donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Jeelani
Title :
   Waqeya Karbala Ka Pas Manzar


واقعہ کر بلا کا پسِ منظر


شمس جیلانی ۔۔۔ کینیڈا


قا رئینِ گرامی ۔کچھ دو ستوں کا اصرار ہے کہ میں بھی واقعہ کر بلا پر کچھ لکھو ں ۔لیکن میں نے ہمیشہ اس پر لکھتے ہو ئے پہلو تہی کی کہ یہ وہ منزل ہے ۔جس میںلو گو ں کی نا را ضگی کے علا وہ خود اپنی عاقبت خراب ہو جا نے کاخطر ہ ہے ۔

 لوگوں کی نا را ضگی یو ں کہ لکھتے ہو ئے میں جھو ٹ لکھنے یا ڈنڈی ما رنے کا عا دی نہیں۔اور رہی عا قبت، اس کی وجہ وہ حدیث ہے جو میرے رو نگٹے کھڑے کر دیتی ہے کہ ً علی  ؑ تمہا را معا ملہ بھی بالکل حضرت عیسٰی ؑکی طر ح ہے کہ کچھ لو گ تمہا ری محبت میں اتنے بڑھ جا ئیں گے کہ اپنے اعمال ضا ئع کر دیں گے اور کچھ مخا لفت میں اتنے بڑھیںگے کہ اپنے اعما ل کھو دیں گے ۔اور اس کی مثا ل یہ فر ما ئی کہ ایک قوم نے عیسٰی ؑو نہیں ما نا اور پھا نسی پر چڑ ھا نا چا ہا اور دوسری نے ان کی محبت میں یہ کیا کہ انہیں کیا سے کیابنا دیا ً یہ حدیث تما م لو گو ں کے نزدیک مصدقہ ہے اور ابنِ کثیر نے اس کوحضرت علی ؑ کے فضا ئل بیا ن کر تے ہو ئے تحریر کیا ہے۔ اور یہ آپ سب جا نتے ہیں کہ ابنِ کثیر انتہا ئی ثقہ قسم کے مفسرین اور سیرت نگا ر ما نے جا تے ہیں ۔

جن کے لیئے علا مہ شبلی نعما نی نے حضو رؐکی سیرت مر تب کر تے ہو ئے بڑے دکھ سے فر ما یا تھا اگر مجھے ً البدا یہ والنہا یہ ً (ابن کثیر کی سیرتِ حضور ؐپر کتاب ) مل جا تی تو میں اس سیرت کو اور بھی بہتر طو ر پر لکھتا ۔یہ ہما ری خو ش قسمتی ہے کہ آج پر نٹنگ کی صنعت بہت آگے بڑھ گئی ہے اور پرانے زمانے کی کتا بیں جو سا ری دنیا کی لا ئبر یرو ں میں بکھر ی ہو ئی تھیں اب دستیا ب ہیں ۔اس کا اردو میں بھی تر جمہ ہو چکا ہے ۔اسے ضرورپڑھیئے ۔کیو نکہ ہم نے اس مضمو ن کی تیا ری میںاسی سے مدد لی ہے ۔

دراصل اس مو ضوع پرلکھتے ہو ئے سب سے بڑا مسئلہ جو ہے وہ عدم توا زن ہے کہ دو نوں طر ف کے لو گ افراط اور تفریط کا شکا ر ہو گئے ہیں اور وہی ان کا جزِ ایما ن بھی بن گیا ہے ۔جسے انشا اللہ آگے چل کر علم ہی بد لے گا ۔وجہ یہ تھی کہ حضرت علی ؑکی شہا دت کی بعد اقتدار با ہمی معا ہدے کے تحت حضرت امام حسن ؑنے حضرت معا ویہ کے سپر د کر دیا تھا ۔جس کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ خلا فت حضرت معا ویہ کے انتقا ل کے بعد واپس امت کو لو ٹا دی جا ئے گی۔ اور وہ جس کو چا ہے اپنا خلیفہ منتخب کر لے ۔اس کے بعد ہو نا تو یہ چا ہیئے تھا کہ جو حضرت علی ؑکے خلا ف دشنا م طرا زی بر سرِ منبر ان کی طر ف سے جا ری کی گئی تھی وہ ختم کر دی جا تی ۔

