donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Farid Khan Sayeedi
Title :
   Hale Zaar


حال ِ زار


 محمد فرید خان سعیدی، جامعی

 

یہ تحریر میرے دل سے نکلی ہوئی آہ ہے۔ شاید کہ اثر کرجائے
    اسلام دینِ فطرت ہے اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔اگر اس کو معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھاجائے ،یامعاشی نقطہ نظر سے ،یاسیاسی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو یہ ہر میدان میں عین فطرت کے مطابق ثابت نظر آئیگا ۔ اس کا ایک بیّن ثبوت یہ بھی ہے کہ اس دین کے اُصولوں پر جو بھی عمل کریگا وہ اس سے فیض یاب ہوگا ۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ یہ تو اللہ کی بے کراں رحمت ہے کہ انسان جس چیز کو خود اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر رہاہے اس کو اللہ تعالیٰ دوسری دنیا میں بھی جزا سے نوازرہا ہے ۔اگر وہ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرلیتا ہے کی اللہ وحدہٗ لا شریک (واحد) ہے اور محمدﷺسلسلہ نبوت کے سلسلہ میں آخری رسول ہیں۔انسان سے جن صفات کا تقاضہ دین اسلام کرتا ہے ان صفات کو جو شخص بھی اپنے اندر پیدا کریگااس کی دنیا بہتر ہوگی۔مسلمان اور مومنین کے لئے جنّت کا و عدہ ہے۔

    یہ دینِ فطرت اس کا متقاضی ہے کہ صرف اس کے زریں اُصولوںکو سن کر سر نہ دُھنے جائیںبلکہ ان پر عمل بھی کیا جائے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جو سناجائے وہ ذہن پر اثر انداز ہو ۔اگر صرف رسمی طور پر اس کو سنا جائیگا اور سمجھا نہ جائیگا تو ذہن پر مثبت اثر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا ۔

    آج کا بڑاالمیہ یہ ہے کہ دین اسلام کے دعویدار اس کو تو فوقیت سمجھتے ہیںکہ انہوں نے ایک مہینہ میں قرآن کریم کے دس دور مکمل کرلئے مگر بھول کر بھی وہ اس کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اورجب قرآن و حدیث کو طوطے کی طرح رٹا جائیگا اور سمجھا نہ جائیگا تو یقینازندگی میں دینِ اسلام کی اُن صفات کا پیدا ہونا تقریباََ نا ممکن ہے جن کو دین ِاسلام اہل ایمان میں چاہتا ہے ۔اگر بنظر غائر مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں دین اسلام کو غیروں کا مذہب بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح دیگرمذاہب میں ساری مذہبی معلومات پادری اور برہمن کو ہوتی ہیں اور عوام اس سے نابلد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آج عالم یہ ہے کہ ساری معلومات ،علماء کو ہوتی ہے اور عام مسلمان اس سے با لکل بے خبر اورنا واقف ہوتے ہیں۔

     یہ ایک بہت خطرناک روش ہے۔کیونکہ جب محمدﷺمبعوث ہوئے اُس وقت یہودی علماء اور عوام کا یہی حال تھا جس کی وجہ سے بنی اسرائیل سے امامت چھین کر بنی اسماعیل کو دی گئی ۔اس بدترین روش کا نقشہ خود قرآن کریم میں موجود ہے ۔جو چاہے دیکھ سکتا ہے۔

