donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Md. Ejaz Urfi Qasmi
Title :
   Eid QurbaN - Sarfaroshi wa JaaN Nisari Ka Aalmi Mazhar



عید قرباں: سر فروشی وجاں نثاری کا عالمی مظہر


 مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی

 قومی صدر آل انڈیا تنظیم علماء حق دہلی


     عید قرباں یا مخصوص قربانی کایادگار ابراہیمی عمل( جو ہر سال حج اور روزے کی طرح ہجری کلینڈر کے آخری بابرکت مہینے ذی الحجہ کی دسویںتاریخ کو عالمی پیمانے پردہرایا جاتا ہے)اسلامی ارکان میں اپنی معنویت اور انسانی زندگی پر اپنے دور رس باطنی اور روحانی اثرات کے حوالے سے اپنی نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ یہ عمل راہ خداوندی میں جاں سپاری اور طاعت وعبویت کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس عمل میں ہر قدم پر صبر وشکر اور تسلیم ورضا کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔  دیگر ارکان اسلام کی طرح قربانی بھی ایک ایسی عبادت ہے جو امت مسلمہ کی طرح ہی سابقہ اقوام وملل کی متنوع عبادتی شکلوں کا ناقابل انفکاک حصہ رہی ہے۔ قربانی کے طریقئہ کار اور اس کی قبولیت کے مدار اور شرائط میں اختلاف ضرور رہا ہے، لیکن بنیادی عمل میں اس درجہ تواتر کے ساتھ اقوام وملل کی شراکت سے ہی اس عمل کی ہمہ گیریت اور وقعت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔  رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی مسلمان قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود اس عمل کو انجام نہ دے، تو اس کے لیے ہماری عید گاہ میں قدم رکھنا روا نہیں۔‘‘

قربانی کا یہ سالانہ عمل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پدرانہ اطاعت شعاری اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کی  فرزندانہ جان نثاری کی یاد تازہ کر تا ہے کہ مرضی خدا اور حکم الہی کے سامنے دونوں بزرگوں نے کس طرح سر تسلیم خم کیا کہ دنیا، دنیا کے مادی لوازمات، خواہش نفس، مادی ضروریات اور مستقبل کے خطرات بھی اس حکم کی تعمیل کے آڑے نہ آسکے۔ تاریخی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مستعار کا پوار عرصہ ابتلاء و آزمائش ، مصائب وآلام اور قدم قدم پر ایمانی امتحان کے واقعات سے پر رہا ہے۔ دنیاوی دستور بھی یہی ہے کہ سچا عاشق اپنے محبوب ومعشوق کی طرف سے ہر لمحہ آزمائش اور امتحان کی پل صراط سے گزرتارہتا ہے۔ حضرت ابراہیم بھی محبوب بارگاہ الہی تھے، خدائے کارسازاطاعت شعاری اور ایثار وقربانی پر مبنی ان کی ہر ادا کو آنے اولی نسلوں کے لیے یادگار اور قابل تقلید بنانا چاہتاتھا۔ یوں بھی انبیاء کرام کو جس قدر مصائب وآلام کی بھٹی میں تپاکر کندن بنایا گیا، اس سے عام آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’انبیاء کے مقدس گروہ کو ان کے مقام ومرتبہ کے حساب سے امتحان کی دشواریوں اور آزمائش کی کلفتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ ‘‘

