donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Peer Syed Ali Abbas Shah
Title :
   Shah Abdul Latif Bhithayi Aur Yad Shaheed Karbala

شاہ عبداللطیف بھٹائی

 اور

 یاد شہید کر بلا ؑ


پیر سید علی عباس شاہ

(مضمون نگار سجادہ نشین آستانہ عالیہ کندھانوالہ شریف،ضلع منڈی بہاؤالدین ہیں)


     
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام دین اسلام کی تعلیمات کے حقیقی مبلغ اور ذات قدرت کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں تیرگئی دوراں میں اجالوں کے چراغ روشن فرماتی رہی ہیں ۔ ہندالولی ہوںیا لال شہباز قلندر، گنج بخش ہوں یا گنج البحر ، جملے شاہ ہوں یا بلھے شاہ، بری امام ہوں یا شاہ نظام ہر نمائندہ الٰہی عصری تقاضوں کے مطابق قلوبِ انسانی کی آبیاری کرتا آیا ہے۔ انہی نورانی شخصیات میں ایک درخشاں ستارہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ذات بابرکات ہے ۔ آپ بھی دیگر اہل اللہ کی مانند سانحہ کربلا اور شہادت اما م عالیمقام کو اسلام کی بقاوسربلندی کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔

ولادت ونسب نامہ:

آپ سندھ کے ضلع حیدر آباد کے علاقے ہالہ تالوکہ کے گاوں کٹھیاں میں 1689ئ￿  بمطابق 1102ھ میں تشریف لائے۔ آپ کے آبائ￿  و اجداد افغانستان کے علاقے ہرات سے تشریف لائے تھے ۔ آپ موسوی الکاظمی سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب ستائیس ( 27) پشتوں بعد ساتویں امام اہلبیت حضرت سیدنا امام موسٰی بن جعفر الکاظم سے ہوتا ہوا سرکار ختمی مرتبت سے جا ملتا ہے ۔ آپ کا نورانی نسب نامہ اسطرح ہے۔

حضرت سید عبداللطیف شاہ بھٹائی  بن سید حبیب شاہ بن سید عبدالقدوس شاہ بن سید جمال شاہ بن سید عبدالکریم شاہ بن سید لال محمد شاہ بن سید عبدالمومن شاہ بن سید میر علی شاہ بن سید حیدر شاہ بن سید میر علی شاہ بن سید محمد شاہ بن سید حسین شاہ بن سید علی شاہبن سید یوسف شاہ بن سید حسین شاہ بن سید ابراہیم شاہ بن سید علی شاہ بن سید حسین علی اکبری بن امامزادہ جعفر ثانی بن سیدنا حضرت امام کاظم بن سیدنا حضرت امام جعفر صادق بن سیدنا حضرت امام محمد باقربن سید نا حضرت امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہید کربلا بن سیدناامام علی المرتضٰی شیر خدا۔

ابتدائی حالات:

آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت انتہائی شاندار ماحول میں ہوئی اور آپ کو اسلامی و روحانی ماحول میسر آیا۔ آپ قرآن مجید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی شریف کے بھی جید عالمِ دین تھے۔ سندھی زبان وادب کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سنسکرت، سرائیکی، اردو اور بلوچی زبانوں کا بھی وسیع علم تھا۔ آپ نہ صرف سندھ بلکہ عالمی ادبائ￿  و صوفیائ￿  میں ایک قدآور شخصیت ہیں۔

سیرو سیاحت:

سیر و سیاحت صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کی سیرت کا اہم جزو رہی ہے۔ آپ کو بھی ہنگلاج ، جوناگڑھ، لاہوت، لکھپت ، جیلسلمیرکے علاوہ تھرپارکر کے صحراوں میں سیاحت کا موقع ملا۔
آپ عملی علم پر یقین رکھتے تھے اور مشاہدات و مکاشفات کے ذریعے علمی خزائن اکھٹے کئے۔

ازدواج:

1713ئ￿  میں آپ نے کوٹری کے رئیس مغل بیگ کی صاحبزادی حضرت سعیدہ بیگم سے عقد فرمایا۔ آپ کی زوجہ محترمہ آپ کی حیات میں ہی انتقال فرما گئیں۔

تعلیمات:

آپ نے اپنی تعلیمات میں اتباع رسول اکرم اور محبت اہلبیت اطہار کا بکثرت ذکر فرمایا ہے اور جابجا اپنے اجدادِ طاہرین  کی مدح سرائی کی ہے۔ آپ کی تعلیمات مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

