donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md. Amir Mazhari
Title :
   Yeh Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai

یہ عبرت کی جا ہے،تماشہ نہیں ہے


مفتی محمد عامر مظہری

 

         نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی بتایا ہے کہ زلزلوں کا وقوع بکثرت ہو جائے گا اور یہ آخر زمانے میں ہو گا، جیسا کہ صحیح بخاری و سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کثرت سے زلزلے نہیں ہوں گے‘‘۔ اس میں شک و شبہ والی کوئی بات نہیں کہ یہ زلزلے بلاؤں ، مصائب و مشکلات اور آلام و تکالیف کا پیش خیمہ بنتے ہیں ، مال و دولت کا نقصان ہوتا ہے، جانیں ضائع ہوتی ہیں ، فصلیں اور پھل کم ہوجاتے ہیں اور آبادیوں میں تباہی و بربادی مچ جاتی ہے اور یہ نقصانات اتنی بڑی مقدار میں ہوتے ہیں کہ ان کا شمار و بیان نا ممکن ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ زلزلے بندوں پر اللہ کے عظیم احسانات ، وافر رحمتوں اور اس کے کرم و عنایتوں سے یکسر خالی بھی نہیں ہوتے۔ اس حقیقت کا بیان اور اس امر کی وضاحت مسند احمد ، سنن ابوداؤد اور مستدرک حاکم کی بعض احادیث میں آئی ہے جن میں میں سے بعض کی اسناد صحیح اور بعض کی حسن درجہ کی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :’’ میری یہ امت اللہ کی طرف سے امت مرحومہ ہے، اس پر آخرت میں عذاب نہیں ہے، اس کاعذاب اسی دنیا میں فتنوں ، زلزلوں اور قتل و غارت کی شکل میں ہی ہے ‘‘۔( ابوداود ، مسنداحمد ، مستدرک حاکم )۔

    اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امت اسلامیہ کی مدح و ثنا اور تعریف کے سلسلہ میں واردہوئی ہے اور اس میں اس امت کے فضیلت والی ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی اس امت پر بہت عنایتیں اور رحم و کرم ہیں اور اس نے اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام یوں فرمایا ہے کہ اسے ان تمام جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا گیا ہے ،جن میں پہلے کی امتیں مقید تھیں جیسے کہ ان کی توبہ یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ، اگر کپڑے پر نجاست لگ جائے تو اتنی جگہ کو کاٹ کر پھینک ہی دیں اور مال غنیمت سے کچھ بھی کھانا ان پر حرام کیا گیا تھا۔ مذکورہ حدیث کا معنی یہ ہوا کہ اس امت کے اکثر افراد کو ان کے اعمال کی سزا اسی دنیا میں مصائب و مشکلات اور امراض و بیماریوں کی شکل میں دے دی جائے گی، جن میں سے یہ زلزلے بھی ہیں اور انہی سے ان کے گناہوں کو دھو کر انہیں پاک و صاف کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بھی آیا ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوھریرہ و ابوسعید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :’’ کسی مسلمان کو جو مصیبت و بیماری ، درد و غم ، فکر و پریشانی اور تکلیف و اذیت پہنچتی ہے حتی کہ اسے جو کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اس کے ذریعے اللہ اس کے گناھوں کو مٹا دیتا ہے ‘‘۔

(بخاری و مسلم )  

اسلام میں سب سے پہلا زلزلہ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں دیکھا گیا، سیدہ صفیہ بنت ابی عبید بیان کرتی ہیں کہ:

’’ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اتنا شدید زلزلہ آیا کہ پلنگ آپس میں ٹکرا گئے ،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ تم نے نئے نئے کام ایجاد کرلیے، یقیناً تم نے بہت جلدی کی اور اگر وہ چیزیں دوبارہ آگئیں تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا۔اور ایک روایت میں ہے: یہ زلزلہ تو جبھی آتا ہے جب تم  لوگ (دین میں) کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا(مصنف ابنِ ابی شیبہ)۔

(یعنی بد عقیدگی ، بدعت و بد اعمالی زلزلوں کا بنیادی سبب ہیں)

قرآن کریم میںبھی قوموں کی بداعمالیوں،بے دینی و گمراہی کوزلزلے کا سبب قراردیاگیا ہے،ارشاد ہے:

’’ کیا  ن بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ نیند کی حالت میں ہوں۔ کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے، جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔کیا ان بستیوں کے رہنے والے اللہ کی تدبیر سے بے فکر ہوگئے ہیں ، اللہ کی تدبیر سے ایسی قوم ہی بے فکر رہتی ہے جو نقصان اٹھانے والی ہو‘‘۔

(الاعراف: 97- 99)

سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ مومن فرماں برداری والے اعمال کرتا ہے اور وہ (اپنے اعمال کے ضائع وبرباد ہونے سے) ڈر بھی رہا ہوتا ہے، جبکہ فاجرکو گناہ کرکے بھی کوئی ڈر نہیں ہوتااور یہی وہ (فاجر) ہے کہ جو اللہ کی تدبیر سے بے خوف رہتا ہے‘‘۔ائمۂ کرام نے ذکر کیا ہے کہ زلزلہ اللہ تبارک وتعالی کی اُن نشانیوں میں سے ہے ،جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو (اپنی پکڑ، عذاب اور سزا و غضب سے ) ڈراتا ہے، جیساکہ کسوف وخسوف (چانداورسورج گرہن وغیرہ)تاکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ حیوانات، نباتات، مال و متاع اور مسکن کے لئے زمین کا ٹھہراؤ اورسکونت بہت بڑی نعمت ہے۔اور دھنسنے، زلزلے اور خلل میں یہ حکمت ہے کہ یہ آزمائش، امتحان، سزا یا ڈرانے کے طور پر ہے جیسا کہ قوم ِثمود پر زلزلہ طاری ہوا اور قارون کو (زمین میں) دھنسا دیا گیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ جب تیز ہوائیں اللہ کا خوف دلانے کے لئے  چلائی جاتی ہیں ، جس سے خشوع اور اللہ کی طرف رجوع کی  صورت پیدا ہوتی ہے، تو زلزلے جیسی خوفناک نشانیوں کا مقصد یہ نکلتا ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ خوف دلانے کے لئے ہے، خاص طور پر جبکہ نصوص ِ شرعیہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے‘‘۔

زلزلے کے بارے میں اہم  اقوال:

جلیل القدر صحابی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:
’’ اے لوگو!  یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو‘‘۔

شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اہلِ شام کو یہ لکھ کر بھیجا کہ :
’’(اپنے گھروںسے) نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’ بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا‘‘۔

(الاعلی: 14، 15)

     گزشتہ ماہ کے اخیر میں پڑوسی ملک نیپال میںتاریخ کا بھیانک ترین زلزلہ آیا،جس میں کم و بیش سات ہزارانسانی جانیں ضائع ہوئیں،جبکہ کروڑوںکے اموال و جائیداد کونقصان پہنچا۔اپنے ملک کی مشرقی ریاستوںمیں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے،ابھی لوگ اسی دہشت سے نکل نہیں پائے ہیں کہ کل جہاں نیپال میں دوبارہ زلزلے کی خبریں آئیں،وہیں ہندوستان کے دہلی،یوپی ،بہاروجھارکھنڈکے مختلف علاقوںمیں شدید جھٹکے محسوس کیے گئے اورنقصانات بھی ہوئے۔یہ زلزلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی شدیدناراضگی اورانسانوںکے ذریعے فطرت سے چھیڑچھاڑکا نتیجہ ہیں،جولوگ بھی دیدۂ بینا اورعقلِ دانارکھتے ہیں،وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیںکہ آج ہم ظاہری ترقی،دنیوی تب و تاب اورمادی چمک دمک کے پیچھے کس تیزرفتاری کے ساتھ بھاگتے چلے جارہے ہیں،مادی آسایش و آرایش کے حصول میںبھاگنے کی ہماری یہ رفتاراتنی بے ہنگم اور بے بے ڈھنگی ہوچکی ہے کہ ہم اپنی حقیقت اور اپنی تخلیق کے اصل مقصدسے کلیتاً بے خبر ہوچکے ہیں ۔اس میں ذرہ برابرشک وشبہے کی گنجایش نہیںکہ یہ سانحے دراصل دنیا اوراہلِ دنیاکی مادیت پرستی اورمسبب الاسباب سے زیادہ اسباب پرانحصارکرنے کے رویے کا نتیجہ ہے۔ حالاںکہ مسلمانوں کو؛ بلکہ تمام انسانوں کو اللہ رب العزت نے بار بار سمجھایاہے کہ اسباب پر نہیں، مسائل کے سدباب پر نہیں؛ بلکہ اسباب اور سدِباب کے رب پر اعتماد و انحصار کرو۔ وہی مشکلوں سے بچاتا ہے اور نافرمان ہو جائیں تو وہی آسانیاں چھین بھی لیتاہے،ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی عبرت انگیز واقعہ رونما ہوتا ہے، رب کی پکڑ کے باعث اپنے اعمال اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کا موقع مہیا ہوتا ہے،تو ہم لوگ دفاعی نظام کی خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں،’’یہ کر لیتے، وہ کر لیتے تو بچ جاتے‘‘ حالانکہ ایسے مواقع پر اس دنیا کو اور اس کی ہر طرح کی ٹیکنالوجی کو ہیچ سمجھتے ہوئے اللہ پر اور اس کی قوت پر ایمان لانے کے جذبات پیدا کرنے کی ضرو رت ہے،اپنے شب وروزکے اعمال پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، یہ ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ مہلت کی رسی دراز ضرور کر تا ہے، مگر جب پکڑتا ہے، تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے اور غافلوںتک خدا کا پیغام پہنچانے اور خود اپنی زندگیوں سے رب کی نافرمانیاں نکال پھینکنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پکڑ اور عذاب سے بچائے رکھے اورہمیںاپنے اعمال وکردارکی درستگی کی توفیق عطافرمائے، آمین۔



(استاذدارالعلوم سبیل الفلاح جالے ،دربھنگہ)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 634