ابراہیم خلیل اللہ کے اس تاریخ ساز عمل کو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نمونئہ عمل اور ان کے اسوئہ حسنہ کو زندہ وپائندہ بنانا تھا، اس لیے انھیں بارہا امتحان کے دشوار گزار اور ناقابل برداشت مرحلوں سے گز۔ارا گیا۔ شہنشاہ وقت نمرود کے ذریعے سرخ دہکتی آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ، حضرت ہاجرہ کو اپنی پیرانہ سالی کی یادگار اسماعیلؑ کے ساتھ فاران کی کنکر پتھر والی چوٹیوں اور حجاز کے چٹیل اور بے آب وگیاہ صحرا میں بے یار ومددگار چھوڑنے کا مرحلہ، اور اخیر میں اپنے عصائے پیری اور مدتوں کی دعائے نیم شبی کا ثمرہ اسماعیل کوہی خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کا الوہی حکم؛ یہ وہ آزمائشیں اور جاں گسل امتحانات ہیں جن سے حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے شب وروز لبریز ہیں۔ کتنے سخت ، جان کاہ اور جاں گداز ہیں امتحانات کے یہ مرحلے، لیکن حضرت ابراہیم نے حکم خداوندی کے سامنے جنبش نہ ماری اور ہر حکم کی تعمیل میں صد فی صد کامیاب ہوتے رہے ۔ اللہ تبار ک وتعالی کو ان کی یہ ادابہت پسند آئی اور ان کے اس قربانی والے عمل کو ہمیشہ ہمیش کے لیے امت محمدیہ میں جاری  وساری فرمادیا۔ خدا تعالی کو کسی کی جان لینا اور کسی انسان کے خون سے زمین کو رنگین کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ اللہ تبارک وتعالی کوان کا تقوی، اخلاص، جاں سپاری، ایثار،تسلیم ورضا اور خود سپردگی اور خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کردینے کے رضاکارانہ اور فدا کارانہ جذبے کاامتحان لینا مقصد تھا۔ واقعی اخلاص، تقوی، جاں سپاری کا اللہ تبارک وتعالی کے ہاں جو مقام ہے، وہ کسی دوسری چیز کا نہیں ۔ اطاعت گزاری، وفا شعاری اور راہ حق میں سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ ہی در اصل وہ ایمانی جوہر ہے، جو کسی ایمان والے بندے کا اصلی اورپائے دار سرمایہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی عمل خواہ وہ مقدار اور تعداد میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت کی معراج طے نہیں کرسکتا۔ قربانی کا عمل تو تقوی کی آمیزش کے بغیر قبول ہی نہیں۔ خدانے خود مقبولیت کا معیارطے کردیا ہے۔ فرمان باری ہے:’’اللہ تو متقیوں کی قربانی کو ہی قبولیت کا تمغہ عطا کرتا ہے۔‘‘(مائدہ:۲۸) ’’ خدا کے ہاں قربانی کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا، بلکہ تمھارا تقوی پہنچتا ہے۔‘‘( حج:۳۷)قربانی کا عمل خدا کو اس قدر محبوب ہے کہ حضرت عائشہ ؓ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں:’’۱۰؍ ذی الحجہ کو قربانی سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک کوئی عمل نہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قربانی کی اتنی فضیلت ہے کہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے وہ خدا کی بارگاہ میں قبولیت کا پروانہ حاصل کرلیتا ہے۔ ‘‘
