donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Minakshi Puram Jiski Qismat Islam Ne Badal Di


 میناکشی پورم جس کی قسمت اسلام نے بدل دی


کیا سنگھ پریوار اس گائوں سے سبق لے گا

جہاں آٹھ سو دلتوں نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    ’’گھر واپسی‘‘مہم چلانے والا سنگھ پریوار کیا اپنے گریبان میں جھانکنا چاہے گا؟ آخر کیوں ہندو اسلام قبول کرتے ہیں اور کیوں انھیں دوسرے مذاہب میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے؟ اگر وہ اس مسئلے پر غور کرے تو اس کی عبرت کے لئے میناکشی پورم کافی ہے جہاں تقریباً ۳۴ سال قبل آٹھ سو دلتوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ گائوں کی اکثر آبادی کے مسلمان ہونے کے بعد اس کانام بھی میناکشی پورم سے رحمت نگر رکھ دیا گیا تھا۔ ۱۹فروری ۱۹۸۱ء کی تاریخ کو اس گائوں نے ایک تاریخ رقم کی تھی جس کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی تھی اور ذات پات کے سسٹم کے خلاف ان لوگوں نے جو راستہ دکھایا تھا اس سے ایوان اقتدار میں بھی زلزلہ برپا ہوگیا تھا۔ سنگھ پریوار اور حکومت دونوں نے پھر کوشش کی کہ یہ لوگ دوبارہ ہندو بن جائیں مگر انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ آج جب کہ پورے ملک میں ’’گھرواپسی‘‘ کے نام پر ہنگامہ مچایا جارہا ہے اور اشتعال انگیزی کی جارہی ہے ۔ ویسے میں اس گائوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور میڈیا میں  بار بار اس کا ذکر سنائی دیتا ہے۔اسلام قبول کرنے والوں میں عمر خیام بھی تھے جن کا پہلے موکم نام تھا مگر بعد میں وہ عمر خیام ہوگئے تھے۔ آج ان کی عمر ۸۰ سال کے قریب ہے مگر وہ ان ایام کو نہیں بھول پائے ہیں جب ان کے ساتھ صرف اس بنیاد پر برا برتائو کیا جاتا تھا کہ وہ ایک دلت تھے۔ وہ پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ۱۹۶۸ء میں ان کو سرکاری اسکول میں ٹیچر کے طور پر نوکری مل گئی تھی اور وہ پڑھانے کے لئے کیرل کے ایک گائوں میں گئے تو انھیں صرف اس لئے کرایے پر مکان نہیں ملا کہ وہ ایک دلت تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنا نام بدل دیا اور خود کو اونچی ذات کا ظاہر کرنے لگے تو ان کے ساتھ بھید بھائو کم ہوگیا ۔ حالانکہ ایک وقت وہ بھی آیا جب انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ مساوی حق پاسکیں۔ انھوں نے ایک ایفی ڈیویٹ پر دستخط کر کے نہ صرف اپنا نام بدلا بلکہ اپنا مذہب بھی بدل ڈالا۔ وہ موکم سے عمر خیام بن گئے اور آج انھیں لگتاہے کہ انھوں نے دانشمندی کا فیصلہ کیا تھا۔اس گائوں میں مبینہ نیچی ذات کے لوگوں کو مندر میں داخلے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی انھیں کنویں سے پانی بھرنے کی اجازت تھی۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا اور اس کے ردعمل کے طور پر انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ پورے گائوں کے تقریباً آٹھ سو دلتوں کا ایک ساتھ قبول اسلام ایک بڑا واقعہ تھا جس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔ میناکشی پورم اسلام قبول کرنے کے بعد پوری طرح بدل گیا۔ یہاں مسجدین بن گئیں جہاں بغیر کسی بھید بھائو کے سبھی مسلمان نماز ادا کرسکتے تھے۔ دینی مکاتب قائم ہوگئے۔ اسکول کھل گئے اور علماء نے ان کی تربیت کا اہتمام شروع کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی ہند کو یہاں سرگرمی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

اسلام کے راستے میں رکاوٹ کی کوشش

     آج جب ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر پورے ملک میں شور شرابہ کا بازار گرم ہے تو یہاں کے لوگ میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔انھیں لگتا ہے کہ اگر انھوں نے بات کی تو نہ جانے کیا ایشو بنا دیا جائے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے میڈیا کے منفی طرز عمل سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قبل توجہ ہے کہ ۱۹۸۱ء میں جب اس گائوں کے قبول اسلام کی خبر عام ہوئی تھی تو ان کی ’’گھرواپسی‘‘ کرانے کی بہت کوششیں ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ انھیں سمجھانے کے لئے آنے والوں میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی شامل تھے مگر ان نومسلموں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی سے انکار کردیا۔ بعد میں یہاں کے وزیر اعلیٰ ایم جی راماچندرن نے ایک انکوائری کمیشن بٹھایا تاکہ اس معاملے کی انکوائری ہوسکے مگر اس کمیشن نے پایا کہ تمام لوگوں نے اپنی مرضی اور خوشدلی سے اسلام قبول کیا ہے۔ کسی پر کوئی دبائو نہیں بنایا گیا تھا اور نہ کسی کو کوئی لالچ دی گئی تھی۔ غور طلب ہے کہ جب یہاں جے جے للیتا کی سرکار آئی تو انھوں نے تبدیلی ٔ مذہب کے خلاف ایک قانون بنا دیا ۔حالانکہ ۲۰۰۲ء میں اس قانون کے بننے کے بعد بھی یہاں ریاست میں کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔

