donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Tauheed Sabse Badi Haqiqat

توحید.سب سے بڑی حقیقت
 
…شاہنواز فاروقی…
 
توحید زندگی اورکائنات کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی ہر صورت اور کائنات کی ہر شے خدا کے موجود ہونے سے موجود ہے۔ ہماری روایت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا واجب الوجوب ہے، اس کے سوا سب کچھ ’’ممکن‘‘ ہے۔ یعنی جب کچھ نہیں تھا تو بھی خدا تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تو بھی خدا ہوگا۔ البتہ ایک وقت تھا کہ مخلوقات کا وجود نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ’’ممکن‘‘ کو ’’موجود‘‘ بنادیا، عدم کو وجود میں ڈھال دیا۔ لیکن خدا کی موجودگی کا بیان لامحدود ہے۔ انسان صرف اپنے آپ کو موجود پاکر مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟ انسان کو دائمی طور پر زندگی میں معنی کی تلاش رہتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے مقصد کا تعین کرنے کا آرزومند رہتا ہے۔ وہ فطری طور پر زندگی میں جمال کا طالب ہے اور اس کی فطرت ظاہر اور باطن میں بدصورتی سے اِبا کرتی ہے۔ توحید کی اہمیت یہ ہے کہ وہ انسان کے ہر سوال کا جواب اور اس کے ہر تقاضے کی وضاحت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام آسمانی کتب اور تمام انبیاء ومرسلین نے ہر دور میں توحید کی تعلیم دی ہے اور انسان کو کفر اور شرک کے اندھیروں سے نکالا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مذاہب کی تاریخ بالخصوص اسلام کے دائرے میں کفر اور شرک سب سے بڑے گناہ کیوں ہیں اور انسان ان کا ارتکاب کیوں کرتا ہے؟
 
کفر کے لغوی معنی چھپانے یا Conceal کرنے کے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص کفر کرتا ہے وہ زندگی اور کائنات کی سب سے اہم اور سب سے بڑی حقیقت پر پردہ ڈالتا اور اس کو چھپاتا ہے، حالانکہ اس کے پاس ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیوں کہ خدا کی موجودگی کی اطلاع خود خدا نے دی ہے، اور اس کی عدم موجودگی کی اطلاع انسان یا شیطان کی اختراع ہے۔ چونکہ انسان مخلوق ہے اس لیے وہ خالق کی عدم موجودگی کی اطلاع دینے کا حق نہیں رکھتا۔ چنانچہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ نعوذ بااللہ خدا موجود نہیں ہے تو وہ سب سے بڑا جھوٹ بولتا ہے۔ انسان نے یہ جھوٹ تاریخ میں بار بار بولا ہے، اور سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی ایک وجہ ماحول کا جبر یا اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کو توحید کی تعلیم دیتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ یہ شخص ہمیں ہمارے بزرگوں کے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کی رائے ہی کو ’’حق‘‘ کے درجے پر فائز کیا ہوا تھا۔ انسانوں کے کفر کی دوسری بڑی وجہ ذہانت کی کمی تھی۔ مثلاً جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کو بتاتے تھے کہ اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی، تو وہ کہتے تھے کہ جب ہم خاک ہوجائیں گے تو کیا خاک سے پھر پیدا کیے جائیں گے؟ اور یہ بات انہیں محال محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے زمانے میں ذہانت کا مفہوم صرف اطلاعات کے ذخیرے پیدا کرنے اور اسے محفوظ یا Retain کرنے سے متعلق ہوگیا ہے، حالانکہ ذہانت کا اصل مفہوم حق کو پہچاننے کی استعداد ہے۔ جو شخص حق کو جتنا اور جتنی صورتوں میں پہچان اور بیان کرسکتا ہے وہ اتنا ہی ذہین ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماضی کے کفار ہی نہیں، حال کے کفار بھی احمقوں کی ایک فوج ہیں اور ان میں اسٹیفن ہاگنگ جیسے نام نہاد عبقری یا Geniuses بھی شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کہیں نظر نہیں آتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کفر اصولِ توحید کا سب سے بڑا انکار ہے اور اس لیے وہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ انسانی تاریخ میں شرک کی بھی دو بڑی بنیادیں رہی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو خدا کا درجہ دے دیا۔ دوسری یہ کہ انسانوں نے کسی انسان سے وہ الوہیت وابستہ کرلی جو صرف خدا کے لیے ہے اور جس کی کوئی سند اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے فراہم نہ ہوئی تھی۔
 
