donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jashne Eid Miladun Nabi SAW Tareekh Ke Aayine Me


 حشرتک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم

 

جشن عید میلاالنبی ﷺتاریخ کے آئینے میں


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی

 

نزول شان حقیقت مرے حضور سے ہے
 بشر کی عظمت وعزت مرے حضور سے ہے


انعام و اکرام کا دن ہمیشہ یادگار دن ہوتا ہے اور جس دن عالم انسانیت پراللہ کا سب سے بڑا انعام ہواہو، اس سے بڑھ کر یادگار دن کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کے فرمان کے مطابق اللہ کے رسول کی بعثت اس کا سب سے بڑا احسان ہے۔ فرمایا گیا کہ ’’اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ ان کے درمیان اپنے رسول کو بھیجا۔‘‘ اہل ایمان ہر دور میں اپنے اپنے ڈھنگ سے بعثت نبوی کا جشن مناتے رہے ہیں۔میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن کوئی نئی بات نہیں ہے‘ بس زمانے کے لحاظ سے طریقے میں فرق آتا رہا ہے۔ انبیاء سابقین کی محفلوںمیں بنی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیامیںتشریف آوری کا ذکر ہوتا رہا ہے اور پرانی امتیں بھی اس موضوع پربحث کرتی رہیں ہیں لہذا انہیں محفلوں کو ذکر میلاد پاک کی ابتدائی محفلیں سمجھنا چاہئے۔ میلاد نبوی کی خوشیاں سب سے پہلے مکہ میںبنو ہاشم نے منائیں۔ حضرت عبدالمطلب اور جنابِ آمنہ نے آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا ۔ تاریخ وسیرت کی بہت سی روایتوں کے مطابق حضرت آمنہ نے ایک خواب کی بنیاد پر آپ کا نام احمد رکھا اورجناب عبدالمطلب نے آپ کا نام محمد(ﷺ) رکھا۔ حالانکہ عرب میں اس قسم کے ناموں کا رواج نہ تھا۔ جب لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ کے دادا جان نے جواب میں فرمایا’’ اس لئے کہ میرا پوتا دنیا بھر کی ستائش وتعریف کے شایان قرارپائے‘‘(تاریخ اسلام ‘مرتبہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی) گویا ہر وہ محفل جہاں نام پاک محمد واحمد لیا جائے وہ ذکرو مدح نبوی کی محفل ہے۔ آپ کا نام ہی اللہ نے ایسامنتخب فرمایاکہ آپ کی تعریف ہوجائے۔

لب پہ آجاتا ہے جب نامِ جناب
منہ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب
وجد میں آکے ہم اے جاں بیتاب
اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں
اورمرزا غالبؔ کی زباں میں یوں کہہ سکتے ہیں:
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے


عہد نبوی میں ذکر میلاد


صحابہ بھی اپنی محفلوںمیں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیاکرتے تھے۔ آپ کی آمد کا ذکر‘ آپ کی رحلت کا تذکرہ‘ آپ کی شخصیت‘ فضیلت‘ نعمت‘قدرت ہر پہلو کا بیان‘ یہی کچھ تواحادیث کی کتابوں میں محدثین نے جمع کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام محفلیں ذکر رسول کی محفلیں ہی ہوئیں، خواہ ان کا انعقاد ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو ہو یا سال کے کسی اور دن۔ مگرخاص بارہویں تاریخ کا لحاظ کرکے بھی ذکر رسول کی محفلوں کی کمی نہیں جن میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے تذکرے فرمائے۔ مشکوٰۃ المصابیح ‘باب فضائل سید المرسلین ‘فصل ثانی میں ایک روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاید آپ تک خبر پہنچی تھی کہ بعض لوگ ہمارے نسب میں طعن کرتے ہیں‘ تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور پوچھا میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایاتو ہم کو بہترین مخلوق میں سے کیا۔ پھران کے دو حصے کئے عرب اورعجم۔ ہم کو ان میں سے بہتر یعنی عرب میں سے کیا۔ پھرعرب کے چند قبیلے فرمائے‘ ہم کو ان کے بہتر یعنی قریش سے کہا۔ پھرقریش کے چند خاندان بنائے‘ ہم کوان میںسے سب سے بہتر خاندان بنو ہاشم میں پیدا کیا۔

