donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md Waqas Rafi
Title :
   Saneha Karbala Aur Shahadat Imam Hussain RZA


سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین 


تحریر: مفتی محمد وقاص رفیعؔ


E-mail:m.waqqasrafi1986@gmail.com

Mob:+923005808678,+923335982078


    تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ ٗ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسینص کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسینص کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں مار کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے حیائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے ۷۰، ۷۲ متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔

    حضرات اہل بیت شروع سے ہی اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے تھے ۔ حضرت معاویہص کی وفات کے بعد تخت خلافت جب خالی ہوا تو یزیدنے فوراً اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ولی عہد مقرر ہوچکا تھا ۔لہٰذا اس نے امام حسین صسے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا ۔لیکن امام حسین صنے کسی کی پرواہ کیے بغیر اس بات کا سرعام اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں ہے ۔ اس لئے اسے خلیفۃ المسلمین نہیںبنایا جاسکتا ۔ یزید کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین ص نے میری بیعت سے انکار کردیا ہے تو اس نے والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ وہ انہیں میری بیعت پر مجبور کرے اور ان کو اس معاملہ میں مزید کسی قسم کی مہلت نہ دے ۔ ولید کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے ؟ چنانچہ اس نے سابق والیٔ مدینہ مروان بن حکم کو مشورہ کے لئے بلایا ، اس نے کہا کہ اگر امام حسین ص یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو فبہا ورنہ ان کو یہیں پرقتل کردیا جائے ۔نیز مروان نے امام حسین ص کے سامنے ولید سے کہا کہ ابھی امام حسینص تمہارے ہاتھ میں ہیں اس لئے ان سے درگزر نہ کرو اگر یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر دوبارہ کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے ۔ لیکن ولید ایک عافیت پسند شخص تھا اس نے مروان کی بات کی پرواہ کیے بغیر امام حسین صکے لئے راستہ کھول دیا اور وہ واپس چل پڑے۔ مروان نے ولید کو ملامت کی کہ تو نے موقع ضائع کردیا ۔ مگرولید نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں امام حسین صکو قتل کرنے سے ڈرتا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہوکہ قیامت کے دن وہ اپنے خون کا مطالبہ مجھ سے کردیں ، اس لئے کہ امام حسین صکے خون کا مطالبہ جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پاسکے گا۔

    امام حسین صاپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیئے اور وہیں جاکر پناہ گزین ہوگئے ۔ یزید کو جب ولید کے عفو و درگزر کا علم ہوا تو اس نے انہیں مدینہ سے معزول کردیا۔

    اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ آپ صنے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسینص کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ فوراً کوفہ تشریف لے آیئے ، ہم سب آپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیں اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیرص  کو یہاں سے نکال دیں گے ۔

    اس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسینص کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی آپ کے پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں چند وفود بھی آپ کی خدمت میں بھیجے ۔ جن سے متاثر ہوکر امام حسین صنے بڑی حکمت و دانش مندی سے یہ کام کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلص کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجاکہ : ’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلص کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو میں فوراً کوفہ پہنچ جاؤںگا۔‘‘

    مسلم بن عقیل صنے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہواکہ یہ لوگ واقعتاًیزید کی بیعت سے متنفر اور امام حسینص کی بیعت کے لئے بے چین ہیں ، چنانچہ انہوں نے چند دنوں میں ہی اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی امام حسینص کے لئے بیعت کرلی اور حسب ہدایت حضرت حسینص کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔

(الکامل فی التاریخ )

    جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی امام حسین صنے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیرص کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا ، بلکہ بہت سے حضرات ٗحضرت حسینص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیںاور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، وہاں جانے میں آپ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

    جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی امام حسین صنے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیرص کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا ، بلکہ بہت سے حضرات ٗحضرت حسینص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیںاور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، وہاں جانے میں آپ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

    لیکن امام حسین صنے کسی کی ایک نہ سنی اور ۸ یا ۹ ذی الحجہ  ۶۰   ؁ھ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔ کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسینص کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین صجب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب امام حسین صنے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔

     امام حسینص اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسینص اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذ ِ جنگ بنالیا ۔

    ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسینص کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسینص نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین صنے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘ 

    اس کے بعد حر بن یزید نے کہا : ’’مجھے آپ سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچادوں ۔ اس لئے آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ جائے اور نہ مدینہ ، یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید یا ابن زیاد کو خط لکھیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی مخلص پیدا فرمادیں اور میں آپ کے ساتھ مقاتلہ کرنے اور آپ کو ایذا پہنچانے سے کسی طرح بچ جاؤں۔ امام حسینص نے عذیب اور قادسیہ کے راستہ سے بائیں جانب چلنا شروع کردیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر سمیت ان کے ساتھ چلتا رہا ۔

(تاریخ الامم و الملوک : ج ۶ ص ۲۲۰)

    امام حسینص جب’’ نصر بنی مقاتل‘‘ پہنچ گئے تو آپ پر ذرا سی غنودگی طاری ہوگئی ، لیکن اس کی تھوڑی ہی دیر بعدآپ ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہتے ہوئے بیدار ہوگئے ۔ آپ کے صاحب زادے علی اکبر نے جب یہ سنا تو دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے : ’’ ابا جان! کیا بات ہے؟‘‘ امام حسینص نے فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی گھڑ سوار میرے پاس آیاہے اور وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ : ’’ کچھ لوگ چل رہے ہیں اور ان کی موتیں بھی ان کے ساتھ چل رہی ہیں ۔‘‘ اس سے میں سمجھا کہ یہ ہماری موت ہی کی خبر ہے۔‘‘ 

    صاحب زادے نے عرض کیا : ’’اباجان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘آپ نے فرمایا : ’’بلا شبہ ہم حق پر ہیں ۔‘‘ صاحب زادے نے عرض کیا : ’’پھر ہمیں کیا ڈر ہے ، جب کہ ہم حق پر مر رہے ہیں؟ ‘‘ امام حسین صنے ان کو شاباش دی اور فرمایا کہ : ’’واقعی تم نے اپنے باپ کا صحیح حق ادا کیا۔‘‘

(ابن جریر : ج ۶ ص ۲۳۲)

    اس کے بعد امام حسین ص آگے کی طرف چل دیئے اور جب مقام’’ نینویٰ ‘‘پر پہنچے تو ایک گھڑ سوار کوفہ سے آتا ہوا نظرآیا ، یہ سب اس کے انتظار میں اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے ۔ اس نے آکر امام حسینص کو تو نہیں البتہ حر بن یزید کو سلام کیا اور ابن زیاد کا خط اس کو دیا ۔حر بن یزید نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر اس کا مضمون امام حسینص کو سنا دیا اور ساتھ ہی اپنی مجبوری بھی ظاہر کردی کہ: ’’ اس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں ، اس لئے فی الحال میں آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت نہیں کرسکتا۔‘‘

    اس کے بعد ابن زیاد نے کوفہ سے عمرو بن سعد کو مجبور کرکے چار ہزار کا لشکر دے کر امام حسینص کے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ عمرو بن سعد نے یہاں پہنچ کر امام حسینص سے کوفہ آنے کی وجہ پوچھی ، تو آپ نے پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ:’’ اہل کوفہ نے خود مجھے یہاں آنے کی دعوت دی ہے ۔ اگر اب بھی ان کی رائے بدل گئی ہو تو میں واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہوں ۔‘‘ عمر بن سعد نے اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر ابن زیاد کی طرف لکھاکہ امام حسینص  واپس جانے کے لئے تیار ہیں ۔
    ابن زیاد نے جواب میں لکھا کہ امام حسین صکے سامنے صرف یہ ایک شرط رکھوکہ: ’’ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ ‘‘ جب وہ ایسا کرلیں گے تو پھر ہم غور کریں گے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ اور ساتھ ہی عمر بن سعد کو یہ حکم دیا کہ وہ امام حسینص اور ان کے ساتھیوں کا پانی بند کردیں ۔‘‘ یہ واقعہ امام حسینص کی شہادت سے تین دن پہلے کا ہے ۔

