donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Mulk Ke Taleemi System Ko Hindutv Ke Rang Me Rangne Ki Tayyari


ملک کے تعلیمی سسٹم کو ہندتو کے رنگ میں رنگنے کی تیاری


کیا دینی مدرسے اورمسلم ادارے بھی اس کی زد میں آئینگے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


آر ایس ایس ایک انتہا پسند ہندوتوادی جماعت ہے اور اس کی تمام پالیسیاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی مخالفت پر مبنی ہیں۔ آج وہ اقتدار میں ہے تو ملک کی تعلیمی پالیسی کو متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر ملک کے تعلیمی سسٹم میں ہندتو کے عناصر داخل ہوگئے اور تاریخ کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا تو ملک کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوجائے گا۔

     اب آر ایس ایس کی نظر ملک کے تعلیمی سسٹم پر ہے؟ کیا وہ ملک کے تعلیمی نظام کو بھگوا رنگ میں رنگنا چاہتا ہے؟ کیا اب تمام یونیورسٹیوں میں بھی آر ایس ایس کے لوگ تعینات کئے جاینگے؟ جس طرح سے منتری، سنگھ کی شاکھائوں سے آئے ہیں اب اسی طرح وائس چانسلر بھی وہیں سے آئینگے؟ کیا اب تمام سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جائے گا کہ گنیش جی پلاسٹک سرجری کا معجزہ تھے اور کرشن جی کرائے کی کوکھ سے پیدا ہوئے تھے؟ کیا اب ملک کی تاریخ نئے سرے سے رقم کی جائیگی اور جغرافیہ بھی نیا ترتیب دیا جائے گا؟ نریندر مودی کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے ، اس کے بعد کیا موہن بھاگوت، دین دیال اپادھیائے، ہیڈ گیواڑشیاما پرساد مکھرجی کو بھی داخلِ نصاب کیا جائے گا؟ جس طرح سنسکرت پڑھنے پر طلبہ کو مجبور کیا جارہا ہے، اسی طرح اب رامائن، مہا بھارت، بھاگوت گیتا اور منوسمرتی پڑھنے پر بھی مجبور کیا جائے گا؟ اگر آر ایس ایس ملک کے تعلیمی سسٹم کوبدلنا چاہتا ہے تو کیا وہ دینی مدرسوں اور مسلم اداروں کو بھی اپنے مقصد میں استعمال کرنا چاہتا ہے؟بدقسمتی سے ان تمام سوالوں کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ سنگھ ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس کی ماتحت کئی تنظیمیں ملک کے تعلیمی سسٹم و تاریخ کو بدلنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ آج مرکز میں اس کی سرکار ہے اور مکمل اکثریت سے آئی ہے لہٰذا وہ اپنے تمام خواب پورے کرنا چاہتا ہے اور نئے نئے تجربے کرنا چاہتا ہے جس کے لئے ۹۰ برسوں سے وہ انتظار کر رہا تھا۔ اس وقت جو تنظیمیں اس کے لئے سرگرم عمل ہیں ان میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی)، ودیا بھارتی، اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا، اکھل بھارتیہ راشٹریہ شیکھشک مہا سنگھ، شکشا بچائو آندولن، شکشا سنسکرتی اُتھان نیاس، وگیان بھارتی، سمسکرتا بھارتی، اکھل بھارتیہ ساہتیہ پریشد اور سنسکار بھارتی ہیں جو آر ایس ایس کے ماتحت کام کرتی ہیں اور مختلف سطحوں پر تعلیمی سسٹم اور تاریخ میں بدلائو کے لئے کوشاں ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے تعلیمی سسٹم میں کچھ خامیاں ہیں اور نصابی کتابو ں میں کچھ غلطیاں بھی ہیں مگر اس کے اصلاح کا کام اگر آر ایس ایس کے لوگ کریںگے تو یہ اصلاح کے بجائے تصحیح ہوجائے گا جو ہماری آنے والی نسلوں پر بڑا ظلم ہوگا۔

