donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Jamil Ahmad Siddiqui
Title :
   Qaum Oad Ki Sarkashi Aur Uska Anjam Qurani aayat Ki Raushni Me

قومِ عاد کی سرکشی اوراُسکا انجام قراٰنی اٰیات کی روشنی میں


 محمد جمیل احمد صدیقی

9972780023


    قدیم زمانے میں سامی نسل کی ایک بڑی قوم گزری ہے ،یہ قوم جہاں آباد تھی اُس مقام کو قرآن مجید میں’’ أحْقَافْ ‘‘کہا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے اِذْأنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالأحْقَافِ  (أحقافْ:19)أحقاف کا علا قہ جنوبی مشرقی عرب سواحلِ خلیج ِفارس سے حدودمیں اور عراق اور جنوب ومغرب میں ’’حضرت موت‘ ‘تک پھیلی ہو ئی تھی ۔ اس قوم کے عروج کا زمانہ 1700؁ق م سے 2300؁ ق م تک ہے یہ قوم نہایت طاقت ورقوم تھی اور خوب تن ومند بھی اور بہت قوی اور اسقدر خوشحال کہ اس سے قبل دنیا میں ایسی قوم نہیں گزری ’’وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً ( الأعْرَافْ ) اور ’’ألَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ( ألْفَجْر : 08)’’أرض القرآن ‘‘ کے مصنف کے مطابق اس قوم نے زمین کے ایک بڑے علاقے پر تقریبا 1500سال حکومت کی قراٰن مجید میں اس قوم کو ’قوم عاد‘‘ اور تاریخ اسلام کی کتابوں میں ’’عاد أولی ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیاہے ۔ گویا یہ قوم اُس دور کی super powerتھی ۔حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹے ’’سام ‘‘ کی نسل سے اس قوم کا تعلق تھا۔     یوں تو بتُ پرستی کی ابتداء ’’قومِ نوح ‘‘ کے زمانے میں شروع ہو چکی تھی ،جسکی پاداش میں اُنہیں طوفان ِنوح میں غرقاب کر دیا گیا تھا ۔ دُنیا کا یہ عظیم ترین طوفان‘ آنے والی نسلوں کے لیئے سامان ِعبرت تھا ۔ مگر بعد کو آنے والی قوم بجائے عبرت پکڑتی‘ مزید اضافے کے ساتھ گمراہیوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جو قوم برُے کام کرے وہ ہلاک ہو جا ئے ۔ لیکن اللہ تعالی کی صفت رحمت کا فیضان ہیکہ اُنہیں باربار موقع ملتاہے کہ وہ اپنے تئیں سُدھار پیداکرلے ۔ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃ (أنْعَامْ:55 )خدائی قانون ہیکہ کسی قوم کو اُنکے اندر ایک رسول ،جو انکو خداکے عذاب سے ڈرائے ،روانہ کیئے بغیر عذاب نازل نہیں فر ما تا وَاِنْ مِّنْ أُمّۃٍ الَّا خَلَافِیْھَا نَذِیْرٌ(فَاطِرْ:24) اسی اصول خداوندی کے تحت نوح علیہ السلام کے بعد والی قوم ’’عَادِأوْلٰی ‘‘ یا قَوْمِ ھُوْدکے پاس اُنہیں میں سے ایک کو حضرت ھود علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا تا کہ اس قوم کو ہدایت کا پیغام ازسرنوپیش کرے او ر انہیں ہلاکت سے بچائے ۔ وَاِلَی عَادٍ أخَاھُمْ ھُوْدًا ( الأعْرَافْ :65)حضرت سیدنا ھود علیہ السلام أبو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی چودھویں پشت کی أولاد ہیں ، آپ کی عمر ِشریف جملہ 464سال تھی ۔ حضرت سیدنا ھود علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کر تے ہو ئے کہا ’’ میں تمہارے لیئے ایک امانت دار پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں ( الشعراء :109) اور فر ما یہ اے میری قوم !تم سب اللہ کی عبادت کرو!( کیونکہ )تمہارے لئے اسکے سواء کو ئی اور معبود نہیں ’’ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ( الأعْرَافْ: 65)اور تم لوگ  یہ جو(بت پرستی) کر رہے ہو یہ نہ کو ئی خدائی قانون ہے اور نہ ہی کو ئی عقلمندی کی بات ہے ؛ یہ تو صرف تم نے اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے۔ اِنْ أنْتُمْ اِلَّا
مُفْتَرُوْنَ (ھُوْدْ :05) قوم عاد نے کہا کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیئے آئے ہو کہ ہم ایک ہی خداکی عبادت کریں اور ان (سب معبودوں ) عبادت کو چھوڑ دیں،جنکی ہمارے آباء (واجداد ) عبادت کیا کر تھے ۔قَالُوْا أجِِئْتَنَا لِنَعْبُدَاللّٰہَ وَحْدَہُ وَنَذَرَ مَاکَانَ یَعْبُدُ اٰبَآئُنَا ( الأعْرَافْ : 70)حضرت سیدنا ھود علیہ السلام نے کہا ’’ اے میری قوم ! تم لوگ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور توبہ کرلو (تو تم دیکھینگے کہ ) وہ تم پر (اپنی نعمتوں کی) خوب بارش برسائیگا ،اور تمہاری شان وشوکت (موجودہ طاقت وقوت سے )زیادہ قوت عطا  فر ما ئیگا ْ : یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ یُرْ سِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا یَزِدْ کُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّۃٍ ( ھُوْدْ:05)اور ہر گز مجرمانہ طور پر رو گردانی مت کرو : وَلَاتَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ (ھُوْدْ : 05) لیکن وہ متکبر قوم نے آپ کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ہٹ دھرمی پر اتر آئی اور کہا کہ مَنْ أشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ( حمّّٓ سَجْدَۃ: 100)کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کو ن ہو سکتا ہے ؟ کس قدر جاہل قوم تھی ،جو یہ بھی نہیں سمجھتی تھی کہ جس ذات نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے زیادہ قوت رکھتی ہے : اِنَّ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ أشَدُّ قُوَّۃً مِّنْھُمْ ( حٓمّّٓ سَجْدَۃ : 15) اور اپنی سر کشی میں اللہ کی آیتوں کا انکار کرتی : وکانو باٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ  ( حٓمّّٓ سَجْدَۃ: 15)چونکہ وہ قوم دنیاوی رنگینیوں میں اسقدر مگن ہو گئی تھی کہ وہ اپنے تئیں جو سوچ وفکر میں مبتلا ہو کر اسکو اسقدر اچھا محسوس کر تی تھی کہ گو یا وہی حق ہے اسکے سوا سب کچھ بیکارہے ۔