آج ہم مسلمانان عالم خالق دو جہاں کے اس فرمان کی تعمیل میں ایک بار پھر اپنی قربانیوں کا نذرانہ پیش کرنے جار ہے ہیں۔ دنیا کے گوشہ وکنار میںمختلف اقسام کے جانوروں کی صورت میں خدا معلوم کتنی قربانیاں کی جائیں گی، لیکن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کیا واقعی ہماری قربانیاں خدائی فرمان کی تعمیل میں صرف ایک علامتی قربانی ہے،  کیا ہمیں اس ابراہیمی نسبت کا پاس وخیال ہے ، کیا جانور کے گلے پر چھری چلاتے وقت ہمارے دلوں میں تقوی کی قندیل روشن ہے اور کیا ہمارے ذہنوں میں یہ حقیقت جاگزیں ہے کہ قربانی کا جانور در اصل ہماری جانوں کی قربانی کا قائم مقام ہے۔ سورئہ کوثر کی تفسیر کے ذیل میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ قربانی تمام تر مالی عبادت میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور اس امتیاز کا سبب یہ ہے کہ قربانی کی حقیقت جان کا قربان کرنا تھا،لیکن بعض حکمتوں کی بناء پر غیر ذوی العقول جانوروں کی قربانی کو انسانی جانوں کے قائم مقام کردیا گیا۔ خدا کو اپنے بندوں سے کوئی اور قربانی مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورئہ انعام میں ارشاد باری ہے:’’تم کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کی لیے ہے، جو سارے جہانوں کا پالنہار ہے۔ ‘‘خدا کو در حقیقت یہی قربانی مقصود ہے کہ ایک سچا اور ایمان دار مسلمان وہی ہو سکتاہے، جو اپنے عرصئہ زیست کا مختصر دورانیہ، اپنی جان، اپنا مال،اپنی آل واولاد،  اپنی محبوب ترین متاع، مادی اور غیر مادی، محسوس اور مرئی ، یا غیر محسوس اور غیر مرئی اشیاء کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرنے سے نہ ہچکچائے، نہ کسی تذبذب کا شکار ہو، نہ کسی فکرمندی کا مظاہرہ کرے۔ قربانی کا  معروف اور اصطلاحی مطلب ہی یہ ہے کہ انسان ان تمام محبوب اشیاء کو خدا کی مرضی کے سامنے ہیچ جانے، جس کی محبت اس کے دل کے ریشوں میں پیوست ہو، جس کی قدر دانی کے عناصر اس کے دل ودماغ پر مسلط ہوں ۔ ایسی قربانی دینے والا ہی خدا کے لیے اپنی ساری خواہشات، ترجیحات، ذاتی پسند ، آرام وآسائش، عہدوں اور مناصب کوقربان کرنے کا حوصلہ دکھا سکتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا قربانی والا عمل انھی عناصر کا خوب صورت آمیزہ ہے۔ پدری شفقت جوش مار رہی ہے، بڑھاپے کے آخری اور اکلوتے سہارے کے ہمیشہ کے لیے چھن جانے کا اندیشہ ہے، ماں کی مامتا میں شفقت اور محبت کی موجیں مارنے والا سمندر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے گا ، لیکن ان تمام دنیاوی رکاوٹوں، بشری مطالبوںکے باجود اپنے لخت جگر کی قربانی کے عمل کو انجام دینے میں نہ جسمانی اذیت کی پرواکی اور نہ مستقبل کے اندیشوں کو دل کے کسی گوشے میں پرمارنے کا حوصلہ اور یارا دیا۔ صبر ورضا کے پیکر بیٹے اسماعیل کو قبلہ رو لٹایا ، آستین اوپر چڑھائی اور تیز چھری پوری بے باکی اور جاں سپاری اور خدا پرستی کے جذبات کے ساتھ اپنے نور نظرکے گلے پر چلا بیٹھے۔


