donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Yousuf
Title :
   Main Ne Islam Kiyon Qubool Kiya : Md Yousuf Ki Zaban

میں نے اسلام کیسےقبول کیا:محمد یوسف کی زبان
 
محمد یوسف سابق پاکستان ٹسٹ کرکٹر
 
ہماری رہائش ریلوے کالونی گڑھ شاہو لاہور میں تھی۔یہاں میرے ہم مذہبوں کی بھی گھرتھی لیکن زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ اتفاق کی بات کہئےکہ میرا زیادہ اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا اور کھیلنا کودنا بھی مسلمان لڑکوں کی ساتھ ہی تھا۔سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی مجھےاپنی جیسے ہی لگتے تھے۔مسلمانوں کی ہاں مجھ کوئی ایسی خاص خوب یا امتیازی بات نظر نہیں آتی تھی کہ میرے دل میں مسلمان ہونے کا شوق پیدا ہوتا، مسلمان لڑکوں کی مشغلے بھی میری جیسیےہی تھے۔ ایف سی کالج میں پڑھائی کی دوران میری دوستی ایک ہم جماعت لڑکی جاوید انور سی قائم ہوئی۔ وہ کرکٹ کی سپراسٹار اور ہماری سینئر ساتھی سعید انور کا چھوٹا بھائی ہی۔ میں نی زندگی بھر اس جیسا لڑکا نہیں دیکھا۔ میں اس سی ملنی سعید بھائی کی گھر جاتارہتا تھا۔ سعید بھائی تو 1989ءسی قومی ٹیم میں تھی، میں کوئی نوسال بعد 1998ءمیں ٹیم میں آیا۔وہاں اکثر ایک سابق کرکٹر ذوالقرنین حیدر آجاتی تھی جو تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئی تھی۔ وہ نیکی اور نماز روزی کی تلقین کیا کرتی تھی لیکن اس وقت سعید بھائی کو ایسی باتوں کی لگن نہ تھی۔ اکثر جب ذوالقرنین حیدر یا تبلیغ والی دوسری لوگ آتی تو سعید بھائی مجھی باہر بھیج دیتی کہ کہہ آؤ کہ سعید گھر پر نہیں ہی۔ پھر میں نی دیکھا کہ آہستہ آہستہ ان کی طبیعت مذہب کی طرف آنی لگی۔ تبلیغی جماعت کی بزرگوں سی بھی ان کا میل جول بڑھ گیا۔ اپنی بیٹی کی وفات کی بعد وہ مکمل طورپر مذہبی رنگ میں رنگ گئی۔ اکثر تبلیغی دوروں پر رہنی لگی۔ وہ مجھی کہتی تھی ”یوسف ہرروز سونی سی پہلی یہ دعا مانگا کرو۔“ ای خدا!مجھی حق اور سچ کا راستہ دکھا… سعید بھائی نی مجھی ان دنوں کبھی یہ نہ کہا کہ مسلمان ہوجاؤ، ہمیشہ اس دعا کی تلقین کرتی رہی۔ میں سعید بھائی کی نصیحت کی مطابق ہمیشہ سونی سی پہلی یہ دعا مانگتا رہا۔ میں نی سعید بھائی میں آنی والی تبدیلیوں کو بڑی غور سی دیکھا اور بہت متاثر ہوا ۔
 
