donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Waris Mazhari
Title :
   Deobandi Barelvi Mufahmat : Waqt Ka Aik Aham Taqaza

 

 د یوبندی بریلوی مفاہمت :وقت کا ایک اہم تقاضا
 
وارث مظہری
 
ہندوستانی مسلم سماج کو اس وقت جو اہم چیلنجز درپیش ہیں ،ان میں مسلکی اور نظریاتی اختلافات بھی ہیں ۔جنہوںنے اسلامی اجتماعیت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔اہل علم و فکر کی ایک جماعت ہمیشہ اس کے لےے کوشاں رہی ہے کہ کسی بھی طرح ان اختلافات کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس مو ضوع کے تعلق سے غور و فکر کا ایک عنوان یہ ہے کہ کیا دیوبند اور بریلی کے درمیان پیداشدہ فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ؟ ان دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب کیا جاسکتا ہے ؟ایسے وقت میں جب کہ مسلمان اور غیر مسلم اسلام اور مغرب مکالمے کا غلغلہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ خود اپنے گھر کو درست کرنے کے لےے اس سطح پر کوشش کیوں نہیں کی جاسکتی؟میرے خیال میں ایسی کوئی بھی کوشش حالیہ تایخ میں ہندوستان میں نہیں کی گئی۔مجھے اندازہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے شدت پسند اور تنگ نظر لوگ سرے سے ایسی فکر اور کوشش کو ہی غیر اسلامی قرار دیں گے۔کیوں ایسے لوگوں کی نگا ہ میںان دونوں جماعتوں کے درمیان حق وباطل کا اختلاف ہے۔اور ظاہر ہے حق و باطل میںاتحاد ممکن نہیں۔لیکن یہ ضروری ہے اور ہر قیمت پر ایسی کوشش کی جانی چاہےے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان قربت و مفاہمت کی راہیں ہموار ہوں۔ایسے دردمند ان دونوں جماعتوں کے درمیان موجود ہیں،جو صدق دل سے یہ خواہش رکھتے ہیں۔ابھی کچھ دنوں قبل پاکستان میں مفتی تقی عثمانی کے بھائی مولانا رفیع عثمانی نے ایک بیان میں ایسی ہی شدید خواہش کا اظہار کیا تھا۔مشہور عالم مولانا اخلاق حسین قاسمی مرحوم نے کچھ سال قبل ایک رسالہ دیوبندی بریلوی اختلاف پر قلم بند کیا تھا اور اس کا ایک نسخہ راقم الحروف کو بھی بھجوایا تھا،جس میںانہوں نے دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کی خلیج کو پاٹنے کی حتی الوسع نظریاتی کوشش کی تھی۔لیکن کتابچے کی تشہیر نہیں ہوسکی۔یا لوگوں نے دل چسپی نہیں دکھائی۔
 
