donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Common Civil Code Ke Parde Me Hindu Rashtra Ka Khel


کامن سول کوڈ کے پردے میں ہندو راشٹر کا کھیل؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا کامن سول کوڈ کی آڑ میں ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا کھیل چل رہا ہے؟کیا بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاری ہے؟ کیا کامن سول کوڈ اصل میں ہندو کوڈ بل کی توسیعی شکل ہے؟ کیا سنگھ پریوار اس ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنا چاہتا ہے؟ کیا جلد ہی آئین میں کوئی بڑا بدلائو کرکے اس ملک کو عملی طور پرہندوراشٹر قرار دے دیا جائے گا؟ نریندر مودی اپنے اسی دورِ حکومت میں یہ کام انجام دے کر جائیںگے یا اگلی مدت کار کا انتظار کرینگے؟ کیا ترقی کا ایجنڈا صرف ان کا دکھاوا ہے اور اصل مقصد بھارت کو عملی طور پرہندو راشٹر میں بدلنا ہے؟ کیا سنگھ پریوار کی طرف سے مودی سرکار پر دبائو پڑ رہا ہے کہ وہ آئیں میں بدلائو کرے اور اس ایجنڈے کو لاگو کرے جس کے لئے سنگھ پریوار ۹۰ سال سے کوشاں ہے؟ آج بھارت کے ہر شہری کے دل میں اس قسم کے سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ جہاں ایک طرف حکومت کے حکم کے مطابق لاء کمیشن کامن سول کوڈ بنانے پر غور کر رہا ہے تو سنگھ پریوار کا پرانا ایجنڈابھی یہی رہاہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے لئے ایک قانون لایا جائے اور ان سے اپنے مذہب پر عمل کا اختیار چھین لیا جائے۔اس کے لئے اس کے پاس پارلیمنٹ میں واضح اکثریت ہے جس کی بنیاد پر وہ آئین کے اندر بدلائو کرسکتا ہے۔حال ہی میں لاء کمیشن نے مانا ہے کہ وہ ایک ایسے قانون پر کام کر رہا ہے جس کے تحت آئی پی سی کی طرح ہی ملک کے تمام شہریوں کے لئے یکساں شادی، طلاق، وراثت ،ہبہ، اوقاف وغیرہ کے قوانین ہونگے۔یہاں یہ یاد دلانا برمحل ہے کہ چند سال قبل مرکزی حکومت کی جانب سے یوم جمہوریہ  پر وزارت اطلاعات ونشریات کی طرف سے ایک اشتہار چھاپا گیا تھا جس میں آئین ہند کے مسودے کی تصویر تھی مگر سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ غائب تھے۔ اس پر اپوزیشن نے سرکار کو گھیرنے کی کوشش کی تھی۔ اپوزیشن کا الزام تھا کہ سرکار نے جان بوجھ کر یہ الفاظ غائب کردئے تھے جب کہ سرکار کی طرف سے کہا گیا کہ یہ غلطی انجانے میں ہوگئی تھی۔ اب جب کہ سرکار نے کامن سول کوڈ کے مسودے پر کام شروع کردیا ہے تو یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ اس کا مقصد ملک کی تہذیبی اور مذہبی اقلیتوں سے ان کا حق چھیننے کی تیاری چل رہی ہے۔  بات یہ بھی ہے کہ نریندر مودی کو اگر عوام نے ووٹ کیا ہے تو ترقی کے نام پر ووٹ کیا ہے نہ کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے ۔ اگر وہ ملک کو ’’منوسمرتی‘‘ کے دور میں لینا جانا چاہتے ہیں تو عوام اسے کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم قارئین کو یاد دلادیں کہ انھوں نے عام انتخابات سے قبل میڈیا کو دیئے اپنے انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ بھارت سیکولر ملک ہے اور سیکولر رہے گا۔ سیکولرازم ہمارے آئین میں ہی نہیں بلکہ ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہم صدیوں سے سیکولر ہیں اور آگے بھی سیکولر رہیں گے۔ آج اگر مودی بدل رہے ہیں تو اسے وعدہ خلافی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مودی بھی اسی سنگھ کی شاکھا کے پروردہ ہیں جو ۹۰ سال سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ 


لاء کمیشن کیا کہتا ہے؟

لاء کمیشن کے چیئرمین جسٹس بلبیر سنگھ چوہان نے بعض میڈیا اہل کاروں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ پر کام شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ اسے کسی مذہب سے جوڑا جائے گا تو دقت شروع ہو جائے گی۔ جسٹس چوہان نے کہا کہ ضرورت ہے لوگوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی۔انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے قانون کاڈھانچہ تیار کریں گے کہ کیا کیا مسائل شامل کئے جائیں۔ ساتھ ہی یہ طے ہوگا کہ کیا وقت آ گیا ہے کہ کامن سول کوڈ بنایا جائے۔ رپورٹ کی بنیاد کسی خاص مذہب کو ذہن میں رکھ کر نہیں بنائی جائے گی۔ اس قواعد کا پورا مقصد کسی مذہب کے خلاف سوچ نہیں بلکہ خواتین کو حق دلانا ہے۔ جسٹس چوہان نے کہا کہ کمیشن منصفانہ طریقے سے کام کرے گا اور سیکولر انداز میں کام کرے گا۔کمیشن سب کی بات سنے گا، ضرورت پڑے گی تو سیاسی پارٹیوں کی بھی مدد لیں گے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں IPC اور CRPC جیسے کریمنل لا ہیں جو ملک کے تمام لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں چاہیں وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ سول کوڈ کی رپورٹ تیار کرنے میں وقت لگے گا۔ہمیں کوئی جلدی نہیں، اس سلسلے میں عوام کی بھی رائے مانگیں گے۔

