگرحصوںمیں پائے جاتے ہیں۔ جسم کے اندرونی حصے کے جراثیم پر ہماری زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ ہماری سانسوں اورپھونکوں کے ذریعے یہ باہر بھی آتے ہیں اورصحت بخش جراثیم سانسوں کے ذریعے جسم کے اندر بھی داخل ہوتے ہیں‘ مگر یہ جراثیم اگر پھونک یا سانسوں کے ذریعے باہر آئیں اورکھانے پینے کی چیزوں میں شامل ہوکر دوبارہ جسم میں داخل ہوں‘ تو یہ صحت کے لئے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ماہرینِ صحت کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع کرتے ہیں۔ کئی لوگوںکی عادت ہوتی ہے کہ بچوں کو کھلاتے پلاتے وقت گرم اشیاء کو پھونک مار کر ٹھنڈا کرتے ہیں‘ پھرکھلاتے ہیں ‘حالانکہ یہ طریقہ صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پھونکنے والے کے اندر کے جراثیم کچھ بیماریاں لے کر باہر آئیں اور کھانے میں شامل ہوکر کھانے والے کے اندر بیماریاں پہنچادیں۔ اس غیر صحت بخش عادت سے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ حدیث میں ہے کہ آپ کھانے پینے کی چیزوں میںپھونک نہیںمارتے تھے۔ اسی طرح اگر دودھ گرم ہوتا تواس میں پھونک نہیںمارتے اور برتن میں منہ لگائے لگائے سانس بھی نہیں لیتے تھے۔ منہ کو برتن سے جداکرکے سانس لیتے اور جب کوئی چیز پیتے ‘تو تین گھونٹ اور تین سا نسوں میں پیتے۔ اگر پینے کی چیز تھوڑی ہوتی‘ تو ایک ہی سانس میں پیتے۔ جب کھانے کا برتن منہ کے قریب لاتے‘ توبسم اللہ پڑھتے اور جب کھاپی لیتے‘ تو برتن ہٹاکر خدا کا شکر اداکرتے۔

دودھ اور شہد کے فوائد

 دودھ اور شہد ایسی غذائی چیزیں ہیں‘ جنہیں ملٹی وٹامن کہاجاسکتا ہے، یعنی ان میںہر قسم کے حیا تین کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ یہ غذائیت سے بھرپور ہیں اوران کی اہمیت ہردور میں مسلم رہی ہے۔ دودھ کا استعمال ہر زمانے میں کھانا اورپانی دونوں کی جگہ پرہوتا ہے۔ یہ انسان کی غذا میں اس دورسے شامل رہا ہے‘ جب اس نے متمدن زندگی کی ابتدا بھی نہ کی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غذائی چیزوں میں دودھ اور شہد بے حد پسند تھے۔ اکثر کھانے کے اخیر میں دودھ پیاکرتے اور فرماتے، یہ میری آخری چیز ہے، یعنی آپ کے کھانے کا آخری جزدودھ ہواکرتاتھا۔ کبھی آپ خالص دودھ نوش فرماتے اور کبھی اس میں ٹھنڈاپانی ملاکر پیتے۔ جب آپ کی خدمت میں دودھ پیش کیاجاتا‘ تو فرماتے یہ بڑی بابرکت چیز ہے۔ بسااوقات آپ دودھ اور کھجور ملاکر کھاتے اور فرماتے‘ یہ دونوں پاکیزہ اور عمدہ ترین چیزیں ہیں۔ کبھی مکھن سے بھی آپ کھجوریں تناول فرماتے۔ واضح ہو کہ دودھ اور شہد کی طرح کھجوریں بھی وٹامن سے پُرہوتی ہیں۔

لوکی‘ گوشت کے فوائد

 گوشت کو کھانوں کا راجہ کہاجاتا ہے‘ جن علاقوں میں کاشت کاری کے لائق زمینیں نہیں ہوتیں‘ وہاں انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح برفیلے علاقوںمیںرہنے والے غذا کے طور پر گوشت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق گوشت پروٹین سے بھراہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ دنیا کی بیشتر قوموں کی خوراک کا حصہ ہے‘ مگر کسی بھی چیز کی معمول سے زیادتی نقصاندہ ہوتی ہے۔ پھر گوشت کا زیادہ استعمال اور اس کے بعد جسمانی محنت میں کمی یا اس میں مسالوں کی بہت زیادہ شمولیت نقصان کا سبب بنتی ہے۔ حالانکہ گوشت اپنے آپ میں ایک صحت بخش غذا ہے اور جب انسان جنگلوں میں ایک فطری زندگی گذارتا تھا‘ تب بھی اس کی زندگی کا انحصار جنگلی پھلوں اورشکار کے گوشت پر ہوتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غذا میں گوشت کو پسند فرماتے تھے اور ارشاد فرمایا کہ اس سے سننے کی طاقت میں اضافہ ہوتاہے۔ اسی طرح آپ کو گوشت کے ساتھ کدو کا شامل کرنا بھی پسند تھا۔ احادیث کے مطابق آپ کوکئی بار گوشت اور کدو کے سالن میں کدو ڈھونڈتے ہوئے دیکھاگیا۔ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ہانڈی پکاتے ہوئے اس میں کدو زیادہ ڈال دیا کرو‘ کیونکہ کدو دل کو تقویت دیتا ہے۔ صحابی رسول حضرت جابر بن طارق کا بیان ہے کہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا‘تو دیکھا کہ کدوکاٹ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ یہ کیا ہے‘ تو فرمایا کہ ہم اس کے ذریعے اپنے سالن اور کھانے میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ ایک درزی نے حضور کو کھانے پر بلایا۔ ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس نے جوکی روٹی‘ کدو کا شوربہ اور خشک گوشت کے ٹکڑے آپ کے سامنے رکھ دئیے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کدو کے ٹکڑے تلاش کررہے ہیں۔

اصل میں گوشت کی فطرت گرم ہے اور کدو کی سرد۔ کدو کی سرد طبیعت گوشت کی گرمی کو کم کردیتی ہے اورکھانے میں اعتدال آجاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ دونوں کا مشترکہ سالن پسند فرماتے تھے۔

 یہاں اوپر صرف چند مثالیں دی گئیں اور بتایاگیا کہ سنت نبوی عین سائنس کے مطابق ہے۔ اگر غور کیاجائے‘ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے میں بے پناہ حکمتیں ہیں۔ غسل‘ وضو‘طہارت‘مسواک اور زندگی کے دیگر معمولات اب جدید سائنس کی نظر میں بھی انتہائی صحت بخش ہیںاور آپ کی دیگر عادتیں بھی اپنے اندر حکمت کے بے پناہ خزانے رکھتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میںشامل کیاجائے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 725