سنگھ کے تعلیمی ایجنڈوں کو لاگو کرنے کی تیاری

    تعلیمی سسٹم میں اصلاح کے نام پر جو کوششیں ہورہی ہیں وہ بہت سنجیدہ ہیں اور اس کے زیر اثر ہیں مرکزی وزیر فروغ برائے فروغ انسانی وسائل و تعلیم اسمرتی ایرانی۔ وہ خود زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا آر ایس ایس سے کوئی قریبی تعلق رہا ہے مگر نریندر مودی کی قریبی ہیں لہٰذا انھیں یہ اہم وزارت مل گئی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر وہ سنگھ کے ایجنڈوں سے ذرا بھی ادھر ادھر ہٹیں تو آر ایس ایس ان کے نیچے سے کرسی کھینچ لے گا۔ ان کی وزارت کے وزیر مملکت ہیں رام شنکر کٹھاریا جنھوں نے حال ہی میں وزارت کا چارج سنبھالا ہے۔  وہ آر ایس ایس پرچارک رہ چکے ہیں۔ ان دونوں منتریوں کے بیچ قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی تعلیمی ڈگریاں شکوک کے گھیرے میں ہیں۔ کٹھوریا کی ڈگری کے فرضی ہونے کے سلسلے میں ایک کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔ گزشتہ ۳۰ اکتوبر کو ان وزیروں کے ساتھ ایک مٹینگ ہوئی جس میں آر ایس ایس کے نظریے کے تحت تعلیمی میدان میں کام کرنے والے گیارہ سنگٹھنوں سمیت کل ۲۲ تنظیموں نے حصہ لیا۔ اس چھ گھنٹے کی مٹینگ میں آر ایس ایس کے کچھ دوسرے ارکان اور ذمہ داران بھی وزیروں کو مشورہ دینے کے لئے موجود تھے۔ دلی کے مدھیہ پردیش بھون میں منعقدہ اس مٹینگ میں سبھوں نے اپنی اپنی تجویزیں پیش کیں اور ان کے جلد از جلد نفاذ کا وزیروں سے وعدہ لیا۔ حالانکہ اسے وعدہ کے بجائے الٹی میٹم کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آر ایس ایس نے اپنی ماتحت تنظیموں کو کئی گروپوں میں بانٹ رکھا ہے جنھیں ’’سموہ‘‘ کہا جاتا ہے اور شکشا سموہ میں کام کرنے والی گیارہ سنگھی تنظیمیں اس مٹینگ میں شامل تھیں۔ مٹینگ میں شریک ہونے والوں نے بہت سے مشورے دیئے جن میں تعلیمی اداروں اور تعلیمی بورڈس میں خالی جگہوں کو پر کرنے کا مشورہ بھی شامل تھا۔ ان جگہوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کو لانے کا مشورہ دیا گیا۔

تعلیمی اداروں میں بڑے بدلائو

    سنگھ کا نظریہ رہا ہے کہ تعلیم کو اخلاقیات اور روحانی تعلیمات سے مربوط ہونا چاہئے جب کہ ملک کا موجودہ سسٹم اس سے الگ ہے۔ اسمرتی ایرانی کہہ چکی ہیں کہ موجودہ تعلیمی سسٹم کو بدلا جائے گا اور نئے سسٹم کو متعارف کرایا جائے گا۔ یہ کام ۲۰۱۵ء میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور آر ایس ایس کے ادارے بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ تمام تعلیمی بورڈ ، سی بی ایس سی ، آئی آئی ایم،آئی آئی ٹی کی سربراہ بدلے جاسکتے ہیں اور ان کی جگہ پر ایسے لوگوں کو لانے کی تیاری ہر جو آر ایس ایس کی تعلیمی پالیسی کو لاگو کر سکیں۔ تمام سنٹرل یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلرس کو بدلنے کی تیاری ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی سرکاریں ہیں وہاں ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی بدلے جارہے ہیں۔ گجرات میں پہلے سے ہی تعلیمی اداروں میں سنگھ کے لوگ موجود ہیں اور سرکاری اسکولوں میں دینا ناتھ بترا کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں بھاگوت گیتا پہلے ہی سے پڑھائی جارہی ہے۔یہاں بھی یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈس میں سنگھ کے لوگ داخل ہوچکے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ چھتیس گڑھ کا بھی ہے۔ راجستھان میں ابھی بی جے پی کی سرکار بنے ہوئے زیادہ دن نہیں بیتے ہیں اور تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، سابقہ کانگریس سرکار کے بحال کردہ ہیں مگر اب انھیںآر ایس ایس کے دبائو میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سنگھ کی مرضی سے کام کریں اور دوسرا یہ ہے کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کچھ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرس سے ملاقاتیں کیں اور ان سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ ملنے والوں میں گجرات یونیورسٹی، ایم ایس یونیوسٹی اورویر نرمد یونیورسٹی کے وائس چانسلرس بھی شامل تھے۔

