donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mobashir Hasan Islahi
Title :
   Khola Ki Sharyi Haisiyat

خلع کی شرعی حیثیت

 

مبشرحسن مصباحی

تلخیص صابررضارہبرمصباحی

اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں خواہ تعلیم و تربیت ہویا ضرورت و حاجت، عمل و کردار ہو یا نکاح وطلاق دونوںمیں برابر کا حصہ دیا ہے اورجس طرح مرد کی تعلیم ضروری ہے بعینہٖ عورت کی بھی ہے، بلکہ اس کے لیے زیادہ ترغیب و تاکید آئی ہے۔ دونوں آزاد اور مختار ہیں، نکاح میں دونوں کی چاہت ورضا مندی کا دخل ہے ۔طلاق کی ڈوری مرد کے ہاتھ میںہے تو خلع کی ڈوری عورت کے ہاتھ میں۔ جب بھی عورت کومشکل درپیش آئے خلع کے ذریعہ ملک نکاح زائل کر لے پھرجس کے ساتھ چاہے زندگی گذارے۔ ہم سردست خلع کی حقیقت اور اس کے احکام سے متعلق گفتگو کریں گے۔

خلع کی تعریف: خلع کا لغوی معنی (پیش کے ساتھ) ازالۂ زوجیت ہے اور خَلع( فتحہ کے ساتھ) کا معنی اتارنا ہے۔ یہ لباس اتارنے سے استعارہ ہے ۔اس لیے کہ اللہ کے اس قول’’ہُنَّ لِباَسُ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِباَسُ لَّہُنَّ‘‘ میں میاں بیوی میں سے دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں۔ خلع سے گویا ہر ایک نے اپنا لباس اتار لیا۔             (المعۃ الدمشقیۃ جلد:۲صفحہ:۱۶۳)
شرع میں خلع مال کے بدلے نکاح زائل کرنے کو کہتے ہیں۔ تعریف خلع میں چاروں ائمہ کا قدرے اختلاف ہے،چنانچہ احناف نے کہا کسی عوض کے مقابلے لفظ خلع کے ذریعہ نکاح ختم کرنے کا نام خلع ہے۔

 شوافع: کسی عوض کے مقابلے لفظ طلاق اور خلع کے ذریعہ زوجین کے درمیان تفریق کا نام خلع ہے۔ 

مالکیہ: کسی عوض کے ذریعہ طلاق کا نام خلع ہے۔
 حنابلہ:  الفاظ مخصوصہ کے ذریعہ کسی عوض کے مقابلے شوہر کا اپنی بیوی سے جدا ہونے کا نام خلع ہے۔    (رد المختار جلد:۵؍ صفحہ:۸۳)

 خلع کا ثبوت:سوائے بکر بن عبد اللہ مزنی تابعی کے علماء کا خلع کی مشروعیت پر اجماع ہے کہ انہوں نے پہلا استدلال قرآن عظیم کی اس آیت کریمہ سے کیا’’فَاِنْ خِفْتُمْ ألاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَجُناَحَ عَلَیْہِمَا فِیْماَ اِفْتَدَتْ بِہٖ‘‘ ( البقرہ آیت ۲۲۹)

یعنی جب حدود اللہ قائم نہ رکھنے کا اندیشہ ہو تو مال دے کر اپنے شوہر سے جدائی اختیار کرنے میں بیوی پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ خلع کے مقابلے شوہر کو مال لینے میں کوئی حرج ہے۔
 دوسری جگہ ہے’’ فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَئِِی مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوْہُ ہَنِیْٓئًا مَّریْئاً‘‘(سورہ النساء آیت ۴) 

اللہ نے اس آیت میں بغیر کسی چیز کے بدلے اپنی بیوی سے دیا ہوا مہر لینا جائز کر دیا ہے، تو جب خلع کے مقابلے میں مال لیا جس کی وجہ سے بیوی مالکہ بن گئی تو یہ بدرجۂ اولیٰ جائز ہے۔ 