    بڑی معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج ہمارے علماء کی ایک قابل ِلحاظ تعداد ایسی بھی ہے جن کے قول وفعل میں تضادپایا جاتا ہے جواُنکے کردار کے کھوکھلے ہونے کا بیّن ثبوت ہے اُن میں دین پرستی سے زیادہ دنیا پرستی پائی جاتی ہے ۔کچھ بھیڑئے نما انسان بھی مذہبی لبادہ اُوڑھ کرمذہبی پیشوائوں میں شامل ہوگئے ہیں جو دن رات معصوم عوام کا شکا ر کرنے میںمصروف نظر آتے ہیں ۔    آج اگر کوئی معمولی مسئلہ بھی ہوتا ہے تو اس کے لئے آدمی علماء کے پاس دوڑ لگاتا ہے ۔ کیوں کہ مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے ۔لہٰذا عوام کا مکمل دارومدارمدرسوں سے فارغ علماء پر ہوتا ہے۔ علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو عوام کی اس لا علمی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔ اور عوام کی اس علمی محتاجی کے ذریعہ نہ صرف شہرت ودولت کماتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ عوام کے بڑے طبقہ کو اپنا غلام بنائے رکھتا ہے۔ہندوستان کے کچھ علاقے تو ایسے ہیں جہاں اگر مرغی بھی ذبح کرنا ہوتی ہے تو اسے مسجد کے امام کے ذریعہ ذبح کیا جاتا ہے اور امام صاحب کو بطور نذرانہ کچھ ہدیہ دیا جاتا ہے اور مرغی کی بوٹی والا سالن بھی پیش کیا جاتا ہے۔

    مدرسہ سے فارغ طلباء کی ترقی کی معراج یہ ہے کہ یا تو وہ کسی مسجد میں مئوذن یا امام ہو جائیں یا کسی مدرسہ میں مدرس ہو جائیں کچھ مدرسہ ایسے فارغ طلباء کو جن سے اُس مدرسہ کا ناظم خوش ہو اپنے ہی مدرسہ میں بطور استاد تقرری کا فرمان جاری کردیا جاتاہے جس احسان کا بدلہ و ہ اس وقت تک چکاتا رہتا ہے جب تک وہ اس مدرسہ میں استادکے  فرائض انجام دیتا رہتا ہے ۔ کچھ ایسے فارغ طلباء جن میں شہرت ودولت کی بھوک ہوتی ہے،اور وہ امام و مئوذن اور مدرس کی تقرری کو اپنی ترقی میں ناگفتہ با سمجھتے ہیں وہ ایک دوسری راہ اختیار کرتے ہیں ۔
ایسے فارغ طلباء کسی نئے مسئلہ کو نکالتے ہیں اور اس طرح الجھا دیتے ہیں کہ خدا کرے نا سمجھا کرے کوئی اس طرح وہ عوام کے ایک طبقہ کو اپنا ہمنوا بناتے ہیں ۔اُن کے اِن دین سے بے بحرہ ہمنوائوںکا غول اُن کے پیچھے ہوتا ہے اور وہ شہرت ودولت سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں  انہیں اس کا کبھی کوئی احساس نہیں ہوتا کہ یہ کتنی کاری ضرب ہے جو وہ اسلام کو لگا رہے ہیں۔
    جہاں تک مدرسوں کا سوال ہے وہ بھی اپنے آپ میں المیہ ہے سالہا سال پرانا طریقہِ تعلیم وہاں رائج ہے جس سے چند مخصوص کتابیں پڑھ کر انہیں عالم اور فاضل کی ڈگریوں سے نواز دیا جاتا ہیں ۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہیکہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے موجودہ دنیا، اس کے حالات اور اس کے تقاضوں سے مکمل نابلد رہتے ہیں  ۔ اس لئے مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد جب و ہ زندگی کے اصل میدان میں قدم رکھتے ہیں تو مدرسہ کے باہر کی دنیا میں خود کو اجنبی پاتے ہیں۔ یہ اجنبیت ان کو شدید احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہے۔جس کی سزا وہ زندگی بھرجھیلتے ہیں۔یہاں مولانا ولی رحمانی صاحب کا ایک قول ملاحظہ فرمائیں ’’ بنگلہ دیش کے ایک مدرسے میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے طلباء کو تلقین کی کہ وکیل ،ڈاکٹراور انجینیر بن کر بھی نام روشن کریں ۔یہ مزاج کہ وکالت اور قانون کو پڑھنا و سمجھنا مشکل ہے ۔یہ خیال ناقص ہے عالم دین تو خدائی قانون سے واقف ہوتا ہے اس کے لئے کسی قانون کو سمجھنا مشکل ہو ہی نہیں سکتا

    نظامِ مدرسہ بھی اپنے آپ میں کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ جو مدرسہ قائم کرتا ہے اپنے ہمنوائوںکو یا یوں کہئے کہ خوشامدیوں کی ایک مجلس عاملہ بنا لیتا ہے جن کا فرض ناظم کے ہر فیصلہ پرامنا و صدقناکہنا ہو تا ہے، چاہے وہ غلظ ہو یا صحیح، لبیک کہناہوتا ہے۔