     چنانچہ عمر بن سعد نے ان کا پانی بالکل بند کردیا، یہاں تک کہ جب یہ سب حضرات پیاس کی شدت سے پریشان ہوئے تو امام حسینص نے اپنے بھائی عباس بن علی کو تیس گھڑ سواروں اور تیس پیادہ پاؤں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیج دیا ۔ جب یہ لوگ پانی لینے کے لئے جارہے تھے تو راستے میں ان کا عمر بن سعد کی فوج سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن اس کے باوجود پانی کی تقریباً بیس مشکیں یہ حضرات بھر کر لے آئے ۔

    اس کے بعد امام حسین صنے عمر بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ آج رات کو ہماری ملاقات ایک دوسرے کے لشکروں کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ ہم سب بالمشافہ ایک دوسرے کے سامنے گفتگو کرسکیں۔‘‘ عمر بن سعد نے آپ کا یہ پیغام قبول کیا اور رات کو دونوں لشکروں کی باہم ملاقات ہوئی۔
    ملاقات میں امام حسین صنے اپنے متعلقہ عمر بن سعد کے سامنے تین شرطیں رکھیں : ’’ایک یہ کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔ دوسری یہ کہ میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کرلوں ۔ تیسری یہ کہ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو ، وہ لوگ جس حال میں ہوں گے میں بھی اسی حال میں رہ لوں گا۔‘‘ عمر بن سعد نے امام حسین صکی یہ تینوں باتیں سن کر ابن زیاد کی طرف دوبارہ ایک خط لکھا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھادی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کردیا ۔ مجھ سے امام حسین صنے ان (مذکورہ) تین باتوںکا اختیار مانگا ہے جن سے آپ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے۔‘‘ ابن زیاد نے جب خط پڑھا تو وہ کافی متاثر ہوا اور کہا کہ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہش مند ہے ۔(عمرو بن سعد) ہم نے اس خط کو قبول کرلیا ہے ۔ 

    لیکن شمر ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ: ’’ کیا آپ امام حسین صکو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ تمہارے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہو ں؟ یاد رکھیں! اگر آج وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پاسکو گے ۔ مجھے اس خط میں عمر بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ راتوں کو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘

    ابن زیاد نے شمر کی رائے کو قبول کرتے ہوئے عمر وبن سعد کی طرف اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور اسے شمر کے ہاتھ روانہ کیا اوراسے ہدایت کی کہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کردینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جانا۔

    شمر جب ابن زیاد کا خط لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گئے کہ شمر کے مشورہ سے یہ صورت عمل وجود میں آئی ہے اور میرا مشورہ ردّ کردیا گیا ہے ۔ اس لئے عمرو بن سعد نے شمر سے کہا کہ: ’’تونے بڑا ظلم کیا ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متفق ہورہا تھا اور تونے اس کو ختم کرکے قتل و قتال کا بازار گرم کردیا ہے ۔‘‘ بالآخر امام حسین ص کو یہ پیام پہنچایا گیا ، توآپ نے اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ : ’’ اس ذلت سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘

    شمر ذی الجوشن محرم کی نویں تاریخ کو اس محاذ پر پہنچا تھا ۔ امام حسینص اس وقت اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ پر کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی اور آنکھ لگ گئی ، لیکن پھر اچانک ہی ایک آواز کے ساتھ آپ بیدار ہوگئے ۔ آپ کی ہمشیرہ زینب نے جب یہ آواز سنی تو دوڑتی ہوئی آئیں اورپوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ ۔ آپ نے فرمایا کہ : ’’ابھی ابھی خواب میں مجھے رسول اللہا کی زیارت ہوئی ، آپ فرمارہے تھے کہ: ’’ اب تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔‘‘ حضرت زینب یہ سن کر روپڑیں ،لیکن امام حسین صنے انہیں چپ کرایا اور تسلی دی ۔اتنے میں شمر کا لشکر سامنے آگیا ، آپ کے بھائی حضرت عباس آگے بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف سے گفتگو شروع کی ، لیکن اس نے بلا مہلت قتال کا اعلان کردیا ۔ حضرت عباس نے جب جنگ کا اعلان سنا تہ انہوں نے جاکر امام حسینص کو اس کی  اطلاع دے دی۔ امام حسین ص نے فرمایا : ’’کہ ان سے کہوکہ آج کی رات قتال ملتوی کردیںتاکہ آج کی رات میں وصیت اور نماز و دعاء اور استغفار میں گزار لوں ۔‘‘  حضرت عباس نے امام حسین صکا پیغام جاکر شمر تک پہنچادیا۔ شمر ذی الجوشن ور عمر وبن سعد نے لوگوں سے مشورہ کیا اور آپ کو اس رات عبادت کرنے کی مہلت دے دی اور واپس چل دیئے۔