اس میںشک نہیںکہ دونوں جماعتوںکے درمیان پائے جانے والے بعض اختلافات اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں،جیسے رسول اللہ کی بشریت،علم غیب کا مسئلہ،آپ کے حاضر و ناظر ہونے کا مسئلہ،بزرگوںسے استمداد و توسل کا مسئلہ وغیرہ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میںاس کا جو تصور ہے،ثقہ علماے اہل سنت کا تصور اس کے بر عکس ہے۔وہ جس طرح ان مسائل کی تشریح کرتے ہیں،ان کے تناظر میںاختلاف کی نوعیت اتنی شدید نہیں رہ جاتی۔جس کی بنیاد پرباہم صف آرائی اور ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کی کوشش کی جائے۔مثلا مولانا احمد رضاخاںؒ کہتے ہیںکہ جورسول اللہ کو بشر تصور نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔گویا ان کی نظر میں آپ کا بشر ہوناتو متحقق ہے البتہ ان کی نظر میں آپ کی بشریت عام بشریت سے ذرا مختلف ہے۔اس طرح آپ کے نو ر ہونے کا تصور بھی نور محمدی کے اس تصور سے ماخوذ ہے جو عہد وسطی سے لے کر اب تک علما و صوفیا کی ایک جماعت کے درمیان مقبول رہا ہے۔بعض روایات بھی صوفیا کے درمیان اس بارے میںمشہور رہی ہیں۔البتہ اس سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ وہ ضعیف ہیں۔توسل کے مسئلے میں خود علماے دیوبند اور سلفی علما کے درمیان اختلاف ہے۔ مجمع الملک فہد سے مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ترجمے کی اشاعت پر پابندی کی بنیادی وجو ہ میںایک اہم وجہ غالبایہ بھی رہی ہے۔اسی طرح دیوبندی اکابرکی جو بعض قابل اعتراض عبارات ہیںجیسے مولانا اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان کی عبارت،مولانا قاسم نانوتویؒ کی تحذیر الناس کی عبارت یا مولانا اسماعیل شہیدؒ کی تقویة الایمان کی عبارتیں یا فتاوی رضویہ کی عبارتیں ان عبارتوںکوان بزرگوںکے ساتھ خاص سمجھنا چاہےے۔یہ کیا ضروری ہے کہ ہم ان سے سو فیصد اتفاق ہی کرلیں۔ایسے کسی بھی معاملے میںان بزرگوںسے اختلاف کرنا ان کے احترام اور عظمت شان کوکم نہیں کرتا۔ان کے بعد عرس ،قیام،میلاد وغیرہ جیسے مسائل آتے ہیںجو اب اہل سنت کی پہچان بن چکے ہیںلیکن نہ تو ان کی شروعات اہل سنت کے دم سے ہوئی اور نہ ہی وہ ان کے ساتھ خاص ہیں۔عوامی اور تصوف کے روایتی حلقوں میں ان کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں علما کا مشترکہ اثاثہ رہے ہیں۔۹۱و یں صدی کے اواخر تک ان دونوں جماعتوںکی باضابطہ نظریاتی تشکیل سے قبل عرس و میلا د کی محفلیں عام تھیں۔تصوف کی پائے کی شخصیات کا ان پر عمل تھا۔خود بانیان دیوبند کے مرشد اور حلقہ دیوبند کے مر جع ومقتدا جنہیں بجا طور پر سید الطائفہ یعنی سر گروہ علمائے دیوبند کہا اور سمجھا جاتا ہے :حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ،وہ عرس ،قیام اور میلا د وغیرہ کوروحانیت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے،بلکہ وہ خود بھی ایسا کرتے تھے اور ان کے نظریاتی وکیل بھی تھے۔ان مسائل پرانہوں نے” فیصلہ ہفت مسئلہ“ تحریر فرمایا۔اسی طرح دیوبند کے محرک اولیں عابد حسین صاحب بھی ایسے ہی خوش عقیدہ مسلمانوں میںتھے جو اہل سنت کے ساتھ مخصوص سمجھے جانے والے سارے اعمال انجام دیتے تھے۔اس بنیاد پر اہل دیوبند میںسے کون انہیں بدعتی قرار دینے کے لےے تیار ہوسکتا ہے؟’خطبات حکیم الاسلام‘ میں قاری طیب صاحب نے عرس کے جواز کی بات لکھی ہے۔میلاد پر مولانا عبدالحی لکھنوی کا ایک رسالہ موجود ہے جس میںانہوںنے اس کا جوازثابت کیا ہے۔معاصر علما میں مولانا یوسف قرضاوی کی نظر میں اس کے انعقاد میںکوئی حرج نہیں ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں عرس و میلاد کا رواج صدیوںسے چلا آرہا ہے۔
 
