donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Samiullah Mallik
Title :
   Maghrib Kalmae Haq Se Darta Hai

مغرب کلمہ حق سے ڈرتا ہے


اسلام کی پکار ہے ہر خاص وعام کے لئے


سمیع اللہ ملک


ایک وقت تھا کہ اہل مغرب کا امت مسلمہ پر اعتراض تھا کہ ہما ری طرح کیوں ہو؟اور ایک وقت یہ ہے کہ سا ری مغربی دنیا عالم اسلام سے کہہ رہی ہے کہ تم ہما ری طرح کیوں نہیں ہو؟ ہما ری طرح کیوں ہو ،کا سوا ل اس وقت سے متعلق ہے جب مغرب صرف مغرب نہیں تھا عیسائی مغرب تھا۔اس وقت اہل مغرب کو محسوس ہوتا تھا کہ ارے اسلام کے پاس تو وہی سب کچھ ہے جو ہمارے پاس ہے۔خدا،آخرت،رسا لت،جنت ودوزخ،وحی اور فرشتے کے بارے میںعقائد۔ا ہل مغرب یہ دیکھتے تھے تو برا ما نتے تھے اور غصے اور تردید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کوئی حقیقی یا (Orignal)آسما نی مذہب تھوڑی ہے،یہ تو بقول ان کے یہودی اور عیسائی عقائد کا چربہ ہے(معاذ اللہ)۔ظاہر ہے اس باطل خیال نے ا ہل مغرب کو کبھی یہ تسلیم نہیں کر نے دیاکہ حضور اکرمﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں۔

جیسا کہ واضح ہے یہ مماثلت کے احساس سے پیدا ہونے والا رد عمل تھا۔انسان اپنے باطن میں کمزور ہو تو مماثلت خوف بن جا تی ہے اور غصہ ،نفرت و حقارت سے لے کر جھگڑے اور جنگ کی صورتوں تک میںا پنا اظہار کر تی ہے۔صلیبی جنگوں کی پشت پر یہی نفسیات کام کر رہی تھی۔مماثلت کے خوف اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت و حقارت کی نفسیات۔ دنیا کے ایک کو نے میں آباد غریبوں نے گویا امیروں کے ساتھ رشتہ داری کا دعویٰ کر دیا تھااور امیر رشتہ دار مٹھیاں بھینچ کر اور دانت کچکچاتے ہوئے اوریلغار ہو کی صدا بلند کر تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیںتم ہر گز ہما ری طرح نہیں ہو،وہ زبان سے یہ کہہ رہے تھے مگر ان کے دل میں تھا کہ یہ آخر ہما ری طرح کیوں ہیں؟

ایک منظر یہ تھا ایک اور منظر یہ ہے کہ فرانس کی عدا لت نے ایک مسلم خاتون کو یہ کہہ کر شہریت دینے سے انکار کر دیا کہ وہ ضرورت کے مطابق فرانسیسی معاشرے میں جذب نہیں یعنی وہ برقعہ اوڑھتی ہے ۔عدالت کو دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ شوہر کی حد سے زیادہ اطاعت کر تی ہے اور عدالت کے بقول یہ بات مساوات کے مغربی تصور کے خلاف ہے ۔اس پر فرانس کے مشہور اخبار’’ لی موند‘‘ نے سوال اٹھایا کہ کیا برقعہ شہریت کے حق کے منا فی ہے؟یعنی کیا برقعہ اوڑھنے وا لی عورت فرانس کی شہریت کی مستحق نہیں؟اس سوال کی پشت پر اسلام اور مسلما نوں کے حوا لے سے اصل سوال یہ ہے تم  فیصدہما ری طرح کیوں نہیں ہو؟ یہ سا منے کی بات ہے کہ فرانس اور کئی دوسرے یورپی ممالک میں حجاب ابتدا اسکول اور   کا لج کیلئے نا ا ہلیت بنا،بعد ازاں وہ روزگار کیلئے نا ا ہلیت قرار پایا۔کہاگیا کہ نا ئن الیون کے بعد کی دنیا میں سلا متی سے متعلق مسئلہ ہے جس سے فرد کی شنا خت میں دشواری پیش آتی

