donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hoshiar : Ab Khawateen Masjidon Me Aane Wali Hain


ہوشیار!اب خواتین مسجدوں میں آنے والی ہیں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    ہندوستان کی درگاہوں میں خواتین کے داخلے کا دروازہ کھل گیا ہے جس کی شروعات ممبئی کی حاجی علی درگاہ سے ہوگئی ہے۔ بمبئے ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ آئین ہندکے مطابق خواتین کو درگاہوں میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ جس طرح مرد حضرات یہاں آسکتے ہیں، اسی طرح خواتین بھی بلاروک ٹوک آسکتی ہیں۔کیس کی سماعت کے دوران درگاہ ٹرسٹ نے بھی اپنی باتیں رکھی تھیں جو خواتین کے مزارات پر حاضری کے خلاف تھا مگر اس کی دلیلیں کورٹ کو متاثر نہیں کرسکیں اور فیصلہ اس کے موقف کے خلاف آیا۔ معاملہ اب سپریم کورٹ جارہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہاں بھی درگاہ کمیٹی کی شکست ہونے والی ہے۔ خواتین کو درگاہ پر جانا چاہئے یا نہیں؟شرعی حکم کیا ہے؟ یہاں بھیڑ بھاڑ میں ان کا مردوں سے اختلاط ہوسکتا؟ اس قسم کے سوال اپنی جگہ پر ہیںجنھیں ہم فی الحال چھیڑنے سے گریز کرتے ہیں اور صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جن خواتین کودرگاہوں پر حاضری سے اختلاف ہے وہ وہاںجانے سے پرہیز کریں اور جو علماء درگاہوں پر ان کی حاضری کو خلاف شرع سمجھتے ہیں وہ کورٹ کے فیصلے سے لڑنے کے بجائے خواتین کو ہی اپنی دلیلوں سے قائل کریں اور انھیں اس ازدہام میں جانے سے روکیں ۔ ویسے اب سوال خواتین کی مزارات پرحاضری تک محدود نہیں ہے بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کچھ مستقبل کے امکانات اور خدشات بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے نے ان خواتین کی ہمت بڑھائی ہے جو عہد وسطیٰ کی فرسودہ روایات اور مردوں کے غلبہ والے معاشرے کے بنائے ہوئے دستور کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ پہلے ہی سے کچھ مسلم خواتین اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ میں ’’تین طلاق‘‘ اور طلاق کے بعد ’’نان ونفقہ‘‘ کی جنگ لڑرہی ہیں مگر اب خبر ہے کہ مسلمان عورتوں کا ایک طبقہ کورٹ جاکریہ آواز بھی اٹھانے والا ہے کہ مسجدوں میں خواتین کے داخلے پرلگی غیرمبینہ پابندی کو ختم کیا جائے اور خواتین کو اجازت دی جائے کہ وہ بھی مسجدوں میں جاکر نمازیں اداکرسکیں۔ کیونکہ مسجدوں میںعورتوں کو جانے سے روکنا نہ صرف صنفی تفریق ہے بلکہ اسلامی احکام کے بھی خلاف ہے۔بہرحال اگر خواتین اس مسئلے کو لے کر کورٹ جاتی ہیں تو یقین کامل ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ کورٹ کوئی فیصلہ سنائے مسلمانوں اور مساجد کے ذمہ داروں کو خود ہی ان کے لئے مساجد کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔

