donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zameer Rashidi
Title :
   Safat Se Motasif Hona Hi Deen o IEiman Ka Samrah Hai

صفات سے متصف ہونا ہی دین و ایماں کا ثمرہ ہے

 

اورھدایت کے پھیلنے کا موئثر ترین ذریعہ بھی


  محمد ضمیر رشیدی


وار ث پورہ، کامٹی، ضلع ناگپور,مہاراشٹر

 

                        مرچ دنیا کے ہر گوشہ و کونے میں تیز ہوتی ہے، لیموں ترش اور انار میٹھا ۔ چیزوں کی یہ صفات جیسی کل تھی ، ویسی ہی آج برقرار ہے، اور کل بھی ویسی ہی رہے گی۔صفات و خواص کسی شئے کا جوہر اصلی ہوتا ہے نیز اس سے ہی اس کی پہچان ہوتی ہے اور اسی سے اس کا وجود قائم ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوگا۔ جس طرح مختلف اشیاء کی صفات، خواص، ذائقہ میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح دینی اعمال کی صفات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔مثلاً روزہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔نماز بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے۔علم سے اللہ کی معرفت ملتی ہے۔ ذکر سے نور پیدا ہوتا ہے۔اکرام و احترام سے انسانوں میں جوڑ پیدا ہوتا ہے۔ظالم کو معاف کرنے سے انسان مستجاب الدعوات بنتا ہے۔تعلیم و تعلّم سے دین پر قائم ہونے میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔دعوت الی اللہ سے ایمان و یقیں کو جلا ملتی ہے،وغیرہ۔

    ایمانی صفات کیا ہیں ؟ ان کی اہمیت و افادیت کیا ہے ؟ نیز ان صفات کو نقطئہ کمال پر پہنچانے کے لئے کس قسم کی محنت درکار ہے ؟ چند ایمانی صفات یہ ہیں : یقین، تقویٰ، صبر،توکل ، احسان، رحم، اخلاص، جود و سخا، حیائ، حلم، بردباری، اطاعت، عجز و انکساری، تواضع، عفو و در گزر، حکمت ،وغیرہ۔یہ صفات بندئہ مومن کو پورے دین پر عمل پیرا ہونے میں معین و مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ان صفات کی وجہ سے اعمال   بارگاہ الٰہی میں قابل قبول ہوتے ہیں۔ ان صفات کی بدولت اعمال آخرت میں قابل معاوضہ و قابل اجر قرار پائیں گے۔ان صفات کا حامل شخص انسانوں کے درمیان محبوبیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے اور انسان مقام دعا پر پہنچ جاتا ہے۔ صفات اسلامی زندگی کی روح اور اس کاخلاصہ ہیں۔ نیز یہ صفات ھدایت کے پھیلنے کا موئثر ترین ذریعہ و سبب ہیں۔ان صفات کی بڑی اہمیت ہے۔جب کوئی فرد یا قوم صفات سے خالی ہو تو کھری چاندی بھی اس کے ہاتھ میں پہنچ کر کھوٹی ہو جاتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں طاقت و دولت و دیگر اسباب کو مفید کاموں میںنہ لگا کر بے فائدہ باتوں،فضول کاموںاور ظلم کی مدد میں خرچ کیا جاتا ہے۔


     یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان ، اعمال اور صفات میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔اصل ایمان وہی ہے جو تفقہہ، تدبر، تعقل، تفکر ، تذکیر ،اہل اللہ کی معیت و صحبت اور مجاہدہ وغیرہ کے عمل سے گذر کردل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو۔ ایسی کھری توحید کا اقتضاء یہ ہوتا ہے کہ انسان رب کے احکام و فرامین کے آگے کامل سپردگی کا معاملہ اختیار کر لیتا ہے۔شریعت و سنت کی یہ پابندی بندئہ مومن کو ربانی صفات سے متصف کر دیتی ہے۔اور پھر دوبارہ یہ صفات بندئہ مومن کے ایمان و یقیں کو استحکام بخشتی ہیں اور کشاں کشاں اعمال پر ثابت قدمی عطا کرتی رہتی ہیں۔اس طرح ایمان ، اعمال اورصفات آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔اس کی مزید وضاحت کے لئے  ایک حدیث پاک کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔پیغمبر اسلام ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔’’ایمان ہی اخلاص ہے۔‘‘ صفات میں کمال درجہ حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ا ہل اللہ و بزرگان دین کی صحبت اختیار کی جائے کہ ان پاک نفوس کی صحبت صفات کے پیدا کرنے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔اس کی مثال درکار ہو تو اس لوہے پر غور کرنا چاہیے جو آگ میں پڑکرآگ کے خواص اور اس کی صفات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے ۔

