donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustani Awam Se Mazhabi Azadi Chheenne Ki Sazish


ہندوستانی عوام سے مذہبی آزادی کا حق چھیننے کی سازش


کیوں تبدیلی ٔ مذہب پر روک لگواناچاہتا ہے سنگھ پریوار؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    بھارت میں تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون بننا چاہئے؟ کیا اس طرح کا قانون دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہے؟ کیا ایسا قانون ہمارے آئین میں دی گئی مذہبی آزدی کے حق کے خلاف نہیں ہے؟ کیا سنگھ پریوار تبدیلیٔ مذہب کے ہنگامے کا فائدہ اٹھا کر ایک ایسا قانون بنوانا چاہتا ہے جو ہمارے آئینی ڈھانچے کے خلاف ہو؟ اترپردیش میں ’’گھر واپسی‘‘ کے بہانے بی جے پی فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا چاہتی ہے؟ کیا یہ سب ہنگامہ وہ ۲۰۱۷ء کے اسمبلی انتخابات کو نظر میںرکھ کر رہی ہے؟ کیا اس کی گنجائش ہے کہ کوئی غیر ہندو، ہندو بن سکے؟ اگر کوئی ہند وبنتا ہے تو وہ کس ذات میں داخل ہوگا کیونکہ ہندازم کی بنیاد ہی ذات پات پر رکھی گئی ہے؟ کیا تبدیلیٔ مذہب کی تحریک کو پارلیمنٹ کے ہنگامہ کے پیش نظر ملتوی کیا گیا ہے، سشن ختم ہونے کے بعد اس کو دوبارہ شروع کیا جائے گا اور اس کے بہانے پورے یوپی میں اشتعال انگیزی کی جائیگی؟ کیا اس کا مقصد صرف اور صرف یہاں کے فرقہ وارانہ ماحول میں زہر گھولنا ہے؟ جس طرح سے ہندتو کے سپاہی پچھلے کچھ دنوں سے تبدیلیٔ مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پورے سنگھ پریوار کی نیت خراب ہے ۔ وہ ایک بار پھر مذہب کی سیاست کر کے ملک کا ماحول خراب کرنا چاہتا ہے۔ وہ ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ پھیرنا چاہتا ہے لہٰذا اس قسم کے معاملے اٹھا رہا ہے۔ آج اس سے عوام سوال پوچھ رہے ہیں کہ جس اچھے دن کے وعدے اس نے کئے تھے وہ کب آئیںگے؟ جس کرپشن کے خاتمے کے خواب اس نے دکھائے تھے وہ کب ختم ہونگے؟ جس مہنگائی سے نجات کی بات اس نے کہی تھی اس سے کب نجات ملے گی؟ جو کالے دھن کی واپسی کی بات اس نے کہی تھی وہ کب واپس آئے گا؟  الیکشن سے پہلے تک تو کہا گیا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی عوام کو روزگار ملے گا، ان کے مسائل حل ہوجائیںگے اور ملک میں دودھ کی گنگا بہے گی مگر اب تک ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور مستقبل میں اس کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ آج تبدیلیٔ مذہب کا ایشو اٹھایا جارہا ہے، اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندربنانے کی بات کہی جارہی ہے، آئین میں ترمیم اور کامن سول کوڈ لانے کی بات کہی جارہی ہے۔ آخر کیا چاہتی ہے بی جے پی اور کیا ارادے ہیں وزیر اعظم نریندر مودی کے؟ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ اورسنگھ پریوار کے نیتا لگاتار متنازعہ ایشوز کو اٹھا رہے ہیں تاکہ ملک کی فرقہ وارانہ فضا خراب ہو اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہونگے؟ ان تمام معاملات میں وزیر اعظم نریندر مودی خود کو الگ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کے جو لوگ بیان بازیاں کررہے ہیں الٹی سیدھی باتیں کہہ کر سرکار کے سامنے مسائل کھڑے کر رہے ہیں، ان سے وزیر اعظم ناراض ہیں اور انھیں پھٹکار لگارہے ہیں مگر اس بات میں کچھ خاص سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ انھوں نے آج تک کسی بھی ایم پی یا منتری کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے لوگوںسے پس پردہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنے بیانات سے ماحول بگاڑیں تاکہ انھیں سیاسی فائدہ ملے اور وہ دنیا کو دکھانے کے لئے انھیں پھٹکار لگاتے رہیں گے۔ گورکھپور کے ممبر پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے حال ہی میں کہا ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کے پروگرام کو اجودھیا ایشو کی طرح عام کیا جائے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ علی گڑھ میں ہونے والے تبدیلیٔ مذہب کے پروگرام کو ملتوی نہیں کرنا چاہئے۔     