در اصل ان اعمال ونظریات کے بجائے دیوبندیت و بریلویت کی تشکیل میںاہم عامل دو رہے ہیں۔ایک تقویة الایمان جس میں بعض عوامی نظریات اور مزاروں اور خانقاہوںکے بعض اعمال و مظاہر کے خلاف شدید ترین رویہ اختیار کیا گیا ہے اور تدریج کے اصولوںکو نظر اندازکرتے ہوئے انہیں باضابطہ شرک ( شرک جلی) قرار دیا گیاہے۔شاہ ولی اللہ کے یہاں جو توسع ہے اور ان کے وارث علمائے دیوبند جس لچک کے قائل ہیں،حقیقت یہ ہے کہ حضرت اسماعیل شہیدکی جلالت قدر کے تمام تر احترام و اعتراف کے باو جود حضرت شہید کی یہ شدت اور غیر مصلحت بینی اس سے میل نہیںکھاتی۔اس کا احساس بعض علماے دیوبند کو بھی رہا ہے جن میں سر فہرست علامہ انور شاہ کشمیری ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب فیض الباری میں لکھا ہے کہ :تقویت الایمان میں شدت پسندی کا رویہ اختیار کےے جانے کی وجہ سے اس سے لوگوں کو زیادہ فائدہ نہ پہنچ سکا۔ اسی سے ملتی جلتی بات اہم دیوبندی عالم مولانا احمد رضا بجنوری نے بھی لکھی ہے ۔
 
دوسرا اہم عامل مولانا احمد رضاخاں فاضل بریلوی کی طرف سے علماے دیوبند و علماے ندوہ کے خلاف با لترتیب حسام الحرمین اور فتاوی الحرمین برجف ندو ة المین کا لکھا جانا ہے۔خاص طو ر پر اول الذکرکتاب مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے فاضلین رو زگار علما کی تکفیر کے لےے لکھی گئی،جس کی تصدیق کے لےے علماے حرمین کی مدد بھی حاصل کی گئی۔فاضل بریلوی کا یہ اقدام ایسا ہی تھا کہ اس پر واویلا ہو۔ظاہر ہے حرمین کی تلوارسے ان اکابر شخصیات کا قتل ناگہانی ٹھنڈے پیٹوںکون برداشت کرسکتا تھا؟تاہم اب اس واقعے پر ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔اب مرغ قبلہ نما کے آشیانے میںتڑپنے کا کچھ بھی حاصل نہیںہے۔فاضل بریلوی کے تعلق سے یہ واقعہ اہم ہے کہ انہوں نے حضرت اسماعیل شہید میں ستروجوہ کفر کی نشان دہی کی لیکن انہیں باضابطہ کافر نہیںٹھہرایا۔لیکن علماے دیوبند کے تعلق سے یہ احتیاط نہ برتی جاسکی،جس کی وجہ غالبا معاصرانہ چشمک تھی۔ بہرحال ماضی کے بزرگوں کے اپنے اجتہادات اور اپنی فکر تھی ضروری نہیں کہ ہم ان کی فکر وا جتہاد کی ہر شق پر ایمان لائیں اور اسے اپنے ایمان کی جزئیا ت قرار دیں۔ان حضرات کی فکر و نظر کی تشکیل میںدوسری چیزوںکے علاوہ مختلف زمانی و مکانی عوامل بھی کار فر ما تھے۔ورنہ ایسے ہی نظریات و مظاہر دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اب بھی موجود ہیںلیکن اس بنیاد پر ملت کی ایسی مسلکی و جماعتی تقسیم وہاں عمل میں نہیںآئی۔بزرگوںکے اختلافات کو ان کے اجتہادات کا نتیجہ سمجھتے ہوئے نئی نسل کو آگے بڑھ کر وحدت ملی کے لےے کوشاں ہونا چاہےے اور اسکی دیوار میں ماضی میں پڑنے والے شگافوں کو بھرنے کی کوشش کرنی چاہےے۔سوال یہ ہے کہ ہم کب تک صرف لفظی سطح پر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑنے اور بنیان مرصوص (مضبوط دیوار ) بننے کا قوم سے مطالبہ کرتے رہیںگے۔جب کہ خود ایک قدم اس راہ پر چلنے کے لےے تیار نہ ہوں۔
ذرا غور کیجئے جس وقت شاہ بابنوخذ نصر نے اسرائی پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہودی قوم کو تہ و بالا کردیا اس وقت اس قوم کے علما (فریسین) کے یہاں اس طرح کے مو ضوعات پر منا ظرے ہورہے تھے کہ داڑھی کی فضیلت کے تعلق سے ایک داڑھی کے ایک بال پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں مشہور مستشرق گب نے لکھا ہے کہ 1453جب محمد الفاتح نے قسطنطنیہ پرحملہ کیا تواس وقت عیسائیوںکے درمیان مناظرے کی مجلسیںا یسی بحثوںسے گرم تھیںکہ حضرت مسیح نے عشائے ربانی میںجو روٹی کھائی تھی وہ خمیری تھی یا فطیری؟اور ۹۱ صدی میں انگریزی استعمارمسلم حکومت کے ملبے پر اپنی حکومت قائم کررہا تھا تو اس وقت امکان کذب ( خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں ؟)اور امکان نظیر( خدا محمد ﷺ جیسی دوسری شخصیت کو پیدا کرسکتا ہے یا نہیں) جیسی غیر ضروری اور لاحاصل بحثوں پر ہمار ے فاضل علما سر دھن رہے تھے۔ہم سمجھ سکتے ہیںکہ عین ملت کی تعمیر اور دفاع کے وقت میںہم نے کس طرح بے تیشہ ہی اپنی ملی دیوارکو ڈھانے کی کوشش کی۔
 