مگر ایسا نہیں ہو ا اور وہ جا ری رہی ۔دوسری طر ف حضرت امام حسین ؑکی شہا دت کے بعد چو نکہ عا م اجتما عا ت پر پا بندی تھی۔ لہذا لو گ چھپ کر یا سینہ بہ سینہ خبر یں منتقل کر تے رہے۔ کیو نکہ بنو امیہ نے ہزا روں آدمی اسی جر م میں قتل کر ڈا لے لہذا وہی طر یقہ مروج ہو گیااور آج تک جا ری ہے ۔اور اب ہما رے یہا ں خرا بی یہ پیدا ہو گئی کہ علم کے دروازے ہزا ر سا ل پہلے بند کر دیئے گئے ۔ لہذا یہ اصو ل کہ سیب کا موازنہ سیب کے سا تھ اور آلو کا آلو کے سا تھ کر نا چا ہیئے، تحقیق نہ ہو نے کی وجہ سے قا ئم نہ رہا۔ اس کے بجا ئے پرو پیگنڈے سے متا ثر ہو کر آلو کو سیب کا اور سیب کو آلو کا در جہ دیتے رہے۔ جبکہ قر آن کہہ رہا ہے کہ سب برابر نہیں ہو سکتے ہیں ۔ جا ئزہ لے ڈا لیئے پو ری ہما ری تا ریخ اس سے بھری پڑی ہے ۔اتنی مثا لیں ہیں کہ آپ میری مجبو ری کو خو د سمجھ جا ئیںگے۔ کیو نکہ اس کے لیئے یہ چند اوراق با لکل نا کا فی ہیں ۔بہر حال اگرآپ مجھے سچ بیا ن کر نے کی اجا زت دیں، تو ہلکا سا جا ئزہ لے کر میں ان اورا ق میں آپ کے سا منے کچھ پیش کر سکتا ہوں ۔

در اصل مسا بقت کی چپقلش ان دو نوں خا ندا نو ں میں بہت پر ا نی ہے ۔اگر حضرت عبد المطلب کے پا س کعبہ کی تو لیت تھی تو بنو امیہ کے پا س حجا ج کی خدمت ۔لہذا ان کے خیا ل میں اس طر ح برا بری قا ئم تھی اب جب بنو ہا شم میں نبی ؐ تشریف لے آئے تو ان کو پر یشانی لا حق ہو ئی کہ نبی ؐتو دو نہیں ہو سکتے ۔لہذا ہما ری مرا عا ت چلی جا ئیں گی اور ہم ان سے پیچھے رہ گئے ۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ انہو ں نے پہلے دن سے لیکر فتح مکہ تک جو آٹھ ہجری میں ہو ئی ڈٹ کر اسلام کی مخا لفت کی ۔جبکہ بنو ہا شم بٹے ہو ئے تھے اور حضو ر ؐکے اپنے چچا بھی سوا ئے حضرت ابو طا لب کے سب ان کے خلا ف تھے ۔دو سرے چچا ؤں میں سے سب سے پہلے حضرت حمزہ ؑ مسلما ن ہو ئے۔ابو لہب دشمنی پر آخر تک قا ئم رہے اور ایک خا تون کے خیمہ کی تناب ما رنے سے زخمی ہو کر غزوہ بدر کے بعد عبرتناک مو ت مر ے۔

حضرت عبا س  بدر میں لڑنے آئے اور گر فتا ر ہو ئے ۔ان کو رسیوں سے بند ھا ہو ا دیکھ کر حضو ر تڑپ اٹھے۔ اور جب جا نثا را ن رسولؐنے اپنے آقا کے چہرے پرغم اور اندوہ کے با دل منڈ لا تے دیکھے تو انہو ں نے انہیں بلا معا وضہ رہا کر دیا۔ لیکن وہ پھربھی ایمان نہیں لا ئے کیو نکہ وہ وہا ں پا نی پلا نے کی خدمت پر ما مو ر تھے۔ لہذا انہو ں نے بھی سن آٹھ ہجری تک ایما ن نہیں قبو ل فر ما یا حتٰی کہ وہ اس وقت راہ میں حضو رؐ سے آکر ملے۔ جب حضورؐ  فوج لیکر مکہ پر حملہ کر نے تشریف لے جا رہے تھے ۔

