donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Duniya Bhar Me Musalmano Ki Pasmandagi Ke Liye Zimmedar Kaun


دنیا بھر میں مسلمانوں کی پسماندگی کے لئے ذمہ دار کون؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا صرف بھارت کے مسلمان پسماندہ ہیں یا دنیا بھر میں وہ پچھڑے ہوئے ہیں؟ یہ سوال بے حد اہم ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں تو ان کی پسماندگی کا رونا رویا جاتا ہے اور ان کی پچھڑے پن کے لئے حکومت کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے مگر ایسا نہیں کہ مسلمان صرف بھارت میں پسماندہ ہیں۔ وہ سعودی عرب ، شام، عراق،قطر،لیبیا،مصر سمیت دنیا کے پچاس سے زیادہ مسلم اکثریتی ملکوں میں بھی اچھی حالت میں نہیںہیں۔بھارت میں تو غنیمت ہے کہ وہ کم از کم اپنے حق کی آواز اٹھاسکتے ہیں مگر مسلم ملکوں میں وہ ایسا کرنے کی آزادی بھی نہیں رکھتے۔ ہم بھارت میں نریندر مودی سرکار کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے آزاد ہیں مگر یہی کام اگر سعودی عرب میں وہاں کی حکومت کے خلاف کریں تو پھانسی پر چڑھا دیئے جائیں گے۔ مصر میں انصاف اور جمہویت کا مطالبہ کریں تو جیل میں ڈال دیئے جائینگے۔ایسے میں بھارت میں مسلمان اپنی پسماندگی دور کرنے کے لئے کوشش کرسکتے ہیں اور امن کے ساتھ جدوجہد کرسکتے ہیں مگر مسلم ملکوں میں تو اس کی بھی آزادی نہیں ہے۔مسلم ملکوں میں عام مسلمان پچھڑے ہوئے ہیں اور ساری عیش وعشرت حکمراں طبقے کے لئے مخصوص ہے۔بھارت میں مسلمانوں کی ترقی کے لئے حکومت کی جانب سے عام طور پر اسکیمیں چلائی جاتی ہیں مگرعموماً اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ملتا جو یشویش کی بات ہے۔آئیے بھارت اور دوسرے ملکوں میں مسلمانوں کی حالت کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

 اقلیتی اسکیموں کا برا حشر

    اقلیتی اسکیموں سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ ملا؟ کیا کروڑوں روپئے کے خرچ کے بعد بھی مسلمانوںکے حالات میں تبدیلی آئی ہے؟کیا اب اقلیتی بہبود کی اسکیموں کو ختم کردینا چاہئے؟ کیا اقلیتی کمیشن، اقلیتی مالیاتی کارپوریشن اور اس قسم کے اداروں کو تحلیل کردینا چاہئے جن پر سالانہ کرورڑوں روپئے خرچ ہوتے ہیں مگر مسلمانوں کے حالات میں کوئی بدلائو نہیں آتا،الٹے مسلمانوں کی چاپلوسی کے نام پر سیاست بھی ہوتی ہے؟ سنگھ پریوار کی طرف سے یہ بات بار بار کہی جاتی رہی ہے کہ اقلیتی اداروں کو ختم کردینا چاہئے کیونکہ ان کا مقصد مسلمانوں کی چاپلوسی ہے مگر حال ہی میں قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین طاہر محمود نے بھی کہا ہے کہ اقلیتی ادارے اپنے اغراض ومقاصد میں فیل ہوچکے ہیں۔انھوں نے اقلیتی کمیشن کے بارے میں کہا وہ اقلیتوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاپایا ہے۔واضح ہوکہ قومی اقلیتی کمیشن کا قیام کانگریس کے دور حکومت میں عمل میں آیا اور دوسرے اقلیتی ادارے بھی کانگریس کے دور حکومت میں ہی قائم ہوئے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔ ان اداروں کے لئے ہر سال بجٹ بھی مخصوص ہوتے ہیں مگر الزام ہے کہ وہ گھوٹالوں کی نذر ہوجاتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں خرچ کردیئے جاتے ہیں۔اس وقت مرکزمیں بی جے پی کی سرکار ہے اور اقلیتی امور کی وزارت نجمہ ہبت اللہ اور مختارعباس نقوی کے پاس ہے مگر آج بھی حالات ویسے ہیں جیسے کہ کانگریس کے دور حکومت میں تھے۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی پسماندگی اپنی جگہ برقرار ہے۔مسلمانوں کی طرف سے یہ الزام بھی لگتا رہاہے کہ اقلیتوں کی فلاح کے لئے جو رقم مخصوص ہوتی ہے اس سے غیرمسلم اقلیتوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور مسلمانوں کو نہیں ملتا کیونکہ ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان شرائط کی تکمیل کرسکیں جو فائدہ اٹھانے کے لئے ہوتی ہیں۔ اقلیتوںمیںسکھ ، جین اور پارسی پسماندہ نہیں ہیں اور وہ ان شرائط کو بھی پورے کرسکتے ہیں لہٰذا اقلیتی اسکیموں کو فائدہ انھیں کو ملتا ہے۔تازہ خبر یہ ہے کہ مرکزی سرکار قومی اقلیتی کمیشن کی ذمہ داری سابق ممبرپارلیمنٹ نوجوت سنگھ سدھو کو دینے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ وہیں مرکز نے اقلیتوں کی بہبود کے لئے عالمی بینک سے لون لینے کے لئے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیا ہے۔

