donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Eiman o aamal saleha ki hedayet wa taufeeq ke liye jaddo jehad ka waseela

بسمہٖ تعالیٰ

ایمان و اعمال صالحہ کی ھدایت و توفیق کے لئے جدو جہد کا وسیلہ

اور واسطہ اختیار کرنا ضروری ہے

 

محمد ضمیر رشیدی

(وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر

 Mob. 9403770333

 


                         آم کی گٹھلی ہاتھوں میں لے کر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس گٹھلی کے اندر ایک سر سبز آم کا درخت، لکڑیوں کا ذخیرہ ، آم کے انبار، گھنا سایہ اور ٹھنڈی ہوا وغیرہ چھپی ہوئی ہے تو ہر شخص اس کے دعوے کی تائید کر ے گا کیوں کہ آم کی گٹھلی سے حاصل ہونے والے یہ سارے فائدے ہر کسی کے علم و مشاہدہ میں ہے۔لیکن آم کی گٹھلی سے فائدہ حاصل کرنے کے امکان کو واقعہ بنانے کے لئے چند اصول و ضابطہ کی رعایت کے ساتھ ایک مخصوص محنت درکار ہے جس کے بغیر یہ سارے فائدے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ مثلا گٹھلی کو زمین میں دبانا، کھاد پانی کا انتظام ،جانوروں سے نگہداشت وغیرہ۔اس کے بر عکس اگر گٹھلی کو ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کانچ کی کسی الماری یا طغرے میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ سجاکر رکھ دیا جائے اور روزآنہ اس پر عطر پاشی اور اگر بتی کی دھونی دی جائے تو سالوں سال کی محنت کے باوجود بھی اس سے وہ نتیجہ یا فائدہ حاصل نہیں ہوگا جو اس سے مطلوب و مقصود ہے۔الحاصل یہ کہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ محنت صحیح اور نتیجہ رخی ہو۔


                       پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ  قریش کے اشراف سے ، جن میں ابو طالب،عتبہ،شیبہ،ابو جہل اور ابو سفیان وغیرہ شریک تھے، ایک مرتبہ یوں مخاطب ہوئے:  ’’  لوگو ! میں صرف ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اگر تم اسے مان لو  تو تم سارے عرب کے مالک بن جائو گے اور عجم تمھارا مطیع فرمان ہوگا۔ـ‘‘  اس حدیث شریف میں جس کلمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا،  وہ کلمہ طیبہ  لا الہ الاللہ  ہے۔  یہ توحید کا کلمہ ہے۔ یہ اللہ اور رسول کی غلامی کا کلمہ ہے۔ یہ تسخیر کائنات کا کلمہ ہے۔ چنانچہ اس کلمہ کو پڑھنے کا  مطالبہ اس اعتبار سے نہیں ہے جس طرح ہم بازار میں دکانوں کے نام پڑھتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔اگر اس کو پڑھنے سے ایسا ہی مقصود ہو تا تو عرب کے مشرکین اس کلمہ کو ضرور پڑھ لیتے۔مگر وہ بھی جانتے تھے کہ من چاہی اور رب چاہی دو ضد ہیں اور دو ضد بیک وقت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔ لہذا کلمہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں من چاہی چھوڑکر رب چاہی زندگی اختیا ر کرنی ہوگی اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کے قالب میں ڈھالناہوگا۔ 


                       تاہم یہ کلمہ ایک محنت چاہتا ہے جس کی بنا ء پر انسان کی زندگی میں ایمان و یقین اور نیک اعمال کی بہار آتی ہے۔ اس کلمہ کازبان سے اقرار اوردل سے تصدیق کرنے کے بعد ایمان و اعمال کو مرتبئہ کمال تک پہنچانے کے لئے جد و جہد درکار ہے۔ کسی بندہ کو ھدایت عطا کرنے کی اللہ کی سنت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی طرف انابت اور رجوع کرے، اس کی بار گاہ میں گڑگڑائے، بلبلائے اور آہ و زاری کرے غرضیکہ اللہ سے ھدایت کو اس طرح طلب کرے جیسے کوئی بھکاری بھیک مانگتا ہے ،  نیز اس کے راستہ کی جدو جہد اختیار کرے کہ یہی چیزیں انسان کو ھدایت و توفیق سے قریب کرنے والی ہیں۔اکثر انسان ھدایت کے اس معاملہ میں کفر و ضلالت اور گمراہی کی گھاٹیوں میں یہ سوچ کر پڑے رہ جاتے ہیں کہ جب ھدایت کا دینا بھی اللہ کے ہی ھاتھوں میں ہے تو وہ ہمیں ھدایت کیوں نہیں دے دیتا۔ٹھیک اسی طرح بعض کمزور علم و ایمان والے اہل ایمان ، شیطان کے وساوس اور بہکاوے میں یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ توفیق دے گا تو عمل کریں گے۔واضح ہونا چاہیے کہ ایمان کی ھدایت اور اعمال صالحہ کی توفیق صرف اسی بندہ کو ملتی ہے یا ملے گی جو خود اس کے لئے طالب اور کوشاں ہو ۔یہی سنت اللہ ہے نیز اللہ کی سنت تبدیل اور تحویل نہیں ہوتی اور اللہ بے نیاز ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ جب بندہ اللہ کی طرف چلتا ہے تو اس کی رحمت بندہ کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔ گویا دیر بندہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے الطاف تو بہت عام ہیں اور کسی انسان کو غریق رحمت کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں بے شمار انسان محنت کر رہے ہیں ۔ تاہم یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اسی انسان کی محنت کامیاب و با مراد ہوگی جس کی محنت آنحضور ؐ کی محنت کے اسلوب و نہج سے میل کھاجا ئے گی۔ چنانچہ خاتم الانبیاء ؐ کی محنت کے اسلوب و طریقئہ کار کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