                                     جلا  دیتی  ہے  شمع کشتہ  کو  موج نفس انکی
                                      الٰہی! کیا چھپا رہتا ہے اہل دل کے سینوں میں

        ایمان کی سب سے اعلیٰ صفت ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیںتو آپﷺ نے سب سے اوّل تقویٰ کی وصیّت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ تمام امور کی بنیاد اور جڑ ہے نیز اپنا دست شفقت ان کے سینے پر مار کر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ناجائز امور سے بچنے کی برابر تقویٰ نہیں۔ توکل، صبر ، تقویٰ، عاجزی ، حکمت اور احسان وغیرہ ایسی زبردست و جامع صفات ہیں کہ ان صفات سے متصف ہونے کا براہ راست حکم قرآن مجید میں وارد ہوا ہے۔نیز ان صفات کے حامل افراد کے ساتھ اللہ جل شانہ‘ کی نہ صرف مدد ہے،بلکہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے۔ قرآن مجید سے چند آیتیں اشارۃً پیش ہیں۔

لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔(سورۃ  : الشعرائ۔ آیت نمبر:۱۲۶

 پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔                (سورۃ : آل عمران۔ آیت نمبر: ۱۵۹

اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے قوت حاصل کرو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورۃ : البقرۃ۔ آیت نمبر: ۱۵۳

اور جسے حکمت دی گئی بلا شبہ اسے خیر کثیر عطا کی گئی۔(سورۃ  : البقرہ۔ آیت نمبر:۲۶۹

یقینا  اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورۃ :الانفال۔ آیت نمبر: ۴۶

رحمٰن کے خاص بندے وہ ہیں جوزمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔(سورۃ : الفرقان۔ آیت نمبر:۶۳

اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے متقین کے۔(سورہ : البقرۃ۔ آیت نمبر: ۱۹۴

احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(سورہ : البقرۃ۔ آیت نمبر: ۱۹۵

اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔(سورۃ : بنی اسرائیل۔ آیت نمبر:۱۲۸

        ایک ماں اپنے بچہ کے ہاتھوں میں آگ کا انگار ہ نہیں رکھتی جبکہ وہ ایک روٹی کا سوال کر رہا ہو۔ کئی مائوں سے زیادہ محبت کرنے والے اللہ جلّ شانہ‘ سے بعید ہے کہ ایک بندہ اس سے صفات کی حقیقت مانگ رہا ہو، جدو جہد میں مصروف ہو،اور وہ اسے صفات سے متصف نہ کر ے۔ صفات کے حامل افراد سے دشمنی مول لینا کسی شخص کے لئے بھی ممکن نہیں۔ان کے مخالفین بعد کو ان کے حامی بن جاتے ہیں۔ان کے اخلاق و کردار کی طاقت کے آگے دشمن بھی گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نیز صفات کو مرتبئہ کمال تک پہنچانے کی اتھاہ گنجائش ہی گنجائش ہے کہ ایمان و عشق حقیقی کی انتہا نہیں۔

 ہر ایک مقام سے آگے ہے مقام ترا
 حیات ذوق سفر کے سوا کچھ بھی نہیں

            دنیا کے عام بادشاہ جب کسی ملک پر چڑھائی کرتے ہیں تو خوب قتل و غارتگری کرتے ہیں۔ بچوں و بوڑھوں کو بھی قتل کرنے سے باز نہیں آتے ، عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ مگر فتح مکہ (۸ ہجری) کے موقع پر آپ ﷺ نے عفوو در گزر کی صفات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے اخلاق حسنہ، کریمہ و عظیمہ کے ذریعہ سخت سے سخت دشمنان اسلام ہندہ، ابوسفیان،وحشی،عکرمہ وغیرہ کے بھی قلوب کو جیت لیا ۔پس جو لوگ آپﷺ کے معجزات کو دیکھ کر ایمان نہیں لائے وہ شمائل نبوی ﷺ سے ھدایت پا گئے ( رضی اللہ عنہم و رضو عنہــ‘ ) ۔ جب آ پ ﷺ نے ان پر مکمل طور قابو پانے کے بعد بھی معاف فرمادیا تو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بلاشبہ آپ ﷺنبی ہیں کہ ایسے اوصاف کسی نبی سے ہی صادر ہو سکتے ہیں ۔یہ واقعہ دنیا کی تاریخ میں ایک استثناء کی حیثیت رکھتاہے اور دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔یوں آپﷺ کی بعثت مبارک کا مقصد بھی پورا ہوا  یعنی ’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ بہترین قسم کے اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہنچادوں۔‘‘ اور جس اخلاق کی شہادت کا اعلان خود قرآن کریم تاقیامت کرتا رہے گا۔

’’اوربے شک آپﷺ  اخلاق  کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔‘‘(سورۃ : القلم۔ آیت نمبر:۴

٭٭٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 841