یہ ہے مختصر سا تا ریخی جا ئزہ۔ اب ہم دو نو ں خا ندا نو ں کے رویہ کو پیش کر تے ہیں۔جیسے ہی حضو رؐ نے دعویٰ نبو ت فرمایا سب سے پہلے اس خاندا ن کے فر د حضرت علیؑ تھے جنہو ں نے دین قبو ل کیا ۔ابنِ کثیر نے بہت سے حوالو ں سے یہ ثا بت کیا ہے کہ حضو ر ؑنے نبوت کا اعلان پیر کو کیا اور علیؑ نے اسلام منگل کو قبو ل کیا ۔اس کے بعد سے ہر مر حلہ پر یہ خا ندا ن سینہ سپر رہا اور اتنے ظلم سہے جو شا ید ہی کسی خا ندا ن نے پہلے سہے ہو ں۔ ان کا ہر طر ح کا با ئیکا ٹ کیا گیا شدت اس سے سمجھ لیجئے کہ ان کو اپنے گھر چھو ڑ کر شعب ابی طا لب میں پنا ہ گز یں ہو نا پڑا جو بعض روایا ت کے مطا بق سا ت سا ل پر محیط رہا اور ان کے مر د ہی نہیں بلکہ خوا تین بھی اس کی سزا بھگتی رہیں ۔ ان میں ایک نا م اْمِ ہا نی  کا بھی ہے جو کہ علی ؑکے سگی ہمیشرہ تھیں ۔ دوسری طر ف بنو امیہ تھے جنہو ں نے ظلم کی حد کر دی تھی ۔ حضرتِ بلا ل  حبشی ان ہی کے غلا م تھے انکے سا تھ سلو ک تا ریخ کا حصہ ہے خیر وہ تو غیر تھے

اپنو ں کے سا تھ ان کا یہ عا لم تھا حضرت عثما ن کو حبشہ ہجرت کر نی پڑی، ابو سفیان کی صا حبزادی جو کہ تا ریخ میں اْمِ حبیبہ  کے نام سے مشہو ر ہیں اور بعد کو ام المو نین بنیں جن کو شا ہ نجا شی نے حضو ر ؐکی طر ف سے وکیل بن کر حضو ر ؐکے نکا ح میں دیا ( جبکہ اس نکا ح میں ان کے ولیوں کا کو ئی دخل نہ تھا ) ان کو بھی اپنے پہلے شو ہر عبد اللہ ? بن حجش کے سا تھ حبشہ ہجرت کر نا پڑی اور حضرت عبد اللہ بن حجش وہا ں انتقال فر ما گئے ۔

حضرت علی ؑکی خلا فت ۔حضرت علیؑ نہ جا ہ پر ست تھے ،نہ عیش پر ست ۔لہذا ان کے نزدیک عہدہ ایک امتحان تھا جس سے وہ ہمیشہ بچتے رہتے تھے ،ورنہ وہ بہت پہلے خلیفہ ہو جا تے۔ حضرت  عثما ن ؑکے خلیفہ ہو نے سے پہلے ،با ت یہا ں تک پہنچ گئی تھی کہ کثرت را ئے ان کے حق میں تھی اس لیئے مسجدِ نبو یؑ میںحضرت عبد الرحما ن بن عو ف نے حضرت علی ؑ کا ہا تھ اپنے ہا تھ میں لیکر بلند کیا اور فر ما یا کہ میں تمہا رے ہا تھ پر بیعت کر تا ہو ،کیا ً آپ اللہ ، رسول ؑاور شیخین کا اتبا ع کریں گے؟ مگر انہو ںنے فر ما یا کہ نہیں میں صرف اللہ اور رسول ؑ کا اتباع کرونگا بقیہ اپنی صوابدید کے مطا بق فیصلے کرو نگا ۔اگر انہیں خلا فت عزیز ہو تی تو ہا ں فر ما دیتے اور بعد میں وعدہ پو را نہ کر تے۔ جیسے خلا فت را شدہ کے بعد با د شا ہو ں اور آمر وں نے کیا اور آج تک یہ سلسلہ جا ری ہے ۔

