donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Hedayet Sabse Badi Zaroorat

بسمہٖ تعالیٰ


ھدایت سب سے بڑی ضرورت اور سب سے بڑا مسئلہ آخرت ہے

محمد ضمیر رشیدی

وارثپورہ، کامٹی، ضلع ناگپور(مہاراشٹر


ھدایت:سب سے بڑی ضرورت


        دنیا میں انسان کی بے شمار چھوٹی بڑی ضرورتیں ہیں ۔ روٹی، کپڑا، مکان، سواری ، امن، صحت،نیند وغیرہ۔مگر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ’’ربانی رشد و ھدایت‘‘ ہے۔ اس ضرورت سے اہل ایمان ایک لمحہ کے لئے بھی غافل ہونے کا تحمل نہیں کر سکتے کہ ’’جو لمحہ غافل وہ لمحہ کافر‘‘۔نیز اس کے حصول کے لئے وہ ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے سکتے ہیں۔کیوں کہ یہ اتنی بڑی اور اہم ضرورت ہے کہ اس کے بغیر انسان دنیا کی چند روزہ اور آخرت کی لا محدود زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔یہ ایسی نا گزیر ضرورت ہے کہ با وضو قبلہ روہر  نماز میں دست بستہ صرا ط مستقیم کی دعا بارگاہ خداوندی میں کی جاتی ہے۔ اب جب کہ دنیا میں چہار سو ما دّیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مادّیت کے بت کی ہی پوجا ہر جگہ ہو رہی ہے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ربانی رشد و ھدایت کے حصول کے مقابلے میں دنیا کی اپنی ہرذاتی چیزاور جان و مال کو بے قیمت ثابت کردیں یعنی مادیت کے بت کو دنیا کے چوراہے پر توحید کی زوردار ٹھوکر لگائیں۔مگر اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس رشد و ھدایت کی اہمیت و ضرورت کو محض دعوئوں تک محدود نہ کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے اسے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیں کہ واقعی ان کے نزدیک ربانی رشد و ھدایت انہیں ان کی جان و مال سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہے۔ یعنی اللّٰہ و رسول کی محبت اور فرمانبرداری و اطاعت اور اس کے راستہ کی جدوجہد انہیں انتہائی محبوب ہو جا ئے۔ اس کی ایک مثال صحا بی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص کے ایک واقعہ سے اس طرح ملتی ہے۔یرموک کی لڑائی میں جب آپ قادسیہ پر حملہ کے لئے نہایت بشاشت  سے لشکر لے کر پہنچتے ہیں تواپنے مقابلے میں رستم کو خط میں لکھتے ہیںـ’’ بیشک میرے ساتھ ایسی جماعت ہے جو موت کو ایسا ہی محبوب رکھتی ہے جیسا کہ تم لوگ شراب پینے کو محبوب رکھتے ہو۔‘‘  ۔ الغرض مادی لذات و تعیش کے نقشوں کو ٹھکراکر روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنا زند گی کی معراج ٹھہرے۔مثلاً  تہجدمیں اٹھ کر اللّٰہ کی بارگاہ میں آہ و زاری ہمیں نیند سے زیادہ محبوب ہو جائے۔خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے پلانے میں ہمیںلطف آرہا ہو۔اپنی ضرورت کے اوقات میں کسی دوسرے بندگان خدا کو ترجیح دے رہے ہوں،وغیرہ۔