1۔نسل انسانی کی وحدت اور باہمی ربط کی بنیاد

2۔سماجی مراتب سے قطع نظر تمام عالمِ انسانیت کی برابری

3۔عظمتِ کار و کسب اور ارتقائے مراتبِ مادہ و روحانیت

4۔معاشرے کے مختلف طبقات میں یکجہتی۔

سماع سے رغبت:

حضرت شاہ صاحب محفل سماع کا شوق رکھتے تھے اور خود بھی قوالی کیا کرتے تھے۔ آپ آلات موسیقی و راگ وغیرہ سے بخوبی آشنا تھے اور فن قوالی کو روحانی بلندی کا اہم ذریعہ قرار دیتے تھے۔ آپ کے زیر استعمال طنبورہ بھٹ شاہ کے میوزیم کی زینت ہے۔

آخری لمحات و انتقال:

ْْآپ نے 14صفرالمظفر 1165ہجری بمطابق 1752ئ￿  کو مریدین و اراد تمندان کو قوالی کا حکم دیا اور خود ایک کپڑے کی چادر اوڑ ھ کر اپنے مخصوص طریقہ نشست سے بیٹھ گئے قوال قوالی کرتے رہے اور شاہ صاحب بلاجنبش سماعت فرماتے رہے تین روز گزرنے کے بعد جب قوال تھک گئے تو انہوں نے شاہ صاحب کی جانب نظر کی مگر شاہ صاحب نہ جانے کس لمحے واصل بحق ہو چکے تھے۔

تدفین و تعمیرِمزار:

آپ کو آپ کی جائے قیام ۔۔"بھٹ"یعنی " ریت کا ٹیلہ" میں دفن کیا گیا جہاں آپ 1742ئ￿  کو مستقل طور پر رہائش پذیر ہو گئے تھے اور دس سال متواتر وہیں قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے اور اپنے مریدین کے لئے چند کمرے اس ٹیلے پر تعمیر کئے تھے مگر آپ خود اس ٹیلے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ریگزار کربلا اور تکالیف امام عالیمقام  کو یاد کرتے اور اس یاد میں زاروقطار روتے ، گریہ زاری کرتے، آہیں بھرتے اور سسکیاں لیتے تھے۔ غمِ شہید کربلامیں آپ نے ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن فرمایا۔

آپ کا مزار اقدس آپ کے عقیدت مند اور سندھ کے فرمانروا میاں غلام رسول شاہ کلہوڑو نے تعمیر کرایا اور میر ناصر خان ٹالپرنے اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی روائیتی سندھی طرز تعمیر اور فن معماری کے باعث آپ کا روضہ اقدس سندھ کا خوبصورت ترین مزار ہے۔

سالانہ عرس:

آپ کا سالانہ عرسِ وصالِ 14 صفر کو نہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے جس میں نہ صرف ملک کے طول و عرض بلکہ بیرون ملک سے بھی آپ کے کروڑ وں عقیدت مند جبینِ نیاز خم کئے حاضری دیتے ہیں۔

آپ کے علمی آثار:

شاہ صاحب نے متعدد علمی یادگاریں اخلاف کے سپرد کی ہیں جن میں سب سے اہم علمی اثاثہ " شاہ جو رسالو " کے نام سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہے۔ اس سے قبل آپ کے جداعلیٰ شاہ عبدالکریم بلڑی کا رسالہ اہلِ سندھ کا علمی اثاثہ تھا جو شاہ صاحب کے پاس محفوظ رہا۔

شاہ جورسالو:

حضرت شاہ صاحب کے اشعار و افکار آپ کے مرید تیمر فقیر نے قلمبند کئے اور انہیں "گنج" یعنی خزانے کا نام دیا ۔ آپ کی خادمہ مائی نعمت نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ یہ نسخہ تیمر فقیر کے ورثائ￿  کے پاس محفوظ رہا بعدازاں اس نسخے کی نقول تیار کی گہیں۔ شاہ صاحب کے انتقال کے 114سال بعد 1866ئ￿  میں ایک جرمن دانشور جناب ارنسٹ ٹرمپ نے سب سے پہلے" شاہ جو رسالو" کو جرمنی سے شائع کرایا جس کے بعد متعدد دانشوران نے ۔"شاہ جو رسالو" کی طباعت پر توجہ دی اور شاہ صاحب کے افکار و اشعار نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔

"شاہ جو رسالو" 30 ابواب پر مشتمل ہے جنہیں " سْر" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ابواب درج ذیل ہیں:

1 ۔ سْر کلیان 2۔ سْر یمن کلیان 3۔ سْر پربھتی 4۔ سْر عصا 5 ۔ سْر برووسندھی
6۔ سْر کپائتی 7۔ سْر دھر 8۔ سْر رِپ 9۔ سْر کریال 10۔ سْر بلاول
11۔ سْر سارنگ 12۔ سْر کھمبٹ 13۔ سْر سْری رگ 14۔ سْر سموندھی 15۔سْرکھمبٹ 16 سْررام کالی 17۔ سْر پورب 18۔ سْر کیڈارو 19۔ سْر ماروی 20۔ سْر ساسوی 21۔ سْرماوزوری 22۔ سْردیسی 23۔ سْر کوہیاری 24۔ سْرحسینی 25۔ سْر کمود
26۔ سْر مومل ر انو 27۔ سْرلیلاچنیسہ 28۔ سْرسورتھ 29۔ سْرسوہنی 30۔ سْر گھاتو

شاہ جو رسالو اور ذکر حسینؑ

شاہ جو رسالو میں اہلبیت اطہار کی عظیم ہستیوں کو متعدد مقامات پر خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اہلِ عشق کے کارواں سالار، فرزند رسول  ، سیدالشہدائ￿  ، تاجدارِ کربلا سیدنا امام عالیمقام حضرت امام حسین کی لازوال قربانی شاہ صاحب کے اشعار میں واضح طور سے بیان کی گئی ہے جو شاہ صاحب کی اہلِ بیتِ اطہار سے مؤدت و محبت کی عکاس ہے۔ اکثر اشعار "سْر کیڈارو جو کربلا" یعنی کربلا کا میدان جنگ میں رقم کئے گئے ہیں۔

اردو ادب کے قارئین کے لئے ان اشعار کی نثری تلخیص اور اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

۔۔باب اول۔۔

1۔ ہلال محرم نظر آگیا جو اپنے ساتھ ایک شہزادے کی ناقابلِ فراموش یادیں لے کر آیا ہے۔ صرف خدا راز شہادت سے آگاہ ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

2۔ ہلالِ ماہِ محرم شہزادے کی تلخ یادیں لے کر آیا ہے۔ اہلِ مکہ و مدینہ نے کیسا المیہ دیکھا۔ بے شک خدا لائقِ حمد ہے جو ایسے احکامات جاری کرتا ہے۔

3۔ ماہِ محرم تو آگیا مگر امام تشریف نہیں لائے۔ اے والی مد ینہ، اے میرے آقا!برائے مہربانی مجھے اپنے پاک امام سے ملنے دیجئے۔

4۔ ماہِ محرم آگیا مگر میرے آقا نہیں آئے۔ اے امیر مدینہ! میرے پیارے سردار، زراہِ لطف مجھے میرے امام کی زیارت عطا کریں۔

5۔ تاجدارِ مدینہ نے اپنے جانثاروں کے ہمراہ مدینہ چھوڑا اور ضروری سازوسامان کے ساتھ ایک طویل معرکے کا رخت باندھا۔

6۔ امام اور ان کے تابعین نے سفر کیا اور سب اپنے راہواروں پر سوار تھے۔ طویل اور تھکا دینے والی مسافرت نے ان بہادروں کے بدن جھلسا دیئے۔

7۔ شہزادے نے مدینہ چھوڑا مگر پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ اے رنگساز! میرا لباس سیاہ کر دے۔ میں ان مقدس مسافروں کا سوگوارہوں جنہوں نے خیر کے لئے سب کچھ قربان کیا۔

8۔ میری بات غور سے سنو! تمہیں جاننا چائیے کہ عام طور سے جو مظلومانہ شہادت بیان کی جاتی ہے

وہ درحقیقت امام اور ان کے ساتھیوں کے لئے عرس وصال ہے ۔ یہ عشق کی داستان ہے جس سے یزیدمحروم تھا۔ حقیقت میں شہادت اولادِ علی کے لیے خدا سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔

9۔ المیئہ شہادت لطفِ الٰہی تھا۔ یہ عشق الٰہی کا ثبوت ہے جس سے یزید محروم تھا۔ حقیقت میں نبی اکرم،امام اور امام کے والدین منشائے ایزدی پر آنے والے واقعات شہادت میں راضی تھے کیونکہ امت نے اس سے استفادہ کرنا تھا۔

10۔ امام کی المناک شہادت خالصتاً عطیہ خداوندی ہے۔یہ محبت کا اشارہ ہے جس سے یزید محروم تھا۔ یہ امام اور بقا کا باہمی رشتہ ہے۔

11۔ شہادت کی سختیاں امتحان قدرت ہے جسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے علمِ لدنی حاصل ہو۔ صرف وہی مضمرات شہادت اور قضیہ کربلا کو جان سکتا ہے۔