’’وہی ہے جس نے عرب کے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ ‘‘  ( سورہ : جمعہ ۔ آیت نمبر۲)


          اس آیت کی روشنی میں ایمان کو راسخ کرنے اورثابت قدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس آیت شریفہ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں یعنی قرآن مجیدکی آیتوں میں تدبر ، تفکر کرنا اور اللہ کی آیتیں کو پڑھ کر سنانا کہ یہ دعوت ہے اور دعوت کا خاصہ یقین پیدا کرنا ہے۔ دینی مجالس میں شرکت کرنا،  ایمان کا مذاکرہ کرنا، اپنا تزکیہ کرنا، کتاب و حکمت سیکھنا۔ کلمہ پاک پڑھ کر ایمان کی بار بار تجدید کرنا ، ذکر و فکر کی عادت ڈالنا ۔اللہ کے اوامر اور رسول اللہ ؐ کی سنتوں پر عمل آوری کہ اس کے ذریعے انسان ایمان کی حلاوت و لذت کو محسوس کر سکتا ہے۔ مخلوقات الہیہ میں غور و فکر کرنا کہ یہ معرفت کی کنجی اور بہترین عبادت ہے تاکہ مخلوق کے ذریعے سے اس کے خالق کو پہچانا جاسکے  ۔ اہل علم و اہل دل کی صحبت اختیارکرنا کہ اللہ تعالی حکمت کے نور سے مردہ دل کو ایسا زندہ فرماتے ہیں جیسا کہ مردہ زمین زوردار بارش سے زندہ ہوتی ہے ، شیطان و نفس کے وساوس سے بچنا، شک کو یقین سے بدلنا،آخرت کا تذکرہ تاکہ اس کا استحضار نصیب ہو ، وغیرہ۔ الغر ض ان اسباب و عوامل اور امور کی اتنی مشق کرنا کہ دین میں کامیابی کا شرح صدر حاصل ہو جائے۔


                           پیغمبر اسلام آنحضرت ؐ کی مذکورہ بالا حدیث ، کلمہ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے حق میں واقعہ بن کر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس کا کوئی ذی فہم انسان انکار نہیں کرسکتا۔حضرت ابو ہریرہ ایک مرتبہ کتان کے کپڑے میں ناک صاف کر کے فرمانے لگے کیا کہنے ابو ہریرہ کے آج کتان کے کپڑے میں ناک صاف کرتا ہے حالاں کہ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب حضور ؐ کے منبر اور حجرہ کے درمیان بے ہوش پڑا ہوا ہوتا تھا اور لوگ مجنون سمجھ کر پائوں سے گردن دباتے تھے۔ حالانکہ وہ جنون نہیں تھا بلکہ بھوک تھی۔                      

                    الحاصل یہ کہ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے لئے جدو جہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ دعوت کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض نبیوں کی اپنے عزیزو اقارب و دیگر افراد خاندان کے تعلق سے انتہائی حریص ہو نے کے علی الرغم ایمانی ھدایت کا فیصلہ صرف اس لئے نہیں کیا گیا کہ یہ لوگ از خود اس کے طلب کرنے کا مصمم ارادہ اور پختہ فیصلہ نہیں کئے ہوئے تھے جب کہ اس کے بر عکس سیاہ فام حضرت بلال حبشی کو اللہ تعالی نے ھدایت سے سرفراز فرمایاکہ کفار و مشرکین کی جانب سے انتہائی اذیت پہنچائے جانے کے باوجود  ’’احد احد‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہ قول فیصل ہے کہ اللہ نے ھدایت و توفیق کو جدو جہد کے ساتھ مشروط و موقوف اور مربوط کر رکھا ہے جس پر یہ آیت دال ہے۔


’’ جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘( سورہ : العنکبوت ۔ آیت نمبر۶۹

                      مزید برآں جس طرح کسی شخص کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ بلوغت کے آثا ر کو روک سکے ٹھیک اسی طرح ایمان و اعمال کو حقیقت کے اعتبار سے پا لینے کے بعد کوئی شخص تقوی ، احسان و مروت ، جود و سخا ، ایثار و قربانی ، صبرو برداشت ، تسلیم و رضاء ،استقامت، فراست ،حلم و بردباری، اطاعت و فرمانبرداری، بلند عزائم، معرفت و آگہی، تقوی و طہارت،  اخوت ومحبت، ہمدردی و ایثار، خلوص ، احسان، عاجزی و انکساری  وغیرہ جیسی اعلی و ارفع صفات سے خالی نہیں رہ سکتا۔


                         پھر اس کو سمجھ دی ، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔(سورہ : شمس ۔۔ آیت نمبر ۔۸)۔ گویا اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر ھدایت کا بیج ودیعت کر دیا ہے۔  چنانچہ بندہ کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کی طاقت ، قوت اور قدرت کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔آیا وہ اسے ضائع کرکے ’’شجر خبیثہ‘‘  تیا ر کرتا ہے یا محنت کرکے ’’ شجر طیبہ‘‘۔
               تاہم اہل ایمان کے یہ مناسب حال نہیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جدو جہد کا واسطہ اور وسیلہ اختیار نہ کرے۔ چنانچہ ایسی صورت میں ان کے بارے میں بھی وہی بات کہی جائے گی جیسا کہ دور نبویؐ میں بعض بدوئوں کے تعلق سے یہ بات کہی گئی تھی۔
                           ’’ کہتے ہیں بدوی لوگ کہ ہم ایمان لائے ، تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے۔ ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘(سورہ : الحجرات ۔ آیت نمبر : ۱۴)


 :::::::::    ختم شد   :::::::::::::   

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 579