    امام حسین صنے رات کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس کا لب لباب یہ تھا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ٗ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ۔ اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے ہمیں شرافت نبوت اسے نوازا ، ہمیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے ، جن سے ہم آپ کی آیات سمجھیں اور ہمیں آپ نے قرآن پاک سکھلایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ، ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرمالیجئے۔‘‘

    اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میرے علم میں آج تک کسی شخص کے ساتھی ایسے وفا شعار اور نیکو کار نہیںہیں جیسے میرے ساتھی ہیں اور نہ ہی کسی کے اہل بیت میرے اہل بیت سے زیادہ ثابت قدم نظر آتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری طرف سے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل ہمارا آخری دن ہے ، میں آپ سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ سب اس رات کی تاریکی میں متفرق ہوجاؤ اور جہاں پناہ ملے وہاں چلے جاؤ ، اور میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑلو ، اور مختلف علاقوں میں پھیل جاؤ ، کیوں کہ دشمن میرا طلب گار ہے ، وہ مجھے پائے گا تو دوسروں کی طرف التفات نہ کرے گا۔‘‘

    یہ تقریر سن کر آپ کے بھائی ، آپ کی اولاد ، آپ کے بھتیجے اور حضرت عبد اللہ بن جعفر کے صاحب زادے یک زبان ہوکر بولے : ’’ واللہ! ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے ، ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے بعد باقی نہ رکھے۔‘‘

    اس کے بعد امام حسین صنے بنو عقیل کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’تمہارے ایک بزرگ مسلم بن عقیل شہید ہوچکے ہیں ٗتمہاری طرف سے وہی ایک کافی ہیں ٗ تم سب واپس چلے جاؤ ، میں تمہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ : ’’ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کو موت کے سامنے چھوڑ کر اپنی جان بچا لائے ، بلکہ اللہ کی قسم! ہم تو آپ پر اپنی جانیں اور اولاد و اموال سب کچھ نچھاور کردیں گے۔‘‘

    آپ کے ہمشیرہ حضرت زینب بے قرار ہوکر رونے لگیں تو آپ نے انہیں تسلی دی اور یہ وصیت فرمائی : ’’میری بہن! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پر نہ تم اپنے کپڑے پھاڑنا اور نہ ہی سینہ کوبی کرنا ، نیز چیخ اور چلا کر رونے سے بھی گریز کرنا ۔‘‘ ہمشیرہ کو یہ وصیت فرماکر امام حسینص باہر آگئے اور اپنے اصحاب کو جمع کرکے تمام شب تہجد اور دعاء و استغفار میں مشغول رہے ۔ یہ عاشورہ کی رات تھی اور صبح کوعاشورہ (۱۰ محرم) کا دن تھا ۔

( تاریخ یعقوبی و ابن جریر : ج ۶ ص ۲۴۰)

    دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسینص کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسینص کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ نے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔

    عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چارحصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک حصہ کا ایک امیر بنالیا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ کا امیر حر بن یزید تھا ، جو سب سے پہلے ایک ہزار کا لشکر لے کر امام حسین صکے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اور امام حسین صکے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ، اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا ۔ وہ اس وقت اپنی سابقہ کار روائی پر نادم ہوکر امام حسین کے قریب ہوتے ہوتے یک بارگی گھوڑا دوڑا کر امام حسین کے لشکر میں آملا اور عرض کیا کہ میری ابتدائی غفلت اور آپ کو واپسی کے لئے راستہ نہ دینے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک پہنچ جائیں گے ، اور آپ کی کوئی بات نہ مانیں گے ۔ اگر میں یہ جانتا تو ہر گز آپ کا راستہ نہ روکتا ۔ اب میں آپ کے پاس توبہ تائب ہوکر آیا ہوں ، اس لئے اب میری توبہ اور سزا یہی ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ قتال کرتا ہوا جان دے دوں ٗ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا ۔

