donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustani Jailon Me Musalman Aur Dalit Ki Aksariat Kiyon


ہندوستانی جیلوں میں مسلمان اور دلت کی اکثریت کیوں؟

 

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


 


    بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بہتوں کے لئے فکر کی بات ہے مگر جیلوں میں ان کی بڑھتی تعداد کسی کو بھی پریشان نہیں کرتی۔وہ سرکاری نوکریوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے کم ہوں مگر جیلوں میں سب سے زیادہ آبادی انھیں کی ہے ۔ یہ حال اکیلا مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ دلتوں کی بھی یہی حالت ہے۔ جہاں زیر سماعت قیدیوں میں مسلمان اور دلت زیادہ ہیں ، وہیں سزا پانے والو میں بھی انھیں کی تعداد زیادہ ہے۔ جن قیدیوں کو موت کی سز اسنائی جاتی ہے ان میں بھی اسی طبقے کے لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ اونچی ذات کے لوگو ں کو سب سے کم سزائیں دی جاتی ہیں اور جیلوں میں بھی یہی لوگ کم جاتے ہیں۔ برہمن ،راجپوت اور لالہ بہت کم ماخوذ ہوتے ہیں اور اگر کسی طرح جیل تک پہنچ گئے تو جلد ہی رہا بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح امیروں کے مقابلے غریبوں کو زیادہ دن جیل میں بتانے پڑتے ہیں۔ ہندووں کے مقابلے مسلمانوں کو جیلوں میں زیادہ جانا پڑتا ہے  اور وہی بھید بھائو کے شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ان حقائق کی موجودگی میں کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ بھارت میں تمام شہریوں کے ساتھ قانون اور انصاف کا سلوک برابر ہوتا ہے۔ جس ملک میں پھانسی پر سیاست ہوتی ہو اور ایک قیدی کو محض اس لئے پھانسی پر چڑھایا جاتا ہو کہ وہ مسلمان ہے اور دوسرے کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہو کہ وہ ہندو ہے،ایسی جگہ پر انصاف کی بات کرنا کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدموں میں پھنسانا عام بات ہے اور پھر ان کی ضمانت میں روڑے اٹکانا بھی عام بات ہے مگر دوسری طرف حکومت پارلیمنٹ میں اعلان کرتی ہے کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ، کرنل پروہت اور سوامی اسیمانند جیسے دہشت گردوں کی ضمانت عرضی کی مخالفت نہیں کرے گی۔ یہی نہیں ہندوستان میں فرضی انکائونٹر کا شکار ہونے والوں میں بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ تازہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی جیلوں میں سے مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہیں۔یہ حالت کوئی بی جے پی حکومت میں نہیں ہوئی ہے بلکہ کانگریس کے دور حکومت سے چلی آرہی ہے اور دہشت گردی کے نام پر سب سے زیادہ اسی کے دور حکومت میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

 مسلمانوں سے آباد ہندوستان کی جیلیں

    مہاراشٹر میں زیرالتواء قیدیوں میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے مرتب اعداد و شمار میں سامنے آیا ہے کہ ریاست میں کل 12 فیصد مسلمان آبادی ہے، لیکن جیل میں بند قیدیوں میں32 فیصد مسلمان ہیں۔ اسی طرح سے ایس سی اور ایس ٹی کی آبادی بھی ریاست میں 12 اور 9 فیصد ہے، لیکن جیلوں میں وہ 18.15 اور 18.34 فیصد ہیں۔ ریاستی وزارت  داخلہ کے مطابق مہاراشٹر میں 400 27قیدی (دسمبر 31، 2013) میں ،331 19التواء  ہیں۔ جب کہ قومی سطح پر 992 411 سے زیادہ قیدی زیر التواء ہیں۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش بیان کے مطابق اتر پردیش اور مغربی بنگال کے بعد مہاراشٹر میں مسلمان زیر سماعت قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ریاست کی جیل میں 182 6،مسلمان قیدی ہیں اور،509 3ایس سی اور ،545 3ایس ٹی قیدی ہیں۔وہیں، اتر پردیش میں ،100 58میںمسلمانوں کی تعداد،477 15ہے۔ مغربی بنگال میں یہ اعداد و شمار ،471 16قیدیوں کا ہے اور جن میں مسلمان ،730 7ہیں۔حکومت کے مطابق مرکز نے جیل سے زیر التوائ￿  قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کئے، تاکہ جیلوں میں قیدیوں کی بھیڑ کم ہو۔اس کے لئے ایک ایڈوائزری بھی 17 جنوری 2013 کو جاری کی گئی تھی۔ اس کے تحت سنگین معاملوں میں بند قیدیوں کے علاوہ کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔اسی تناظر میں 3 ستمبر 2014 کو مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھا تھا۔ تمام ریاستوں کے جیل کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی سپریم کورٹ نے کارروائی کرنے کے لئے کہا۔

کیا کہتے ہیں اعدادوشمار؟

     مرکزی حکومت کے ماتحت چلنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے بھارت کی جیلوں میں بند قیدیوں سے منسلک اعداد جاری ہوچکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی جیلوں میں کس مذہب کے کتنے قیدی بند ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں آبادی کے تناسب سے ہندو قیدی سب سے کم ہیںتو سکھ اور عیسائی اور مسلمان قیدی سب سے زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ہندوستان میں 10 لاکھ کی آبادی پر اوسطا 346 قیدی ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس بارے میں اعداد و شمار گزشتہ دنوں جاری کئے۔مگر دس لاکھ کی آبادی پر ہندو قیدیوں کی تعداد305، سکھ قیدیوں کی تعداد840 عیسائی قیدیوں کی تعداد601 اورمسلمان  قیدیوں کا تناسب477 ہے۔زیرالتواء قیدی فی 10 لاکھ آبادی پرہندو 204 یعنی 70فیصد، مسلمان فی 10 لاکھ پر 346 یعنی 21فیصد، عیسائی فی 10 لاکھ آبادی پر 397 یعنی 4فیصد ہیں جب کہ سزا یافتہ قیدیوں میں ہندو 92فیصد، مسلمان 16فیصد،عیسائی 4فیصد اور سکھ 6 فیصد ہیں۔