 عالمی بینک سے قرض

    عالمی بینک نے پچھلے دنوں حکومت کے ساتھ پانچ کروڑ ڈالر کے ایک قرض کے معاہدے پر دستخط کیا، جس کے تحت ملک میں اقلیتی نوجوانوں کی مہارت کی ترقی تربیت اور تعلیم کے لئے وہ پانچ کروڑ ڈالر قرض دے گا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی بینک کے ساتھ’’ نئی منزل‘‘ پروگرام اور دیگر اقلیتی فلاحی پروگراموں کے لئے پانچ کروڑ ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط کیا گیا ہے۔اس منصوبے کا مقصد اقلیتی طبقے کے کمزورنوجوانوں کی تعلیم میںمدد ہے۔

اقلیتی کمیشن کا قیام

    اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے بھارت میں سال 1978 میں اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا اور 18 دسمبر 1992 کو اقوام متحدہ کی طرف اقلیتی حقوق کے دن منانے کا حکم جاری ہوا ۔ملک میں تقریبا 25 فیصد شہری اقلیتی کمیونٹی کے ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے الزام لگایا جاتا رہاہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے چلائے جا رہے اقلیتی بہبود پروگرام بے اثر ہیں۔ مسلم اقلیتی سماج بغیر سرکاری تحفظ کے ترقی کے راستے پرچل رہاہے۔حال ہی میں لکھنو میں ایک اقلیتی طبقے کے لیڈر انیس منصوری نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بے اثر پڑے اقلیتی کمیشن کے پروگراموں کو مؤثر طریقے سے چلایا جائے اور مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کوغیر قانونی قبضے سے آزاد کرواکر مسلمانوں کو سونپا جائے۔

سچرکمیٹی کی رپورٹ کے بعد

      سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہر طرف ایک ہی ہنگامہ تھا کہ مسلمان ملک کا سب سے پسماندہ طبقہ ہے۔ وہ دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ اس سے ماحول بنا کہ اس پسماندگی کے لئے حکومت ہند اور بھارتی سماج کا مسلمانوں کے تئیں امتیازی نظریہ ہی ذمہ دار ہے۔اس کلنک کو مٹانے کے لئے منموہن سنگھ حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے اپنا سارا خزانہ کھول دیا۔(اعلان کی حد تک) وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں آخری حق بھی نہیں ملا۔مسلمانوں کے لئے بڑے بڑے وعدے کئے گئے۔ مسلمانوں کے لئے خصوصی اسکیمیں، بینک قرضوں میں 15 فیصد قرض مسلمانوں کو دینے کی تجویز، مسلم طالب علموں کو اسکالر شپ، وغیرہ نہ جانے کتنے خصوصی اعلانات کئے گئے، لیکن عملی طور پر سب بیکار ثابت ہوا۔ مسلمانوں کی حالت پر اس کے بعد سے مسلسل بحث ہوتی رہی ہے۔ مرکز میں مسلمانوں کی ہمدرد ہونے کا دعوی کرنے والی کانگریس کی حکومت تھی، لیکن مسلمانوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔سوال یہ ہے کہ آخر غلطی کہاں ہوئی؟ حکومت نے اپنے ہی اعلانات پر کس قدر عمل کیا؟ کیا یہ سب کھیل محض مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کھیلا گیا؟ آخر کیا سبب ہے کہ ملک میں ہمیشہ اقلیتوں کی فلاح وبہود کے لئے اسکیمیں چلتی رہتی ہیں مگر مسلمانوں کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں؟ ا سکے لئے صرف حکومت ذمہ دار ہے یا مسلمان خود بھی قصور وار ہیں؟ اگر بھارت میں مسلمانوں کی پسماندی کے لئے حکومت ذمہ دار ہے تو مسلم ملکوں میں وہ کیوں پچھڑے ہوئے ہیں؟

ساری دنیا کے مسلمان پسماندہ کیوں؟

     صاف صاف باتیں کرنے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنی پسماندگی کے لئے مسلمان خود ذمہ دار ہیں  اور حالات کو بدلنے کے لئے ان کی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔مسلمان پسماندہ ذہنیت کے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں وہ پسماندہ ہیں۔ اسی ذہنیت سے ہندوستان کے مسلمان بھی متاثر ہیں۔ مشرق وسطی کے ممالک میں اخوان المسلمون نامی اسلامی تنظیم یہ نعرہ لگاتی ہے کہ’’ اسلام از سولیوشن‘‘ لیکن، مغربی ممالک میں بیٹھے اسلامی ممالک کے ماہرین کو لگتا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام کے نام پر ہی تمام ہنگامہ آرائیاں ہیں اور اصل مسئلہ مسلمانوں کی ذہنیت کا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسلم رہنما کہتے ہیں کہ اسلام کے پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم علم سائنس کے حق میں تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ علم حاصل کرنے کے لئے چین جانا پڑے تو جاؤ۔ پتہ نہیں کہ مسلمان علم حاصل کرنے کے لئے کبھی چین گئے یا نہیں، لیکن لڑنے کے لئے وہ ساری دنیا میں ضرور پہنچ گئے۔جب کہ آج کا دور علم سائنس کا دور ہے، معلومات کا دور ہے۔ آج الیگزینڈر وہی ہے جو علم سائنس میں اول ہے۔ جو اس پچھڑ گیا وہ مفتوح ہے۔

