donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Narender Modi Apne Mokhalfeen Ki Jasoosi Kara Rahe Hain


کیا نریندر مودی اپنے مخالفین کی جاسوسی کرارہے ہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا وزیر اعظم نریندر مودی اپنے گجرات کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ کیا جس طرح انھوں نے گجرات میں وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے لوگوں کی جاسوسیاں کرائی تھیں، اب دلی میں بھی کرارہے ہیں؟ کیا جس طرح ان کے نشانے پر پہلے ریاستی لیڈران تھے اسی طرح اب قومی رہنما بھی ہیں؟مودی سرکار نے دانستہ طور پر راہل گاندھی کی جاسوسی کرائی ہے؟ آخر راہل کی جاسوسی کیوں کی گئی؟ اس کے پیچھے مقصد کیا تھا؟ کیا مودی سرکار کے حکم پر یہ سب کیا گیا؟ آخر مرکزی سرکار اتنے بھونڈے طریقے سے مودی کی جاسوسی کیوں کرا رہی تھی؟ آج کل جاسوسی کے بہت سے طریقے دستیاب ہیں پھر ایسے طریقے سے راہل گاندھی کی تفتیش کیوں کی گئی کہ سب کی نظر میں آجائے؟ دلی پولس نے جو کچھ کیا وہ اپنی مرضی سے کیا اور روٹین کی بات تھی یا مرکزی سرکار کے حکم پر ایسا کیا گیا؟ سوال بہت سے ہیں مگر اب تک ان کے جواب نہیں مل پائے ہیں، البتہ ایک بات تو طے ہے کہ کانگریس کو ایک مرکز کے خلاف ایک اہم ایشو مل گیاتھا جسے لے کر وہ سرکار کو گھیرسکتی تھی مگر اس ایشو کو بھنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ حالانکہ دلی کے پولس کمشنر اسے روٹین کی بات بتا کر ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر راجیہ سبھا میں انھیں طلب کرلیا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مرکزی سرکارنے جہاں اپنی بلا پولس کمشنر کے سر ڈالنے کی کوشش کی، وہیں کانگریس بھی نہیں چاہتی کہ مرکزی سرکار اپنی ذمہ داریوں سے بچ جائے۔ اس معاملے پر دہلی پولیس کمشنر نے میڈیا کے سامنے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پوچھ گچھ کرنے کے پیچھے پولیس افسران کا کوئی غلط مقصد نہیں تھا بلکہ راہل گاندھی کے تحفظ کا سروے کرناتھا۔واضح رہے کہ دہلی پولیس کی ٹیم نے پارٹی دفتر پہنچ کر راہل گاندھی کی آنکھوں اور بالوں کے رنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی،جس پر کانگریس نے مرکزی سرکار پر جاسوسی کا الزام لگایا تھا۔حالانکہ اس دوران راہل غائب ہیں اور اٹکلیں بھی جاری ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟

مودہ سرکار پرکانگریس کا حملہ

    کانگریس نے نریندر مودی حکومت پر راہل گاندھی کی 'سیاسی جاسوسی' کرانے کا الزام لگایا اور دعوی کیا کہ ان کے عملہ نے دہلی پولیس کے ایک افسر کو راہل کے بارے میں ناپسندیدہ طریقے سے پوچھ گچھ کرتے پکڑا تھا۔کانگریس لیڈر کی جاسوسی اور نگرانی کے معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس نے اس معاملے پر وزیر داخلہ اور وزیر اعظم سے وسیع وضاحت طلب کیا اور پولیس کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ یہ محض روٹین سیکورٹی جانچ کا مسئلہ ہے۔غور طلب ہے کہ گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس شروع ہونے کے وقت سے ہی راہل گاندھی چھٹی پر ہیں۔ پولیس اہلکاروں کے ذریعے راہل گاندھی کے دفتر جانے اور ان کے نین نقش کے بارے میں سوال پوچھے جانے کو لے کر میڈیا میں ایک خبر آنے کے بعد پارٹی کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے واقعات کی تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی جاسوسی پہلے گجرات میں ہو چکی ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سیاسی جاسوسی، نگرانی، سیاسی مخالفین کی زندگی میں  دراندازی، در اصل گجرات ماڈل ہو سکتا ہے، یہ بھارت کا ماڈل نہیں ہے۔ ٹریک ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب گجرات میں ہوتا رہا ہے، خاص طور سیاسی مخالفین، ججوں، صحافیوں اور دیگر افراد کے لئے۔ سنگھوی نے کہا ہم حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور اس طرح کے رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔یہ صرف کانگریس اور راہل گاندھی کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی مخالفین کے خلاف ہوسکتاہے۔سنگھوی نے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے تغلق روڈ تھانے سے نہیں بلکہ دلی پولیس ہیڈکوارٹر سے دہلی پولیس کے ایک اسسٹنٹ انسپکٹر شمشیر سنگھ کو جاسوسی کرتے، غیر ضروری اور عجیب پوچھ گچھ کرتے اور کانگریس نائب صدر کی رہائش گاہ کے ارد گرد گھومتے پایا گیا۔ سنگھوی نے اسے محض دلی پولیس سے منسلک مسئلہ ماننے سے انکار کیا اور اسے ایک سنگین قومی مسئلہ بتایا۔ انہوں نے اس کا موازنہ گجرات کے مبینہ فون ٹیپگ کے واقعہ سے کیا اور کہا کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس کے خلاف تمام جماعتوں کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی قانون اس طرح کے عمل کہ اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے بی جے پی کے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کیا کہ یہ دہلی پولیس کا کوئی تحفظ سروے ہو سکتا ہے۔ کانگریس ترجمان سنگھوی نے کہا کہ کانگریس اس مسئلے کو پارلیمنٹ سمیت تمام فورمز پر اٹھائے گی۔ اس مبینہ جاسوسی کے پیچھے کی منشا کے بارے میں پوچھے جانے پر سنگھوی نے کہا کہ وہ یہاں قیاس آرائی کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔سنگھوی نے الزام لگایا کہ پولیس افسر عجیب قسم کے سوال پوچھ رہا تھا،مثلا راہل گاندھی کے بال اور آنکھوں کا رنگ کیا ہے، ان کے جوتے کا سائز کیا ہے اور وہ کیا کرتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں جیسی تفصیلات اور ساتھ ہی ان کے اور ان کے ساتھیوں کے فون نمبر اور پتے کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔ اس پولیس افسر کو اسپیشل پروٹیکشن گروپ کے اہلکاروں نے سب سے پہلے دیکھا تھا۔سنگھوی نے کہا کہ جو شخص ایس پی جی کے گھیرے میں ہے اس کے بارے میں اس طرح کے سوال پوچھنا عجیب بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ راہل گاندھی کے دفتر جا کر پوچھ گچھ کوئی الگ تھلگ یا پہلا واقعہ نہ ہو۔مستقبل میں شاید ایسے اور واقعات اجاگر ہو سکتے ہیں۔