اہم سوال یہ ہے کہ ہمیںکس طرح اس باہمی مفاہمت کے پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہےے؟اس کے لےے ہمیںکون سا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ایک دوسرے کو کافر و بدعتی قرار دینے سے باز آئیں۔ایک شخص کا بدعتی قرار دیا جانا تو اتنا خطرنا ک نہیں ہے کیوںکہ بہرحال وہ ایسے شخص کی نگاہ میںایک گنہگار مسلمان تو رہتا ہی ہے۔خطرے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی فر د یا جماعت کو کافر قراردے کر سرسے سے اسے دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا جائے۔دوسرے مسلک کے کسی فرد کا جنازہ پڑھادینے یا پڑھ دینے کی بنا پرمتعلقہ اشخاص کو غیر مسلم قرار دے کران کے نکاح کو باطل اور ان کی بیوی کوان پر حرام قرار دیا جائے۔اگر بات یہاں تک پہنچ جائے تو بلاشبہ بہت بڑے فتنے کا دروا زہ کھل جاتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ افہام تفہیم اور سنجیدہ علمی مباحثے کے دروازوں کو کھلا رکھنے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ رد و تنقیص کے مناظرانہ عمل کے دروازوں کو بالکلیہ بند کرنے کی جانبین سے کوشش جائے۔فریقین کے قائدانہ رول رکھنے والے اہل علم و فکر اس میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔کیا ہی بہتر ہو اگر اس مقصد کے لےے باضابطہ ایک فورم وجود میں آئے جس میں دونوں جماعتوںکے سنجیدہ اہل فکر شامل ہوں۔اس کا میقاتی پروگرام منعقد ہو۔اس کی طرف سے مفاہمانہ لٹریچر کی اشاعت عمل میںآئے۔اس سلسلے میںاہم کردار ملک کی بڑی خانقاہوںکی اہم شخصیات ادا کرسکتی ہےں۔یہ بیچ کی کڑی بن سکتی ہیں۔کیوں کہ حقیقت میں ان میں سے بڑی تعداد کسی ایک مسلک سے وابستہ اور مشخص نہیں ہے۔ 
 
w.mazhari@gmail.com
 بی ۔ ۵۶، شاہین باغ،جامعہ نگر،اوکھلا،نئی دہلی۔۵۲۔موبائل:9990529353
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 634