قلیتوں کو زیادہ سزا

    بھارت میں غریب،دلت اور اقلیتوں کو امیر لوگوں کے مقابلے زیادہ سخت سزا ملتی ہے۔ ماضی میں سامنے آئے اعداد و شمار بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ایک ریسرچ میں گزشتہ 15 سالوں میں موت کی سزا پائے 373 لوگوں کے انٹرویو سے ملے اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ سزا پائے، تین چوتھائی لوگ پسماندہ ذاتوں اور مذہبی اقلیتی طبقوں سے تھے۔ ان میں سے 75 فیصد لوگ اقتصادی طور پر کمزور طبقے سے تھے۔ غریب، دلت اور پسماندہ ذاتوں کے لوگ پیسوں کی کمی کی وجہ سے اپنے کیس کی پیروی کے لئے اچھا وکیل نہیں کر پاتے ہیں جو انہیں عدالت کی سخت سزاؤں سے بچا سکے۔ دہشت گردی سے جڑے معاملات کی سزا پانے والوں میں بھی 93.5 فیصد لوگ مذہبی اقلیت اور دلت ہیں۔ لاء کمیشن کی مدد سے نیشنل لاء یونیورسٹی سے کچھ اسٹوڈنٹس نے یہ اسٹڈی کیاہے۔ لاء کمیشن کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ موت کی سزا کا قانون برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ لاء پینل کے چیئرمین جسٹس اے پی شاہ، موت کی سزا کو ختم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہاہے کہ یہ سچ ہے کہ کلاس کو لے کر تھوڑا تعصب ہے، ہماری جیلوں میں ایسے بہت سے لوگ بھرے پڑے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے ضمانت کے لئے وکیل نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف 1 فیصد لوگ ہی اچھے وکیل ڈھونڈ پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں افضل گرو کے لئے شاید ہی کسی نے پیروی کی ہو۔ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک کے فائونڈر اور سینئر ایڈووکیٹ کولن گانجا والا نے کہا، مجھے لگتا ہے کہ 75 فیصد موت کی سزائیں غریبوں کو ہوتی ہیں۔ امیر لوگ آسانی سے بچ جاتے ہیں مگر غریب، خاص طور پر دلت اور پسماندہ پھنسے رہ جاتے ہیں۔ نیشنل لاء یونیورسٹی کے طالب علموں نے تمام موت کی سزا پائے قیدیوں سے بات کی اور ان کی کہانی جانی۔پھانسی پر چڑھنے سے پہلے وہ کس طرح کا ذہنی دباؤ اور آپریشن جھیلتے ہیں اس بات کی بھی معلومات لی گئی۔ موت کی سزا پانے والے قیدی عموما کورٹ کی کارروائی میں موجود نہیں ہوتے۔ زیادہ تر قیدیوں نے بتایا کہ کورٹ میں ہونے کے باوجود انہیں سمجھ نہیں آیا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا۔ بہت سے قیدیوں نے یہ کہا کہ وہ جینا نہیں چاہتے اور انہیں فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا جانا چاہئے۔ کچھ ذہنی طور پر مضبوط قیدیوں نے بتایا کہ اگر انہیں اچھا وکیل ملتا تو انہیں شاید یہ سزا نہیں ملتی۔غور طلب ہے کہ 2000 سے لے کر 2015 تک ٹرائل کورٹ سے ،617 1لوگوں کو موت کی سزا ملی۔ ان میں 42فیصد اکیلے یوپی اور بہار سے ہیں۔

ایک مثالی کام

    بھارت کی جیلوں میں بند قیدیوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ضمانت بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایسے قیدیوں کے لئے ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بھی کم ہی سامنے آتی ہیں۔پچھلے دنوں میں میڈیا میں ایک خبر آئی جس کے مطابق یوپی کے بریلی شہر میں ایک مسلم گروپ نے معمولی جرائم کے لئے جیلوں میں بند 15 ہندو قیدیوں کی ضمانت کرائی۔ اس مسلم گروپ نے جرمانے کے 50 ہزار روپے دیے جو انہوں نے چندے سے جمع کئے تھے۔ ان تمام ہندوقیدیوں کو بغیر ٹکٹ سفر کرنے جیسے چھوٹے موٹے جرائم میں جیل میں بند کیا گیا تھا اور جرمانہ نہیں دے پانے کے سبب جیل میں بند رکھا گیا تھا۔ مسلم گروپ کے کنوینر حاجی یاسین قریشی نے کہا کہ جب ہمیں ان لوگوں کے بارے میں جیل انتظامیہ سے پتہ چلا، تو ہمیں لگا کہ کچھ کرنا چاہئے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہمیں صرف اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے لئے ہی آگے آنا چاہئے۔ جیل سے چھوٹے قیدیوں میں سے ایک نند کشور نے بتایا کہ اس نے اپنے حصے کی سزا تو پوری کر لی تھی، لیکن جرمانے کے 1000 روپے نہ دے پانے پر اس کواضافی سزا بھگتنی پڑ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 525