    اس کے بعد امام حسین صنے رؤسائے کوفہ کا نام لے لے کر پکارا : ’’اے شیث بن ربعی ، اے حجاز بن ابحر ، اے قیس بن اشعث ، اے زید بن حارث ! کیا تم  لوگوں نے کوفہ بلانے کے لئے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے ؟‘‘ لیکن یہ سب لوگ مکر گئے ۔امام حسین صنے فرمایاکہ: ’’ میرے پاس تمہارے تمام خطوط موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’اے لوگو! اگر تم میرا آنا پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑ دو میں ایسی زمین میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔‘‘ قیس بن اشعث نے کہاکہ: ’’آپ اپنے چچا زاد بھائی ابن زیاد کے حکم پر کیوں نہیں اتر آتے ؟ وہ پھر آپ کا بھائی ہے ، آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا ۔‘‘ لیکن امام حسین نے فرمایا کہ : ’’مسلم بن عقیلص کے قتل کے بعد بھی اگر تمہاری رائے یہ ہے تو اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو قبول نہ کروں گا ۔‘‘ یہ فرماکر آپ گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔

    اس کے بعد حضرت زہیر بن القینص کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کونصیحت کی کہ : ’’تم آل رسول اکے خون سے باز آجاؤ ، اگر تم اس سے باز نہ آئے تو خوب سمجھ لو کہ تم کو ابن زیاد سے کوئی فلاح نہ پہنچے گی ،بلکہ بعد میں وہ تم پر بھی قتل و غارت کرے گا۔‘‘ ان لوگوں نے زہیر بن القین صکو خوب برا بھلا کہا اور ابن زیاد کی خوب تعریف کی اور کہا کہ: ’’ ہم تم سب کو قتل کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجیں گے۔‘‘

    جب گفتگو طویل ہونے لگی تو شمر ذی الجوشن نے اپنا پہلا تیر ان پر چلا دیا ، اس کے بعد حر بن یزید جو توبہ تائب ہوکر امام حسین صکے لشکر میں شامل ہوگئے تھے ٗ آگے بڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ اے اہل کوفہ! تم ہلاک و برباد ہوجاؤ ! کیا تم نے ان کو اس لئے بلایا تھا کہ جب یہ آجائیں تو تم ان کو قتل کردو ؟ تم نے تو کہا تھا کہ: ’’ ہم اپنا تن، من ،دھن سبھی کچھ ان پر قربان کردیں گے۔‘‘ اور اب تم ہی ان کے قتل کے درپے ہوگئے ہو ، ان کو تم نے قیدیوں کی مثل بنا رکھا ہے اور دریائے فرات کا جاری پانی ان پر بند کردیا ہے ٗ جسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی سبھی پیتے ہیں اور علاقے کے خنزیر اس میں لوٹتے ہیں ، امام حسین صاور ان کے اہل بیت پیاس سے مرے جارہے ہیں ، اگر تم نے اپنی اس حرکت سے توبہ نہ کی اور اس سے باز نہ آئے تو یاد رکھنا !کل قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ تمہارا پانی بند کرے گا۔‘‘

    اب حر بن یزید پر بھی تیر پھینکے گئے، وہ واپس آگئے اور امام حسین صکے آگے کھڑے ہوگئے ، اس کے بعد تیر اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا ، پھر گھمسان کی جنگ ہوئی ، فریق مخالف کے بھی کافی آدمی مارے گئے ، امام حسین صکے بعض رفقاء بھی شہید ہوئے ۔ حر بن یزید نے امام حسینص کے ساتھ ہوکر شدید قتال کیا اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا ۔

     اس کے بعد شمر ذی الجوشن نے چاروں طرف سے امام حسینص اور ان کے رفقاء پر ہلہ بول دیا ، جس کا امام حسینص اور ان کے رفقاء نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ، وہ کوفہ کے لشکر پر جس طرف سے حملہ کرتے ٗ میدان صاف ہوجاتا ۔ اُدھر دوسری طرف عمرو بن سعد نے جو کمک اور تازہ دم پانچ سو گھڑ سوار بھیجے وہ مقابلہ پر آکر ڈٹ گئے ، لیکن امام حسینص کے رفقاء نے ان کا بھی نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھوڑے چھوڑ کر میدان میں پیادہ پا آگئے۔اس وقت بھی حر بن یزید نے دشمنوں سے سخت قتال کیا ،اور اب دشمنوں نے خیموں میں آگ لگانا شروع کردی۔