کیونکہ شیطان نے ان کے ان کرتوتوں کو انکے سامنے آراستہ کر کے (خداکی ) راہ سے روک رکھا تھا اور وہ لوگ اسی کو بہتر سمجھا کر تے تھے ۔ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ أعْمَالَھُمْ وَصَدَّھُمْ عَن السَّبِیْلِ وَکَانُوْا مَسْتَبْصِرِیْنَ (ألْعَنْکُبْوتْ : 38) حضرت سیدنا ھود علیہ السلام نے ان کو انکی اس غفلت سے بیدار کرنے کے لئے خدائی احسانات اور انعامات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا : کیا تم لوگ ہربلندی پر بلا ضرورت ایک نشانی تعمیر کرتے ہو اور شاندارمحل بناتے ہو ،کہیں تمہارا یہ خیال تو نہیں کہ تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے ۔ :أتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلِدُوْنَ (ألشُّعَرَائُ:128.129)اور واضح فر ما یا کہ اللہ کے بیشمار احسانات کا تقاضہ تو یہ ہیکہ ’’تم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کر تے ألَّاتَعْبُدُوْا اِلَّااللّٰہَ (أحْقَافْ : 21)اور فر ما یا کہ : تم سب اللہ سے ڈرو اور میری بات مان لو :فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأطِیْعُوْنِ(الشعراء : 105) لیکن قوم نے نہایت سر کشی پر اُتر تے ہو ئے اسقدر تلخ جواب دیا کہ زمین وآسمان دہل گئے اور قہر الہی کو دعوت دینے والا اُنکا جواب صاف ألفاظ میں یہ تھا کہ ’’تمہارا ہم کو نصیحت کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہے (تمہاری یہ سب  باتیں) پہلے والوں کی گڑھی ہو ئی باتیں ہیں ہمکو کوئی عذاب نہیں دیا جا ئیگا (سوَآئٌ عَلَیْنَا أوَعَظْتَ أمْ لمْ تَکُنْ مِّنَ الْوَاعِظِیْنَ اِنْ ھٰذَا اِلَّا خَلْقُ الأوَّلِیْنَ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ (ألشُّعَرَآء ُ:136سے 138)اورہم (تمہارے ی باتوں میں آکر) اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہی تمہاری باتوں پر ہم یقین کر نے والے ہیں ‘‘ :وَمَانَحْنُ بِتَارِکِیْ اٰلِھَتِنَا  وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤمِنِیْنَ (ھُوْدْ : 53)اور ہم سمجھتے ہیں کہ تم نادانی میں (پڑگئے ہو)وَاِنَّا لَنَراک فِیْ سَفَاھَۃٍ(ألْأعراف :66)حضرِت سیدنا ھود علیہ السلام نے نہایت ہمدردانہ لہجے میں اپنائیت کے ساتھ صفائی پیش فر ما ئی کہ : اے میری قوم! میں کو ئی نا دانی میں نہیں پڑا ہوں، بلکہ اللہ رب العالمین کے پیغامات تم تک پہنچا رہا ہوں اور