چو نکہ اب صورتِ حال یہ تھی کہ اسلام کو ہی خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور دار الخلا فہ تک خار جیو ں کے قبضہ میں تھا ۔ اس کی وجہ حضرت عثما ن  کی وہ حیا تھی جس کے سب ہی معترف ہیں جو اپنو ں سے ہی نہیں دشمنوں سے بھی حیا فر ما تے تھے اور جو آج تک خطبہ جمعہ میں پڑھا جا تا ہے ۔ انہو ں نے ایک طو یل محا صرہ قبو ل فر مالیا مگر اپنے لیئے مسلما نو ں کو تلوار اٹھا نے کی اجا زت نہیں دی ۔بعض مور خین نے لکھا ہے کہ جس وقت وہ شہید ہو ئے اس وقت بھی کا فی تعداد مسلما نو ں کی ان کے گھر ًالدار ً کے مر دانہ حصے میں مو جو د تھی مگر ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ وہ لو گ حضرت عثما ن  کے نہ لڑنے کی قسم دینے پر چلے گئے ۔

کیو نکہ حضرت عثما ن  نے انکو مدد کے لیئے اجا زت نہیں دی ۔آخر با غیوںنے حضرت عثما ن  کو شہید کر دیا ۔ جن کی تعداد ہزاروں میں تھی اور وہ سب خو د کو شہا دتِ حضرت عثما ن  کا ذمہ دا ر ٹھہرا تے تھے در اصل یہ ان کی چا ل تھی تا کہ ان کے کسی آدمی پر زد نہ پڑے ۔ان حا لا ت میں حضرت طلحہ  نے حضرت علی سے بیعت کے لیئے اپنا ہا تھ بڑھا دیا لیکن حضرت علی  نے فو را ً بیعت قبو ل نہیں فر ما ئی بلکہ فر ما یا کہ خلا فت کو تین دن تک کھلا رکھو جب کو ئی تین دن میں بھی اس کے لیئے تیا ر نہیں ہو ا۔ کیو نکہ یہ اب کا نٹوں کا تا ج تھی ، تو مجبو را ً انہو ں نے قبو ل فر ما لی ۔لیکن ایک شا طر دما غ جس کا نا م مردان بن الحکم تھا، جس کی معزولی کا مطا لبہ خو ارج لیکر آئے تھے ۔جس کو حضرت عثما ن نے اپنا نا ئب بنا یا ہوا تھا ۔ اور اس کا نا م آج بھی عوام میں ضرب المثل ہے ، کا م کر رہا تھا اور نتیجہ یہ ہو ا کہ وہی طلحہ  جنہو ں نے حضرت علی کی صبح سب سے پہلے بیعت کی تھی شام کو سب سے پہلامطا لبہ یہ لیکر تشریف لا ئے کہ حضرت عثما ن کے قا تلو ں کو فو را ً گر فتا ر کیا جا ئے ۔

 وجہ کیا تھی کہ مروان اب لو گو ں کو بھڑکا رہا تھا چو نکہ اس کے خلا فبد عنوا نیو ں کے الزا م تھے لہذا اس کی خیر اسی میں تھی( در اصل اسے حضو رؐ سے اور اہلِ بیت سے پر خا ش تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے با پ الحکم کو حضو ر ؐ نیطا ئف جلا وطن کر دیا تھا جو کہ حضرت عثما ن کے زما نے میں وا پس آیا۔ مروان کی اہمیت کا اندا زہ اس سے لگا لیں کہ خلا فت حا صل کر نے کے بعد حضرت معا ویہ ? اسے لا کھو ں در ہم اکثر بھجوا تے رہے ) ۔ یہ شخص جعلی خط بنا نے میں بھی ما ہر تھا جس کے ذریعہ اس نے آگ لگا ئی ، مروان کی کو شش تھی کہ سب کو لڑا دیا جا ئے اور وہ اس سے ثا بت ہے کہ حضرت معا ویہ  نے بھی اس مسئلہ پر جب طا قت استما ل کر نا چا ہی اور مد ینہ پر فو ج کشی کا ارادہ کیا تو اس نے مشورہ دیا کہ پہلے اس مسئلہ پر دشمنو ںکو لڑ نے دو تا کہ یہ کمزور پڑ جا ئیں۔ پھر خلا فت پرقبضہ کر لیں گے۔ کیو نکہ اس میں اس کی بچت تھی ۔ وہ بھی بنو امیہ میں سے تھا اور حضرت معا ویہ بھی بنو امیہ میں سے تھے ۔