    انسانیت کی نجات کا نسخہء کیمیا  :  ’’یا ایھاالناس قولو لا الہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘  !!
       جب انسان کی دنیاوی ضرورتیں احسن طریقے پر پوری نہ ہوں تو وہ مسائل کی شکل و صورت اختیار کر لیتی ہیں۔آج دنیا میں انسانوں کے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے شمار مسائل انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔انسانوں کے بے شمار چھوٹے بڑے مسائل ہیں جیسے بھوک، پیاس، جہالت، خوف ، بد امنی ، نا انصافی،بے روزگاری،ظلم ، غربت وغیرہ ۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا ان مسائل سے کبھی بھی خالی نہیں رہی۔مگر حالات کو حکومت و سیاست کی طاقت ،فوج ،اکثریت ،اسکیموں، منصوبوں، دستور اور قانون قاعدوں وغیرہ سے بدلنے کی محنت کرنا دنیا کے عام انسانوں کا شیوہ ہے اہل ایمان کا نہیں۔اہل ایمان سارے انبیاء کی یکساں محنت کے مشترکہ نقطئہ آغاز یعنی قلوب کی صفائی سے ہی اپنی محنت کا آغاز کرتے ہیں۔کیونکہ  مسائل اورحالات کا تعلق اعمال سے ہے۔ اعمال کا تعلق اعضاء و جوارح سے ہے۔ اعضاء و جوارح کا تعلق قلب سے ہے ۔ قلب کا تعلق روح سے ہے اور روح اللّٰہ کا امر ہے یعنی اس کا تعلق براہ راست اللّٰہ جلّ شانہٗ کی ذات سے ہے۔اگرچہ ترقی کی منازل طے کرکے  انسان اپنی انگلیوں کے اشارے سے اس آسمان و فضائ،دشت و بیاباں،و صحراو سمندر وغیرہ میں اپنی سلطنت و حکومت قائم کئے ہوئے ہے اورپوری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے مگر جونہی اللّٰہ کا امر اس کے جسم سے جدا ہوتا ہے وہ ایک مشت خاک کا ڈھیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ اللّٰہ کے ایک امر میں کتنی طاقت پوشیدہ ہے۔چونکہ قرآن مجید اللّٰہ کے اوامر کا گنجینہ و خزینہ ہے اوراس کی تشریح حدیث پاک ہے ۔ لہٰذا اگر انسان قرآنی اوامر پر عمل پیرا ہو جائے  باالفاظ دیگر اپنے جسم میں موجود اللّٰہ کے امریعنی روح کا تعلق قرآنی اوامر سے قائم کرلے تو تائید ایزدی اس کے شامل حال ہو جائے۔اور اس سے اسکی ذات میں بے انتہا طاقت پیدا ہو جائے ۔ نیز وہ جس قدر اللّٰہ کے اوامر سے مطابقت پیدا کریگا اسی قدر اس میں کائنات بشمول انفس (عالم صغیر) اور آفاق (عالم کبیر) کو مسخر کرنے کا اختیار پیدا ہو گا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ انسان کو اس کے رب سے اس کے کلام کے ذریعے سے جوڑ دیا جائے۔ایسا کرنے سے انسان نیابت الٰہی پر فائز ہو سکتا ہے اور پھر دنیا کے بے شمار مسائل یونہی ختم ہو جائیں۔ کیونکہ یہاں دنیا میں انسان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا بھی انسان ہے۔ انسان کے مال و جائداد پر ہاتھ صاف کرنے والا بھی انسان ہے۔ قانون بنانے والا، نافذ کرنے والا اور قانو ن کو توڑنے والا، عدالت میں فیصلہ کرنے والا بھی انسان ہے، وغیرہ ۔


    آج دنیائے انسانیت ہر روز اور ہر آن نت نئے مسائل سے حیراں و پریشاں ہے ۔ جب تاجدار مدینہ آنحضرت ﷺ نے ہم امتیوں کو ناخن کاٹنے ، کھانے سونے ، تجارت کے اصول ،غرضیکہ زندگی کے ہر گوشہ اور میدان میں رہنمائی کی ہے تو کچھ عجب نہیں کہ آپ ﷺ نے برائی کو بھلائی سے بدلنے ، دشمن کو دوست بنانے، ظالم کو منصف بنانے اور جاہل کو عالم بنانے ، خدا بیزار کو خدا شناس بنانے ،خوف کو امن سے بدلنے ، ناری کو نوری بنانے وغیرہ کا طریقہ امت کو تفویض نہ کیا ہو۔ جس طرح شراب ام الخبائث ہے ، اسی طرح کفر و شرک ام الامراض ہیں۔ساری برائیاں اور شرور ان سے ہی جنم لیتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے  ’’ ہر چیز کے لئے کوئی صاف کرنے والی اور میل کچیل دور کرنے والی چیز ہوتی ہے مثلا کپڑے اور بدن کے لئے صابن ، لوہے کیلئے آگ کی بھٹّی وغیرہ، دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔   ‘‘  لا الہ الا اللّٰہ افضل ا لذکر ہے اور دنیا و آخرت کے سارے مسائل کے حل کی کنجی ہے۔اور یہی سارے انبیاء کی محنت کا خلاصہ اور حاصل ہے۔