مسجدوں میں خواتین کی آمد کی ممانعت کیوں ہوئی؟

    احادیث کی روایات بتاتی ہیں کہ عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میںخواتین مسجدوں میں پنجوقتہ نمازں کے لئے جاتی تھیں اور جمعہ وعیدین کی نمازوں میں بھی بلاروک ٹوک شریک ہوتی تھیں۔حالانکہ ان کے لئے گھر میں نماز ادا کرنا افضل قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود ان کی باجماعت نمازوں میں شرکت ہوتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کی مسجد میں آمد کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ حالانکہ باجود اس کے حضرت عمر بن خطاب کی بیوی مسجد میں نماز پڑھنے آتی تھیں اور آپ ممانعت نہیں کرتے تھے۔ بعد کے دور میں جب حالات تبدیل ہوئے ،امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوا اور فتنے کا اندیشہ بڑھ گیا تو عورتوںکو مسجدوں میں آنے سے روکا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ حکم قیامت تک کے لئے ہے اور مناسب حالات میں بھی انھیں مساجد میں نہ آنے دیا جائے۔ عہد وسطیٰ کے حالات کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں خواتین کا تحفظ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مثال کے طور پر بادشاہوں، نوابوں، راجائوں اور امراء وروساء کے پاس حرم ہوتے تھے ،جن میں عورتوں کی لامحدود تعداد ہوتی تھی۔ اسی طرح جاگیرداروں، زمینداروں، تحصیلداروں، اوراعلیٰ سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی بیویاں اور داشتائیں بھی انگنت ہوتی تھیں،ایسے میں اگر انھیں پتہ چل جاتا کہ کسی کے گھر میں خوبصورت لڑکی ہے تو وہ رشتے کاپیغام بھیج دیتے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں گھر سے اٹھا لینا بھی عام بات تھی۔ بردہ فروشی کا رواج تھا جس کے لئے ڈاکووں کا گروہ سرگرم ہوتا تھا اور لڑکیوں کے علاوہ چھوٹے لڑکوں کو بھی اغوا کرکے فروخت کردیا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں خواتین کا تحفظ ایک بڑا مسئلہ تھا جس کے پیش نظر سخت پردہ کا رواج پڑااور مسجدوں میں خواتین کی آمدورفت بھی محدود کی گئی۔آج حالات مختلف ہیں اور بغیر خوف کے خواتین بازاروں، تفریح گاہوں، پارکوں ، سنیما ہالوںمیں آتی جاتی ہیں، نیز ریل، بس اور ہوائی جہاز میں سفر کرتی ہیں ، کہیں ان کے آنے جانے پر روک نہیں ہے ایسے میں مسجدوں میں آمد کی ممانعت کیوں؟

 خواتین کو مسجدوں سے نہ روکو

    قرآن کریم یا احادیث میں کہیں بھی خواتین کی مساجد میں آمد کی ممانعت نہیں ہے اور کسی مسلمان مرد کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عورتوں کو مسجد میں نماز کی دائیگی سے روکے ۔صحیح بخاری اور مسلم کی روایتوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘دینی کتابوں کے مطابق مسلمان عورتوں کے لئے جائز ہے کہ وہ مساجد میں نماز پڑھیں، اور جب وہ مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو ان کے شوہروں کو بھی حق نہیں کہ انھیں منع کریں۔ البتہ وہ ایسے لباس میں گھر سے باہرنکلیں جو اسلامی احکام کے مطابق ہو۔احادیث کی کئی کتابوں میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر تمہاری بیویاں تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔‘‘ایک روایت ہے کہ ’’جب عورتیں تم سے اجازت مانگیں تو ان کو مساجد کے ثواب حاصل کرنے سے منع نہ کرو، اس روایت پر عبداللہ بن عمر کے بیٹے بلال نے کہا کہ : اللہ کی قسم ہم تو ان کو منع کریں گے، تو اس پر عبد اللہ (ابن عمر) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (ناراض ہو کر) فرمایا میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اور تو کہتا ہے کہ ہم ان کو منع کریں گے۔

    خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خواتین کی مسجد آمد کی ممانعت کردی تھی مگر سچ پوچھا جائے تو انھوں نے صرف حوصلہ شکنی کی تھی۔ اس کا اندازہ اس روایت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کتب حدیث میں ہے کہ حضرت عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ کی بیوی مسجدمیں فجر اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لیے ہمیشہ جایاکرتی تھیں۔ کسی نے ان سے کہاکہ عمر! عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا ناپسند کرتے ہیں،پھر آپ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ توانھوںنے جواب دیاکہ ’’ جب تک وہ مجھے صراحت سے منع نہیں کریں گے، میں جاتی رہوںگی۔ اس شخص نے کہاکہ’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرنے سے روکا ہے۔ پھر وہ کیوں منع کریں گے۔ (بخاری)