سیکورٹی جانچ کا حصہ

    کانگریس کے حملے نے مرکزی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے مگر د؛لی پولس نے اسے معمول کی سیکورٹی جانچ کا حصہ قرار دیا ہے۔اس کا مانا ہے کہ بیٹ افسر رامیشور دیال 12 مارچ کو راہل گاندھی کے گھر پر گئے تھے اور ان کے بارے میں معلومات مانگی تھی۔ چونکہ، بیٹ افسر ایسے لوگوں سے براہ راست نہیں مل پاتے اس لیے وہ ان کے دفتر سے رابطہ کرتے ہیں اور ضروری معلومات سے متعلق فارمیٹ چھوڑ آتے ہیں۔ اسی دن پولیس ایم پی کرشن پال گجر، نریش اگروال، ایم ویرپا موئلی اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ کے گھر بھی گئی تھی۔ بیٹ افسران کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ رہے اہم لوگوں کے ملازمین سے ملنے اور ان کے بارے میں ذاتی معلومات رکھنے کی ہدایت ہے۔ پولیس، وزیر اعظم، بی جے پی قومی صدر امت شاہ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی جیسے تمام رہنماؤں اور سات ریس کورس روڈ کے بارے میں بھی معلومات رکھتی ہے۔ بہت سے معاملات میں ایسی تفصیلات اہم ثابت ہوتی ہیں، خاص طور سے جب کسی بڑے لیڈر کے گھر کے سامنے احتجاج جیسی کوئی چیز ہو رہی ہو۔ یہ باتیں خود پولس کمشنر نے میڈیا کے سامنے کہیں ۔حالانکہ انھیں راجیہ سبھا میں جواب دینے کے لئے بھی بلایا گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا بر محل ہوگا کہ دہلی پولس کی طرف سے وی وی آئی پی شخصیات کے بارے میں جانکاری جمع کرنے کے لئے جو فارم دیا گیا ہے اس میں بہت سے مضحکہ خیز سوالات شامل ہیں جن کی تلاش میں پوچھ تاچھ کی ضرورت نہیں گوگل اور وکی پیڈیا پر ہی جواب مل سکتے ہیں۔ جیسے اس فارم میں پوچھا جاتا ہے کہ نام کیا ہے؟ باپ کا نام کیا ہے؟فارم میں 18 سوال پوچھے جاتے ہیں جن میں جائے پیدائش تاریخ پیدائش پیدائش ،عمر، رنگ، جسم پر پیدائش کے وقت کا کوئی نشان، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، لمبائی، چہرے کا تخمینہ، جوتے کی سائز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

بی جے پی کا جواب

    ادھر بی جے پی نے کانگریس کے شدید ردعمل پر کوئی خاص توجہ نہ کرتے ہوئے کہا کہ دراصل کانگریس کے پاس اب کوئی کام نہیں رہ گیا ہے، اس لئے وہ ہرمعاملہ کو سیاسی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ساری باتوں سے واقف ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ کانگریس کے پاس ان دنوں کوئی کام نہیں ہے اس لئے وہ ہر بات پر سیاست کررہی ہے۔سیاسی سطح پر بات کرنے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز کو سیاسی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔مسٹر پاترا نے کہا کہ راہل گاندھی ایس پی جی سیکورٹی کی کور میں ہیں۔ اب اگر ایک ایسے اہلکار کے ذریعہ ان کے تحفظ کیلئے ان کی تفصیلات لی جاتی ہیں یا ان کے گھر جایاجاتاہے تو تکنیکی پہلو ہے جس پر سیاست کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا ہے۔ بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی نے  کہا کہ پولس کا مسٹر گاندھی کے گھر پر جاکر تفصیلات جمع کرنا معمول کی قانونی کاروائی ہے جو کئی برسوں سے چلی آرہی ہے۔ دہلی پولس کمشنر اس کے تکنیکی پہلوؤں کی پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔مسٹر ترویدی نے کہا کہ وزیر اعظم،وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر امت شاہ کے دفتر سے بھی ایسی ہی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت میں بھی اس طرح کا مسئلہ سامنے آیا تھا جب سابق وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے دفتر میں جاسوسی ہوئی تھی لیکن حکومت نے اس کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا تھا۔مسٹر ترویدی نے کہا کہ 1991میں کانگریس نے اسی طرح کے معاملے میں چندرشیکھر حکومت کو گرادیا تھا۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس کے انتخابات میں شکست ملنے کے بعد پارٹی منفی نظریات کو فروغ دے رہی ہے۔ اسی کی وجہ سے ہی وہ سرخیوں میں بھی رہی۔ اس کے پاس کوئی مثبت فکر نہیں ہے۔ ہار سے پارٹی بری طرح سے پریشان ہے اور اس کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے راہل گاندھی کی غیر موجودگی کو کبھی نہیں اٹھایا۔ ملک اور ایوان کو بھی پتہ نہیں ہے کہ وہ کہا ں ہیں اور نہ ہی ان کاخاندان ہی ان کے متعلق کچھ کہہ رہا ہے۔ ان کے بغیر کانگریس کی خستہ حالت ہو گئی ہے۔ ادھرجموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کو کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے بارے میں ناپسندیدہ اور عجیب سوال کرنے کو لے کر دہلی پولیس پر ہنسی آئی۔عمر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ لٹین دہلی میں ڈکیتی کی کئی وارداتیں ہو گئیں اور پولیس راہل گاندھی کے گھر یہ جاننے کے لئے پہنچتی ہے کہ وہ نظر آتے کیسے ہیں، ہنسی ہی آئے گی۔سابق وزیر اعلی نے کہا کہ واقعی،ا سٹینڈ اپ کامیڈین دہلی پولیس کی راہل گاندھی سے متعلق اس نئی ا سکرپٹ میں کافی دلچسپی لے رہے ہوں گے۔