ہے لیکن تا زہ ترین معا ملے میںمسلم خاتون اسکول و کالج میں داخلہ نہیں ما نگ رہی،کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں ملا زمت کی طلب گار نہیں ،کسی ہوائی اڈے پر چہرہ چھپانے کی خواہش مند نہیں ۔وہ صرف ا پنے مذہب کے ا حکا ما ت پرعامل وکاربند ہے لیکن ریاست فرانس کی عدالت کہہ رہی ہے کہ تمہا رایہ عمل شہریت کے حق سے ہم آہنگ نہیں ۔ ایک وقت تھا کہ شہریت کے حق کی درخواستوں پر مغربی حکومتوں کویہ اعتراض ہو تا تھاکہ درخواست گزار کو مقا می زبان نہیں آتی مگر ا طلاعات کے مطابق فرا نس میں مقیم زیر بحث خاتون نہ صرف فرا نسیسی فر فر بو لتی ہے بلکہ فرانس کی مشہوریونیورسٹی کی ایک محقق استادبھی رہ چکی ہے ۔ایک خبر کے مطابق مسلم خا تون کے با رے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا طرز فکر اور شخصیت فرانسیسیت کیلئے بڑی (Radical)ہے ۔برقعہ اور Radical؟شوہر کی اطاعت اور Radicalism؟ خبر سے متعلق سرخی ملا حظہ ہو!Muslim Woman deemed to radical to be French? لفظ ریڈیکل کاا یک مفہوم انتہا پسندی بھی ہے اور ایک معنی میں ا نقلا بی آرمی کو بھی (ریڈیکل)کہا جا تا ہے ۔

خیر چلئے برقعہ میں توا نتہا پسندی ہو گی لیکن شوہر کی اطاعت میں کیا انتہا پسندی ہے؟ ا طا عت ایک خالصتا دا خلی ا و رحد درجہ ذاتی چیز ہے اور عموماگھریلو اور خانگی زندگی ہی سے متعلق ہے ،اس کا مساوات کے تصور سے کیا تعلق؟اور اگر تعلق ہے تو کیا مساوات کا نان ریڈیکل تصوریہ ہے کہ بیوی کو شوہر کا جزوی ا طاعت گزارہونا چا ہئے اور ا طاعت گزار نہیں بھی ہو نا چا ہئے؟اگر ایسا ہے تو ریاست فرانس کی عدالت کو بتا نا ہو گا کہ مسلم خا تون کو شوہر کی کتنے فیصد ا طاعت گزارہونا چا ہئے اور کن کن کا موں میں ا طاعت گزارہونا چا ہئے اور کن کن کا موں میں ا طاعت گزار نہیں ہونا چا ہئے پھر وہ فرانس کی شہریت کی مستحق ہو سکتی ہے؟کو ئی حد یاپیما نہ تو ضرور مقرر کرنا ہو گا کہ ۵۰فیصد؟ ۶۰فیصد؟ یا ۸۰فیصد؟ویسے اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو کل ا ہل فرانس کہہ سکتے ہیں کہ فلاں مسلم خاتون بڑی Radical ہے کیونکہ وہ ا پنے بچے خود پا لتی ہے !گھر میں کھا نا خود پکا تی ہے یا کپڑے سیتی ہے! آخر اس اصول کی زد سے پھر کیا بچے گا؟مگر ٹھہریئے!سوال یہ ہے کہ اس پورے قصے کے پیچھے کیا ہے؟ا متیاز کا خوف؟ مگر امتیاز کا خوف کیوں؟ مغربی دنیا جدیدیت کا دور گزار چکی اور وہاں ما بعد جدیدیت کی فکر یا Post Modernist Thoughtکا آغاز ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ ما بعد جدیدیت فکرنے جدیدیت کے کم و بیش تما م تصورات کو چیلنج کر کے ان کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ۔ان میں فرد کے تصور ذ ات یاSel Conceptکا حلیہ بھی شا مل ہے۔جدیدیت میں ذات کا تصور پھر بھی کچھ نہ کچھ ٹھوس یا Concreteتھا لیکن ما بعد جدیدیت فکرمیں یہ تصور بالکل ہی سیالFluidہو گیا ہے ۔اس کا اثر شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کی بیٹی پرگہرا پڑا ہے اور اب جدید مغربی معاشرے میں فرد کی شخصیت اور مو م کی اس گڑیا میں کو ئی فرق نہیں جسے آپ جب چا ہیں گڈا بنا لیں یا آپ کی خوا ہش ہو تو اس موم سے آپ چڑیا تشکیل دے لیںیا جو کچھ آپ کا دل چا ہے آپ اس سے تخلیق کر لیں۔اس کے مقابلے میں اسلام جو شخصیت تعمیر و تشکیل دیتا ہے ،وہ ٹھوس ہو تی ہے،وہ حا لات کے د باو سے نہ پچکتی ہے اور نہ ٹوٹ کر بکھر تی ہے۔اسے بدلنا آسان نہیں ۔عام طور پر وہ خود بدلے بغیر ما حول کو بدلتی ہے۔اس کا یہ طرز عمل اسلام کے اپنے کردار کے عین مطابق ہے۔ اسلام خود بدلے بغیر انسان اور دنیا کو بد لتا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اہل مغرب کو اسلام بہت حقیقی(Real)زندہ(Alive)اور ٹھوس(Concrete)نظر آ رہا ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ وہ ان کے تشخص سے محروم اور سیال معاشرے کو بدل ڈالے گا۔   عیسا ئیت مغرب با لخصوص یورپ میں موثر ہو تی تو اہل مغرب کو زیادہ فکر نہ ہو تی مگر عیسا ئیت کے غیر موثرہو نے کا ما تم خود بیچا رے پوپ صاحب تک کر رہے ہیں اورتیزی سے ویٹی کن میں عیسائی زائرین کی تعدادمیں کمی آرہی ہے لیکن دوسری جانب اٹلی کے وزیرداخلہ نے محض شک کی بنا پرمیلان میںایک مسجدکوبندکرنے کاحکم جاری کردیاہے اورکئی دوسری مساجدکی کڑی نگرانی جاری ہے۔صرف بر طا نیہ میں ایک سو نوے(۱۹۰)سے ز یا دہ گر جا گھر مسا جد میں تبدیل کئے جا چکے ہیں اور اب چرچ آف ا نگلینڈ کی طرف سے یہ پا بندی عائد کر دی گئی ہے کہ اب مزید کسی چرچ کوکسی بھی مذہبی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔یورپ کی سب سے بڑی اورانتہائی خوبصورت روم مسجد(ڈاؤن ٹاؤن اینٹینا پارک) (Downtown Mount Antenne park)سوئٹزرلینڈکوبھی موہوم دہشت گردی کے خوف سے بندکردیاگیاہے لیکن اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ میں سوئٹزرلینڈنے مساجد کے میناروں کوغیرقانونی قراردینے کیلئے ریفرنڈم کااعلان کردیالیکن پھرخودہی اس اعلان کوواپس لے لیا ۔

