donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Qayadat Ka Fuqdan Aur Firqon Me Munqasim Bharti Musalman


قیادت کا فقدان اور فرقوں میں منقسم بھارتی مسلمان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    کیا مسلمانوں کو کوئی لیڈر اور رہنما ہے یا ہر مسلمان خود اپنا قائد ہے؟ کیا بھارت جیسے طویل وعریض ملک میں بسنے والے کروڑوں مسلمان بغیر کسی قائد نہیں رہ رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس ملک میں ایک تنظیم بھی ایسی نہیں ہے جسے مسلمانوں کی نمائندہ سرگرم تنظیم کہا جاسکے؟ کیا ایک دوسری سچائی یہ نہیں کہ مسلم محلوں میں قدم قدم پر انجمنیں ہیں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح خود ساختہ مسلم لیڈران رینگتے دکھائی دیتے ہیں جن میں سے ایک بھی اس لائق نہیں ہوتا کہ اپنے اہل خاندان کا بھی اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہو حالانکہ وہ پوری قوم کا لیڈر ہونے کا دعویدارہوتا ہے؟ آج مسئلہ مسلم قیادت کی کمی کاہے یا زیادتی کا؟کیا اس میں کسی کو شک ہے کہ جو چھوٹی بڑی مسلم تنظیمیں اردو اخباروں میں دکھائی دیتی ہیں وہ دکانداری تک محدود ہیں؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہ دکانیں مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کی ہوتی ہیں؟ بھارت کے مسلمانون کا مسئلہ کسی لیڈر کا نہ ہونا ہو یا لیڈروں کی زیادتی ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک انھوں نے جن لوگوں پر بھروسہ کیا اورانھیں رہبری کی ذمہ داری سونپی انھوں نے رہزنی کا کام کیا۔ بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے ہیں اور لاکھوں مسلمان قتل یا زخمی ہوچکے ہیں مگر کیا ان نقصانات کے سبب کسی مسلم لیڈر کی تیوریوں پر بل آیا؟ کیا کسی قائد کی عیش وعشرت میں کمی آئی؟ بلکہ سچائی یہ بھی ہے کہ ہر فساد کے بعد بعض لیڈروں کی دکانیں چمک جاتی ہیں اور وہ ساری دنیا میں فساد زدگان کی بازآبادکاری کے نام پر صدقہ خیرات جمع کرنے نکل پڑتے ہیں۔ان کے بینک بائلینس میں اضافہ ہوجاتا ہے اور زمین جائداد کی خریداری کرلیتے ہیں۔ ایسے بھی مسلم لیڈران ہیں جو غریبوں اور یتیموں کے نام پر چندے جمع کرکے لاتے ہیں اور پھر اس سے الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ واسمبلی تک پہنچتے ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت ہو یا مذہبی وسماجی قیادت اب تک وہ رہبرم کم اور رہزن زیادہ ثابت ہوئی ہے اور شاید انھیں حالات نے مسلمانوں کو بغیر لیڈر شپ کے رہنے کا عادی بنا دیا ہے۔ اسلامی حکم تو یہ ہے کہ جہاں دو مسلمان بھی ہوں ،وہاں ان میں سے ایک کو امیر یعنی لیڈر یا سردار منتخب کرلینا چاہئے مگر ہمارا یہ کیسا طرزِزندگی ہے کہ جس ملک میں ہم کروڑوں کی تعداد میں ہیں وہاں بھی ہمارا نہ کوئی مذہبی قائد ہے اور نہ سیاسی۔ جن لوگوں کو کوئی سیاسی مقام مل جاتا ہے وہ عام مسلمانوں سے کٹ جاتے ہیں، محافظ دستوں کے حصار میں رہنے لگتے ہیں اور پوری قوم کو حقارت ورعونت سے دیکھتے ہیں جب کہ مذہبی قائدین کا ایک طبقہ بھی اثر ورسوخ حاصل کرنے کے بعد خود کو برہمن اور پوری قوم کو دلت سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ آج بھی فارغین مدارس میں سے جو لوگ مسجدوں اور مدرسوں کے ذمہ دار ہیں ان میں سے بیشتر انتہائی دانش مندی سے مقامی سطح پر مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی کرتے ہیں۔    