دوسرا استدلال اس حدیث سے ہے’’عن ابن عباس قال جاء ت امرأۃ ثابت بن قیس بن شماس الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللّٰہ! انی ما اعتب علیہ فی خلق ولادین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام۔فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أترید ین علیہ حدیقۃ ؟ فقالت نعم، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اقبل الحدیقۃ وطلقہا تطلیقۃ‘‘(بخاری ونسائی، ترمذی)

حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت ثابت قیس بن شماس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس کی دینداری اور اخلاق میں عیب نہیں نکالتی بلکہ مجھے اسلام میں شوہر کی ناشکری پسند نہیں ( یعنی بوجہ خوبصورت نہ ہونے کے میری طبیعت ان کی طرف مائل نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا۔ کیا تم ثابت کا دیا ہوا باغ (مہر میں) واپس کر وگی؟ عورت نے کہا ہاں! چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس کو حکم دیا اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو۔

تیسرا استدلال اجماع سے ہے کہ صحابہ اورعلماء کا خلع کے جواز پراجماع ہے اورسوائے بکر بن عبداللہ مزنی کی مخالفت کے اورکسی کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔

چوتھا استدلال قیاس سے ہے کہ یہ بیع وشراء کے مثل ہے کہ جس طرح شوہر کا کسی عوض کے مقابلے بضع سے نفع اٹھانے کامالک ہوناجائز ہے توعوض کے ذریعہ اس ملکیت کو ختم کرنا بھی جائزہے۔

غیرمشروعیت کے قائلین نے حجاج کی روایت سے استدلال ہے کہ عقبہ بن ابی صھباء سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے بکربن عبداللہ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میںدریافت کیا جس کی بیوی کو خلع کا ارادہ تھا۔ کہا مرد کو عورت سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔ میںنے ان سے کہا اللہ عزوجل اپنی کتاب مقدس میں فرماتا ہے’’  فَلاَجُناَحَ عَلَیْہِمَا فِیْماَ اِفْتَدَتْ بِہ‘‘ توانہوں نے کہا ’’وان اردتم استدلال زوج مکانٍ زوج مکانٍ وأتیتم إحدٰھُنّ قنطاراً فلا تاخدوا منہ شیئاأتاخذونہ بھتانا واثما مبینا‘‘ اوراگر تم اپنی بی بی کے بدلے دوسری بدلنا چاہواوراسے ڈھیروں مال دے چکے ہو، تواس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا اسے واپس لوگے جھوٹ باندھ کر اورکھلے گناہ سے ۔( سورۂ نساء،آیت: ۲۰)

یہ ظاہر کتاب، سنّت، اوراجماع سے مردودہے، اوررہا نسخ کادعوی تووہ مردود ہے۔ اس لیے کہ ’’ ان اردتم استدلال زوج فَاِنْ خِفْتُمْ ألاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہ‘‘ کے لیے ناسخ نہیں ہے۔ چونکہ دونوں کا حکم جداگانہ ہے ۔ جب زیادتی مرد کی طرف سے ہواوراسے بیوی بدلنے کا ارادہ ہوتوخلع حرام ہوجاتا ہے ۔ جب زوجین کوحدود اللہ قائم نہ رہنے کا اندیشہ ہوتوخلع مباح ہے۔ اس طور پرکہ عورت اپنی بداخلاقی کی وجہ سے بغض رکھتی ہو یا مرد بداخلاق ہو اوربیوی کو ضرر پہونچانے کا قصد نہ ہو لیکن حدود اللہ قائم نہ رہنے کا اندیشہ ہووہ حسن سلوک اورحقوق زوجیت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حالت اس کے علاوہ ہے۔ ان دونوںآیتوں میں سے کوئی دوسرے کے لیے معترض اورموجبِ نسخ نہیں ہے۔ مزید یہاں شرطِ ناسخ منتفی ہے وہ تاخر ناسخ کا علم ہے۔

ارکانِ خلع :ارکانِ خلع پانچ ہیں: 