    امام حسین صکے اکثر و بیشتر ساتھی شہید ہوچکے تھے اور دشمن کے دستے آپ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ حضرت ابو شمامہ صائدی ص  نے امام حسین صسے عرض کیا کہ : ’’میری جان آپ پر قربان ہو ، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں ، لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا ہے ، لہٰذا یہ نماز ادا کرکے اپنے پروردگار کے پاس جاؤں ۔‘‘ امام حسین نے بآوازِ بلند اعلان کیا کہ : ’’جنگ ملتوی کردی جائے ،یہاں تک کہ ہم ظہر کی نماز ادا کرلیں۔‘‘گھمسان کی جنگ میں نمازِظہر کا رنگ کس کو نظر آتا تھا ؟ طرفین کی طرف سے قتل و قتال برابر جاری رہا یہاں تک کہ ابو شمامہ صائدی ص نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد امام حسینص نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر صلوٰۃ الخوف کے مطابق ادا فرمائی۔

    نماز  ادا کرلینے کے بعد امام حسین صنے پھر قتال شروع کردیا، اب یہ لوگ آپ تک پہنچ چکے تھے ، حنفی آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور سب تیر اپنے بدن پر کھاتے رہے ، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گرگئے ، زہیر بن القین صنے آپ کی مدافعت میں سخت قتال کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے ۔ اس وقت امام حسینص کے پاس بجز اپنے چند گنے چنے رفقاء کے اور کوئی نہ رہا تھا اور بچے کھچے رفقاء بھی خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ اب ہم نہ امام حسین صکی جان بچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش یہ ہوئی کہ میں امام حسینص کے سامنے سب سے پہلے شہید کیا جاؤں ، اس لئے ہر شخص نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تا رہا ، اسی میں امام حسین صکے بڑے صاحب زادے (بلکہ بڑے شہزادے) علی اکبریہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ ہے : ’’ میں حسین بن علیص کا بیٹا ہوں ، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ا کے بہت قریب ہیں۔‘‘اتنے میں مرہ بن منقذ آگے بڑھا اور ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرادیا ، پھر کچھ اور بدبخت آگے بڑھے اور لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ امام حسین صلاش کے قریب تشریف لائے اور کہا : ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے بے وقوف ہیں ، تیرے بعد اب زندگی پر خاک ہے۔‘‘اس کے بعد ان کی لاش اٹھا کر خیمہ کے پاس لائی گئی ۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسن صکے بیٹے قاسم بن حسن صکے سر پر تلوار ماری جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے نکلا : ’’ہائے میرے چچاحسینص‘‘۔ امام حسین صنے بھاگ کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا ۔اس کے بعد امام حسینص اپنے بھتیجے قاسم بن حسن صکی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر لائے اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ دی۔

     اب امام حسینص تقریباً تن تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے تھے، لیکن ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہورہی تھی ، کافی دیر تک یہی کیفت رہی کہ جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھتا اسی طرح واپس لوٹ جاتا اور کوئی بھی آپ کے قتل کا گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا ، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر آگے بڑھا اور اس نے امام حسینص کے سر مبارک پر حملہ کردیا ، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔ اس وقت آپ نے اپنے چھوٹے صاحب زادے عبد اللہ بن حسین کو اپنے پاس بلایا اور ابھی اپنی گود میں بٹھایا ہی تھاکہ بنو اسد کے ایک بد نصیب شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جس سے وہ بھی شہید ہوگئے، امام حسین صنے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کی کہ : ’’اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔‘‘

    اس وقت امام حسینص کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی ، آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ کے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔

    اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسینص کی طرف آگے بڑھا ، آپ اس وقت پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسینص کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینص پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

    شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ، مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ۳۳ زخم نیزوں کے ، ۳۴ زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضي اللہ عنھم وأرضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 706