آج امیر المومنین! مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ صرف جا نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مدینہ کو خیرباد کر رہے ہیں افسوس صد افسوس، وہ مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ سورج اور چاند اکٹھے ہو کر پیغمبر اکرم کی بارگاہ میں تعزیت کو حاضر ہوئے ۔ افسوس صد افسوس طلوع شہادت تک د نیا تاریکیوں میں کھو چکی تھی۔

۔۔باب دوئم۔۔

1۔ تاجدارِ مدینہ نے مدینہ چھوڑا اور وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کے پاس خنجر، نیزے، باز، کلہاڑے موجود تھے۔ مولا علی کی اولاد اپنی لڑائیوں میں یہ فولادی ہتھیار استعمال کرتی تھی۔

2۔ چاند نظر آیا اور مدینے کا خوبصورت جو ان نیزے، خنجر، باز و طبل کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوا۔ حضرت علی کی اولاد ناقابلِ شکست تھی اور دشمنوں کے ساتھ ان ہتھیاروں سے نبرد آزما ہوتی تھی۔

3۔ مدینہ کے نوجوان آقا مدینہ چھوڑ کر روانہ ہوئے اور ان کے پاس طبل ، باز ، نیزے، علم موجود تھے۔ علی کی اولاد ان ہتھیاروں کے ساتھ دشمن کی صفوں میں تباہی کر دیتی تھی۔

4۔ انہوں نے میدانِ کربلا میں اپنے خیمے گاڑے اور بے خوفی کے ساتھ یزیدی طاقتوں سے پنجہ فگن ہوئے۔ جنگ کی ہولناکی جب کہ تلواریں ٹکرا رہی تھیں وہ ڈٹے رہے۔

5۔ ذریت پیغمبر اسلام کے جانباز کربلا میں خیمہ نشین ہوئے اور اپنی مصری تلواروں کے ساتھ جھوٹے دشمنوں کی صفوں میں ہیبت پھیلا دی۔

6۔ شیر سید، انسان کامل کربلامیں دشمنوں کے مدمقابل آئے اور بہادری کے ساتھ اپنی مصری تلواروں سے کشتوں کے پشتے لگا دئیے ۔ میر حسین کے جارحانہ حملوں کے باعث ان کے بہادر دشمنوں کے دل بھی دہل گئے۔

7۔ جو ان بہادر کربلا پہنچے۔ زمین اس ماجرے کو دیکھ کر لرز اٹھی اور آسمان میں تھر تھلی پھیل گئی۔ یہ کربلا والوں کا ذات الٰہی سے عشق اور اعتماد کا مظاہرہ تھا۔

8۔ انسان کامل کربلا میں تشریف لے آئے اور نتیجہ جانتے ہوئے بھی قیام پذیر ہوئے اور اکٹھے بیٹھ کر کہا کہ امام حسین کے لئے یہ کیا قضیہ پیش آگیا۔

9۔ انسان کامل! امیر المومنین کربلا تشریف لے آئے ۔ انہوں نے حکم تقدیرپہ دشمنوں پہ تیر برسائے جو کہ حکم الٰہی تھا۔

10۔ یہ اللہ کا دستور ہے کہ اپنے پیاروں اور منتخب بندوں کی موت آزمائش اور تکالیف کے ذریعے اپنا قرب عطا کرتا ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس المئے میں ایک گہرا راز محسوس ہوتا ہے۔

افسوس! افسوس! فرشتوں نے شہادت حسین کا اعلان کرتے ہوئے شدت غم سے ماتم کیا۔ کربلا کے میدان میں انہوں نے خیمے نصب کیے اورحکم الٰہی کے تحت تمام تکالیف برداشت کیں۔ آج امیرالمومنین کربلا کے میدان میں تشریف لائے ۔ ان کی تقدیر انہیں گھیرے تھی اور وہ انہیں شہادت تک لے گئی ۔ امام حسین کی شہادت دیکھتے ہوئے تمام انبیائ￿  زارو قطار روئے ۔ زمین و آسمان تھر تھرا اٹھے فرشتے اور ساکنان عرش بھی شریک گریہ ہوئے ۔


۔۔باب سوئم۔۔

یا علی ! یاعلی! یتیموں پر کیا گزری ۔ یا امام یہ حکم الٰہی تھا جو تسلیم کیا گیا۔ موت نے یہ جدائی ڈال دی۔ بی بی (سیدہ فاطمہ زھرا ) نے ایک دفعہ کنکر اور پتھر ایک برتن میں ڈال کر آگ پر رکھ دیئے مگر جن کے لئے یہ کیا گیا وہ آج ایک خونریز معرکے میں برسرپیکار ہیں۔

۔۔باب چہارم۔۔

1۔ خاک کربلا ایک غیر معمولی فضا کے ساتھ شبنم آلود ہو گئی۔ اولادِ اسد اللہ حضرت علی کو اسی جگہ شب بسر کرنا تھا ۔