کیا سیکولرازم پر بحث درست ہے؟ 

    سنگھ پریوار اور دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کے ایجنڈے میں یہ بات شروع سے رہی ہے کہ بھارت کے سیکولر کردار کو ختم کرکے اسے ہندوراشٹر بنایا جائے۔ بی جے پی کے علاوہ شیوسینا اور ہندو مہاسبھابھی ایسا ہی نظریہ رکھتی ہیں۔ان جماعتوں کی تاریخ شدت پسند ہندتو سے عبارت ہے مگر آج حیرت اس بات پر ہے کہ ہندوتو لانے کی کوشش سیکولزرم اور کامن سول کوڈ کے نام پر ہورہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کامن سول کوڈ کا شوشہ آئین ہند میں رکھا گیا تھا تو یہ بات بھی واضح کی گئی تھی کہ مناسب وقت پر ’’ہندو کوڈ بل ‘‘کو ہی وسعت دیا جائے گا اوراسے ملک کے تمام شہریوں پر لاگو کیا جائے گا۔ تب مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی اور جواہر لعل نہرو وزیراعظم تھے۔ یہی سبب ہے کہ اب ہندو کوڈ بل کا نام لئے بغیرکامن سول کوڈ کی بات کی جارہی ہے اور سیکولرازم کی دہائی دی جارہی ہے۔ سنگھ پریوار کا اصل نشانہ مسلمان اور عیسائی ہیں مگر اس قانون کی زد میں جین، سکھ، بودھ اور خود ہندووں کے بھی بہت سے گروہ آئینگے۔ حکومت کا یہ قدم آسان نہیں ہوگا اور خود اسی کے لئے لعنت کا طوق بن سکتا ہے اور وہ اپنے ہی دام میں گرفتار ہوسکتی ہے۔  

کیا بھارت کا سیکولر کردار خطرے میں ہے؟

    سپریم کورٹ مرکزی سرکار سے کئی بار پوچھ چکا ہے کہ وہ کامن سول کوڈ کب آئے گا؟کامن سول کوڈ آرایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی رہی ہیں۔ ایسے میں ملک کی سب سے اونچی عدالت نے  سنگھ پریوار کے ہاتھ میں  کامن سول کوڈ کی تلوار تھمادی ہے۔ ملک کے سیکولر عوام کا بھی ایک بڑا طبقہ اس کی حمایت میں ہے اور اب لاء کمیشن نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ اس قانون پر کام کر رہاہے۔ مرکزی سرکار کے رویے سے عوام میں شکوک وشبہات جنم لینا فطری ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی نکیل آرایس ایس کے ہاتھ میں ہے اور اسے اقتدار تک لانے میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسی جماعتوں کا ہاتھ رہا ہے جنھوں نے پارٹی کے لئے اپنی پوری قوت لگا دی ہے۔ بی جے پی وہ جماعت ہے جو مندر مسجد کے تنازعے کی مدد سے آگے بڑھی ہے۔ جس نے کبھی بھی ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اقلیتوں کا خوف دکھا کر اکثریتی ہندوووٹ کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔ ایسے میں آج اگر وہ ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور عوام سے ان کے مذہب پر عمل کا اختیار چھیننے کی ک سعی کرے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔ اقتدار میں آنے کے لئے ملک کے قانون کی پاسداری کا حلف لیا جاتا ہے سو بی جے پی نے بھی کیا مگر اسی کے ساتھ اپنے کئے ہوئے وعدے سے پلٹنے کا کام بھی وہ کرتی رہی ہے اور اس معاملے میں بھی اگر وہ ایسا ہی کر رہی ہو تو ممکن ہے۔ 

بھارت کی تہذیبی شناخت

    بھارت کی تہذیبی شناخت کثرت میں وحدت ہے۔ اس کے بغیر یہ ادھورا ہے۔ ہمارا جدید آئین بننے سے قبل بھی یہ ملک مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا سنگم تھا اور یہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت کے ساتھ رہتے تھے۔ کسی بھی بیرونی مداخلت نے ان کی ہم آہنگی توڑنے میں کامیابی نہیں پائی۔ ایسے میں آج کامن سول کوڈ کی آڑ میں ملک سے سیکولرازم کو ختم کرنے کی کوشش آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگی اور اس کے اتحادوسالمیت کو توڑنے جیسی ہوگی۔ بھارت سیکولر ازم سے جدا ہوکر کبھی سلامت نہیں رہ سکتا لہٰذا مودی سرکار کو اس قسم کے ارادوں اسے باز آجانا چاہئے۔ سیکولرازم ہی بھارت کی طاقت ہے۔ اسی نے اس ملک کو صدیوں سے جوڑے رکھا ہے ااور الگ الگ مذاہب ماننے والے، مختلف زبانیں بولنے والے اور الگ الگ تہذیبی پس منظر کے لوگ ایک ہی دھاگے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر بھید بھائو کرنے کی کوشش اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا ہردائو فیل ہوجائے گا کیونکہ یہ ملک کے عوام کی سوچ کے خلاف ہے۔ وہ ایسی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔

(یو این این)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 609