مسلم قیادت کی مردہ لاشیں؟

بھارت میں مسلمانوں کی قیادت کے تعلق سے عام طور پر جمعیۃ علماء ہند، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند وغیرہ کی طرف دیکھا جاتا ہے مگر آج اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی جماعت ایسی ہے جس پر عام لوگ بھروسہ کرسکیں اور وہ ان کے مسائل پر کوئی واضح نظریہ رکھتی ہے؟اب کیا مسلم  پرسنل لاء بورڈ اپنی معنویت کھو چکا ہے؟ کیا ملی کونسل اور مجلس مشاورت جیسی تنظیمیں اب مردہ لاش کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں؟کیا موجودہ مسلم قیادت احمقوں اور مفاد پرستوں پر مشتمل ہے؟کیا مسلمانوں کو پرانی نام نام نہاد قیادت کی لاش کو دفن کر دینا چاہئے؟ کیا انھیں اپنی تنظیم نو پر غور کرنا چاہئے؟ اصل میں ان سوالات کے پیچھے وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی مانے جانے والے ظفر سریش والاکے تازہ بیانات ہیں جن میں انھوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بیشتر ارکان کو احمق کہا ہے ، اسی کے ساتھ انھوں نے آر ایس ایس کو بھی بیوقوفوں کی جماعت کہا ہے، جس کے چیخ وپکار کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے بیان پر سنگھ پریوار کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا ہے مگر مسلمانوں کے بعض’’قائدین‘‘ کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کوئی ظفر سریش والا کو مودی کا چیلا کہہ رہا ہے تو کوئی ان کی دماغی حالت پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ کسی نے انھیں فرقہ پرستوں کا ایجنٹ کہہ دیا ہے تو کسی نے یہ سوال اٹھا یا کہ ان کو کس لیاقت پر مولانا آزاد اردو اوپین یونیورسٹی کا چانسلر بنادیا گیا ہے؟ مگر کسی نے بھی مدلل طریقے سے ان سوالوں کا جواب نہیں دیا جسے انھوں نے اپنی بیانات میں اٹھائے ہیں۔ سریش والا کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مسلم طلبہ اور نوجوانوں کو بھی اسی طرح روزگار کے موقع کی ضرورت ہے جس طرح دوسرے طبقے کے نوجوانوں کو ہے۔ ان کی آرزوئیں ان دنوں بڑھی ہیں اور اس کا حل نکلنا چاہئے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ موجودہ مسلم قیادت مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی ہے اور ان کا ستحصال کر کے اپنا الو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کو ربر اسٹامپ نہیں بلکہ فعال اور سرگرم قیادت کی ضرورت ہے جو ان کے اندر سے ہی ابھر کر آئے گی۔ مسلمانوں کو ایسی قیادت چاہئے جو ان کے مسائل کا حل نکالے اور کام کرے۔ انھیں ایسی قیادت کی ضرورت نہیں جو مسلم اداروں کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹے اور سیاسی سودے بازی کرے۔ انھوں نے کہا کہ مجلس مشاورت کی موت ۱۹۶۴ء میں ہی ہوگئی تھی مگر کچھ لوگ آج تک اس کی لاش لئے ڈھو رہے ہیں۔ ملی کونسل اور اس قسم کی تنظیموں کے بارے میں ان کاکہنا ہے کہ یہ لوگ سودے بازیاں کرکے قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ظفر سریش والا کے جس طنز نے بہت سے نام نہاد مسلم قائدین کو چراغ پا کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک انگریزی اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مولانا رابع حسن ندوی اور دوسرے چند افراد کو چھوڑ کر سب لوگ احمق ہیں۔ غور طلب ہے کہ انھوں نے حال ہی میںاسلامی علوم کے مرکز ندوۃ العلماء (لکھنو) جاکرمولانا رابع حسن ندوی سے ملاقات کی تھی جو بورڈ کے صدر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے لکھنو دورے کے بیچ یہ بھی اعلان کیا کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے لکھنو سنٹر کو بند نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے مزید سرگرم کیا جائے گا اور اس کے جو بھی مسائل ہیں انھیں حل کیا جائے گا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ یہاں سرکاری اخراجات پر فارغین مدارس اور دیگر طلبہ کو اسلامی معیشت کی جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جائے گی اور تربیت کی جائیگی۔انھوں نے اعلان کیا کہ لکھنو کیمپس کو بڑھایا جائیگا اور گزشتہ سال جو کورسیز یوپی اے سرکار کے دوران بند کردیئے گئے تھے انھیں دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ یہاں کیمپس کی توسیع کے لئے زمین کی خرید کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔   