مسلم دنیا کی سچائی ہے پسماندگی

     اگرچہ، دنیا میں کئی مسلم ملک کافی امیر ہیں لیکن، مسلمان دنیا کے غریبوں میں بھی سب سے غریب ہیں۔ ان کے مطابق 57 مسلم ممالک کی مجموعی گھریلو مصنوعات 2 ٹریلین ڈالر سے کم ہیں، جبکہ، تنہا امریکہ 11 ٹریلین ڈالر کی مصنوعات اور سروس کی پیداوار کرتا ہے۔ چین 5.7 ٹریلین ڈالر، جاپان جیسے چھوٹے سے ملک کی مجموعی گھریلو مصنوعات 3.5 ٹریلین ہے اور جرمنی کا 2.1 ٹریلین ہے۔مطلب یہ کہ بہت سے ملک ہیں جو اکیلے اتنا پیداوار کرتے ہیں، جتنا 57 مسلم ممالک بھی مل نہیں کر پاتے ہیں۔ تیل کے بل پر امیر بننے والے کئی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو ملا دیکھیں تو ان کا جی ڈی پی 430 بلین ڈالر ہی ہے۔ ہالینڈ اور تھائی لینڈجیسے چھوٹے ملکوں کی مجموعی گھریلو مصنوعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ دنیا کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن مجموعی گھریلو مصنوعات میں ان کی شراکت محض پانچ فیصد ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ یہ فیصد بھی مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ دنیا کے جو 9 سب سے زیادہ غریب ملک ہیں، ان میں سے چھ مسلم ممالک ہیں۔ 57 مسلم ممالک کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کے لئے صرف چھ سو یونیورسٹی ہیں۔ مطلب یہ کہ فی مسلم ملک میں 10 یونیورسٹی ہیں جبکہ، صرف امریکہ میں اس کی دس گنا یونیورسٹی ہیں۔ مسلم ممالک میں جو تھوڑے بہت اعلی تعلیم ادارے ہیں، ان کا عالم یہ ہے کہ حال ہی میں شنگھائی یونیورسٹی نے دنیا کی یونیورسٹیوں کی تعلیمی بنیاد پر جو درجہ بندی دی تھی، اس کے مطابق سب سے اوپر 500 یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی یا اعلی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ 15 عیسائی اکثریتی ملک ایسے ہیں، جہاں خواندگی 100 فیصد ہے لیکن، ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں خواندگی 100 فیصد ہو۔پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی میں تین مساجد ہیں، چوتھی بننے والی ہے لیکن وہاں کتابوں کی کوئی دکان نہیں ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری اسکولوں میں جو کچھ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، ان سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مذہب کی کتابیں ہیں یا سائنس کی۔ اب تک صرف دو مسلم سائنسدانوں کو نوبل انعام ملے ہیں، مگر دونوں ہی نے اپنی اعلی تعلیم مغربی ممالک میں پائی ہے۔دوسری طرف یہودی جن کی آبادی دنیا میں صرف 1 کروڑ 40 لاکھ ہے اب تک 15 درجن نوبل انعام جیت چکے ہیں۔مسلمانوں میں آج بھی ایسی جماعتیں ہیں جو بچوں کی اسکول وکالج کی تعلیم کا نقصان کراکر تبلیغ کے نام پر مسجد مسجد گھماتی ہیں۔

ایک سچی مگر کڑوی بات

    گزشتہ دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ نے بہت پتے کی بات کہی کہ مسلمان اپنے سوشل حالات کے لئے خود ہی مجرم ہیں۔ وہ اپنی آدھی آبادی یعنی عورتوں کا کوئی استعمال نہیں کرتے ہیں، انہوں نے خواتین کوگھروں میں غلام بنا کر رکھا ہواہے۔ اپنا سعودی عرب کا تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بھی یہی حالات ہیں، عورتوں کو گھروں میں قید رکھا جاتا ہے۔ یہی حالات تمام مسلم ممالک کے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم ملک پسماندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان رمضان کو چھٹی کا مہینہ مانتے ہوئے ان دنوں میں کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ عام دنوں میں وہ ڈھائی گھنٹے کام نہیں کرتے۔ جمعہ کے دن تو بہت سارا وقت محض رسمی نماز پر خرچ کر دیتے ہیں۔ تعلیم کو تو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ملک میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمان موقع نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی اس امتیازی سلوک کا رونا روتی ہے جو اصل میں ہے ہی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 691