بہر حا ل نتیجے کے طو ر جنگ جمل میں حضرت علی اور طلحہ  آمنے سا منے ہو ئے اور جب علی نے یہ حدیث سنا ئی کہ ً تم دو نو ں ایک دو سرے کے سا منے ہو گے اور علی حق پر ہو نگے تو وہ پلٹ گئے اور حضرت زبیر  بھی پلٹ آئے ۔ مگر وا پس ہو تے ہو ئے مروا ن نے تیر ما ر کر شہید کر دیا اور حضرت زبیر  بھی شہید کر دیئے گئے۔ اس طر ح جنگِ جمل جو ٹل گئی تھی ہو کر رہی ۔ادھر تو یہ عا لم تھا اور دوسری طر ف حضرت معا ویہ  جو گورِ نر شا م تھے اور حضرت عمر کے زما نے سے تھے ۔شا م وا لے صرف انہیں کو حضو ر کا قرا بت دار جا نتے تھے ۔با قی اہلِ بیت کو اس زما نہ میں ذرا ئع ابلا غ نہ ہو نے کی وجہ سے وہ جا نتے ہی نہ تھے ۔

جبکہ حضرت معا ویہ  امت کے ما مو ں کہ طو ر پر پہچا نے جاتے تھے ۔ انہو ں نے مر کز یعنی خلیفہ وقت کی بیعت اس شر ط کے سا تھ مشرو ط کر
دی کہ وہ حضرت عثما ن کے قا تلو ں کو ان کے سپرد کردیں ۔ جو ظا ہر ہے کہ فل وقت نا ممکن تھا ۔ حضرت علی  کا استدلا ل یہ تھا کہ مجھے کچھ وقت دو تو میں کچھ کرو ں گا ۔مگر یہ سب لو گ فورا ً چا ہتے تھے جبکہ دار الخلا فہ خوا رج کے قبضے میں تھا۔ اور با ہمی انتشا ر کا شکا ر بھی ۔اس کے بعد حضرت معاویہ  برا بری اور خلا فت کے دعویدار ہو گئے اور انہو ں نے شا م پر اپنی با د شا ہت کا اعلا ن کر دیا ۔ جو کہ ان کے اس خط سے ظا ہر ہے جو انہو ں  نے حضرت علی  کو اپنے استحا قِ قیا دت کے لیئے تحر یر فر ما یا ً اے ابو الحسن  ! مجھے بہت سے فضا ئل حا صل ہیںمیرا با پ جا ہلیت میں سردار تھا ۔اور میں اسلام میں با د شا ہ بن گیا ہو ں ۔اور میں رسول  اللہ کا قرا بت دار اور مو منین کا ما مو ں اور کا تبِ وحی ہو ں ً اس کے جواب میں جو خط علی  نے تحریر فر ما یا اس کا متن یہ ہے ًمحمد ؐ جو نبی ہیںوہ میرے بھا ئی اور قرا بت دا ر ہیں۔اور سید الشہدا ئ￿  حضرت حمزہ  میرے چچا ہیں اور حضرت جعفر طیار جو صبح وشا م فر شتو ں کے سا تھ محوِ پر واز ہیں، وہ میری ما ں کے بیٹے ہیں۔ اور محمد ؐکی صا حبزا دی میری را حت اور میری بیو ی ہے۔ اور ہم دو نو ں کے لمس سے میرے دو بیٹے ہیں جو احمد  کے نو اسے ہیں ۔ پس تم میں سے کس کا حصہ میرے جیسا ہے ،میں نے چھو ٹی عمر میںجب کہ میں بالغ بھی نہیں ہواتھا۔تم سب سے پہلے اسلام میں سبقت کی ہے ً