شدیدردعمل مگر جواب نہیں

    مولانا آزاد اردواوپین یونیورسٹی کے چانسلر کی کھری کھری نے بہتوں کو ناراض کردیا ہے اور مسلم قائدین وتنظیموں کی طرف سے انھیں سخت سست کہا جارہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا عبدالرحیم قریشی کا کہنا ہے کہ دوسروں کو بیوقوف اور خود کو عقل مند سمجھنے والا سب سے بڑا بیواقوف ہوتا ہے وہ مولانا آزاد اوپین یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، اس لئے اپنے عہدے کاخیال رکھیں۔انھوں نے اس قسم کی باتوں کو ان کے دماغ کا خلجان قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سریش والا مسلمانوں کی باوقار تنظیموں کے خلاف اول فول بک رہے ہیں۔حالانکہ ان تنظیموں کے خلاف کسی کے بولنے سے ان کا وقار کم نہیں ہوگا۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک دوسرے ممبر نے کہا کہ ممکن ہے وہ اس قسم کی باتیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے انھیں مودی کا چیلا کہہ دیا تھا۔مذکورہ ممبر کے مطابق سریش والا کو یونیورسٹی کی ذمہ داری ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔حکومت اپنے وفاداروں کو سرکاری عہدے دیتی ہے اور اس لحاظ سے انھیں یونیورسٹی کا چارج مل گیا ہے۔سریش والا اصل میں مسلم تنظیموں کی فرقہ پرست مخالف مہم سے ناراض ہیں۔

    سابق ممبر پارلیمنٹ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر محمد ادیب نے بھی سریش والا کو گجرات کے فساد زدگان کا سوداگر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں کوئی حق نہیں ہے کہ مسلم تنظیموں ور علماء کے بارے میں زبان درازی کریں۔ انھوں نے کسی زمانے میں تیستا سیتلواڑ، فلم ساز مہیش بھٹ اور جاوید آنند کے ساتھ مل کر گجرات فساد زدگان کو انصاف دلانے کی مہم شروع کی تھی مگر اب خود مودی کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔ مودی سرکار جہاں ایک طرف تیستا سیتلواڑ کو جیل بھیجنے کا انتظام کر رہی ہے وہیں دوسری طرف سریش والا کو یونیورسٹی کا چانسلر بنا رہی ہے؟ آخر کس قابلیت کی بنیاد پر انھیں یہ عہد ہ د یا گیا ہے؟

ان تیکھے سوالوں کا جواب ،کسی کے پاس نہیں

    مسلم علمائ، قائدین اور تنظیموں کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اسے ہم سریش والا کے الزامات کا جواب نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس ردعمل میں محض ان پر طنز کیا گیا ہے۔ وہ سوال جو سریش والا نے اٹھائے ہیں ان کا جواب تو یہ تھا کہ یہ لیڈران اور تنظیمیں مدلل طریقے سے خود کو ان الزامات سے الگ کرتیں جو ان کے خلاف لگائے گئے ہیں؟ اصل بات یہ ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی تاریخ میں صرف ایک بار ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سرگرم نظر آیا تھا جب شاہ بانو کیس کے سلسلے میں مسلمانوں میں اشتعال آگیا تھا۔ یہ سرگرمی بھی مسلمانوں کے اشتعال کے نتیجے میں نظر آئی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک کبھی اسے سرگرم نہیں دیکھا گیا۔ مسلمانوں کے سامنے بڑے بڑے مسائل آتے رہے اور بورڈ نے اردو اخباروں میں اپنے بیان شائع کرانے کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی طرح مجلس مشاورت اور ملی کونسل کو اگر انھوں نے مردہ لاش کہا ہے تو اس میں کسی کو حیرت کیوں ہے؟ آج ۹۵فیصد ہندوستانی مسلمان نہیں جانتے کہ بھارت میں اس نام کی کوئی مسلم تنظیم بھی ہے۔ ان تنظیموں کا کام دلی کے جامعہ نگر کے دو کمروں تک محدود ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان تنظیموں کے موجودہ ذمہ داران اپنی تساہلی کو قبول کرتے اور ان جماعتوں کو ایسے متحرک و فعال نوجوانوں کے سپرد کردیتے جو ملت کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ سریش والا نے ان تنظیموں پر دکان ہونے اور سیاسی سودے بازی کا الزام لگایا ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی نمائندہ تنظیم موجود نہیں ہے اور نہ ایسے لیڈران ہیں جن پر وہ بھروسہ کر سکیں۔ سریش والا مودی کے چیلا ہیں یا ان کے لئے

