donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Musalmano Ko Jail, Hinduyon Ko Bail


مسلمانوں کو جیل، ہندووں کو بیل


آخر کیا ہے دہشت گردی پر مرکزی حکومت کا سیاسی کھیل؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    نریندر مودی سرکاردہشت گردی کے نام پر دوہرا کھیل کیوں کھیل رہی ہے؟ وہ تشدد اور تخریب کا مذہب کیوں طے کر رہی ہے؟ اسے داعش سے نفرت ہے تو بھگواآتنک واد سے محبت کیوں ہے؟ اسے سیمی، انڈین مجاہدین اور لشکر طیبہ تخریب کارلگتے ہیں تو ابھینو بھارت اور تشدد پسند ہندوجماعتیں کیوں امن پسند لگتی ہیں؟ آخر کیا سبب ہے کہ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی ساری دنیا میں آتنک واد کے خلاف محاذ بناتے پھر رہے ہیں اور داخلہ راج ناتھ سنگھ داعش کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں سے مدد مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف مالیگائوں دہشت گردانہ حملوں کے مجرم بھگواوادی کرنل پروہت، سوامی اسیمانند اور سادھوی پرگیہ سنگھ کو جیل سے آزاد کرنے کی تیاری چل رہی ہے؟ آخر حکومت کی نظر میں ممبئی بم دھماکوں کے ذمہ دار ہی مجرم کیوں ہیں اور سمجھوتہ اکسپریس بم دھماکوںکے ذمہ دار مجرم کیوں نہیں؟تشدد اور تخریب کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کی کوشش کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور نہیں کرتی ہے؟ دہشت گردی تو دہشت گردی ہوتی ہے اور ہندوستانی مسلمان اس کے ہر رخ کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر تخریب کاری ہو یا ہندتو کے نام پرمسلمانوں نے اس کی کبھی تعریف نہیں کی۔ وہ نکسل ازم اور مائو واد کے نام پرہورہے تشدد کو بھی براکہتے رہے ہیں مگر مرکزی سرکارکا اس تعلق سے دوہرا رویہ ہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی آرایس ایس کرتاہے جس پر بابائے قوم مہاتماگاندھی کے قتل کا الزام لگتا رہا ہے اور ملک بھر میں دنگے کرانے کے لئے اس کے لوگ عدالتوں میں ماخوذ رہے ہیں۔ آج وہی جماعت اقتدار میں ہے اور دنگوں کے ملزم منتری بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے اگر ایک طرف وزیر داخلہ مسلمانوں سے داعش کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کرتے ہیں اور مالیگائوں دہشت گردانہ حملوں کے ملزموں کو چھوڑنے کا انتظام کرتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔

وزیرداخلہ کی مسلمانوں سے ملاقات     

    مرکزی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کے بیچ کبھی وزیر اعظم مسلمانوں سے مل کر انھیں پچکارتے ہیں تو کبھی راجناتھ سنگھ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد مانگتے ہیں۔داعش کی جانب سے بھارتی نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوششوں کی خبروںکے درمیان وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ دنوں ملک کے کچھ مبینہ مسلم رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس خطرناک دہشت گرد گروپ کے منصوبوں کو ناکام کرنے میں ان کا تعاون مانگا۔ ایک گھنٹے کی اس ملاقات میں مبینہ مسلم رہنماؤں کو داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا گیااور بھارتی نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیم کے زیراثر لانے کی کوششوں سے روکنے کی بات کہی گئی۔ وزیر داخلہ نے اس معاملے پر مبینہ رہنماؤں سے مدد مانگی اور مسلم ’’رہنمائوں‘‘ نے بھی اس تناظر میں حکومت کو پوری مدد کا بھروسہ دیا۔ اس ملاقات کے دوران قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور وزارت داخلہ کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔ مسلم مذہبی رہنماؤں اور وزیر داخلہ کی ملاقات کے دوران سوشل میڈیا کے غلط استعمال، نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ترغیبات ، بھارت کے پڑوس میں داعش کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ مٹینگ میںجمعیت علمائے ہند کے قومی سکریٹری نیاز فاروقی، اجمیر شریف کے مولانا عبد الوحید حسین چشتی، رفیق وارثی، ایم ایم انصاری، ایم جے خان، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، کمال فاروقی، مفتی اعجاز ارشد قاسمی اور دیگر لوگ موجود تھے۔اس میں کم ہی لوگ ایسے تھے جن کے نام سے بھی مسلمان واقف ہوں مگر میڈیا میں خبر آئی کہ مسلم رہنمائوں نے ملاقات کی۔اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارت کی سماجی روایات اور خاندانی قدریں دہشت گرد گروپوں کی ان سازشوں کو ناکام کر دیں گی۔ملاقات میں موجود رہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر کمال فاروقی نے کہا، ہم نے وزیر داخلہ کے سامنے بہت سے مسائل اٹھائے۔ جس طرح سے گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ بھارت سے بہت بڑی تعداد میں لوگ داعش کے ساتھ جڑ گئے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ ایک شخص کا بھی اس تنظیم سے جڑنا ہمارے لئے تکلیف دہ ہے، لیکن اس کو لے کر بے قصور لوگوں کو نہیں پکڑا جانا چاہئے۔ فاروقی نے کہا، اشتعال انگیز بیان دینے والوں اور ماحول خراب کرنے والوں پر بھی کارروائی کرنی چاہئے۔دوسری طرف بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق کل 23 بھارتی داعش کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جن میں سے چھ افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔

بھگوا دشت گردی کی پشت پر حکومت کا ہاتھ

    ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات تو دوسری طرف مرکزی سرکار کی طرف سے سنجیدہ کوشش چل رہی ہے کہ مالیگائوں بم دھماکوں کے ملزمین کو رہا کردیا جائے اور ان کے خلاف کیس کو کمزور کیا جائے۔ حال ہی میں قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) نے معاملے کی سماعت کر رہی ایک خصوصی عدالت سے کہا کہ سال 2008 کے مالیگاؤں دھماکہ کیس میں ’’مکوکا‘‘ نہیں لگانے کو لے کر ایک رائے تھی اور اس بارے میں اٹارنی جنرل کی رائے لی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں لیفٹیننٹ کرنل پرساد سری کانت پروہت اور دائیں بازو گروپ کی رکن سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اہم ملزم ہیں۔این آئی اے نے جج ایس. ڈی ٹکالے کی خصوصی عدالت کو بتایا کہ این آئی اے ،دہلی میں اپنے سینئر سپروائزر اور اعلیٰ حکام سے ضروری مشورہ کا انتظار کر رہا ہے اور اب ان کی رائے یہ ہے کہ’’ مکوکا‘‘ اس طرح کے معاملات میں لگائے جانے کے لئے موزوں نہیں ہے۔ اس لئے وزارت داخلہ کے پاس یہ درخواست بھیجی گئی ہے اور ہندوستان کے اٹارنی جنرل سے بھی ان کی رائے مانگی گئی ہے۔واضح ہوکہ اس معاملے میں حکومت کی طرف سے گڑبڑی کی خبریں گزشتہ سال ہی میڈیا میں آئی تھیں جب معاملے کو دیکھ رہی پبلک پروسیکیوٹر روہنی سالیان نے بیان دیا تھا کہ این آئی اے کی طرف سے ان پر دبائو بنایا جارہاہے کہ ملزموں کی ضمانت کی راہ ہموار کی جائے اور کیس کو کمزور کیا جائے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت پارلیمنٹ کے اندر کہہ چکی ہے اور وہ ملزموں کی درخواستِ ضمانت کی کورٹ میں مخالفت نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے کہ دہشت گردی کے تعلق سے حکومت کا دوہرا رویہ سامنے آچکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دہشت گردی سے نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اس معاملے میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پورے سنگھ پریوار کا رویہ دوہرا ہے۔ پچھلے دنوں جے پور میں سنگھ پریوار کی طرف سے ایک دہشت گردی مخالف کانفرنس ہوئی جس میں صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی شرکت کی۔سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر صرف مسلمان اور اسلام ہی کیوں نشانے پر ہیں؟ خود اس سلسلے میں آرایس ایس اور اس کے لوگوں کا دامن کتنا صاف ہے؟ مسلمان تو ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں مگر سنگھ پریوار ہندتو کے نام پر جاری دہشت گردی کی مذمت کیوں نہیں کرتا؟

دہشت گردی مخالف جنگ کا ایندھن مسلمان

    قومی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کا ایندھن مسلمان بن رہے ہیں اور ساری دنیا میں مرنے، تباہ ہونے اور بے گھر ہونے والوں میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میںہندوستان بھرمیں اب تک ہزاروں مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر گرفتار کیا جاچکا ہے  اور دس دس سال جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزارکر ان میں سے بہت سے لوگ بے قصور قرار دیئے جاچکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ممبئی میں’’ سیمی‘‘ کے ممبر قرار دیئے گئے چار لوگوں کو عدالت نے بری کیا ہے۔ اس سے قبل جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں اور قانونی مدد سے بہتوں کو رہائی ملی ہے۔ایسے میں دیکھا جائے تو دہشت گردی کے نام پر دہشت زدہ مسلمان ہوتے ہیں، جیلوں میں وہ بند ہوتے ہیں، خاندان ان کے تباہ ہوتے ہیں،بچے ان کے جاہل رہ جاتے ہیں اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایندھن بھی انھیں کوبنایا جارہا ہے۔ کانگریس کے دور حکومت میں جن مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر پکڑا گیا تھا ،آج وہ عدالتوں کی طرف سے بے قصور قرار دیئے جارہے ہیں اور پھانسی کے پھندوں سے بچ کر نکل رہے ہیں مگر اسی کے ساتھ اب داعش کے نام پر ہندوستان میں ایک دوسرا کھیل شروع کیا گیا ہے اور ایک بار پھر ملک بھر سے ان مسلمان نوجوانوں کو پکڑا جارہاہے جو تعلیم میں اچھے ہیں اور جن سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ قوم کا مستقبل ہونگے۔ ایسے میں کچھ مسلم نما ’’رہنمائوں‘‘ کی وزیر اعظم یا وزیر داخلہ سے ملاقات فوٹو سشن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ایک طرف مسلمانوں کے فلاح کی بات کہی جارہی ہے، مودی سرکار کی سرپرستی میں زرخرید مولویوں کی مدد سے صوفی کانفرنس کی تیاری کی جارہی ہے تو دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ پر شب خون مارا جارہاہے اور آئی ایس کے نام پر مسلم نوجوانوں کو پکڑا جارہاہے، اس دوہرے پیمانے سے کیسے دہشت گردی میں کمی آئے گی؟ ہندوستانی مسلمان دہشت گردی کے خلاف تھے، ہیں اور رہیں گے مگر سنگھ پریوار خود کو بھی امن پسند ثابت کرے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 626