donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Ahsane Amal Ko Maqsade Zindagi Batakar Islam Duniya Ko Jannate Nisha.n Banata Hai

بسمہٖ تعالیٰ

  احسن عمل کو مقصد زندگی بتا کر اسلام دنیا کو جنت نشاں بنا تا ہے 


 محمد ضمیر رشیدی

(وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر

Mob. 9403770333

                          ظلم کیا ہے؟ کسی چیز کو اس کے واقعی، واجبی اور جائز مقام پر نہ رکھنا اور ایک غلط مقام و محل پر اس کا استعمال کرنا۔ اس ظلم کا دوہرا نقصان ہوتا ہے۔ اول یہ کہ وہ چیزبذات خود خراب ہو تی ہے اور دوم یہ کہ اپنے متعلق چیزوں کو بھی خراب کر دیتی ہے جہاں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹرک کے پہیہ کو ہوائی جہاز میں استعمال کرنے کا لازمی نتیجہ خود اس کی بربادی ہے اور ہوائی جہاز کی بھی۔ ٹھیک اسی طرح انسان کا اپنی زندگی کو بے مقصد بنا کر زندگی گذارنا خود اپنی جان کا ضیاع ہے اور ان دوسروں کی بھی جن سے اس کی زندگی ملحق و متصل ہوتی ہے ۔ ایک کہاوت ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ظلم کی ضد کیا ہے؟ انصاف! گویا ظلم سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ 

                              کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز آج انسان کی دسترس میں ہے۔انسان ان چیزوں کے اجزائے ترکیبی اور خواص جان کراور استعمال کرکے اپنی دنیوی زندگی کو سنوارنے میں لگا ہوا ہے۔ اور یہ کوئی غیر ضروری بھی نہیں۔اس کے علاوہ کارخانئہ قدرت انسان کی خدمت میں ہر آن لگا ہوا ہے۔ سورج سے تمازت حاصل ہو رہی ہے۔ چاند اور ستارے روشنی پھیلا رہے ہیں۔ہوا انسان کی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ پانی انسان کی پیاس بجھا رہا ہے۔ جانور انسان کا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔ زمین گلہ اگل رہی ہے، وغیرہ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو انسانی زندگی پل بھر میں ہمیشہ ہمیش کے لئے صفحئہ ہستی سے اس طرح مٹ جائے گویا اس زمین پر کبھی حضرت انسان کا وجود ہی نہ تھا۔مگر اس زمین پر انسان نہ ہوتو کارخا نئہ قدرت لاکھوں سال تک اسی طرح چلتا رہے گا اور انسان کی عدم موجودگی اس پر کسی لحاظ سے بھی اثر انداز نہیں ہوگی۔ تاہم انسان کے بغیر یہ کل کائنات اتنی ہی زیادہ غیر اہم ہو جائے گی جس طرح کسی شامیانے میں دلہن، باراتی، سجاوٹ، انواع و اقسام کے کھانے اور مشروب وغیرہ سب کچھ ہو ں مگر ایک عدد دولہا نہ ہو۔ مگر یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہوگی کہ بے شمار چھوٹی بڑی مخلوق کے درمیان ، جو اپنا ایک خاص مقصد وجود رکھتی ہوں، اشرف المخلوقات انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو؟  لہذا انسان کا اپنے مقصد زندگی سے انجان بنا رہنا، اسے نہ جاننا، اسے جاننے کی کوشش نہ کرنا ایک زبردست ظلم ہے۔اور اس کے بر عکس اس کا اپنی زندگی کے مقصد کے عین مطابق زندگی گذارنا سراپا انصاف!!!  قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
 وہ پاک ذات ہے جس نے موت اور زندگی کوپیدا کیا تا کہ تمھارا امتحان کرے کہ کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے۔(سورہ : ملک ۔۔۔ آیت نمبر : ۲) 

                     اس مختصر آیت سے یہ بات ثابت ہوئی جاتی ہے کہ اسلام انسانوں کے حق میں سراپا رحمت ہے کیونکہ وہ اچھے عمل کو پیدائش کا مقصد ٹھراتا ہے او ر اس کے ایمان و اعمال کو آخرت میں جزا و سزا کی بنیاد بناتا ہے۔ یہ لطیف بات بھی قابل لحاظ ہے کہ اسلام عمل کے صرف ظاہری پہلو ئوںپر نظر نہ رکھتے ہوئے انسان کی نیت کی درستگی پر بھی دھیان دیتا ہے۔ اور محض دل کے ارادہ کو بھی عمل قرار دیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے دین کے مطابق زندگی گذارنے سے یہ دنیا اچھے اعمال سے بھر کر جنت نشاں ہو جائے گی ۔ اسلام انسانی زندگی کی تشکیل ایک خاص مقصد کے تحت کرتا ہے۔ ایمان و یقین پر زندگی کی بنیاد رکھتا ہے۔اس کو بطور دین قبول کرتے ہی زندگی گذارنے کا ایک ایسا بندوبست اور طریقہ شریعت و سنت کی شکل میں انسان کو مل جاتا ہے جس طرح کسی بچہ کو پیدا ہوتے ہی ہاتھ ، پائوں، زبان ، دل و دماغ، کان اور آنکھوں وغیرہ کی نعمت عظمی مل جاتی ہے۔یہ دین رحمت ہر قسم کی کجی سے پاک ہے اور انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ اس دین کو قبول کرکے اس کے مطابق زندگی گذارنا انسان کا اپنی زندگی کے ساتھ انصاف ہے۔ اس دین کے مطابق زندگی گذارنے والا انسان اپنے ہر عمل کے ظاہری و باطنی پہلوئوں کو عمل کے پہلے ، درمیان اور اخیر میں جانچتا رہتا ہے تا کہ دنیا و آخرت دونوں کے اعتبار سے اس کا عمل اچھا اور مثبت نتیجہ والا ہو کہ احسن عمل ہی اس کا مقصد زندگی ہے ۔اس طرح زندگی گذارنے والے صدیقین، شہداء و صالحین کی کامیاب زندگی اس معاملہ کی زندہ مثال ہے۔    