اسلام قبول کرنے والے خوش ہیں

     جنہوں نے 33 برس قبل اسلام قبول کیا تھاآج وہ کافی مطمئن نظر آرہے ہیں۔ وہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد سے خوش ہیں، انہیں مسلم معاشرے میں برابری کا درجہ حاصل ہے ، ان کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاو نہیں برتا جاتا ، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بارے میں کوئی بات میڈیا میں عام کی جائے ، کیونکہ اس وقت ملک میں مذہب تبدیلی کا ایشو چل رہا ہے۔اس کے برخلاف جن لوگوں نے اسلام نہیں قبول کیا تھا ان کا معاملہ ایک دم مختلف نظر آیا ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موجوہ حالات سے خوش نہیں ہیں۔ البتہ انھیں اپنے بارے میں جانکاری دینے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ایک صحافی نے جب اس گائوں کا دورہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ میرے قریب کھڑے ایک نوجوان نے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرے والدین نے اس وقت اسلام قبول کرلیاتھا ، میں نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہے آج کل ایک دوکان پر نوکری کرتا ہوں ، لیکن میں آپ سے زیادہ بات نہیں کر سکتا ، ہمارے گھر کے بڑوں نے ہمیں میڈیا سے کوئی بات کرنے سے منع کیا ہے۔حالانکہ گاوں کے بڑے بزرگ نام نہ پوچھنے اور تصویر نہ لینے کی شرط پرہی میڈیا سے بات کرتے ہیں۔ ایک ستر سالہ بزرگ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام اس لیے قبول کیا کیونکہ یہاں کوئی سماجی تفریق نہیں ہے، اسلام کے سبھی ماننے والے ایک ہوتے ہیں ،اسلام قبول کر نے کے بعد آج ہم بہت خوش ہیں۔

میناکشی پورم کے دلت آج بھی خوش نہیں

    جہاں ایک طرف اسلام قبول کرنے والے خوش اور مطمئن ہیں وہین جن لوگوں نے اسلام نہیں قبول کیا تھا وہ ناخوش نظر آتے ہیں۔  ہندو آبادی کے ایک سرکردہ شخص 67 سالہ ایم کرو پیاہ اسی گاوں کے کسان ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کی زیادہ تر دلت آبادی مزدوری کرتی ہے کچھ لوگوں کے پاس تھوڑی زمینیں ہیں۔ جب ان سے 1981 کے تبدیلی مذ ہب کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے گاوں میں مندر ہے ہم وہاں پوجا کرتے ہیں ، ہمارا بھگوان ہے ، ہم اپنا بھگوان بدلنا نہیں چاہتے ، ہم مذہب تبدیل کر نے والے نہیں ہیں، لیکن جن مسائل سے ہم اس وقت دوچار تھے وہ مسائل آج بھی جوں کا توں برقرار ہیں۔غور طلب ہے کہ یہاں 500 ہندو دلت خاندان آباد ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی کاروبار نہیں ہے ،ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے لوگوں کے علاوہ ہماری دوکانوں پر کوئی دوسرا سامان خریدنے نہیں آئے گا۔ اگر ہم یہاں کے قریبی قصبے میں کوئی دوکان کر لیں تو لوگ سب سے پہلے تو یہی پتہ کریں گے کہ یہ میناکشی پورم کے کسی دلت کی دوکان تو نہیں ہے ، اور ہماری دوکان سے کوئی سامان نہیں لیں گے۔ ہاں اگر ہم چینئی میں کوئی تجارت کریں تو ہو سکتا ہے لوگ ہمارے قریب آئیں ، یہاں لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ یہاں کافی سال قبل قتل کا ایک واقعہ پیش آیا ، اعلیٰ ذات کے ایک ہندو کا قتل ہوا تو اس سلسلے میں ہمارے پورے گاوں کو تشدد کا شکار بنا گیا تھا ، پولیس کو تو کم ازکم غیر متعصبانہ رول ادا کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے بھی اعلیٰ ذات کے لوگوں کا ہی ساتھ دیا ، بہت سارے لوگ گائوں چھوڑ کر چلے گئے ، اس وقت جب پولیس نے امن میٹنگ کے لیے ہمیں بلایا تو ہمارے ساتھ مسلم بھائی بھی گئے تھے۔ آج ہم یہاں اپنے مسلم بھائیوں کے درمیاں چین و سکون سے رہتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے لوگوں کے درمیان ہم محفوظ نہیں ہیں ، ایسا کیوں ہے نہیں معلوم۔