2۔ اے یزید اولاد علی کے ساتھ بْغض ختم کر دے تو وہ مقام و مرتبہ حا صل نہیں کر سکتا جو امام حسین کا مقدر ہے۔

3۔ افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے ذریتِ علی سے بغض رکھا تھا اور یزید کے ساتھی بنے۔

4۔ اے بھائی لشکرِ یزید سے دور رہ جو اولادِ علی سے بغض رکھتے ہیں۔

5۔ کوفیوں نے یزید کا ساتھ دے کر اچھا نہیں کیا۔ ان پلید لوگوں نے میدان میں امام عالیمقام کا محاصرہ کر لیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہو گئی۔

6۔ کوفیوں نے آپ کو خط لکھے اور خدا کی قسمیں دیں۔ اپنا آقا نامزد کرتے ہوئے ایک دفعہ تشریف لانے کو کہا۔

7۔ اب یہی کوفی کربلا میں آپ کو پانی دینے سے روک رہے تھے اور امام کے شہزادے مولا علی مشکلکشاکو خیام سے باہر آکر یاد کر رہے تھے۔یارسول عربی ان مشکل حالات میں ہماری مدد فرمائیے۔

8۔ صبح ایک پرندہ کربلا سے مدینہ آیا اور روضہ رسول پر فریاد کی کہ میں نے آہنی ہتھیار دیکھے ہیں۔ اے میرے آقا محمد عربی ،امام کی مدد فرمائیے۔

9۔ صبح ایک پرندہ کربلا سے روضہ رسول پر آیا اور کہا؛ " بہادر امام دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ محمد عربی ان کی مدد کیجیے۔

10۔ آج صبح ایک پرندہ مدینہ آیا جس نے کل کربلا سے رختِ سفر باندھا تھا۔ جس نے کہا،
" امام حسین خون میں لت پت انتہائی افسوسناک حالت میں ہیں اور آپ کے تمام ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔؛؛۔

11۔ کربلا میں شہزادے کے خطبات گونج چکے تھے جن کے بعد سلطانِ کائنات کے سب جانثار بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔

امام تمام دن میدان میں رہے۔ آپ نے تمام دن شختیاں برداشت کیں۔ افسوس آپ کو اس ویران بیابان میںرہنا پڑا۔

اے کونج! صد افسوس کے ساتھ جب تو مدینہ جائے تو میرے نانا کو میرا سلام کہنا اور کہنا میرے تمام ساتھی ساتھ چھوڑ گئے۔ میں اکیلا رہ گیا۔ مولا رحمت کی بارش برسا۔

صد افسوس ! امام سارادن دشتِ بلا میں رہے۔(روضتہ الشہدائ￿  کی ایک روایت کے مطابق امام عالیمقام کے خون اطہر کو ایک پرندے نے اپنے پروں سے مس کیا اور روضہ رسول اکرم جا کر اس افسوسناک سانحہ کی خبر سنائی ۔ وہ پرندہ متعدد جگہوں پر اْڑا اور جہاں جہاں اس خون اطہر کے قطرے گرے وہاں وہاں یادِ شہید کربلا میں محافل و مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
شاہ صاحب نے ان اشعار میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔


۔۔باب پنجم۔۔

1۔ امام حسین کے ساتھ نہ ان کے بڑے بھائی امام حسن تھے اور نہ کوئی اور جانثار ساتھی ان کا آبائی وطن بھی ان سے دور تھا۔اے یزید کیا ان حالات میں بھی تیرا امام پر حملہ کرنا ضروری تھا؟

2۔ افسوس ! اگر لشکر امام حسین میں امام حسین میں امام حسن بھی ہوتے تو اپنے برادر صغیر کے گرد اسطرح رہتے جیسے شمع کے گرد پروانے رہتے ہیں۔ دشمنوں کے حملوں کا کامیابی سے دفاع کرنے کے لئے امام عالیمقام کا مدد گار اب کون رہ گیا ہے۔

3۔ میدان جنگ میں تمام جنگجو بہادر نہیں ہوتے۔ صرف وہی شہادت پاتے ہیں جن کے نزدیک شکست شکست باعث خفت ہے۔

4۔ صرف وہی اپنے آپ کو آلات حرب سے مزین کرتے ہیں جنہیں دنیا میں رہنے کی ہوس ہوتی ہے۔ درحقیقت وہی بہادر ہے جو ان کے بغیر جنگ میں حصہ لیتا ہے۔

