donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Noorul Hoda
Title :
   Maa Mere Liye Khaas Kiyon Hai

 

ماں‘ میرے لیے خاص کیوں ہے؟
 
-محمد نور الہدیٰ
 
میری ماں میرے لیے خاص کیوں ہے؟ جب میں سخت بارش میں گھر آیا تو میرے بھائی نے استفسار کیا: تم نے چھتری کیوں نہیں لی؟ میری بہن نے کہا: تم نے بارش رکنے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ والد صاحب نے تنبیہہ کی کہ تم بیمار ہوئے تو تمہاری خیر نہیں۔ مگر ماں، جو اب تک میرے بال خشک کررہی تھی بولی: اے بارش، میرے بچے کے گھر پہنچنے تک انتظار تو کرلیتی۔ یہ ہے ماں… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھا کہ میں نے اپنی معذور ماں کو کاندھوں پر بٹھاکر حج کروایا ہے، کیا میرا حق ادا ہوگیا؟ ارشاد فرمایا: ابھی تو اُس ایک رات کا حق ادا نہیں ہوا جس رات تُو نے بستر گیلا کردیا تھا اور تیری ماں نے تجھے خشک جگہ پر سلایا اور خود گیلے میں سوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنی والدہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ایک غیبی آواز آئی: ’’اے موسیٰ، اب ذرا سنبھل کے آنا اور سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا۔‘‘ حضرت موسیٰ بہت حیران ہوئے اور پوچھا ’’یاباری تعالیٰ وہ کیوں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اب تمہارے لیے مجھ سے رحم و کرم اور عنایت کی دعا کرنے والی ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ ماں… احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے وار اور موسم کی سختیاں اپنے جسم پر سہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروتے اور اپنی اولاد کے لیے خوشیاں خریدتے گزرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست کے پاس اُس کی والدہ کی وفات کا افسوس کرنے گیا تو اُس نے بتایا کہ اس کی ماں نے اس کی آسائشوں کی خاطر اس سے آٹھ جھوٹ بولے اور وہ چاہنے کے باوجود اس کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ اس نے بتایا کہ ’’اس کی ماں ہمیشہ سچ نہیں بولتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اکثر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کچھ مل جاتا تو ماں اپنے حصے کا کھانا بھی اسے دے دیتی اور کہتی تم کھالو مجھے بھوک نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا پہلا جھوٹ تھا… تھوڑا بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کرکے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے چلی جاتی۔ ایک دن بالآخر اس نے دو مچھلیاں پکڑلیں، انہیں جلدی جلدی پکایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کھاتا جاتا اور جو کانٹے کے ساتھ تھوڑا بہت لگا رہ جاتا اسے اس کی ماں کھاتی۔ اس نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دی۔ اس نے واپس کی اور کہا: بیٹا تم کھالو مجھے مچھلی پسند نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا دوسرا جھوٹ تھا… جب وہ اسکول جانے کی عمر کا ہوا تو اس کی ماں نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی، سردی کی ایک رات جب بارش زوروں پر تھی، وہ ماں کا انتظار کرتا رہا جو ابھی تک نہیں آئی تھی، بالآخر وہ اسے ڈھونڈنے آس پاس کی گلیوں میں نکلا، دیکھا تو وہ لوگوں کے دروازوں پر کھڑی سامان بیچ رہی تھی، اس نے کہا: ماں اب بس بھی کرو، سردی بھی بہت ہے، رات بھی ہوگئی ہے اور تم تھک بھی گئی ہو، باقی کل کرلینا، تو ماں بولی: بیٹا میں بالکل نہیں تھکی۔ یہ اس کی ماں کا تیسرا جھوٹ تھا… ایک روز اس کا فائنل پیپر تھا، اس کی ماں نے ضد کی کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے گی۔ وہ اندر پیپر دے رہا تھا اور وہ باہر دھوپ کی تپش میں کھڑی اس کے لیے دعا کررہی تھی۔ وہ باہر آیا تو اس کی ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور ٹھنڈا جوس لے کر دیا۔ اس نے ایک گھونٹ لیا اور ماں کے پسینے سے شرابور چہرے کی طرف دیکھ کر جوس اس کی طرف بڑھایا تو بولی: مجھے پیاس نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا چوتھا جھوٹ تھا… اس کے باپ کی موت ہوئی تو زندگی مزید مشکل ہوگئی، اکیلے گھر کا خرچ چلانا آسان نہ تھا، اکثر نوبت فاقوں تک آجاتی۔ رشتہ داروں نے ان کی حالت دیکھ کر ماں کو دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر ماں نے کہا: ’’مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ اس کی ماں کا پانچواں جھوٹ تھا… گریجویشن مکمل کرنے پر اچھی ملازمت مل گئی، سوچا اب ماں کو آرام کرنا چاہیے وہ بہت بوڑھی ہوگئی ہے۔ اس نے ماں کو کام سے روک دیا اور اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ اس کے لیے مختص کردیا۔ ماں نے انکار کیا اور کہا کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا چھٹا جھوٹ تھا… حصولِ روزگار کے لیے وہ بیرون ملک چلاگیا۔ کچھ عرصے بعد ماں کو اپنے پاس بلایا تو اس نے بیٹے کی تنگی کے خیال سے منع کردیا اور کہا کہ اسے گھر سے باہر رہنے کی عادت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا ساتواں جھوٹ تھا… ماں کو کینسر ہوا، وہ بہت لاغر ہوگئی۔ وہ اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کر خون کے آنسو رونے لگا، ماں اسے دیکھ کر مسکرائی اور بولی: مت رو بیٹا، میں ٹھیک ہوں۔ یہ اس کی ماں کا آٹھواں جھوٹ تھا، اور پھر اس کی ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، دعائوں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت کے تمام رنگوں سے مزین کیا، یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت ڈالی۔ یوں ماں قدرت کا بہترین تحفہ اور عطیہ ہے جس کی قدر ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ ’’ماں‘‘… یہ لفظ بہت سے معنی اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ ممتا، پیار، وفا، قربانی، محبت، لگن، سچائی، خلوص، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، دعا، سایہ، دوست، ہمدرد، راہنما، استاد، بے غرضی، معصومیت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہوگی۔ پس ’’ماں‘‘… ایک ایسا موضوع ہے کہ قلم بھی جس کا احاطہ نہیں کرپاتا۔ اس موضوع پر بہت ضخیم کتب لکھی جاسکتی ہیں مگر ماں کے احسانات، احساسات اور چاہتوں کا بدلہ تب بھی نہیں چُکتا۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچنے بیٹھیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ ہم تو مائوں کی ایک رات کا قرض بھی نہیں چکا سکتے۔ میرزا ادیب اپنی کتاب ’’مٹی کا دیا‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اباجی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں، ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو اباجی کیا کریں گے؟ یہ دیکھنے کے لیے میں نے امی کا کہا نہ مانا، انہوں نے بازار سے دہی لانے کو کہا میں نے بات نہ مانی، انہوں نے سالن کم دیا میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی کے اوپر بیٹھ کر روٹی کھائو، میں زمین پر دری بچھاکر بیٹھ گیا، لہجہ بھی گستاخانہ اختیار کررکھا تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی، مگر انہوں نے مجھے سینے سے لگاکر کہا: کیوں بیٹا! ماں صدقے جائے تم بیمار تو نہیں؟ اُس وقت میرے آنسو تھے کہ شرمندگی کے مارے رکنے میں نہیں آرہے تھے۔ جب بھی میرے دل کی مسجد میں تیری یادوں کی اذان ہوتی ہے اے ماں میں اپنے ہی آنسوئوں سے وضو کرکے تیرے جینے کی دعا کرتا ہوں بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے جس کا آج وہ ثمر پارہا ہے۔ ان کی مائوں نے پال پوس کر ان پودوں کو تناور درخت بنایا اور اپنی مائوں ہی کے طفیل آج یہ پیڑ عمدہ اور رسیلا پھل دے رہے ہیں۔ ان کی تربیت میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کی مائوں ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ ماں کا وجود صرف گھر کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری زندگیوں کے لیے بھی مقدس صحیفے کی مانند ہے۔ ماں تو تپتے صحرا میں بوند برسنے کا نام ہے۔ یہ کڑی، چلچلاتی دھوپ میں ابر کی مانند ہے۔ دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں خدا کرے ان کا سایہ ہمیشہ سلامت رہے اور وہ ہر دکھ، پریشانی، آفت اور آزمائش سے محفوظ ہوں۔ اور جو لوگ والدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس دعا کا ورد کرتے رہا کریں
+++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 760