    ناظم جو دراصل مدرسہ کا بانی ہوتا ہے عیش کرتا ہے اور اس مدرسہ میں مختلف فرائض انجام دینے والے افراد کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔بہت معمولی تنخواہوں پر ان لوگوں سے دن رات کام لیا جاتا ہے۔ان بیچاروں کو ایک سائیکل خریدنے کے لئے کئی مہینے اپنا پیٹ کاٹنا  پڑتا ہے اور ناظم مہنگی سواریوں میں اُڑااُڑا پھرتا ہے۔مدرسہ کی آمدنی کا ذریعہ چندہ ہے چاہے وہ زرنقد کی شکل میں ہو یا اناج کی شکل میں ہو اس کے علاوہ صدقہ ،فطرہ ،زکوٰۃبھی بے دریغ مدرسوں میں جمع کیا جاتا ہے ۔یہ سب ان معصوم بچوں کے نام پر لیا جاتا ہے جو وہاں زیر تعلیم ہیں۔اور وہاں ان کے قیام وطعام کا انتظام ہے۔گویا مدرسہ کی آمدنی کی بنیاد یہی معصوم بچے ہیں جن کے نام پر مدرسہ میں روپیہ کی ریل پیل ہوتی ہے یہ حقیقت نا قابل تردیداورعبرت ناک ہے کہ مدرسہ میں اِن بچوں کو سب سے حقیر ترسمجھا جاتا ہے ۔انتہائی بد اخلاقی کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک اور بے دردی سے زدکوب کیا جاتا ہے۔اور ۲۴ گھنٹہ ان کو احسان گنوائے جاتے ہیں کہ یہ مدرسہ تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہیں زیور ِتعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔اب تو ہر کس و ناکس کی زبان پریہ جملہ ہے کہ مدرسہ کی تعلیم کا انحصار چٹائی اور پٹائی پر ہے ۔

    اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ھندوستان کے کچھ شہروں میں مدرسوں کو قدیمی روش سے ہٹ کر انہیں جدید طریقہ تعلیم اور ٹیکنولاجی سے بھی جوڑا گیا ہے اور ان کے نصابوں میں جدید ترقیاتی دور کے تقاضوں بھی ملحوظ رکھا گیا ہے وہاں سے جو طلبہ فارغ ہوتے ہیں نہ وہ دین کے لئے اجنبی ہوتے ہیں نہ دنیا کے لئے مگر ایسے مدارس ہندوستا ن میں معدود چند ہیں جنھیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔

    انسان کی زندگی میں کسبِ مال انتہائی اہم ترین مقام رکھتی ہے ، جس شخص کی کسب جیسی ہوگی ویسے ہی اس میں صفات پیدا ہونگی ۔جیسا کہ مندرجہ بالا مذکور ہے کہ چندہ ،فطرہ اور زکوٰۃمدرسہ کی آمدنی کے ذرائع ہیںتو چاہے وہ مدرسہ کا ناظم ہو یا اس مدرسہ میں کسی عہدہ پر فائز عہدیدارہوں ،یا اس مدرسہ کا بچہ ہو سب میں اس آمدنی کی صفات پائی جاتی ہیں۔ بیچارہ بچہ تو مدرسہ میں داخل ہوتے ہی  احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے یہ خیال کرکے کہ وہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔دوسری جانب مدرسہ قائم کرنے والے اس آمدنی کوپشیمانی نہیں فوقیت سمجھتے ہیں۔ایک مدرسہ کے ناظم ایک مسجد میں تقریر فرمارہے تھے انہوں نے ببانگِ دہل کہاـــــ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں آپ کا دھندہ میں کہتا ہوچندہ‘‘

اندازہ کیجئے کہ ذہنی پستی کس حد کو پہنچ گئی ۔آپ خود اندازہ کرسکتے ہیںکہ انِ حالات میں اسلام کی وہ شعائیں کہاںسے حاصل ہونگی۔

(یو این این)

****************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 591