(۱) ملتزم عوض، اس سے مراد جومال کاالتزام کرے خواہ وہ بیوی ہو یا اس کے علاوہ ہو۔

 (۲) بضع : جسے شوہر مستفید ہوتا ہے، وہ بیوی کا بضع ہے۔ جب شوہر طلاق بائن دے دے توملک بضع زائل ہوجاتا ہے، پھرخلع صحیح نہیں ہوتا۔

(۳) عوض: وہ مال جو عصمت کے مقابلے میں شوہر کے لیے خرچ کیاجاتاہے۔ 

(۴) زوج :

(۵) عصمت:  

یہ خلع کے ارکان ہیں ان کے بغیر خلع نہیں ہوتا ہے پھر ہر رکن کے ساتھ کچھ شرائط ہیں۔
شرائطِ خلع : ہرملتزم عوض میں شرط ہے کہ وہ تصرف کا اہل ہو، ملتزم عوض میں تصرف مالی اورشوہر میں طلاق کی اہلیت ضروری ہے، پھروہ عاقل اورمکلف ہو۔چنانچہ صغیرہ، مجنونہ، اورسفیہہ (بے قوف) کے لیے مال کے بدلے اپنے شوہر سے خلع کرنا صحیح نہیں ہے جس طرح صغیر،پاگل کے لیے طلاق دیناصحیح نہیں ہے لیکن بے قوف کا طلاق دینا صحیح ہے۔
خلع کا عوض: اس میں کئی شرائط ہیں:

 (۱) ایسا مال ہوجس کی کوئی قیمت ہو۔ لہٰذا جس مال کی قیمت نہیں ہے اس سے خلع صحیح نہیں ہوتا ہے، جیسے گیہوں کا دانہ۔

 (۲) مال طاہر قابل انتفاع ہو۔ جیسے شراب، خنزیر، مردار اورخون سے خلع صحیح نہیں ہوتا ہے۔چونکہ ان چیزوں کی شریعت اسلامیہ میں کوئی قیمت نہیں ہے۔

صیغۂ خلع : اس کے لیے کسی صیغہ کا ہونا ضروری ہے۔ یہ معاطاۃ کے ذریعہ صحیح نہیں ہوتا ہے۔ عوض کا موجود ہونا شرط نہیں ہے بلکہ خلع معدوم سے جس کے وجود کا انتظار ہوصحیح ہوجاتا ہے۔ مثلااونٹنی وغیرہ کے حمل پر خلع کرلیاتویہ صحیح ہے۔ بیوی کی جانب سے نفرت وناپسندیدگی کااظہار ہو، عوض بیوی اداکرتی ہے اس لیے بیوی کی رضا مندی ضروری ہے ۔

(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ جلد:۴،صفحہ:۳۵۲)

الفاظِ خلع : خلع کے الفاظ پانچ ہیں:(۱) خالعتک(۲) بارأتک(۳) فارقتک (۴) باینتک(۵) طلقي نفسکِ علی الفٍ

 (۱) جو خلع سے مشتق ہو۔ جیسے خالعتکِ، اختلعي اخلعي نفسک، اخلعتک خلع ان سے بغیر نیت کے ہوجاتا ہے، اس لیے کہ یہ طلاق میں زیادہ مستعمل ہونے کی وجہ سے صریح کی طرح ہوچکا ہے توجب شوہر نے اپنی بیوی سے کہا میں نے تجھ سے اتنے مال کے بدلے خلع کیا تومعاملہ ظاہر ہے اورجب مال کا ذکرنہ کیا تواسے طلاق واقع ہوگی، خواہ نیت کرے یا نہ کرے۔

(۲) بارأتک : جب شوہر نے بیوی سے کہا میں20؍جینھ پر تم سے جدا ہوگیا، وہ قبول کرلی توطلاق بائن واقع ہوجائے گی اوربیس جنیھ لازم اورمہر بالاتفاق ساقط ہو جا ئے گا اوراس نے قبول نہ کیا توطلاق واقع نہ ہوگی۔ صورت مذکورہ میں مال کا ذکرنہ ہواتو بغیر نیت طلاق واقع نہ ہوگی۔