جاسوسی پر سیاست

    راہل گاندھی کی جاسوسی کی جارہی تھی یا معمول کی تفتیش تھی؟ اس سوال کا جواب ملے نہ ملے مگر اس موضوع پر سیاست کے بہت سے پہلو نکلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج جب جاسوسی کے سائنسی طریقے موجود ہیں تو پرا نے انداز میں جاسوسی کیوں کی جارہی ہے؟ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی جاسوسی کی پرانی تاریخ ہے۔ راجیو گاندھی کی جاسوسی بھی گئی تھی۔ تب کانگریس کی حمایت سے چندرشیکھر کی سرکار چل رہی تھی۔ کانگریس نے اس جرم میں سرکار کو گرا دیا تھا۔ گجرات میں بھی نریندرمودی نے اپنے مخالفین کی جاسوسی کرائی تھی اور یہ یہاں ایک اہم ایشو رہا تھا۔ ایسے میں راہل گاندھی کی جاسوسی ہوئی یا روٹین سیکوریٹی جانچ تھی، یہ تو تب معلوم ہوگا جب معاملے کی غیر جانبدارنہ جانچ ہو۔ کہا جاتا ہے بد اچھا بدنام برا، نریندرمودی جاسوسی کرانے میں بدنام رہے ہیں۔ اس وقت وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں لہٰذا بہت سے پرانے ایشوز کو بھلا دیا گیا ہے ورنہ وہ گجرات میں اپنے سیاسی مخالفین کی جاسوسی کرانے اور ان کے کریئر کو ختم کرنے کے لئے بدنام رہے ہیں۔ انھوں نے گجرات کے ایک جوہری کی بیٹی کا پیچھا کرایاتھا جس کی رپورٹ ان تک ان کے خاص الخاص امت شاہ پہنچایا کرتے تھے۔ وہ لڑکی کہاں جاتی ہے، کس سے ملتی ہے اور کن کن لوگوں سے فون پر باتیں کرتی ہے؟ اس کی جاسوسی مودی جی نے کرائی تھی۔ ایک آئی اے ایس افسر سے اس کے تعلقات تھے جس کے کریئر کو برباد کرنے کا کام بھی ہمارے عزت مآب موجودہ وزیر اعظم صاحب کرچکے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس لڑکی کی جاسوسی کے پیچھے مودی کے عشق کا معاملہ تھا حالانکہ گجرات سرکار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ لڑکی کے باپ نے کہا تھا کہ ہماری بیٹی کا ذرا خیال رکھئے گا۔ اس معاملے کی آج تک تحقیقات نہیں ہوئی اور اب امکان بھی نہیں ہے مگر راہل گاندھی کی جاسوسی پر سب کے کان کھڑے ہورہے ہیں۔  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 535