 گھر واپسی پروگرام کا التوا

    سنگھ پریوار کی طرف سے علی گڑھ میں ۲۵دسمبر کوتبدیلی مذہب کا ایک پروگرام ہونے والا تھا جسے حال ہی میں ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ التوا کا اعلان تب ہوا جب اس تعلق سے پارلیمنٹ میں لگاتار ہنگامہ چل رہا تھا اور سرکار کو اپوزیشن کی طرف سے سخت تنقیدوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اس پروگرام کو لے کر آر ایس ایس کی کئی تنظیمیں کام کر رہی تھیں جن میں وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، بی جے پی اور دھرم جاگرن سمیتی شامل ہیں۔ ’’گھر واپسی سواگت‘‘کے عنوان سے جس پروگرام کا انعقاد کیا جارہا تھا اس پر خوب واویلا مچ رہا تھا اور پارلیمنٹ کے اندر سرکار کو جواب دینا مشکل ہورہا تھا۔ تبدیلیٔ مذہب کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے ہندو بننے کو سنگھ پریوار گھر واپسی کا نام دیتا ہے۔ حالانکہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی غیر ہندو ، ہندو بن سکتا ہے؟ کیا ہندو ازم میں اس کا کوئی تصور پایا جاتا ہے؟ دلی یونیورسٹی میں ہندی پڑھانے والے پروفیسر اپوروانند کہتے ہیںکہ ہندووں کی کسی بھی مذہبی کتاب میں تبدیلیٔ مذہب کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اسی لئے بہت سے لوگ اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیتے ہیں اور عیسائیت کی تعلیمات اچھی لگتی ہیں تو وہ عیسائی ہوجاتے ہیں مگر آج تک کسی شخص کو ہندو بنتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ وہ مزید سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہندو بنتا ہے تو کس ذات میں جائے گا کیونکہ یہاں مذہب کی بنیاد ہی ذات پات پر رکھی گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ ہندتو وادیون کی طرف سے یہ خیال پیش کیا گیا کہ ایک نئی ذات ان لوگوں کے لئے بنادی جائے جو نئے ہندو بنتے ہیں۔

بی جے پی کا الیکشن ایشو تبدیلیٔ مذہب

    اس وقت ہندتووادیوں نے علی گڑھ میں ہونے والے پروگرام کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے خلاف بی جے پی کے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے مگر اطلاعات یہ ہیں کہ التوا کا اعلان صرف پارلیمنٹ کے سش کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا اصل مقصد یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قسم کے پروگرام پورے یوپی اور ان صوبوںمیں کئے جائیں جہاں جہان انتخابات ہونے والے ہونگے۔ سنگھ پریوار کو لگتا ہے کہ اسے بھی اجودھیا ایشو کی طرح پورے ملک میں پھیلایا جاسکتا ہے اور بہانہ بناکر دنگے کرائے جاسکتے ہیں۔ علی گڑھ میں ایک رکاوٹ ریاستی سرکار تھی جو اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہی تھی اور پروگرام کے لئے اجازت نہیں دے رہی تھی ورنہ سنگھ پریوار نے تو باقاعدہ طور پر مسلمان کے ایمان کی قیمت پانچ لاکھ اور عیسائی کے مذہب کی قیمت تین لاکھ رکھ دیا تھا۔ اندر کی خبروں کے مطابق بی جے پی ۲۰۱۷ء میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر یہاں تبدیلیٔ مذہب کا ایشو چھیڑ رہی ہے اور جیسے جیسے الیکشن قریب آتا جائے گاوہ اسے مزید اشتعال انگیز بنائے گی۔ یہ بھی خبر ہے کہ اسے ایمان بیچنے والے لوگ نہیں مل رہے تھے کیونکہ انھوں نے آگرہ میں جو دھوکے کا کھیل کھیلا تھا وہ سامنے آگیا ہے اور اب جاہل اور غریب مسلمان بھی ان کے دھوکے کے جال میں پھنسنے کو تیار نہیں ہے۔ اس معاملے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ سب کام الیکشن کے پیشِ نظر اور غریب مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کیا جارہاہے تو دوسری طرف عیسائیوںکے سب سے بڑے مذہبی رہنماپوپ کے اڈوائزر کارڈینل آسوالڈ گراشیاس کا کہنا ہے کہ سنگھ پریوار کی یہ حرکتیں قابل مذمت اور افسوسناک ہیں۔ ان کے ’’مطابق گھر واپسی‘‘ تک بس نہیں ہے بلکہ سنگھ پریوار کے لوگ عیسائیو ں کے اسکولوں میں آکر کہہ رہے ہیں کہ ٹیچر کو گروجی کہو۔ بی جے پی نے ستمبر میں ہوچکے ضمنی انتخابات میں ’’لوجہاد‘‘ کا ایشو چھیڑا تھا مگر یوپی کے عوام نے اسے مسترد کردیا اور وہ اپنی سیٹیں بھی ہار گئی مگر ایک بار پھر وہ اسی قسم کا راگ تبدیلیٔ مذہب کے نام پر چھیڑ رہی ہے۔ حال ہی میں دھرم جاگرن منچ کے نیتاراجیشور سنگھ نے کہا ہے کہ وہ ۲۰۲۱ کے اخیر تک بھارت کے تمام عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنالیںگے۔ اسی کے ساتھ یہ خبر بھی میڈیا میں آئی کہ بہار کے بھاگلپور میں ایک ہندو خاندان کے پانچ افراد کو لالچ دے کر عیسائی بنالیا گیا۔   