   
                        جب احسن عمل زندگی کا مقصدنہ ہو تو زندگی میں حلال و حرام ، اچھے برے کی تمیز کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اور انسان وہ سب کچھ کر گذرتا ہے جو اس کو اچھا لگتا ہے۔ بلا شبہ انسان آج خلائوں میں اڑ رہا ہے ، سمندر پر تیر رہا ہے مگر زمین پر انسانوں کی طرح جینا نہیں سیکھا۔ کیا یہ ظلم نہیں ؟ ظلم نہیں ظلم عظیم ہے۔اس ظلم عظیم کی وجہ کیا ہے ۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اپنے مقصد زندگی کو نہیں پہچانا۔ ایسی بے مقصد زندگی کا انجام ہمارے روزآنہ کے مشاہدہ میں ہے ۔مثا ل کے طور پر بیوی کو جہیزکم ملنے یا میکے سے رقم نہ لانے یا بار بار لڑکی کی پیدائش ہونے پر جلا کر مار ڈالنا ، کاروبار میں نقصان ہونے پر خود کشی کرنا ، امتحان میں نا کامی پر خود کشی ،پڑوسی کو ستانا وغیرہ ۔اس طرح سارے ظلم جو انسان پر انسانوں کے ہاتھوں سے انجام دیے جا رہے ہیں وہ صرف اور صرف اس لئے کہ انسانوں کے پاس اپنی زندگی کا اعلی مقصد نہیں ہے۔ جب اس طرح زندگی گذاری جاتی ہے تو اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی ۔اس میں انسان اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں صرف سوچ سوچ کر رہ جاتا ہے۔ میں کیونکر پیدا ہوا؟  پیدائش سے پہلے میں کہاں تھا؟ مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا؟وغیرہ۔ظاہر ہے کہ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب انسان اپنی ناقص عقل سے تا قیامت معلوم نہیں کر سکتا۔جب انسان کے جذبات کی تسکین نہیں ہو پاتی ہے تو وہ اپنی زندگی کی بنیاد عقل، شک، ظن و تخمین، قیاس ، اٹکل ، تجربہ اور مشاہدہ وغیرہ پر رکھنا شروع کر دیتا ہے ۔یہ غیر معین منزل والی متزلزل زندگی انسان کا اپنی زندگی کے ساتھ کھلواڑہے، نا انصافی ہے اور سراسر ظلم بھی۔ 


                     اس چرخ کہن نے آج تک ایسا کوئی غیر معمولی کارنامہ کسی فرد یا قوم سے سر زد ہو تے ہوئے نہیں دیکھا جب تک ایک اعلی نصب العین انسانوں کے سامنے نہ ہو۔اور اس کے حصول کے لئے دیوانہ وار اور جنون کی حد تک محنت و کو شش نہ کی گئی ہو۔ مقصد اور نصب العین انسان کی شخصیت کی تعمیر اور اس کی پہچان میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ زندگی کے ہر معاملہ و گوشہ پر حاوی ہو جاتا ہے۔یہ انسان کو اپنا بنا لیتا ہے اور انسان مقصد کا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ یہ انسان کی تینوں زبردست قوتوں شعور و تخیل ، احساس و جذبات اور ارادہ و عمل کو نتیجہ رخی بناتا ہے۔ اس کے حصول کے لئے انسان کی چھپی اور دبی ہوئی فطری صلاحیتیں ،اوصاف اور قوتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اسلام لانے سے قبل حضرت سلمان فارسی نے آخری نبی کی تلاش کو اپنا مقصد بنا لیا تھا۔ آخری نبی کی تلاش میں فارس سے مدینہ کا سفر طے کیا۔ کئی مرتبہ غلام بنائے گئے۔حتی کہ آپ مدینہ پہنچتے ہیں اور آخری نبی کی جو علامات بتائی گئی تھیں ان کو جانچنے کے بعد مسلمان ہوئے۔آپ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر علم اور ایمان ثریا  پر ہوتا تو فارس کے کچھ لوگ وہیں سے دین کو پکڑتے۔ واضح ہو کہ ثریا چند ستاروں کے مجموعہ کا نام ہے۔


                     کسی انسان پر سب سے عظیم احسان یہی ہے کہ اس کو احسن عمل کے مقصد زندگی سے آگاہ کر دیا جائے۔پھر اس کے بعد اس کی زندگی میں احسن عمل اسی طرح سر زد ہونے شروع ہو جائیں گے جس طرح موسم بہار میں بلبل کے دل سے نغمہ خود بخود سرزد ہوتا ہے۔ چنانچہ جب سن بلوغ سے موت کی آخری سانس تک حقوق اللہ اور حقو ق العباد کی رعایت کے ساتھ دنیا کی زندگی گذاری جائیگی تو دنیا کو جنت نشاں بننے سے کو ئی روک نہیں سکتا۔اور اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دنیا کو جنت نشاں بناتا ہے۔اور انسان کے حق میں سراسر رحمت ہے۔

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 606