عہد نبوی میں خواتین مسجدوں میں جاتی تھیں

    احادیث سے ثابت یہ ہے کہ عہدنبوی میںعورتیں نہ صرف نماز باجماعت کے لیے بلکہ دوسرے کاموں کے لیے بھی مسجدجایاکرتی تھیں۔ احادیث کے مطابق امہات المومنین ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت مسجد میں تشریف لے آیا کرتی تھیں جب آپ مسجد میں اعتکاف میں ہوتے تھے ، اسی طرح ایک باندی مسجد نبوی کی صفائی کا کام بھی کیا کرتی تھی ۔  ایک روایت میںہے کہ ایک عورت مسجد میں جھاڑو لگایاکرتی تھی، اس کاانتقال ہوگیا تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیے بغیر اس کی تدفین کردی بعد میں آپ کوپتہ چلاتو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے ۔(بخاری) عہد نبوی میںایک عورت کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا تو اس کے لیے عارضی انتظام کے تحت مسجد نبوی میں خیمہ لگادیاگیاتھا۔( بخاری)عہد نبوی میں رْفیدہ نامی ایک خاتون علاج ومعالجہ کیا کرتی تھیں۔ غزوہ احزاب کے بعد اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگوادیاتھا اور حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کے علاج کی ذمے داری سونپ دی تھی۔ (سیرت ابن ہشام)غزوہ احزاب کے بعد ایک دوسری خاتون حضرت کْعیبہ بنت سعد کابھی خیمہ مسجد نبوی میں نصب کیاگیاتھا اور انھیں زخمیوں کے علاج کی ذمے داری دی گئی تھی۔

(طبقات ابن سعد)

کیا فرماتے ہیں علماء کرام؟

    دنیا بھر میں مسجدوں میں خواتین کو داخلے کی اجازت مل چکی ہے اور سعودی عرب جیسے شدت پسند ملک سے لے کر یوروپی ممالک تک میں خواتین مسجدوں میں جاکر نمازباجماعت اداکرسکتی ہیں۔ ان ممالک میں مسجدوں میں خواتین کے لئے باقاعدہ الگ ہال بنائے جاتے ہیں۔ ہندوستان ،پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور کچھ سارک ممالک میں ایک مدت سے خواتین کا مسجدوں میں داخلہ تقریباً ممنوع ہے اوراب اسے سماجی روایت کی حیثیت حاصل ہے۔ حالاتِ زمانہ کے مطابق علماء کرام نے اسے درست ٹھہرانے کی کوشش کی جو عہد وسطیٰ کے مسائل کے مطابق درست ہوسکتا ہے لیکن آج حالات مختلف ہیں مگر فکری انجماد کے شکار ’’مبینہ‘‘ علماء اس روایت کے برخلاف جانے کو تیار نہیں ہیں البتہ کچھ علماء نے دورحاضر میں بھی اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان، پاکستان میں اہل حدیث حضرات کی مسجدوں میں خواتین کے لئے خصوصی ہال بنائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے زیراہتمام بعض مساجد میں بھی خواتین کے لئے جگہیں بنائی گئی ہیں، مگر خود کو حنفی کہنے والے دیوبندی اور بریلوی طبقوں میں ایسا نہیں ہوتا۔حالانکہ بعض علماء کی آراء مختلف رہی ہیں۔ اہلسنت والجماعت (بریلوی )کے نامور عالم مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ علیہ ایک حدیث کی شرح میں مرقات کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرو(بخاری و مسلم) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ یہ حکم اس وقت کے لئے تھا جب عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت تھی ،عہد فاروقی سے اس کی ممانعت کر دی گئی کیونکہ عورتوں میں فساد بہت آگیا ہے۔ اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے اور علیحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں، بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں مسجدوں میں آکر کچھ دین کے احکام سن لیں گی عہد فاروقی میں عورتوں کو مطلقاً گھر سے نکلنے کی ممانعت تھی۔‘‘ (مرات)حالانکہ اس محترم عالم دین کے فتویٰ کے باجود اس جانب کوئی پیش قدمی کی خبر نہیں ہے۔ 