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ میرا ایک دوست ہی وقار احمد، بڑی پرانی دوستی ہی ہماری ، یہ تین سال پہلی کی بات ہی۔ میں حسب معمول رات کو یہ دعا مانگ کر سوگیا کہ ”ای خدا مجھی حق اور سچ کا راستہ دکھا“ رات میں نی خواب میں اپنی دوست وقار کو دیکھا وہ خوشی خوشی میری پاس آیا اور کہنی لگا”سنا ہی تم مسلمان ہوگئی ہو“ میں نی اسی کوئی جواب نہ دیا۔ آنکھ کھلنی پر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی اللہ نی مجھی حق اور سچ کا راستہ دکھادیا ہی۔ وقار شیخوپورہ کا رہنی والا ہی۔ اتفاق دیکھئی کہ انہی دنوں پی آئی ای اور نیشنل بینک کی درمیان میچ کیلئی شیخوپورہ کرکٹ گراؤنڈ تجویز ہوا۔ میں پی آئی ای کی طرف سی کھیل رہا تھا۔شیخوپورہ پہنچا تو میرا وہی دوست وقار احمد مجھ سی ملنی آگیا۔ وہی خواب والی وضع قطع ، میں اس وقت حیران رہ گیا۔ جب اس نی بالکل اسی انداز سی مجھ سی پوچھا ”سنا ہی تم مسلمان ہوگئی ہو؟“میں اس کا منہ دیکھنی لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھی یقین ہوگیا کہ اللہ نی مجھی اشارہ دی دیا ہی کہ حق کا راستہ کیا ہی۔
شام کو میں شیخوپورہ سے لاہور آیا تو سیدھا کیولری گراؤنڈ سعید بھائی کے پاس چلا گیا۔ یہ اکتوبر 2002ءکا ذکر ہے۔میں نےسعید بھائی سے کہا ”میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں“ سعید بھائی نے مجھے گلےسے لگا لیا۔ مجھے کلمہ پڑھایا اور میرے دنیا بدل گئی۔ اس دوران میں جب بھی 
 
رائیونڈ جاتا اور حاجی عبدالوہاب صاحب سے پوچھتا کہ اب مجھے اسلام قبول کرلینے کا اعلان کردینا چاہئیےتو وہ کہتے ”نہیں ابھی نہیں‘ شاید انہیں میری شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی میں اس لائق نہیں ہوا۔ میری مولوی فہیم صاحب اور طارق جمیل صاحب سےبھی ملاقاتیں ہوتے رہیں۔ انضمام بھائی کو پتہ چلا تو انہوں نے بڑے شفقت کی۔ جون 2005ءمیں کرکٹ ٹیم کچھ میچ کھیلنے سعودی عرب گئے۔ میچ تو نہ ہوئی البتہ ٹیم نے عمرہ کیا۔ اس سے کوئی ڈیڑھ دومہینے پہلے میری بیوی بھی اسلام قبول کرچکی تھی۔ میں نے اسے آزادی دی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ پوری ٹیم نے عمرہ کیا لیکن میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوا کیونکہ ابھی تک میں نےمسلمان ہونےکا کھلا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مجھے سخت بے تابی تھی کہ عمرے کی سعادت حاصل کروں۔ میری بیوی بھی میری ہمراہ تھی۔ اب وہ تانیہ کی بجائے فاطمہ ہوچکی تھی۔ رائی ونڈ سی مولوی فہیم صاحب نے مکہ میں موجود عالمگیر صاحب کی ذمہ لگایا اور وہ رات گئے ہم دونوں کو حرم شریف لےگئی۔ ہم نےعمرہ ادا کیا ، یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا۔ رات کے پچھلی پہر شروع ہونے والا عمرہ صبح پانچ بجے ختم ہوا۔ میں نے اسی وقت مولوی فہیم صاحب کو فون کیا۔ انہوں نیےحاجی عبدالوہاب صاحب سے ذکر کیا جنہوں نے مجھےقبول اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان واپس آتے ہی میں نے اعلان کردیا۔ اسی اتفاق یا قدرت کا انعام کہیے کہ میں نے اپنی بیٹے اور بیٹی کی نام بھی مسلمانوں والی رکھی تھی۔ بیٹی کا نام انیقہ یوسف اور بیٹی کا نام دانیال یوسف ہے۔ میری قبول اسلام پر والد صاحب نیےبرہمی کا اظہار نہیں کیا۔ والدہ کچھ رنجیدہ ہوئیں لیکن اب سب کچھ معمول پر آرہا ہے۔ میں اللہ سے دعا گو رہتا ہوں کہ وہ میرے پوری خاندان کو حق اور سچ کا راستہ دکھادے۔ 
...............................................
 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 505