   شرک سب سے بڑا ظلم ہے!        
     مگر یہ کتنا بڑا ظلم اور جہالت ہیکہ اشرف المخلوقات انسان اپنے مالک حقیقی اور کریم و شفیق آقا کے ذکر سے بغاوت پر آمادہ ہے۔ عام انسان اپنے خلاف ہو نے والے ظلم کو ظلم کہہ کر اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور اس میں اہل ایمان کا کوئی استثناء نہیں۔مگرہم اہل ایمان کودنیا میں کفر و شرک کی ارزانی ہونے کے باوجود چہرہ پر کوئی بل نہیں پڑتا جس کو رب تعالیٰ نے سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے۔آج دنیا میں ظلم و ستم اور ریشہ دوانیوں کو ایک مذہب، قوم، گروہ، سماج ، قبیلہ، علاقہ کے مقابلے میں دوسرے مذہب، قوم، گروہ، سماج ، قبیلہ، علاقہ کے نام سے متعلق کیا جاتا ہے تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ظلم و ستم کے بے شمار واقعات انسان خود اپنے ہی مذہب ، قوم، گروہ، سماج ، قبیلہ، علاقہ کے افراد کے مدّ مقابل کرتا ہے۔ الحاصل یہ کہ انسان اپنے جزوی فائدے کی خاطر کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔ لہٰذا نبی و رسول اسی ظلم و ستم سے انسانوں کو روکتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک انسان اپنے حقیقی خالق و مالک کو نہیں پہچانے گا ظلم و ستم سے رک نہیں سکتا۔ہر دور، ملک، علاقہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے معصوم بندوں کو نبی و رسول بنا کر انسانوں کی ھدایت و فلاح کے لئے بھیجا۔ نبی و رسول انسانوں کے مسائل کو براہ راست حل نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ایک ہی جامع کلمہ و دعوت  ’’یا ایھاالناس قولو لا الہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘  یعنی اے دنیا کے انسانو! کلمہ پڑھ لو کامیاب ہو جائو گے ـ‘‘   پیش کرتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ دنیا کے ہر قسم کا بگاڑ صرف مظہر ہے دل کے بگاڑ کا۔ قتل و غارت، دھوکہ و فریب، زناکاری ، بدکاری، قمار بازی وغیرہ کی وجہ اس کے سواء کچھ اور نہیں کہ انسانوں کے قلوب میں بگاڑ ہے۔جب قلوب میں قساوت پیدا ہوتی ہیں تو انسانیت کے سوتے خشک ہوتے ہیں۔اور جب دل کی دنیا آباد ہوتی ہے تو انسانی بستیوں میں ہر طرف خیر و بھلائی چھا جاتی ہے۔ گندگی کو دور کرنا ہے تو اس کے لئے شفاف اور پاک و صاف پانی یا کسی شئے کو استعمال کرنا ہوگا۔ ورنہ گندگی برقرار رہے گی بلکہ مزید بڑھ سکتی ہے۔آج اہل ایمان کو بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے ببانگ دہل یہی کلمہ بلند کرنا ہے کہ  اے انسانو!  تمھارے سارے مسائل کا حل اللّٰہ پر ایمان لانے میں مضمر ہے۔ یعنی اندرون کو بنائے بغیر بیرون کو سنوارنا ممکن نہیں!


    پوری دنیا دارالدعوہ ہے        


         اللّٰہ رب الناس ہے،  قرآن ھداللناس ہے،  یہ امت اخرجت للناس ہے، آپ ﷺ  ساری انسا نیت کے لئے  رحمت اللعالمین ہیں ۔ نیز حضرت آدمؑ کے ناطے ساری دنیا کے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، پرائے نہیں۔ مگر چونکہ نبی و رسول کی بعثت کا  سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اور سارے انسانوں کی ھدایت و فلاح اور نیک راستہ دکھانے کی ذمہ داری اہل ایمان کے کاندھوں پر ہے۔ لہٰذا ساری دنیا داعی کا میدان کار زار ہے اور دارالدعوہ بھی۔ ہر اہل ایمان دعوت کا مکلف ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اہل ایمان شہادت علی ا  لناس کا فریضہ انجام دیں یہاں تک کہ اتمام حجت کا حصول ہو جاوے۔پوری انسانیت کی ھدایت کے حریص بن جائیں۔خلاصئہ کلام اینکہ جب ہم ھدایت کو اپنی سب سے بڑی اور پہلی ضرورت کا درجہ دے کر اور آخرت کے مسئلہ کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھ کر زندگی کی از سر نو تشکیل و ترتیب کریں گے تب کہا جا سکتا ہے کہ ہم میں دوسری اقوام کو ضم کرنے و جذب کر لینے کی استعداد و صلاحیت پیدا ہو گئی ہے ۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج اہل ایمان معاشرے میں بے شمار لوگ ماں باپ کی خدمت، پڑوسیوں کے حقوق، عزیز رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی وغیرہ سے دور ہیں۔ ایسی صورت میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہم میں دوسری اقوام عالم کو اپنے اندر جذب کرنے اور ضم کرنے کی صلاحیت سے ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے۔
                                                      ٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 751