اسلام کی تاریخ اور ان حقائق کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کا اصل مسئلہ کفر یا شرک نہیں، بلکہ نفاق ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں اصولِ توحید کے انکار کی وہ صورتیں کبھی موجود نہیں رہیں جو دوسری ملّتوں میں پائی جاتی رہی ہیں۔ البتہ نفاق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک مسلمانوں کے تعاقب میں ہے۔ نفاق انسانی وجود میں ایک سے زیادہ مراکز کی علامت ہے اور یہ اپنی نہاد میں اصولِ توحید کی ضد ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟‘‘ اور نفاق کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں ہے۔ یعنی انسان میں اس کے قول کا مرکز کچھ اور ہے اور عمل کا مرکز کچھ اور۔ اس کی آرزو کہیں اور سے آرہی ہے اور جستجو کہیں اور سے فراہم ہورہی ہے۔ غور کیا جائے تو نفاق کے دو پہلو ہیں، ایک کا تعلق خدا کی ذات سے ہے اور دوسرے کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ خدا کی ذات سے نفاق کے تعلق کی صورت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خدا سے جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ اس سے کہہ رہا ہے کہ میںتیرے حکم کو مانتا ہوں مگر عمل کی سطح پر خود ہی اس کی تکذیب کررہا ہے۔ انسان کی ذات سے نفاق کا تعلق یہ ہے کہ انسان صرف خدا سے ہی نہیں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ بظاہر خود کو ایک مذہبی انسان سمجھتا ہے مگر عملاً وہ انا مرکز یا دنیا مرکز شخصیت ہے۔ انسان خدا سے مسلسل جھوٹ بول کر راندۂ درگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے آپ سے جھوٹ بول کر وہ ایک جانب نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور دوسری جانب اس میں تخلیق کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کی توجہ اور قوتِ حیات کبھی ارتکاز حاصل نہیں کرپاتیں، کبھی آمیز ہوکر ایک اکائی نہیں بنتیں جو تخلیق کی شرائط میں سے ایک اہم شرط ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو جتنا نقصان منافقوں سے پہنچا ہے اتنا کافروں اور مشرکوں سے نہیں پہنچا… اور نفاق نے انہیں جس طرح کمزور کیا ہے کفر اور شرک نے انہیں اس طرح کمزور نہیں کیا۔ مسلمان اپنی تاریخ کے سفر میں یہ بات بھول گئے کہ یہ اصولِ توحید سے ان کی وابستگی ہی تھی جو کہیں آدھی دنیا کی فتح بن گئی، کہیں کروڑوں انسانوں کے اسلام لانے کا سبب بن گئی، اور کہیں علم کی سب سے بڑی روایت میں ڈھل گئی۔
اصولِ توحید ایک سطح پر خدا کے وجود، دوسری سطح پر اس کے حکم اور تیسری سطح پر اس کی محبت ہے، اور جس نے خدا سے محبت کی اس نے حقیقی معنوں میں اس کے حکم اور اس کی موجودگی کی گواہی دی۔ خدا کی محبت کی دو جہتیں ہیں، ایک جہت عبد اور معبود کے رشتے میں ظاہر ہوتی ہے، اور دوسری انسان سے انسان کی محبت میں۔ عبد اور معبود کے رشتے میں خدا کی محبت کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے۔ نماز کے سلسلے میں دو چیزیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ہیں۔ ایک یہ کہ نماز زندگی کا محور ہے، چنانچہ نماز کے حوالے سے ہر مسلمان کو سوچنا چاہیے کہ اسے چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں پڑھنی ہیں اور ان کے ساتھ کچھ ضروری کام کرنے ہیں۔ اس تصور کی اہمیت یہ ہے کہ اب نماز کے سلسلے میں مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یعنی مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں چوبیس گھنٹوں میں بہت سے کام کرنے ہیں اور کاموں کے درمیان پانچ نمازیں ادا کرنی ہیں۔ اس سے نمازیں تو ادا ہوجاتی ہیں مگر نماز زندگی کا مرکز اور بندگی کی علامت نہیں بنتی۔ نماز کے سلسلے میں دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ نماز کے تقاضے کو ہمارے اندر اس طرح ابھرنا چاہیے جس طرح بھوک اور پیاس کا تقاضا ابھرتا ہے۔ لیکن خدا کی محبت کا تقاضا صرف خدا کے ساتھ محبت سے پورا نہیں ہوتا۔ خدا سے محبت آسان ہے لیکن خدا کی مخلوق بالخصوص انسانوں سے محبت دشوار ہے۔ اس لیے کہ انسان دکھ دیتا ہے، تکلیف پہنچاتا ہے، اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ چنانچہ اس سے محبت کرنے کا مطلب ان تمام چیزوں کو جذب کرکے، معاف کرکے محبت کرنا ہے۔ اور خدا کو ایسی محبت بہت پسند ہے۔ اس لیے کہ ایسی محبت کے بغیر نہ انسان انسان بن سکتا ہے، نہ مہذب کہلاسکتا ہے۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 701