 انھی جذبات اور ایمانی جوش وخروش کے ساتھ جانوروں کی قربانی ہم ایمان والوں سے مطلوب ومقصود ہے۔ صرف جانوروں کا خون اورگوشت پوست کی قربانی خدا کے ہاں مطلوب نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے ذرائع کو مقاصد کا درجہ دے دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیاوی اشیاء کی قدروقیمت ہمارے دل ودماغ پر اپنا قبضہ جماتی جارہی ہے۔ جب حقیقی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عمل ہمیں زہرمار کرانے کے مترادف لگتا ہے اور اس وقت ہمارے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، ہمارے ارادوں میں تزلزل آجاتا ہے اور ہمارے قلوب پر رعشے کی کیفیت اور ہمارے ہاتھوں میں لرزش کا اثر طاری ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کی قربانی کو آسان اور قابل عمل بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس فلسفے کو سامنے رکھیں کہ ہماری جان، مال اور وقت اور گراں قدر شے سب کچھ اللہ کا ہے، ہم تو قربانی دے کر ان اشیاء کو اس کے اصلی اور حقیقی مالک کے حوالے کر رہے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:’’آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ کا ہے۔ ‘‘

ہمارا عہد مادیت اور صارفیت کا عہد ہے، مادہ پرستی، جاہ وجلا ل کی طلب ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ اس لیے جان کی قربانی تو خیر بڑی بات ہے،  عصر حاضر میںمال کی قربانی بھی آسان عمل نہیں رہا ہے۔ چند روزہ زندگی، سیر سپاٹے، لہو ولعب، مال ودولت کی ریل پیل، اور ہر طرح کے آرام وآسائش سے تمتع ہی ہمارا اصلی مقصد رہ گیا ہے۔ یاد رکھیے کہ اس قسم کا بزدلانہ اور غیر دینی عمل ہمیں نہ دنیامیں جاہ وعزت دے سکتا ہے اور نہ ہم آخرت میں خدا کی بارگاہ میں کسی مقام او رمرتبے کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ جان کی قربانی سے راہ فرار اختیا رکرنا نہ دانش مندی ہے اور نہ کسی بھی طرح سود مند۔ موت تو آج نہ کل اپنے مقررہ وقت پر، متعینہ مقام پر آکر رہے گی۔ اس لیے کامیاب مؤمن وہ ہے جو ہر دم اپنی جان اور مال کے ساتھ خدا کی مرضی کا تابع اور مطیع بن کر رہے۔ جس کے اندراپنے مطلوبہ اہداف کے لیے مرنے اور وقت پڑنے پر سر بکف جہاد زندگانی میں اترنے کا جذبہ نہ ہو، اس کو زندہ رہنے اور یہاں کی چند روزہ متاع سے لطف اندوزہونے کا بھی کوئی حق نہیں۔ زندگی کی لذت تو مرکر ہی مل سکتی ہے۔ تقدیر امم کی تاریخ میں بھی طاؤس و رباب کی راحت شمشیر وسنان کی آزمائش کے بعد ہی میسر آسکی ہے۔ کسی بھی قوم کی بقا اور ترقی کے لیے قربانی کو رہرو حیات تصور کیا گیا ہے۔ د قرباں پرجان کی قربانی مطلوب تو نہیں ہے، لیکن ہر صاحب ایمان کے دل میں اس تمنا اور خواہش کی بو باش ضرور رہنی چاہیے کہ اپنے عقیدے، اپنی تہذیب وثقافت، اپنے دین، اپنے آدرشوں، اپنے وطن، اپنی قوم اور اپنے مسلمات کی حفاظت کے لیے اگر عزیز ترین متاع جان کی قربانی کا مطالبہ کیا گیا، تووہ اس سے وہ کسی خوف یا اندیشے سے مجبور ہوکرکبھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ قربانی کے اثرات آنے والی نسلوں کی صالحیت اور ان کی زندگی کی مقصدیت پر اپنا نقش مرتسم کرتے ہیں۔  قربانی کے مقدس فریضے کی تکمیل کرتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم خدا کی راہ میں نہ صرف اپنی قیمتی اشیاء کو قربان کرڈالیں گے، بلکہ ہم اپنی، فکر، اپنے دنیاوی مسلمات، اپنے مفروضہ خیالات کو بھی صحیح اسلامی عقائد کے سامنے قربان کر ڈالیں گے۔ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے کا ہی نام قربانی نہیں ہے،  یہ ایک عامیانہ اور غیر اسلامی رجحان ہے ، حقیقی قربانی تو ظاہر وباطن کی قربانی سے عبارت ہے۔ امت مسلمہ کے سروں پر جس قدر ادبار اور خطرات کے مہیب سایے منڈلارہے ہیں، سیاسی حالات جس طرح امت مسلمہ کے خلاف پلٹا کھارہے ہیں اور جس طرح مشکلات اور مسائل کا طوفان بلا خیز امڈا آرہا ہے، اس میں ہر محاذ پر قربانی کی ضرورت ہے۔


٭٭٭


 

Comments


Login

You are Visitor Number : 580