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔

     مسجدوں میں خواتین کی آمد کی ممانعت کو درست قرار دینے کے لئے عام طور پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا ایک قول پیش کیا جاتا ہے کہ عمرہ بنت عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر موجودہ دور کی خواتین کو دیکھتے تو ضرور انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جیساکہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں(مسلم ) مگر سوال یہ ہے کہ ایک حضرت عائشہ کے قول کے سبب کیا ان سبھی اقوال رسول کو ترک کیا جاسکتا ہے کہ جن میں خواتین کو مسجدوں میں آنے کی اجازت دی گئی ہے؟ ویسے بھی حضرت عائشہ نے یہ بات فتویٰ کے طور پر نہیں کہی اور نہ ہی روکنے کا حکم دیا بلکہ محض ایک تبصرہ کیاتھا۔ آج معاملہ صرف اسلامی احکام تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ حقوق اور صنفی مساوات سے بھی متعلق ہے۔ دنیا بھر میںقوانین سب کے لئے برابر ہیں اور جس طرح سے ہم کسی سے اس کے مذہب، رنگ ونسل کے سبب سوتیلا برتائو نہیں کرسکتے، اسی طرح اس کی صنف کے سبب بھی مختلف برتائو نہیں کرسکتے۔ ہم مسلمان کی حیثیت سے بہ بانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلام انسانی مساوات کا پیغام ہے اور یہ کسی کے ساتھ بھی، اس کے رنگ ونسل اور صنف کے سبب بھید بھائو کی جازت نہیں دیتا مگر ہمارے کئی عمل اور سماجی روایتیںاس کے برخلاف ہیں۔ بہر حال آج کے بدلے ہوئے حالات میں اگرہم خود اپنی سماجی روایات کو نہیں تبدیل کرتے تو وہ دن دور نہیں کہ کورٹ مداخلت کرے گا۔اس لئے ہمیں خود تبدیلی کی طرف بڑھنا چاہئے اور اپنے مذہبی معاملات سے حکومت اور ملک کی عدلیہ کو دور ہی رکھنا چاہئے۔ہم کیوں وہ اسباب فراہم کریں کہ حکومت کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کی ضرورت پڑے؟ اسی کے ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے  کہ ہمارا کلچر بنیادی طور پر مردوں کے غلبے والا ہے اور خواتین کے لئے حاجی علی درگاہ یا مساجدمیں داخل ہونے سے کہیں زیادہ تلخ مسلم معاشرے کے اندر مردوں کے تسلط کو چیلنج دینا ہے۔کورٹ کے حکم کے بعد ان ’’مبینہ ‘‘علماء کی دنیا میںبھی ہلچل مچی ہے جو رسم و رواج کی تشریح کرتے وقت مسلم عورتوں کے حق کے سوال کو ٹال جاتے ہیں۔جب ہم خواتین کو بے پردہ بازاروں ، تفریح گاہوں، سنیماہالوں میں جانے سے نہیں روکتے یا نہیں روک پاتے تو آخر کیا سبب ہے کہ باپردہ طریقے سے بھی مساجد جانے سے روکتے ہیں؟ اس معاملے میں بار بار ان کے تحفظ کا حوالہ کیوں دیا جاتا ہے؟ کیاان کی عصمت بازاروں، پارکوں اورسنیماہالوں میں محفوظ ہے اور مساجد میں خطرے میں ہے؟کیا ہمیں آج کے حالات کے مطابق خواتین کے حقوق کے تعلق سے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟  


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 446