عہدوسطیٰ میں جشن میلاد

محفل میلاد رسول کا انعقاد خاص ربیع الاول کے ماہ میلاد میں صدیوں پرانی روایت ہے۔ یہی سبب ہے کہ عہد وسطیٰ کے علماء نے بھی اس پر اظہار رائے فرمایا ہے۔ سیرت نبویہ مصری میں لکھا ہے کہ اس روایت کی شروعات سلطان مظفر ابو سعید اربل کے د ور میں ہوئی۔ اس عالم‘عاقل اوربہادر بادشاہ نے اپنے در بارکے نامور عالم دین حضرت حافظ ابن وحید سے ذکر میلا رسول پر مبنی ایک کتاب لکھوائی۔ کتاب کانام تھا ’’التنویر فی مولد البشیرالنذیر‘‘ بادشاہ نے مصنف کو کتاب کی تصنیف پر ایک ہزار اشرفیاں بطور انعام دیں۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ماہ ربیع النور باعث سرور میںذکر میلاد کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ سلطان مظفر کی مجلس میں شریک ہونے والے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے پانچ ہزار بکریوں اور دس ہزار مرغ کو اہتمام محفل کے لئے ذبح کرتے دیکھا۔ اور اس شاہانہ دربارمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میلاد کی نورانی مجلس میں علماء وصوفیۂ زمانہ حاضر ہوتے تھے اور سلطان ایک محفل میں تین لاکھ اشرفیاں خرچ کرتا۔

(سیرت نبویہ مصری)

تفسیر روح البیان پارہ ۲۶ میں محمد رسول اللہ آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ محفل میلاد شریف کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے جبکہ وہ بری باتوں سے خالی ہو۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔

اس عبارت سے ظاہرہوتا ہے کہ امام سیوطی کے زمانے میں محفل میلاد کا رواج تھا اور ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو لوگ خصوصی اہتمام کیاکرتے تھے۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ محفل میلاد کی تاثیر یہ ہے کہ اس سے سال بھر امن رہتا ہے۔ ان کایہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان کے دور میں یہ سلسلہ رواج پاچکا تھا۔ امام ابن حجر ہیتمی نے اسے بدعت حسنہ قرار دیاہے۔ بعض کا خیال ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون رشید کی ماں نے پہلی بار مکہ میں محفل میلاد منعقد کیا تھا۔

برصغیر میں جشن میلاد کی تاریخ

 برصغیر میں جشن میلاد کی تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے، پتہ نہیں، البتہ تاریخی کتابوں میں اس سلسلے میں گجرات کے ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تھا سلطان محمود شاہ ثانی۔ صوفیہ میںشاہ عبدالرحیم محدث دہلوی علیہ الرحمتہ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے اوربعد کے زمانے کے بزرگوں میں مولانا اشرف علی تھانوی کے پیرومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس کے اہتمام کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ تاریخ کی معروف کتاب مراۃ سکندری(صفحہ 300) کے مطابق بادشاہ گجرات سلطان محمود شاہ ثانی جشن میلاد کا خاص اہتمام کرتا تھا۔ شہر کے علمائ‘ مشائخ اور صلحاء جمع ہوتے اوربخاری شریف پڑھی جاتی۔ تمام لوگ بیٹھ کر سنتے تھے۔ اس موقع پر قسم قسم کے لذیذ کھانے پکائے جاتے۔ علماء ومشائخ کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی تقسیم ہوتے۔ بارہویں تاریخ کو خود سلطان تیار ہوکر آتا اور اپنے ہاتھوں سے پانی گراکر حاضرین کے ہاتھ دھلاتا۔ بڑے بڑے شاہی امراء طشت میںکھانا لے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ بادشاہ ننگے پیر اخیرتک کھڑارہتا اور محفل کے اختتام پر علماء اور مشائخ کی خدمت میں اس قدر نذرانہ پیش کرتاکہ ان کے پورے سال کے اخراجات کے لئے کافی ہوتا۔

 سلطان محمود شاہ ثانی کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اس کے لباس کے لئے سال بھر کے کپڑے حیدر آباد سے منگوائے جاتے اور انہیں دسترخوان کے طور پر استعمال کیاجاتا پھر سال بھر بادشاہ انہیں کپڑوں کو پہنتا۔ وہ دور تھا جب برصغیر میں جشن میلاد کا رواج عام ہوچکا تھا۔

صوفیاء کرام میں جشن میلاد کے اہتمام کا رواج رہا ہے اور اس معاملے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد شاہ عبدالرحیم کانام لیاجاسکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ اپنی کتاب الدرا الشمین فی مبشرات النبی الامین میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ہر سال محفل میلاد کااہتمام کیا کرتے تھے اور اس موقع پر کھانے پکواکر لوگوں میں تقسیم کرایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ میسر نہ تھا  تو بھنے ہوئے چنے ہی محفل مولود میں تقسیم کردئیے گئے۔ اس رات والد نے خواب میں دیکھا کہ وہ چنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ خوش نظرآرہے ہیں۔

جلوس محمدی

 جشن عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس نکالنے کا رواج بھی لگ بھگ پوری دنیا میں ہے۔ اس کی ابتدا کب ہوئی پتہ نہیں مگربرصغیر میں یہ بہت عام ہے۔ ایک تاریخی جلوس عیدمیلادالنبی کا ذکر مولاناشوکت علی اور محمد علی جوہر کے واقعات میںملتا ہے‘ جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران ممبئی میں نکالا تھا۔ فی الحال ممبئی‘دلی‘ کولکاتہ‘ حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروںیہاں تک کہ قصبات اور دیہاتوں میں بھی یہ عام ہے۔


÷÷٭÷÷

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 684