اب ایک خاص سازش کے تحت یورپ کے بعض تجزیہ نگاروں کویہ کام تفویض کیاگیاہے کہ یورپ میں بسنے والوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکایاجائے تاکہ آنے والے وقت میں ایسی مؤثرقانون سازی میں آسانی ہوجس سے اسلام کے ابدی پیغام پرقدغن لگائی جاسکے۔مشہورزمانہ واروک یونیورسٹی برطانیہ کاایک تجزیہ نگاراقلیتی تعلقات عامہ کاڈائریکٹر  ڈینیل جولی(Director of the Center for Research in Ethnic Relations at the University of Warwick inEngland) نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں اپنے خوف کااس طرح اظہارکیاکہ اس وقت ۴۰۰ملین عیسائی آبادی پرمشتمل مغربی یورپ میں ۱۸ملین مسلمانوںکی موجودگی کی وجہ سے(اسلام) دوسرا بڑا مذہب بن چکاہے، دراصل مساجدہی مسلمانوں کومغربی اقداراپنانے میں مانع ہیں ،اس لئے مزیدمساجدکی تعمیرپرفی الفورپابندی عائدکرنے کی ضرورت ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک ایک بھی دہشت گردیورپ کی کسی مسجدسے نہ توگرفتارہواہے اورنہ ہی کسی ایک کاتعلق کسی بھی مسجدسے ثابت ہوسکاہے۔ظا ہر ہے کہ خوف کبھی با ہر سے نہیں آتا ،انسان کے اپنے اندر سے آتا ہے ۔ا ہل مغرب کا خوف ا ہل مغرب کے اندر ہی سے آ رہا ہے۔فرق یہ ہے کہ کل ا نہیں اسلام کی مما ثلت کا خوف لا حق تھا اور آج ا نہیں اسلام کے ا متیاز کا خوف لا حق ہے۔ان مسا ئل کو ہم جتنی گہرا ئی میں سمجھ لیں ا سلام ہی نہیں خود مغرب کے حق میں بھی ا چھا ہے۔ہمیں ا قبال کا یہ پیغام کبھی بھی نہیں بھو لنا چاہئے

ع      لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی اما مت کا

(یو این این)


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 559