5۔ اے بہادر انسان! اگر تو فتح کا اتنا ہی خواہشمند ہے تو دین سے تمام شکوک و شبہات نکال دے۔ اپنے دشمن کو دوبدو لڑائی میں مصروف رکھ۔ اس پر تلوار سے حملہ کر اور اپنا دفاع بھی مت چھوڑ ۔ اگر تمہاری تلوار تمہارے دشمن سے ٹکرا گئی تو تم ایک بہادر آدمی گردانے جاؤ گے۔

6 حر امام کے پاس آیا ۔ وہ ایک بہادر اور جانباز انسان تھا۔ اس نے کہا کہ میں پروانے کی مانند شمع کا عاشق ہوں۔ اے بہادر آقا آپ کے جدپیغمبراسلام کی رضا کی خاطر میں آپ پر اپنا سر قربان کرنا چاہتا ہوں جو کہ باعث عظمت ہے۔

7۔ حر کی ہدایت اس کا مقدر تھی ۔ وہ ظالم فوج چھوڑ کر امام کے لئے لڑنے آیا۔ اس نے امام کی دست بوسی کی اور کہا کہ میں خود کو آپ پر قربان کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کی وسعت سے ذیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ میں آپ کے لئے ہر ممکن کام کروں گا۔ امام اور یہ شیر دل حْر دونوں ہی دوران جنگ شہید ہو گئے۔

8۔ بہادر امام ایک بہت قیمتی خود پہنے میدان جنگ میں واضع کھڑے رہے۔ مقدس امام کے خود میں جواہر جڑے تھے۔ ان کی دستار مبارک عنقریب خون آلود ہونے والی تھی۔

9۔ امام کے دندان و ریش مبارک خون سے تر ہو کر ایک پھول کا منظر پیش کر رہے تھے۔ آپ کی دستار مبارک میدان جنگ میں چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی تھی۔ بروز حشر امت محمدیہ کے درمیان امام کی والدہ محترمہ آپ پر فخر کریں گی۔ امام مٹی میں ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔

10۔ امام کی ریش اطہر خون سے سرخ ہو گئی۔ آپ کے دندان مبارک موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ آپ کی پیشانی ماہِ کامل کی طرح روشن تھی۔ اللہ آسمانوں کا نور ہے اور اس نور کی زمین پر جھلک امام کی پیشانی میں نمایاں تھی۔ امام کے چہرہ اقدس پر سجدوں کے نشان نمایاں تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ آپ کے جسم اقدس سے کربلا کے کنکر دور کر رہی تھیں اور آپکے والد علی مرتضیٰ آپ کے زخموں سے خون صاف کر رہے تھے۔ خالقِ حقیقی نے شہادت امام کے باعث امت محمدیہ کو بخش دیا۔

11۔ میدان کربلا خون سے بھر گیا۔ امام کے گھوڑے کے قدم بھی خون میں ڈوبے تھے۔ سورج مغرب کی جانب ہو گیا تو بھی امام حملہ فرما رہے تھے۔

12۔ امامؑنے کمر کے گرد تلواریں سر پر دستار باندھی تھی۔ امام نے میدان جنگ میں اپنے آبائے

کرام کی بہادرانہ روایت کو برقرار رکھا۔

آج امام میدان جنگ سے نہیں لوٹے۔ اے مومنو! رو ، پیٹو، آپ کے پاس نہ خوراک تھی نہ پانی اور نہ ہی وہاں بارش ہوئی۔ وہ نوراتیں اور دس دن ایک سخت لڑائی میں مصروف رہے۔ امام کا گھوڑا خون سے سرخ زین باندھے تھا۔ شیر شہزادہ(حضرت قاسم) بھی شہید ہو گئے۔مومنو! رو، پیٹو۔


۔۔باب ششم۔۔

1۔ سید نا امام حسین کی جنگ تمام جہاں کے ساتھ امام حسن نے بھی سنی دوران جنگ سیاہ پروں والے پرندے قطار اندر قطار اڑتے رہے۔ یقینا امام  نے اس کارعظیم سے خود کو اپنے والدین کو اور اپنے آباؤ اجداد کو ایک عظیم الشان منصب عطا کیا۔

2۔ مخلوق الٰہی کی تین اقسام نے مقدس امام پر گریہ کیا۔ انسان آبادیوں میں، ملاٹک جنتوں میں اور حیوانات جنگلوں میں مقدس امام کو روئے۔ پرندوں نے پیارے امام کے دنیا سے تشریف لے جانے کی خبر سن کر خود کو زمین پر گرا دیا۔

3۔ اے شہزادے! آپ جہاد کے شیدائی ہیں۔ جب تک آپ زندہ ہیں، خود کو دشمنوں کی تلواروں کی دھار سے جام شہادت نوش کرنے کے لئے آمادہ رکھیں۔ یہ چیلیں صدیوں سے انسانی گوشت کی بھو کی ہیں۔

4۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے قدم کبھی زمین پر نہ لگائے تھے۔ دشمنوں کی تلوار نے ان گھوڑوں کی زین کاٹ ڈالی جس کے باعث شہزادے زمین پر گر پڑے۔ ان چیلوں نے آپ کے تشریف لاتے ہی آپ کے ٹکڑے کرنے شروع کر دیئے۔

5۔ جیساکہ پہاڑوں پر بکریوں کے ریوڑ ہوتے ہیں ویسے ہی صحرائے کربلا ان چیلوں سے بھراتھا۔ یہ اِدھر ْادھر جارہے تھے اور لڑائی کر رہے تھے۔ شہدائ￿  کی ازواج اپنے شوہروں کے گہرے غم میں مبتلا تھیں۔ وہ سیاہ لباس پہنیں گی۔

6۔ چیلوں کا کوئی ضابطہ حیات نہیں ہوتا۔ یہ جنگوں کی پیاسی ہیں۔ میدان کربلا میں یہ امام حسین اور امام حسن کے صاحبزادے اور ان کے جانثار ساتھیوں پر اڑتی رہیں۔ یہ بہت خوش تھیں۔

7۔ چیلیں خوراک کی تلاش میں وسیع علاقے میں گھومتی ہیں۔ یہ سرگو شیوں میں ایک دوسرے سے میدان جنگ کی مسافت اور جگہ پوچھتی ہیں۔ انہوں نے بہادروں کے لشکر کا معائنہ کیا اور بزدلوں کو قطع نظر کیا۔

8۔ چیل گائے کا گوشت نہیں کھاتی۔ وہ خود والے بہادر سروں کی تلاش میں رہتی ہے۔

9۔ اے چیل! شہزادے کی آنکھیں نہ نکال نہ ہی ان کا گوشت کھا جب کہ تو ان کے لشکر پر آئے جو کہ میدان کربلا میں ریت میں دیا تھا۔ امام عالیمقام? کو قبل ازشہادت 909 زخم آئے۔ گزشتہ رات آپ کو آپ کی والدہ معظمہ نے روتے ہوئے خدا کے سپرد کیا تھا۔

10۔ اے چیل! تیرے پر گر جائیں اور تجھ پر رعشہ طاری ہو جائے کہ تو نے شہزادے پر پھول نہیں برسائے۔

11۔ چیلوں نے کافی فاقہ کشی کی ہے۔ جب سے بہادر لوگ جوان ہوئے اور ان کا پسندیدہ فعل جہاد ہے۔ ان چیلوں کو اب فکر خوراک نہیں رہی۔

12۔ جہاد کے شوقین بہادر جنگجونہیں رہے۔ امام کے سامنے کربلامیں سب نے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا مقصد
ہمیشہ راہ خدامیں جدوجہد کرنا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد حور ان جنت نے ان کی سہرابندی کی اور ہار پہنائے۔

13۔ یہ سب لوگ مسلح جنگجو تھے۔ ایک بھائی، دو بھتیجے ان کے اعزا اور مخلص دوست، اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنے دشمنوں کو مبارزے میں شکست دے دی۔ ان شہدا کو حوروں نے ہار پہنائے اور سہرا بندی کی۔

14۔ شہدا کا مقام جنت ہے۔ ان مقدس نفوس کو فردوس بریں میں خوش آمدید کہا گیا۔ فنا فی اللہ مقام کے بعد یہ اس مرتبہ اعلیٰ میں داخل ہوئے۔ اے پروردگار! اپنے احسان سے مجھے ان دمکتے چہروں کی زیارت عطا فرما۔

15۔ جو سیدنا امام حسن اور امام حسین سے عقیدت ہمدردی نہیں رکھتے وہ خالق وربّ جبّار کے قہر سے نہیں بچ سکیں گے۔

امامؑ کا ماتم کرو۔ شہدا کا ماتم کرو۔ تمہاری آنکھیں ان کے غم میں خون کے آنسو کیوں نہیں بہاتیں۔ جو امام کی سرداری کے قائل ہیں وہ اشکبار آنکھوں سے امام کا ماتم کریں۔ امام کاماتم کرو۔

اشعار شاہ بھٹائی سے درس حیات:

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اشعار میں حقائق و معارف کے جو قلزم بند کئے ہیں وہ سب کے سامنے عیاں ہیں۔ فلسفہ شہادت حسین کے متعلق گفتگو کرنا امر محال ہے۔اسلام کی بقائ￿  شہادت حسین سے ہے۔ جوہر پیغام الٰہیٰ امام عالیمقام ہیں۔ امام عالیمقام نے فرمایا:

ان کانَ دینَ ْمحمد اً لَم یَستَقِیم اِلا بِقَتَلِی یا سْیوفْ خْذِینی
اگر کبھی بھی دین محمدمیرے قتل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا تو اے تلوارو آؤ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔

امام عالیمقام نے اس شہادت عظمیٰ سے دین محمد کو قائم کیا ہے۔ اسوہ شبیری سنت نبوی ہے۔ تمام اولیائے کرام نے اسوہ حسینی کا درس دیا ہے اور اپنے اپنے الفاظ میں آپ کو بے انتہا خراج عقیدت

پیش کیا ہے۔

سانحہ کربلا اور اس کے نتائج کے متعلق کہے گئے اشعار کھربوں سے بھی بڑھ کرہیں اورہنوز شعرائے کرام و عارفین عظام نواسہ سولؑ کی بارگاہ میں اپنے اپنے انداز سے، اپنے اپنے الفاظ میں سرخروئی حاصل کر رہے ہیں۔

شہادت حسین اور اس کے نتائج کے متعلق بتاتے ہوئے مخبر صادق نے فرمایا،
ان لقتل الحسین حرار  فی قلوب المومنین لاتبردابدا
بے شک حسین کے قتل سے مومنوں کے دلوں میں ایک حرارت پیدا ہو گی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔

قتل حسین کی یہی حرارت اسلام کی بقا کا باعث ہے اور دین محمدی اسی حرارت سے توانائی لے رہا ہے۔ یہی حرارت جب قال سے حال میں آتی ہے تو کنکر کوگہر بنا دیتی ہے۔ بندئہ خاکی کو ہمسایہ جبریل امیں بنا دیتی ہے۔ انسان کو ولایت اور سلوک الی اللہ سے روشناس کراتی ہے۔

حضرت شاہ صاحب نے اپنے دیوان ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں متعدد مقامات پر اہل بیت اطہار کا تذکرہ کیا ہے۔ اسوہ شبیری کو مرکزی تخیل بناتے ہوئے سندھ کی لوک داستانوں کو نہایت موثر اور دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ جس کے باعث آپ کا دیوان نہ صرف علم و ادب کا انمول خزینہ ہے بلکہ سندھ کی تہذیب و ثقافت اور روایت و تاریخ کا بھی مستند ذریعہ ہے۔

عمر سومرو اور ماروی کی داستان ہو یا سوہنی مہینوال کا قصہ، خیرو شر کا ٹکراؤ ،حسینیت اور یزیدیت کا مبارزہ ہمیشہ عصری داستانوں میں باطنی طور مضمر ہے۔

شاہ صاحب کے کلام کے بغور مطالعے سے نہ صرف آپ کے قادر الکلام شاعر ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ کے ایک مستند مؤرخ ، باعمل مسلمان اور متبحرو جید عالم دین ہونے کا ثبوت بھی سامنے آتا ہے۔ آپ نے اپنے اشعار میں بکثرت آیات قرآنی، احادیث نبوی کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی کے
ادبی الفاظ استعمال کئے ہیں، جو آپ کے وسیع مطالعہ کے آئینہ دار ہیں۔

حضرت شاہ صاحب نے بنی نوع انسان کو فنا و بقا کا مؤثر درس دیاہے۔ خود آپ نے اپنے کلام میں حقیقی فنافی اللہ، سید الشہدائ￿  امام حسین کو بے مثال خراج عقیدت پیش کیا اور حسینی فلسفئہ حیات کو اسلام کی نشاط ثانیہ کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے، جس نے نہ صرف آپ کے نام بلکہ آپ کے کلام کو بھی لازوال عالمگیر شہرت عطا فرمائی ہے جو رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کو چراغ ہدایت ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا لوح مزار:

شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعر ہفت زبان تھے۔ آپ نے نہ صرف سندھی بلکہ عربی اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اشعار کہے ہیں۔

آپ کی فارسی کی ایک رباعی آپ کا لوح مزار ہے جس میں آپ نے ائمہ اہل بیت کی مدح سرائی کی ہے۔


گل محمد، گل علی، گل فاطمہ خیرالنساء
گل حسن ، گل حسین، گل بود زین العبا
گل باقر و گل جعفر و گل موسیٰ کاظم، رضا
گل تقی ، گل نقی، گل عسکری مہدی، خدا

اس رباعی میں آپ نے چہار دہ معصومین کو گلستان وحدت کے مہکتے پھول بتایا ہے اور حضورنبی کریم سے لے کر امام محمد مہدی آخر الزمان تک گلدست? عصمت و طہارت کا انتہائی خوبصورت تعارف کرایا ہے۔

 

****************************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 950