( حا لانکہ حضرت علی نے اپنے چند فضا ئل بہت ہی انکسا ری سے تحریر فر ما ئے ہیں ورنہ ان کے فضا ئل میں احا دیث کی کتا بیں بھری پڑی ہیں ) ابنِ کثیر نے آگے لکھا ہے کہ

را وی بیا ن کر تا ہے کہ حضرت معا ویہ  نے فر ما یا کہ اس خط کو پو شیدہ رکھو اہلِ شا م نہ پڑھنے پا ئیں ورنہ وہ ابنِ  ابی طا لب کی طر ف ما ئل ہو جا ئیںگے ۔اگر حضو ر کا ًارشا دِ گرامی یہ لو گ اگر شروع میں سمجھ لیتے کہ اسلام سے تمہیں کو فا ئدہ پہو نچے گا، کہ اہلِ عرب قر یش کی سیا دت کے سوا اور کسی پر کبھی متفق نہ ہو نگے ) تو شا ید ان کا رویہ کچھ اور ہو تا مگر یہ فتح مکہ کے بعد سمجھ پا ئے۔اور معا ویہ  کے وا لد ابو سفیا ن نے حضور کے سامنے تین درخواستیں فتح مکہ کے بعدپیش کیں۔پہلی یہ کہ جس طرح میں نے اسلام دشمنی کی اسی طر ح میں اب اسلام کی حما یت میں لڑوں گا ) معا ویہ کو کا تب وہی بنا لیجئے اور تیسری یہ کہ میری بیٹی عز کو اپنے نکا ح میں لے لیجئے ۔

حضور نے پہلی دو کہ جو اب میں فر ما یا اچھا! مگر تیسری کو نا منظو ر فر ما دیا کہ پہلے تو شر یعتِ محمد یہ میں دو بہنو ں کو ایک نکا ح میں جمع کر نا منع ہے اور امِ حبیبہ پہلے سے ام المو نین تھی جو ابو سفیا ن کی صا حبزادی تھیں ۔ اورمز ید شا دیو ں کی اس وقت تک حضو ر کو مما نیت بھی آچکی تھی ۔لہذا
حضرت معا ویہ  ان کا تبا ن وحی کے سا تھ وحی لکھنے لگے جو پہلے دن سے لکھتے آرہے تھے ۔مگر ان کو حضو ر کی رفا قت بہت ہی کم حا صل رہی۔

اب مسا بقت کے بجا ئے چو نکہ بر تری کا مو قعہ اللہ تعا لیٰ نے عطا فر ما دیا تھا۔اس کا تقا ضہ یہ تھا کہ دعویدا ران قرابتِ حضو ر کا صفا یاکر دیا جا ئے ۔ مختصرا ً یہ کہہ کر میں اس با ت کو ختم کر تا ہو ں کہ شہا دتِ حسن پھر شہا دتِ حسین ور اہلِ بیت اسی منصو بہ کا ہی حصہ تھی جس کو حضرت امام حسین نے سمجھ لیا تھا۔ اگرو ہ کوفہ نہ تشریف لے جا تے تو حرمت کعبہ اور مد ینہ کو خطر ہ تھا۔ جو کہ بعد وا لے نہ سمجھ سکے اور پا ما ل ہو کر رہی جبکہ مکہ پر حملہ ہو ا عبداللہ بن زبیر کے جسدِ مبا رک کو پھا نسی پر لٹکادیا گیا اور مدینہ کو تا راج کیا گیا ۔

 چو نکہ شہا دت مشیت الٰہی تھی اور طے شدہ امر تھا ۔اسی لیئے مخبرِ صا دقنے پہلے ہی پیشنگو ئی فر ما دی تھی کہ حسن ؑاور حسینؑ جنت کے سردار ہیں اور میرا ایک بیٹا  مسلما نو ں میں صلح کرائیگا اور دو سرا  خو د اپنی جا ن دے کر اسلام کو بچا ئے گا۔ دو نو ں نے اپنے اپنے کردار اس حدیث کی روشنی میں پو رے کر دکھا ئے ۔اب ان کے بعد جو بھی ہو گا وہ حسینِ ثا نی کہلا ئے گا ، حسین نہیں !

(یو این این)

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 441