نصاب میں تبدیلی

    اس وقت تعلیمی سسٹم میں بدلائو کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں میں بھی تبدیلی، سنگھ کے پیش نظر ہے۔ جو کتابیں پہلے سے موجود ہیں اور داخل نصاب ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے گی اور مزید کچھ نئی کتابیں لکھی جائینگی جنھیں سنگھ کے ماہرین لکھیں گے۔ نصابی کتابوں میں اب اخلاقی اور روحانی تعلیم کے نام پرہندو دھرم کی مذہبی تعلیمات، دیو مالائی قصے کہانیاں شامل کی جائینگی۔ سائنس میں بھی ہندو اخلاقیات کا باب شامل کیا جارہا ہے۔ این سی آر ٹی کی کتابوں میں بڑے پیمانے میں ترمیم اور تجدید کا کام شروع کیا جارہا ہے۔ اورنگ آباد کی ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر یونیورسٹی کے ایک سینیٹ ممبر نے حکومت کو لکھا ہے کہ ٹیکسٹ بکس پر نظر ثانی کی جائے اور شیواجی،ویر ساورکر،مہاتما جیوتیبا پھولے اور ساہوجی مہاراج کے تاریخی رول پر مزید مٹیریل شامل کیا جائے۔ویسے تاریخ کی تدوین نو کا کام شروع ہوچکا ہے اور دیومالائی قصوں، اساطیری روایات کو بھی تاریخ کا حصہ بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔ اس تاریخ میں مسلم حکمرانوں کو خاص طور پر کھلنائک بناکر پیش کیا جائے گااور ان کے مقابلے پر آنے والے ہندو باغیوں کو تاریخ ہند کا ہیرو بناکر پیش کرنے کی تیاری ہے۔ ۲۰۱۵ء میں ایک نئے تعلیمی سسٹم کا تنازعہ کھڑا ہوجائے تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئے۔

اقلیتی اداروں پر بھی آر ایس ایس کی نظر

    مرکز کی نئی سرکار جہاں تمام سرکاری تعلیمی اداروں کواپنے نظریات کے دائرۂ اثر میں لانے کے لئے کوشاں ہے، وہیں اس کی نظر اقلیتی اداروں پر بھی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ابھی چند دن قبل انتشار پھیلانے کی کوشش بی جے پی کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس کی نظر جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھی ہے۔ وہ ان کالجوں کی طرف بھی بری نظر سے دیکھ رہی ہے جو اقلیتی درجہ رکھتے ہیں اور کہیں لالچ دے کر تو کہیں خوف دکھاکر وہ اپنے زیر اثر لانا چاہتی ہے ۔ ان میں اداروں کی سربراہی اب ایسے لوگوں کو سونپنے کی تیاری ہے جو آرایس ایس کے کام چالاکی سے کر سکیں۔اسی طرح وہ اسلامی مدرسوں کو بھی اپنے نظریات کے پرچار کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مدرسوں کے تعلق سے اس کے نظریات پہلے ہی سے مشکوک رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایم پی ساکشی مہاراج نے ابھی چند مہینے قبل کہا تھا کہ مدرسوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سنگھ کا ایک طبقہ مانتا رہا ہے کہ قرآن کریم کی کچھ آیتیں کافروں کے خلاف جہاد کا درس دیتی ہیں، جنھیں نصاب سے خارج کیا جانا چاہئے۔ حالانکہ ان آیات کو ان کے پس منظر سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کی غلط تشریحیں کی جاتی ہیں۔ اسی طرح بعض احادیث نبویہ کو بھی غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ آرایس ایس چاہتا ہے کہ مدرسوں کا نصاب بھی اسی طرح کا ہو جیسا کہ اسکولوں کا وہ تیار کررہا ہے۔ مدرسوں کی تجدید کے نام پر وہ اسلامی علوم کی جگہ پر عصری علوم کو لاگو کرنے کا خواہاں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کو عصری علوم سے اجتناب نہیں مگر اسی کے ساتھ وہ دینی علوم کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے کیونکہ اس طرح مدرسے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔

    اردو کے فروغ کے لئے کام کرنے والے اداروں جیسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ڈی ڈی اردو چینل وغیرہ کو بھی سنگھ کے نظریات کے تحت استعمال کیا جائے گا۔ کونسل کا وائس چیرمین ایک ایسے صاحب کو بنایا گیا ہے جن کا اردو کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہے مگر وہ آر ایس ایس کے قریب رہے ہیں۔ ڈائرکٹر کے عہدے کے لئے بھی کسی ایسے ہی شخص کی تلاش کی جارہی ہے۔ حالانکہ موجودہ ڈائرکٹر کا کام بھی کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے مگر اب مزید ایک بڑے نالائق کو ڈھونڈا جارہا ہے۔ ڈی ڈی اردو پر اردو زبان کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا انچارج ایک ایسا شخص ہے جو ارود کا ایک لفظ نہیں جانتا۔ ایسے پروگرام بھی پیش کئے جارہے ہیں جن میں اردو کو ڈھونڈ پانا مشکل ہے۔ویسے یہ ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576