مذہبی آزادی کے خلاف قانون کی تیاری

    مذہبی آزادی ،عالمی انسانی حقوق کے دائرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے انسان کا بنیادی حق مانا ہے کہ وہ جس مذہب کی پیروی کرنا چاہتا ہے ،کرے۔ اسے کسی مذہب کے طریقے پر عمل کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ بھارت کا آئین بھی اپنے تمام شہریوں کو یہ حق دیتا ہے ۔ آرٹیکل ۲۵ اور کئی دوسری دفعات اسے شہری حقو ق میں مانتی ہیں، البتہ کسی انسان کو زور زبردستی یا لالچ کے ذریعے کسی مذہب میں داخل کرنا جرم ہے۔ اس وقت جو آگرہ تبدیلیٔ مذہب واقعہ کے بعد سے ملک میں ماحول بنا ہے اور پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا ہے اسے بہانہ بناکر بی جے پی ایک ایسا قانو ن پاس کرانے کی تاک میں ہے جو ملک کے شہریوں سے مذہبی آزادی کا حق چھین لے۔ یہ خطرناک بات ہے اور آئین ہند سے کھواڑ کے مترادف ہے۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے پارلیمنٹ کے اندر کہا ہے کہ اگر سیاسی پارٹیاں راضی ہوں تو سرکار سب کی اتفاق رائے سے ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے تحت تبدیلیٔ مذہب کی اجازت نہ ہو۔ اصل مین نائیدو نے جو بات کہی ہے وہ سنگھ پریوار کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور وہ ہمیشہ سے چاہتا ہے کہ عوام سے مذہبی آزادی کا ھق چھین لیا جائے۔ اس ملک میں ہر سال ہزاروں ہندو اپنا مذہب ترک کردیتے ہیں اور کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آج جو لوگ مسلمان یا عیسائی ہیں ان کے آباء واجداد بھی کبھی ہندو ہواکرتے تھے مگر ہندو مذہب میں ذات پات کے نظام سے عاجز آکر انھوں نے اسلام یا عیسائیت میں پناہ لی۔ ان میں بیشتر پست برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سوامی وویکانند نے تو لکھا ہے کہ بھارت میں جو لوگ بدھسٹ بنے تھے وہ بھی اونچی ذات کے لوگوں کے مظالم سے تنگ آکر بدھسٹ بنے تھے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ اسلام بھی یہاں مساوات کا پیغام لے کر آیا تھا جس میں رنگ نسل اور ذات پات کا کوئی فرق نہ تھا۔

    مذہب سے جڑی ہوئی کچھ سچائیاں ضرور ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے مگر سنگھ پریوار جن سوامی وویکانند کو آج کل اپنا آئیکان بنا رہا ہے ،انھیں کی باتوں کی تہہ تک نہیں پہنچنا چاہتا۔ وہ اپنے کردار سے جس ہندو ازم کا خاکہ پیش کر رہا ہے وہ ہندو کیا کسی بھی انسان کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہاں  تشدد، منافرت اور عصبیت کانام ہندو ازم رکھ دیا گیا ہے۔ سچ پوچھ اجائے تو وہ ہندوازم کا دوست نہیں بلکہ سب سے بڑا دشمن ہے۔ وہ ہندو ازم کی خوبیوں کی بنیاد پر لوگوں کو مذہب میں نہیں رکھ سکتا تو جبری قانون کے ذریعے روک رہا ہے۔ ویسے بھی موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے سبھی مذاہب کے لوگ ہندو ہیں پھر دوسرے مذاہب قبول کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے؟ اور اگر سب ہندو ہیں تو مسلمانون اور عیسائیوں کو ’’گھرواپس ‘‘لانے کی کوشش کس لئے؟


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       

Comments


Login

You are Visitor Number : 578