شدھی کی کوشش ناکام ہوئی

    انیسویں صدی میں پنجاب میں فرقہ وارانہ انتشار کی وجہ تھی آریہ سماج کی شدھی تحریک۔ اس تحریک کا مقصد تھا مسلمانوں کو ہندو بنانا اور جزوی طور پر اس تحریک کو کامیابی بھی ملی تھی۔ آخرکار ایک مشتعل مسلم نوجوان نے تحریک چلانے والے سوامی شردھانند کو قتل کرڈالا اور یہ تحریک ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی لیکن میناکشی پورم میں جن دلتوں نے اسلام قبول کیا تھا اس کے لئے ان کے ہم مذہب اعلیٰ ذات کے لوگوں نے ہی مجبور کیا۔ان کے سماجی جبر کی وجہ سے ہی تین سو دلت خاندان ایک ساتھ مسلمان بن گئے تھے۔ اس کے بعد آریہ سماج نے وہاں اسکول وغیرہ کھولے، لیکن ان کی شدھی کی کوشش ناکام ہی رہے کیونکہ انہیں مسلمان بننے کے لئے کسی اور نے نہیں، ان کے گاؤں کے ہندووں نے ہی مجبور کیا تھا۔اب ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ کسی دلت کے ساتھ بھید بھائو کرنا جرم ہے مگر یہ قانون صرف کتابوں تک محدود ہیں۔آج بھی ہندو مذہب کے خود ساختہ محافظ یہ بنیادی حقیقت سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ چند مستثنیات کے علاوہ زیادہ تر ہندو اپنی مرضی سے مذہب بدلتے ہیں، کیونکہ ذات پر مبنی جبر آج بھی جاری ہے۔

بھگوا بریگیڈ کی ’’گھر واپسی‘‘ مہم

    بھگوا بریگیڈ نے ان دنوں گھر واپسی کا نعرہ گڑھ لیا ہے کیونکہ دوبارہ تبدیلی مذہب کسی بھی تبدیلی ٔ مذہب مخالف قانون کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔دوبارہ تبدیلی مذہب کا مطلب ہے، پہلے کی گئی غلطی کو درست کرنا، اسے ایک طرح کی قانونی حیثیت بھی حاصل ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالیسس میں ایسوسی ایٹ فیلو ارپتا کا کہنا ہے کہ ہمارا، قانون تبدیلی مذہب پر تو روک لگاتا ہے، لیکن نچلے طبقے کے ہندوؤں کے دوبارہ اپنے مذہب میں لوٹنے پر پابندی نہیں ہے۔وہ گھر واپسی' کے تصور کو بھی مسترد کر تی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچویں نسل کے مسلمانوں کے لئے اسلام ان کے گھر جیسا ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی سفیدفام امریکی سیاہ فام امریکی سے افریقہ لوٹنے کو کہے، جبکہ سیاہ فام امریکی کئی پشتوںسے امریکہ میں رہ رہے ہیں اور اب یہ ان کے گھر جیسا ہے۔

    یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے آئین کی دفعہ ۳۴۱ کا استعمال بھی دلتوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کے لئے ہوتا رہا ہے۔ اس دفعہ کے تحت دلتوں کو جو ریزرویشن اور دیگر قسم کی خصوصی مراعات ملتی ہیں وہ تب ہی تک حاصل ہوتی ہیں جب تک وہ ہندو رہیں۔ اگر انھوں نے اسلام اور عیسائیت قبول کرلیا تو انھیں یہ سہولیات ملنی بند ہوجاتی ہیں۔ اسے ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی ایس سی ایس ٹی ریزور سیٹ سے ایک دلت الیکشن لڑ سکتا ہے لیکن اگر وہ مسلمان یا عیسائی ہوجائے تو یہاں سے الیکشن لڑنے کے لئے ناہل قرار پاتا ہے۔ اسی طرح اس زمرے میں تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمت وغیرہ میں جو ۲۲فیصد ریزرویشن ہے،وہ بھی صر ف ہندو دلتوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اگر انھوں نے مذہب بدل دیا تو وہ اس سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے اس دفعہ میں مذہبی قید اس وقت لگائی گئی تھی جب مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم تھے، جنھیں ایک سیکولر لیڈر کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی حرکت آج کی مودی سرکار کو کرنے میں کوئی جھجک ہوتو ہو مگر نہرو سرکار کو نہیں ہوئی تھی۔ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ اس وقت مولانا ابولکلام آزاد بھی نہرو کابینہ میں وزیر تھے مگر انھوں نے ایک لفظ نہیں بولا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 641