(۳) فارقتک : جب مال کا ذکرہوا اورعورت قبول کرلے توخلع صحیح اورمال لازم ہوگا۔ مال کا ذکر نہ ہو اورعورت نے اسے قبول کرلیا توخلع سے جوحقوق ساقط ہوتے ہیںوہ ساقط ہوجائیں گے جب کہ شوہر نے طلاق کی نیت کی ہویا قرینۂ طلاق موجود ہو اوراگر بیوی نے قبول نہ کیا اورشوہر نے طلاق کی نیت کی ہوتو طلاق بائن واقع ہوگی اس لیے کہ یہ کفایہ ہے۔

(۴) باینتک: یہ خلع کے لیے موضوع ہے ، اگرمال کا ذکر نہ ہواورعورت نے قبول کرلیا توعورت کے حقوق ساقط ہوجاتے ہیں ، جب شوہر نے اسے طلاق کی نیت کرلی توطلاق واقع ہوجائے گی اگر چہ بیوی نے قبول نہ کیا ہو۔ جب شوہر نے کہا میں تجھے 20؍ریال پرجداکیا توبیوی کے عدم قبول پرقول واحد میں نہ طلاق پڑے گی نہ بدل لازم ہوگا۔

(۵) طلاق مال پرہو ،مثلا کہا تم خود کوایک ہزار روپئے پرطلاق دے دے۔ بولی میں نے قبول کیا، یا اتنے پرمیںنے خود کو طلاق دے دیا توطلاق بائن واقع ہوگی اورایک ہزار روپیے لازم ہوںگے اورجب مال کا ذکرنہ کیا تویہ تملیک طلاق ہے ، خلع نہیں ہے ۔یہ پانچ مشہور خلع کے الفاظ ہیںاورفقہاء نے دومزید۔ بیع اورشراء کا اضافہ کیا ہے۔ 

 (کتاب الفقہ علی المذایب الاربعہ جلد :۴ صفحہ:۳۵۲) 

عوض کی مقدار:وقوع خلع کی مقدار میں فقہا ء کا اختلاف ہے ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عورت سے عطاکردہ سے زائد لینا جائز نہیںہے۔ یہی حسن بصری ،عطااور سعید بن جبیر کی رائے ہے اور سعید بن مسیب نے کہاکہ عطا کردہ سے کم لیا جائے تاکہ عورت پر مرد کا فضل ہوجا ئے اور امام ابو حنیفہ، زفر، ابویوسف، اور محمد علیہم الرحمہ نے کہا، جب ناپسند یدگی عورت کی جانب سے ہو تو دیا ہوا مال واپس لینا حلال ہے اوراس پر زائد نہ کرے اور اگر سختی وناپسندیدگی مردکی جہت سے ہو تو عورت سے کچھ لینا حلال نہیں ہے،اگر کیا تو قضاء جائز کیا۔ دلیل حدیث مذکور ہے’’ ان ثابتا لما طلب من جمیلۃ ان ترد علیہ حدیقتہ فقالت وازیدہ؟فقال النبی ﷺ لا، حدیقتہ فقط‘‘

 ثابت نے جمیلہ سے اپنا باغ واپس کرنے کا مطالبہ کیا،بولی، کیا میں اسے اور دوں؟تو نبی ﷺ نے فرمایا ،نہیں اس کا باغ صرف، ظاہر آیت کو انہوں نے اسی کے ساتھ خاص کیا ہے۔