میں اللہ کی جانب سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔میں تمہارا خیر خواہ، أمانت دار ہوں:یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَلٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ أبَلِّغُکُمْ رِسَالاتِ رَبِّی وَأنا لَکُمْ نَاصِحٌ أمِیْنٌ ( الأعراف : 26.27)  اور آپ نے مزید کہا ’’بلاشبہ میں تو (اپنی بات پہنچانے پر ) اللہ کو گواہ بناتاہوں اور تم بھی گواہ رہو میری ( اس بات پر کہ میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچادیا ہے ) میں ان(بتوں ) سے بیزار ہوں جنکو تم خداکا شریک سمجھتے ہو اور تمہیں میرے متعلق جو تدبیر،مکر وریب کرنا ہے کر لو، اور تم کوکو ئی مہلت نہیں دی جائیگی میں نے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کیا ہے ۔ جو مجھے بھی پالنے والاہے اور تمہارا بھی رب وہی ہے : اِنِّیْ أشْھِدُاللّٰہَ وَأشْھِدُوْنِیْ أنِّیْ بَرِیْئٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ فَکِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظَرُوْنَ اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ (ھُوْدْ : ) اور اگر تم (پیغام الہی سے )روگردانی کر تے ہو ( تو مجھے کیا ) میں وہ تمام (احکام الہی ) جن کے ذریعہ مجھے بھیجا گیا تھا ‘پہنچا چکا ہو ں (اگر تم اپنی اصلاح نہیں چاہتے تواچھی طرح سمجھلو کہ )پروردگا ر وہ ہے جو تمہارے بعد ایک اور قوم کو پیدا کریگا جنکو تم کچھ نقصان نہیں پہنچاسکوگے بے شک میرا پروردگار ہر چیز کا نگہبان ہے : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أبْلَغْتُکُمْ مَّا أرْسِلْتُ بِہِ اِلَیْکُمْ وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْنَہُ شَیْأًاِنَّ رَبّیْ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ ( ھُوْدْ : 54.57)اتمام حجت کے باوجود قوم عاد قہر الہی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے آخری حد تک سرکشی پر اتر آئی اور کہا ’’اگر تم واقعی سچے ہو تو اپنے وعدے کے مطابق عذاب الہی لا بتلاؤ (الأعراف :71)حضرت سیدنا ھود علیہ السلام نے کہا کہ اب یہ ’’طئے ہو گیا کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر قہر الہی نازل ہوجائے، اور عذاب آجائے : قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُم مِّن رَبِّکُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ (الأعراف : 71)اور کیا تھا کہ جیسے ہی عذاب الہی کو اُنہوں نے اپنے آبادیوں میں نازل ہوتے دیکھا تو کہنے لگے یہی ہے جو ہم پر برسنے والا ہے جسکو تم نے نہا یت عجلت پسندی کے ساتھ دعوت دی ہے یہی وہ ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے :فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًامُّسْتَقْبِلَ أوْدِیَتَھُمْ قَالُوْا ھٰذَاعَارِضٌ مُّمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ رِیْحٌ فِیْھَا عَذَابٌ ألِیْمٌ (ألأحْقَافْ : 24)اور قوم عاد کو تیز وتند ہواؤںنے جس میں زور دار پچھاڑتھی ( ألْحَاقَّۃْ : 06)جو مسلسل سات راتیں آٹھ دن تک چلتی رہے جس نے قوم کی ساری آن بان کو تہس نہس کر کے رکھدیا : سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍٍ وَثَمَانِیَۃَ أیَّامٍٍ حَسُوْمًا ( الحاقۃ : 07) اس ہو انے اُن کو اسقدر پچھاڑکر رکھدیا تھا کہ تم دیکھ لیتے کہ وہ لوگ گویا کھجور کے درختوں کے تنے ہیں کہ پڑے ہو ئے ہیں کَأنَّھُمْ أعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ( الْحَآقَّۃ :07)نہ صرف اُنہیں بلکہ اُنکے عالی شان محلات کوبھی خاکستر کر کے رکھ دیا تھا ۔اُنکی ہر وہ نشانی جو انکی اپنی پہچان بنی ہو ئی تھیں اسکو خاک میں ملا دیا وَفِیْ عَادٍ وَاِذْأرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ مَا تَذَرُمِنْ شَیْئٍ أتَتْ عَلَیْہِ اِلّا جَعَلَتْہُ کَا لرَّمِیْمِ ( الذاریات :42) چونکہ قومِ عادنے اپنے پیغمبر وقت کے ساتھ بد سلوکی کی تھی اور گستاخی اور سر کشی پر اتر آئی تھی اس لیئے اللہ تعالی انہیں دنیا میں عذاب کا مزا چکھا یا تھا اور آخرت کی نعمتوں سے بھی اُنکو محروم کر دیا اور ہر وہ قوم جو اسطرح سر کشی کریگی اسکے لئے دنیا میں لعنت اور روز قیامت نارجہنم ہے (اچھی طرح ) سن لو! قوم عاد نے انکار کیا ۔ اور سن لوْ! ہلاکت ہے قوم عاد کے لیئے : وَتلکَ عادٌ جَحَدُوْا باٰیاتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہُ وَابْتَغَوْا أمْرَ

کُلَّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ وَابْتَعَدُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃٌ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ ألَا اِنَّ عَادًا کَفَرُوْا رَبَّھُمْ ألَابُعْدًا لِّعَادٍٍٍ قَوْمِ ھُوْدْ (ھود : 59.60)البتہ جو لوگ حضرت سیدنا ھود علیہ السلام کے ساتھ دین اسلام کی حمایت کی تھی اللہ تعالی نے انکو عذاب سے محفوظ رکھا اور انہیں دین ودنیا کی دولت سے ما لا مال فر ما یا ۔

 

*******************************

 

 

    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 526