کام کر رہے ہیں؟ اس قسم کے سوالات اپنی جگہ پر مگر انھوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اب بھی اپنے بیان پر قائم ہیں اور مسلم لیڈروں کی طرف سے ردعمل کو دیکھتے ہوئے دہراتے ہیں کہ میں نے مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں کو احمق کہا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ نئی سرکار بننے کے بعد بھی انھوں نے اب تک اپنی ترجیحات طے نہیں کی ہیں۔ یہ ان کی حماقت کی دلیل ہے۔ ان کی طرف سے مزید کہا گیا ہے کہ پچھلی یو پی اے سرکار نے سول سروسیز کے امتحانات سے عربی وفارسی کو ختم کردیا مگر کسی نے زبان نہیں کھولی۔ حالانکہ جس کابینہ نے یہ فیصلہ لیا تھا اس میں سلمان خورشید اور کے رحمٰن خان بھی تھے مگر ان کی طرف سے ایک بار بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی نام پر سیاست کرنے والی کانگریس، سماج وادی پارٹی وغیرہ پر الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں کے نام پر سیاست کرتی ہیں مگر انھیں کچھ دیتی نہیں ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ یوپی اسمبلی میں ۶۰سے زیادہ ارکان اسمبلی ہیں مگر وہ کبھی مسلمانوں کے مسائل پر زبان کیوں نہیںکھولتے ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اند ر مجلس اتحادالمسلمین کے اسدالدین اویسی کے سوا کوئی بھی مسلمانوں کے ایشوز پر نہیں بولتا ہے۔موجودہ مسلم قیادت اور تنظیموں سے مایوس سریش والا کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے بیچ معمولی معمولی مسائل پر بات کفر کے فتوے تک پہنچ جاتی ہے، وقف کی جائیدادوں کو خود مسلمان بیچ کھاتے ہیں ، اس قسم کی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ مسلمانوں کو خود اپنے حق کے لئے آگے آنا پڑے گا۔قیادت سول سوسائٹی سے ہی ابھر کر سامنے آئے گی۔
کہاں ہیں مسلمانوں کے نمائندے؟

    اس وقت مسلم تنظیموں کے نام پر جو جماعتیں نظر آرہی ہیں ان کے آفسوں میں جائیے تو احساس ہوتا ہے کہ یہاں کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور امارت شرعیہ نے کچھ علاقوں میں دارالقضات کھولے ہیں جہاں سے دینی اور شرعی ضابطوں کے تحت مسلمان اپنے معاملات کو فیصل کراسکتے ہیں۔ اس قسم کے دارالافتاء اور دارلقضات عام طور پر دینی مدرسوں سے ماتحت بھی کام کرتے ہیں۔ اسی طرح جمعیہ علماء ہند بیچ بیچ میں فساد زدگان کی امداد کرنے اور دہشت گردی کے جھوٹے معاملات میں مسلمانوں کو پھنسائے جانے کے خلاف عدالتوں میں پیروی کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ہندان دنوں اپنے زیر اثر علاقوں میں سوشل ورک کر رہی ہے، خاص طور پر جنوبی ہند میں اس کے پروجیکٹ نظر آتے ہیں مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ ان تنظیموں کا نیٹ ورک جس قدر وسیع ہے، یہ چاہتیں تو بڑے پیمانے پر کام کرسکتی تھیں۔ ان جماعتوں میں اگر جماعت اسلامی ہند کو چھوڑ دیں تو باقی جماعتیں کسی فرد یا خاندان کی جاگیر بن گئی ہیں اور جمہوریت کا یہاں نام ونشان بھی نہیں ہے۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کی کوئی نمائندہ تنظیم نہیں ہے اور مسلمانوں کا کوئی قائد نہیں ہے تو غلط نہ ہوگا۔مسلمان مسلکی گروہوں میں تقسیم ہیں تو کہیں ذات پات کے نام پر ان میں بٹوارہ ہے۔ سریش والا پر کوئی تنقید کرتا ہے تو کرے مگر ان کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالوں میں دم ہے اسی لئے کسی نے ان کا جواب نہیں دیا۔

(یو این این)  

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 528