عمر، عثمان، ابن عمر اور مجاہد سے مروی ہے کہ عطا کردہ سے زائد پر خلع کرنا جائز ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نافرمان عورت کا معاملہ خدمت میں آیا تو آپ نے اسے پکڑ کر گوبر کے گھر میںدو رات بند کردیا۔ پھر اسے کہا، خیریت ہے؟ بولی میں نے ان دوراتوں سے بہتر رات کبھی نہ گزاری۔ تو حضرت عمر نے فرمایا’’اخلعہا ولو بقرطہا‘‘اس کی بالی سمیت اس کا خلع کرلے اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ایک عورت آئی جو اپنی ساری چیزوں کے ساتھ خلع کر چکی تھی ، تو آپ نے اس پر انکار نہ کیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک ربیع عورت خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی میں نے اپنے شوہر سے کہا’’لک کل شئی وفارقنی‘‘تم مجھے جدا کرد ے ساری چیزیں تمہارے لئے ہیں۔میں نے ایسا کیا۔ بخدا اس نے میرا سارا بچھونا لے لیا تو حضرت عثمان نے کہا شرط نے اسے مالک بنا دیا۔ اے شخص! تم اس کی ساری چیزیں لے لو یہاں تک کہ اس کی چوٹی بھی۔
امام مالک نے کہا میں نے کسی مقتدی کو یہ منع کرتے ہوئے نہ دیکھا لیکن یہ مکارم اخلاق سے نہیں ہے۔

شافعیہ اور سارے فقہا ء کے نزدیک قلیل وکثیر دونوں لینا جائز ہے اگرچہ مہر پہ زائد ہو جائے۔ ان کی دلیل یہ ہےقولہ تعالی ’’ فَلاَجُناَحَ عَلَیْہِمَا فِیْماَ اِفْتَدَتْ بِہٖ‘‘
 (سورہ البقرہ آیت ۲۲۹)

قلیل وکثیر دونوں کو عام ہے اور ابو سعید خدری سے مروی ہے کہا میری بہن ایک انصاری آدمی کے تحت تھی ، دونوں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے عورت سے کہا، کیا تم اس کا باغ واپس کروگی؟بولی میں اس پر زیادہ کروں گی، پھر خلع کیا اور اس نے باغ کے علاوہ مزید دی، عورت کے قول’’ میں اس پر زیادہ کروں گی‘ کے بعد نبی  ﷺ کی خاموشی جواز زیادت کی وضاحت ہے۔ مزید نکاح جب مہر مثل سے زائد پر جائز ہے یہ بضع کا بدل ہے،تو اس میں بھی یہ جائز ہے کہ عورت کو مہر مثل سے زائد دے چونکہ یہ دونوں حالتوں میں بضع کا بدل ہے۔

 خلع کے مسائل:خلع در حقیقت ایک طرح کا معاہدہ ہے جس میں شوہر کسی عوض کے مقابلے نکاح سے ملے ہوئے اپنے اختیارات ختم کردیتا ہے۔ عورت کا قبول کرنا شرط ہے۔ بغیر قبول کئے خلع نہیں ہو سکتا، اور اس کے الفاظ معین ہیں ،ان کے علاوہ اور لفظوں سے خلع نہ ہوگا۔

 مسئلہ: اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو توخلع پر مطلقا عوض لینا مکروہ ہے اور اگر عورت کی طرف سے ہو تو جتنا مہر میں دیا ہے اسے زیادہ لینا مکروہ ہے۔ پھر بھی اگر زیادہ لے لے گا تو قضائً جائز ہے۔

مسئلہ:  خلع شوہر کے حق میں طلاق کو عورت کے قبول کرنے پر معلق کرنا ہے کہ عورت نے مال دینا قبول کرلیا تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ لہذا اگر شوہر نے خلع کے الفاظ کہے اور عورت نے ابھی قبول نہ کیا تو شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ،نہ شوہر کو شرط خیار حاصل ہے اور نہ شوہر کی مجلس بدلنے سے خلع باطل ہے۔ ( خانیہ) 

مسئلہ:  خلع عورت کی جانب سے اپنے کو مال دے کر چھڑانا ہے تو اگر عورت کی جانب سے ابتداء ہوئی مگر ابھی شوہر نے قبول نہیں کیا تو عورت رجوع کر سکتی ہے اور اپنے لئے اختیار بھی لے سکتی ہے اور یہاں تین دن سے زیادہ کا بھی اختیار لے سکتی ہے، بخلاف بیع کے۔ بیع میں تین دن سے زیادہ کا اختیار نہیں اور دونوں میں سے ایک کی مجلس بدلنے کے بعد عورت کا کلام باطل ہوجائے گا۔ (خانیہ)

مسئلہ: شوہر نے کہا میں نے تجھ سے خلع کیا ،اور مال کا ذکر نہ کیا تو خلع نہیں بلکہ طلاق ہے اور عورت کے قبول کرنے پر موقوف نہیں ۔(بدائع)     

مسئلہ: شوہر نے کہا میں نے تجھ سے اتنے پر خلع کیا، عورت نے جواب میں کہا ہاں! تو اسے کچھ نہیں ہوگا جب تک یہ نہ کہے میں راضی ہوئی یا جائز کیا ،یہ کہا تو صحیح ہوگیا۔ یوں ہی اگر عورت نے کہا مجھے ہزار روپے کے بدلے میں طلاق دے دے، شوہرنے کہا ہاں! تو یہ بھی کچھ نہیںاور اگر عورت نے کہا مجھ کو ہزار روپے کے بدلے طلاق ہے ،شوہر نے کہاہاں! تو ہوگئی ۔(عالمگیری)

مسئلہ: عورت کا جومہر شوہر پر ہے اس کے بدلے میں خلع ہوا پھر معلوم ہوا کہ عورت کا کچھ مہر شوہر پر نہیں ہے تو عورت کو مہر واپس کرنا ہوگا۔ 

مسئلہ: شراب، خنزیر ومردار وغیرہ ایسی چیز پر خلع ہوا جو مال نہیں تو طلا ق بائن پڑ گئی اور عورت پر کچھ واجب نہیں اور اگر ان چیزوں کے بدلے میں طلاق دی تو رجعی واقع ہوگی۔   ( بہار شریعت) 

مسئلہ: خلع کا معاملہ میاں بیوی یا ان کے خاندان کے درمیان باہمی افہمام وتفہیم سے طے نہ ہوسکے تو عورت شرعی عدالت کی طرف رجوع کرے، اگر شوہر طلاق نہ دے تو شرعی عدالت نکاح فسخ کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے: قولہ تعالی’’ اَلْطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعُرُوْفِِِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانِ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْ ہُنَّ شَیْئًا اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآاَلا َّیُقِیْمَاحُدُوْدَ اللّٰہ ِفَاِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَجُناَحَ عَلَیْہِمَا فِیْماَ اِفْتَدَتْ بِہِ تَلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا وَمَنْ یَّتَعْدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰالِمُوْنِ‘‘)سورہ البقرہ آیت ۲۲۹)

 یہ طلاق دوبارتک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورت کو دیا ہے اس میں کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریںگے۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیںگے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے۔ ( کنز الایمان )

مسئلہ: بلا وجہ خلع لینے و الی عورت منافق ہے’’عن ثوبان رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال المختلعات ہن المنافقات‘‘(رواہ ترمذی) 

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا (بلا وجہ) خلع حاصل کرنے والی عورتیں منافق ہیں۔  

مسئلہ : مرداپنی بیوی سے جماع کے قابل نہ ہو تو علاج کے لئے ایک سال کی مہلت دینے کے بعد بیوی حسب خواہش خلع کر سکتی ہے’’عن سعید بن المسیب رضی اللّٰہ عنہ انہ کان یقول من تزوج امرأتہ فلم یستطع ان یمسہا فانہ یضرب لہ اجل سنۃ فان مسہا والا فرق بینہما‘‘     (رواہ مالک)

 حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جوشخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اسے جماع کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس مرد کو ایک سال مہلت (علاج کے لئے) دی جائے گی۔ اگر اس عرصہ میں وہ جماع پر قادر ہوجائے تو بہتر ،ورنہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کروادی جائے گی۔ 

مسئلہ: خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے ۔ عدت کے بعد مرد و عورت دونوں آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 840